مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب
جمعۃ المبارک 23 جمادی الاول 1439 ھ بمطابق 9 فروری 2018
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
منتخب اقتباس:
الحمدللہ! بلند و بالا اللہ کے لئے ہی ساری تعریف ہے، اس کے لیے بہترین حمدوثناء ہے اور کامل شکر ہے۔ اللہ کی نعمتوں کا کماحقہ شکر ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے، اسی نے اولاد کو ہمیں امانت کے طور پر دیا ہے اور ان کی تربیت کرنا ہمارا فرض اور ہمارا دینی واجب قرار دیا ہے، تاکہ وہ جان لے کہ کون اس سے ڈرتا ہے۔ اس کی اطاعت ہم پر لازمی ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی نے مال اور اولاد کو دنیا کی زینت بنایا ہے اور اسی نے نیک اعمال کو موت کے بعد فائدہ دینے والا بنایا ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور منتخب رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین باپ تھے جن کا دل اولاد کی محبت سے بھرپور تھا۔ اللہ کی رحمتیں برکتیں اور سلامتی ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد پر آپ کی بیویوں پر صحابہ کرام پر تابعین عظام پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
بعد ازاں اے لوگو!
تقویٰ کی نصیحت ہی سب سے بہتر نصیحت ہے کیونکہ یھی انبیاء کرام اور امت کے نیک لوگوں کی نصیحت ہے۔ اور تقوی سے بڑھ کر قیامت کے دن کام آنے والا کوئی عمل نہیں ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے اُن سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘ (الحشر: 18)
اے مسلمانو!
زندگی میں ہمارا نام زندہ رکھنے والے، زندگی کے آخر میں ہمارے کام آنے والے، بڑھاپے میں اللہ کے بعد ہمارا سہارا، دنیا میں ہماری عزت اور ہمارا نام زندہ رکھنے والے ہماری اولاد ہی ہیں اور ان کے بعد ہماری اولاد کی اولاد ہیں۔
اللہ کے بندو!
آپ کی اولاد آپ کے ہاتھوں میں ایک امانت ہے۔ اللہ تعالی نے انہیں امانت کے طور پر آپ کو دیا ہے۔ ان کی تربیت کرنا، ان کا خیال رکھنا اور ان کی رہنمائی کرنا دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ ان کی تربیت کو دنیا کی تمام چیزوں پر فوقیت دینی چاہیے بلکہ یہ تو آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہے۔
تربیت کا معنیٰ یہ ہے کہ انسان کو انسان بنایا جائے۔ علم سکھانا، اخلاق سکھانا، فکر کو صحیح رخ دینا، رویے کو درست کرنا اور تربیت میں ہر وہ عمل شامل ہے کہ جو انسان کی انسانیت کو بہتر بناتا ہے۔
تربیت یہ ہے کہ اولاد کو ایسے اخلاق سکھائے جائیں جو بہترین معاشرے کے لیے زیبا ہوں اور جو انسان کو تمام طرح کی برائیوں سے پاک کر دیں۔
ہر قوم تربیت کو بڑی اہمیت دیتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ تربیت کا شعبہ اس کا ایسا اہم اور خاص شعبہ ہے کہ جس پر وہ کبھی سودا بازی نہیں کر سکتی یا اس کے معاملے میں کبھی کوتاہی نہیں کر سکتی کیونکہ واقعی یہ انسان کو انسان بنانے کا نام ہے۔
اللہ کے بندو!
