بچوں کی محبت بھری تربیت کیسے کریں؟ .... خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

Image may contain: text
خطبہ جمعہ مسجد نبوی
(اقتباس)
از ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 23 -جمادی اولی- 1439 کا خطبہ جمعہ "بچوں کی محبت بھری تربیت کیسے کریں؟" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام نے ہر شخص کو ذمہ داری سونپی ہے اور پھر اس ذمہ داری کے بارے میں پوچھا بھی جائے گا، ان ذمہ داریوں میں بچوں کی اسلامی اخلاقیات پر تربیت سر فہرست ہے، انہوں نے کہا کہ تربیت کے لیے سب سے زیادہ توجہ طلب انسانی قلب ہوتا ہے کیونکہ اگر دل ٹھیک ہو تو سب کچھ ٹھیک اور اگر یہی خراب ہو تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ تربیت کے تمام مراحل میں محبت ناگزیر جزو ہے؛ کیونکہ محبت روح کو مخاطب کرتی ہے اور زیر تربیت افراد کے دل میں اتر کر پیغام پہنچاتی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا خصوصی خیال رکھتے اور بچوں کو پیار کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ مزاح بھی کرتے اور ان کے ساتھ گھل مل جاتے تھے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ موجودہ جدید ذرائع نے گھروں کی چار دیواری کو خطرے میں ڈال دیا ہے ان کی وجہ سے ہر چیز کے معنی اور مفہوم تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں، ایسے میں تعلیمی اور تربیتی اداروں کو ایسے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے جو نوجوانوں کو معاشرے کا مفید فرد بنانے میں معاون ہوں اور انہیں جدید دور کے خطرات سے تحفظ فراہم کر سکیں، پھر آخر میں انہوں نے سب کے لیے جامع دعا کروائی۔

منتخب اقتباس:

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ اس نے قرآن کریم کو تربیت کا سب سے بہترین ذریعہ بنایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، اللہ کی آیات سے لوگوں کا تزکیہ ہوتا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے بھی لوگوں کا ایمان اور روحانی صفائی کے ذریعے تزکیہ فرمایا۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے انہوں نے شان و شوکت اور قلبی صفائی کی جانب امت کی رہنمائی فرمائی۔

اسلام نے مسلمان کے دل میں ذمہ داری کا معنی اور مفہوم خوب اجاگر کیا ہے، ان میں بچوں کی پرورش اور اسلامی اقدار و اخلاقیات پر تربیت ؛ اہم ترین ذمہ داری ہے، دینی اقدار ہی در حقیقت اخلاقیات کا منبع ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا) بخاری

اگر تربیت میں کمی ہو تو زیرِ تربیت شخص اپنی بھوک اور خواہشات کے درپے ہو جاتا ہے، شہوانیت اور دنیاوی لذتوں میں ڈوب جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ}
 جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اللہ یقیناً انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں اور جو کافر ہیں وہ چند روز فائدہ اٹھا لیں، وہ اس طرح کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ [محمد: 12]

تربیت کے معاملے میں سب سے اہم عضو دل ہے؛ لہذا اگر دل ٹھیک ہو تو سارا جسم ٹھیک اور اگر دل ہی خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، اللہ تعالی نے یہی بات کچھ اس طرح فرمائی:
 {فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ}
 بیشک آنکھیں نابینا نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں موجود دل نابینا ہو جاتے ہیں۔[الحج: 46]

چنانچہ اگر دل صحیح اور روشن ہو تو عقل میں بھی پختگی آتی ہے، زندگی رنگین ، اور اعضا خشوع سے نہال ہو جاتے ہیں۔

یہ یقینی بات ہے کہ محبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بنیادی حیثیت رکھتی تھی، محبت در حقیقت روح کو مخاطب کرتی ہے، پھر تربیت کے بعد صلاحیتیں اجاگر کرنے کے لیے دل کا دل سے رابطہ اور تعلق استوار کرتی ہے، اسی لیے اللہ تعالی کی طرف سے والدین کے دل زیرِ تربیت اولاد کی محبت سے معمور ہوتے ہیں،

محبت کے ساتھ بچوں کی تربیت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ بچوں کو بوسہ دیں، انہیں اپنے سینے سے لگائیں، ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا تو آپ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بیٹھے ہوئے تھے، یہ منظر دیکھ کر اقرع بن حابس نے کہا: "میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا) اس روایت کو ترمذی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

والدین کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ محبت بھری تربیت کے ساتھ دائمی دعا مفید ترین چیز ہے، زیرِ تربیت بچوں کے لیے ہمیشہ کامیابی، کامرانی، بہتری اور سلامتی کی دعا کرتے رہیں؛ کیونکہ رحمٰن کے بندوں کی عادت ہے کہ وہ ہمیشہ دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں:
{رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ}
 ہمارے پروردگار ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد میں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔[الفرقان: 74]
 ایسے ہی زکریا علیہ السلام نے فرمایا تھا:
{فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا (5) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا}
 تو مجھے اپنی طرف سے وارث عطا فرما [5] وہ میرا بھی وارث بنے اور آل یعقوب کا بھی، اور میرے پروردگار اسے تو اپنا پسندیدہ بھی بنا لے۔[مريم: 5، 6]
 اور ابراہیم علیہ السلام نے دعا کرتے ہوا فرمایا:
{رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ}
 میرے پروردگار! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ [الصافات: 100]
ایک اور مقام پر ابراہیم علیہ السلام کی دعا ذکر کی:
{رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي}
 میرے پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا۔[إبراهيم: 40]

بہترین عملی نمونہ بن کر دکھائیں تو یہ تربیت کی بنیاد اور تزکیہ نفس کےلیے مشعل ہے، اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کردار کی دعوت ؛ گفتار، پڑھانے اور سنانے سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے، کردار کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (2) كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ} 
اے ایمان والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں [2] اللہ کے ہاں یہ سخت ناپسندیدہ بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جو تم کرتے نہیں [الصف: 2، 3]

محبت کی پرچھاؤں میں تربیت کار حکمت اور بہترین اسلوب سے مستغنی نہیں ہو سکتا، محبت کے ساتھ نرم خوئی اور دھیما لہجہ بھی ضروری ہے۔ نیز سختی، کرختگی اور ذلیل کرنے سے دور رہنا بھی ضروری ہے، اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا :
 {ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ }
اپنے پروردگار کے راستے کی جانب حکمت اور بہترین نصیحت کے ذریعے دعوت دو۔ [النحل: 125]

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: (بے شک اللہ تعالی نرم ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ نیز نرمی پر وہ کچھ عطا کر دیتا ہے جو سختی یا نرمی کے علاوہ کسی بھی چیز پر عطا نہیں کرتا۔)مسلم

محبت کے ساتھ کسی کی