تربیت انسانی شخصیت کو تشکیل دینے والی ایک اہم چیز ہے جس کا مقصد ایسے لوگ پیدا کرنا ہے کہ جو میانہ روی کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں، زمین کو آباد کریں اور آخرت کے لئے تیاری کریں۔ نیک اولاد ہر عقلمند کی خواہش ہے کیوکہ نیک اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے نیک لوگوں کی دعا کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے۔‘‘ (الفرقان: 74)
اولاد آپ کے اعمال کا حصہ ہے اگر نیک ہو تو نیک اعمال کا اور اگر بری ہو تو برا اعمال کا۔
نیک اولاد کے ذریعے انسان کی نیکیاں بڑھتی رہتی ہیں، اس کا ذکر بلند ہوجاتا ہے اور اسکا اجر جاری رہتا ہے۔ فرمان نبوی ہے:
جب ابن آدم مر جاتا ہے تو اس کا عمل رک جاتا ہے، مگر تین چیزوں کا اجر جاری رہتا ہے۔ ان تین چیزوں میں سے ایک چیز ایسا نیک بیٹا ہے کہ جو اپنے والد کے لیے دعا کرتا رہے۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور ہر ذمہ دار سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ حکمران بھی ذمہ دار ہے اور اس کو اسکی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا، ہر شخص اپنے گھر میں ذمہ دار ہے اور اسے بھی اپنی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا، ہر عورت اپنے شوہر کے گھر میں ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
آپ سے بھی آپ کی اولاد کے متعلق پوچھا جائے گا۔ تو ذرا سوچئے کہ آپ کا کیا جواب ہوگا؟ کیا آپ نے امانت ادا کی ہے یا اس میں کوئی کوتاہی کی ہے؟ جب ہمیں راہ راست سے بھٹکے، ادب اور اخلاق سے عاری اور بھلائی سے دور رہنے والے لوگ نظر آتے ہیں تو ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کی تربیت کس نے کی ہے؟ اس نسل کو تیار کرنے میں کس کا ہاتھ ہے۔ یقینا ایسی نسل صرف کم تربیت یا بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے سامنے آئی ہے۔
ایسی گری ہوئی اور اخلاق سے عاری جنریشن جو انسانیت کے مبادیات سے بھی واقف نہ ہو اور جس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو وہ کبھی کسی امت کو بلندی نہیں دے سکتی اور نہ اس کا دفاع کر سکتی ہے بلکہ یہ تو امت کے لیے وبال ہے اور امت کے سر پر ایک بار ہے۔
اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی تربیت کے حوالے سے ہمیں غور و خوض کی ضرورت ہے اور سنجیدہ طریقے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ان برائیوں کے علاج کی ضرورت ہے کہ جو ہمارے معاشرے میں اور ہماری اولاد میں پھیل رہی ہیں اور جن کی وجہ سے ہماری اولاد کے اخلاق تباہ ہورہے ہیں۔
ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دنیا میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی اولاد اور اپنے جگر کے ٹکڑوں کو خود بدبختی کی طرف لے جاتے ہیں، ان کی تربیت کرنے اور انہیں ادب سکھانے میں کوتاہی برتتے ہیں، پھر وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کا اکرام کر رہے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی اولاد پر رحم کرتے ہیں حالاں کہ وہ اپنی اولاد پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں اور ان کا اکرام نہیں بلکہ انہیں رسوا کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کے لئے خواہشات نفس کی پیروی آسان بنا دیتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی اولاد کے فائدے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں اور انہیں بھی دنیا وآخرت میں بھلائیوں سے محروم کر لیتے ہیں۔ اگر اولاد کی خرابی کے اسباب کو تلاش کیا جائے پر زیادہ تر خرابیاں والدین کی کوتاہی کی وجہ سے ہوں گی۔
تربیت محض کھانے پینے اور پہننے کی چیزیں مہیا کرنے کا نام نہیں ہے۔
بلکہ تربیت اولاد کو ایمان اور نیک اعمال سکھانے کا نام ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو ہم تم سے کوئی رزق نہیں چاہتے، رزق تو ہم ہی تمہیں دے رہے ہیں اور انجام کی بھلائی تقویٰ ہی کے لیے ہے۔‘‘ (طٰہٰ: 132)
نیک تربیت وہ ہے جو اولاد کے دل میں اسلامی شناخت واضح کردے، اسے دین اسلام سے جوڑ دے، اور اسے تمام فکری دینی اور اخلاقی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا دے۔ جو اسے اس قابل بنا دے کہ وہ مسلمان معاشرے کو درپیش مسائل کو حل کرسکے۔ تاکہ وہ چیلنجز کے سامنے پگھل کر بے قیمت انسان نہ بن جائے کہ جو محض مخلوقات کا نمبر پورا کرنے کے لئے انسان کے طور پر شمار کیا جائے۔
افکاراوراخلاق انسانی نفس کے دو پہلو ہیں جنہیں قواعد و ضوابط کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ یہ کام بچپن میں آسان ہوتا ہے کیونکہ اس وقت انسان کانفس آسانی سے بدلنے والا اور تبدیلی قبول کرنے والا ہوتا ہے۔ اگر اس وقت ذرا ہمت اور حوصلے سے کام لیا جائے تو بچہ نیک اور سیدھی راہ پر چلنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے، اس کے اندر توازن آجاتا ہے اور چیزوں کے ساتھ تعامل کرتے وقت میانہ روی اور اعتدال آجاتا ہے جن سے انسان زندگی کے بدلتے مراحل اور اونچ نیچ سے نبٹنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
اولاد کو نیک بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ تعالی سے بار بار دعا کرنا ہے۔ قرآن کریم کی کئی آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اولاد کے لئے دعا پر مشتمل ہیں۔ نیک اولاد اللہ کے نیک بندوں کی تمنا بھی ہوتی ہے۔
تربیت کا بنیادی ستون ایک نمونے کی فراہمی ہے کہ جو والدین کی صورت میں بچے کے سامنے موجود ہوتا ہے، والدین کے اچھے کردار کے ساتھ ساتھ بچے کو صحابہ کرام اور سلف صالحین کے ساتھ وابستہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ انہیں اپنا آئیڈیل بنائے۔ اس کے بعد بچوں کی دوستی کا خاص خیال رکھنا چاہیے، نیک دوست منتخب کرنے میں ان کی مدد کرنی چاہیے، اچھی کتابیں منتخب کرنا سکھانا چاہئیے، ہراس چیز پر توجہ دینی چاہیے کہ جس کے ذریعے بچہ کچھ سیکھ سکتا ہے خاص طور پر آج کے دور میں ہمیں انٹرنیٹ پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو بچے کی فکر پر اثر ڈال سکتی ہیں۔
آج کے دور میں نئی ڈیوائسز ہر گھر میں آچکی ہیں۔ ان سے بچنا صرف اسی کے لیے آسان ہے کہ جس کے لئے اللہ تعالی یہ کام آسان بنا دے ورنہ ان سے بچنا بہت مشکل ہے۔ ان کی مثال بھی دوست کی ہے جو یا تو بھلا ہوگا اور یا برا۔ اس لیے ان پر بھی خاص توجہ دینی چاہیے اور ان کے حوالے سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔
تربیت دینے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت تفہیم اور تذکیر کے ذریعہ کریں، تاکہ ان کے اندر برائی سے روکنے والی آواز مستحکم ہو جائے جوان کو ہر برائی اور ہر شر سے محفوظ رکھ سکتی ہے اور انہیں بھلائی کا حکم دیتی ہے۔
ابو بکر بن عیاش رحمہ اللہ سے روایت کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا : بیٹے اس کمرے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرنا کیونکہ میں نے اس کے اندر ایک ہزار مرتبہ قرآن کریم کی مکمل تلاوت کی ہے۔
باپ اپنی اولاد کو نیک اخلاق اسی وقت سکھا سکتا ہے جب وہ خود نیک اخلاق مالک ہو، وہ ان کی تربیت نیکی پر اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ خود نیک ہو، کیونکہ وہ اس کے قول کی نسبت اس کے عمل سے زیادہ سیکھتے ہیں، چھوٹے بچوں کا احساس بہت تیز ہوتا ہے، وہ بری اور اچھی چیز کو بہت جلدی سمجھتے ہیں، اگر آپ ان کے سامنے سچائی کی تعریف کرتے ہیں تو خود سچے بنیے اور اگر ان کے سامنے صبرکی تعریف کرتے ہیں تو خود صبر کیجئے۔
دنیا کی بہترین جگہیں اللہ کی مسجدیں ہیں، اور بہترین مجلسیں قرآن کریم کی تعلیم کی مجلسیں ہیں۔ اپنی اولاد کو نماز کا پابند بنائیے۔ اپنے گھروں کو برائی سے خالی کیجئے اور اپنی اولاد کو برائی سے پاک گھر دکھائیے کیونکہ تربیت تعلیم اور تلقین کا نام ہے اور جو کسی برائی کا عادی بن جاتا ہے اس کے لیے حق کو اپنانا مشکل ہو جاتا ہے۔
اپنی اولاد کے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی محبت بڑھائیے، اہل علم اور نیک لوگوں کی راہ پر چلنا سیکھائیے، ان کے دلوں میں برائی کی نفرت پیدا کیجئیے، گنہگار کے لیے ہدایت کی دعا کرنا سکھائیے اور مصیبت زدہ کے لیے عافیت کی دعا سکھائے۔
اپنی اولاد کے دلوں میں کتابیں پڑھنے کی محبت ڈالیے، پڑھنے پر ان کی حوصلہ افزائی کیجئے، نفع بخش چیزوں کی طرف رہنمائی کیجئے اور نقصان دہ چیزوں سے روکیے۔ قرآن کریم کے بعد پڑھی جانے والی بہترین چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے اور پھر صحابہ کرام کے سوانح اور تاریخ اسلام ہے۔
اپنی اولاد کو بتائیے کہ امت کو ان کی کتنی ضرورت ہے۔ اس علم اور نور کی کتنی ضرورت ہے جو ان کے ہاتھ میں ہے۔ انہیں بتائے کہ انہیں امت کے علماء، رہنما اور رحمت و ہدایت کے رہبر بننے کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔
اسلام کے عقائد کو ان کے دل میں ڈالنا ضروری ہے۔ علم کا تکرار کرتے رہنا بھی لازمی ہے، تاکہ وہ ان کے دلوں میں اچھی طرح بیٹھ جائیں۔ جیسا کہ ایمان، آخرت، ہر کام مکمل اطمینان سے کرنا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،
اسی طرح اپنے بچوں کو بڑوں کا احترام سکھائیے، رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا سکھائیے، مسلمانوں پر رحم کرنا اور ان کے ساتھ نرمی برتنا سکھائے۔ پڑھائی میں آگے نکلنا اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھا تعامل کرنا سکھائیے۔ ان کی غلطیوں کو نرمی کے ساتھ درست کیجئے۔
والد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کے سامنے ماں کی تعریف کرے، اسی طرح ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اولاد کے سامنے اپنے والد کی تعریف کرے، اور دونوں اولاد کے سامنے ایک دوسرے کی کوشش اور محنت کا ذکر کریں، تاکہ اولاد وفاداری، عزت، محبت اور اچھے تعلق پر پل سکیں۔
اپنی اولاد کو اپنا دوست بنائیے، ان کے ساتھ مذاق کیجئے اور ان کی حوصلہ افزائی کیجئے، کیونکہ تعریف کے الفاظ دل مول لیتے ہیں اور عقلوں کو تابع بنا لیتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے وہ اسے بہتر کر دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی ہٹا لی جاتی ہے وہ چیز بگڑ جاتی ہے۔ ‘‘
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
فرمان الٰہی ہے:
’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔‘‘ (الطور: 21)
آپ کی اولاد ہی آپ کسب ہے۔
بعد ازاں! اے مسلمانو!
بیٹیاں بڑی نرم و نازک ہوتی ہیں، اور وہی عزت کرنے والی اور وفادار ہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’بیٹیاں دل لگانے والی اور بیش قیمت ہوتی ہیں۔‘‘ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔
بیٹیوں کی تربیت مسلمان کے لیئے باعث عزت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، آپ چار بیٹیوں کے باپ تھے اور آپ نے چاروں کی بہترین تربیت فرمائی۔
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جس نے دو بیٹیوں کی تربیت کی یہاں تک کہ وہ جوان ہو گئیں وہ قیامت کے دن میرے ساتھ یوں آئے گا۔ یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو جوڑ لیا۔ ‘‘
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کریں ان پر خرچ کرے اور ان پر رحم کرے تو اس پر جنت واجب ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ جس کی دو ہوں؟ آپ نے فرمایا! جس کی دو بیٹیاں ہوں اس کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ‘‘
بعض صحابہ سوچتے رہے کہ شاید اگر وہ شخص ایک بیٹی کا سوال بھی کردیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق بھی یہی فرماتے۔
اسے امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان احادیث سے بیٹیوں کے ساتھ اچھے تعامل اور اللہ تعالی کی خوشنودی کی غرص سے ان کی نگہبانی کی فضیلت کا علم ہوتا ہے۔ یہ کام جنت میں داخلے کا اور جہنم سے بچاؤ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ امید ہے کہ جو شخص بیٹیوں کے علاوہ بہنوں، پھوپھیوں، یا خالاؤں میں سے حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرتا ہے اور ان کے ساتھ اچھا رویہ رکھتا ہے تو اسے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ ایسا ہی اجر عطا فرمائے گا جیسا کہ تین بیٹیوں کے متعلق روایت کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کا فضل تو بہت بڑا ہے اور اس کی رحمت تو بہت کشادہ ہے۔
اسی طرح جو شخص ایک بیٹی یا دو بیٹیوں کی تربیت کرتا ہے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے تو اس کے لئے بھی یہی امید ہے۔
اے معزز والد!
بیٹیوں کو اللہ تعالی نے بڑا نرم ونازک بنایا ہے۔ ان کے ساتھ وہ سختی اور شدت درست نہیں ہے جس سے بعض لوگ اپنے بیٹوں کی تربیت کرتے ہیں۔ بیٹیاں تو زیب و زینت میں رہنے والی ہوتی ہیں۔ وہ لڑائی جھگڑے یا بحث مباحثے کے قابل نہیں ہوتیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’وہ اولاد جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث و حجت میں اپنا مدعا پوری طرح واضح بھی نہیں کر سکتی؟‘‘ (الزخرف: 18)
بٹیاں جذبات سے بھری ہوتی ہیں اور وہ امن کی متلاشی ہوتی ہیں اور سب سے پہلے وہ امن اپنے والدین کے پاس ڈھونڈتی ہیں۔ انہیں والدین کے پاس وہ امن ملنا ضروری ہے ورنہ وہ گھر کے باہر دوسروں کے پاس امن تلاش کرنے نکلی گی اور پھر بھیڑیے انہیں دھوکہ دیں گے اور جھوٹی زبانیں ان کے استقبال کریں گی اور وہ مجرم ہاتھوں میں گر جایئں گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹیوں کی بڑی عزت کرتے تھے اور انہیں یہ احساس دلاتے تھے کہ وہ ان سے بہت محبت کرتے ہیں اور ان پر رحم کرتے ہیں۔
اے معزز والد: بیٹیوں کے حوالے سے آپ کے کندھے پر آنے والی ذمے داری بہت بڑی ہے، وہ آپ کے ہاتھ میں امانت ہیں، غور کیجئے! نیک تربیت حاصل کرنے والی نیک عورتیں ایک عظیم نسل کو پیدا کرتی ہیں اور بری تربیت والی عورتیں ہیں جنہوں نے قوموں کی قومیں ہلاک کی ہیں۔
اپنے بچوں میں اچھے جذبات کا بیج بو، اور انکی دیکھ بھال بھی کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا پھل نکالنے لگیں، اپنی بیٹیوں کو بچپن ہی سے پردے اور حیا اور عفت کی عادت ڈالو۔ بیٹی کی تربیت اگر حیا پر کی جائے تو اس کی حیا اسے بھلائیوں کی طرف دیکھتی رہتی ہے، اور حیا سے کوئی بری چیز نہیں آتی بلکہ حیا ہمیشہ بھلائی ہیں لاتی ہے۔
دین کا قانون تو اس چیز کا متقاضی ہے کہ عورت پر حجاب اور دیگر شرعی احکام اس وقت لازمی ہوتے ہیں جب وہ جوانی کی عمر کو پہنچتی ہے لیکن اگر پہلے سے اسے اس کی عادت ڈال دی جائے تو اس سے اس کے لیے آسانی پیدا ہو جائے گی، ان سے اللہ تعالی کی اطاعت میں مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اور جو جوانی کی عمر کو پہنچ کر احکام الٰہی پر عمل کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سوال کرے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اسے توفیق عطا فرما دیتا ہے اور اسے نیک اولاد سے نوازتا ہے۔
اللہ تعالی امت کی بیٹیوں کی اصلاح فرمائے اور ہم سب کو ہدایت اور رحمت اور عافیت عطا فرمائے۔
اے اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرما ہمارے گناہوں کی پردہ پوشی فرما ہمارے معاملات آسان فرما ہماری نیک خواہشیں پوری فرما۔ اے اللہ ہمیں معاف فرما ہمارے والدین کو اور آباؤ اجداد کو اور نسلوں کو اور ہماری بیویوں اور اولاد کو معاف فرما اے دعا سننے والے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں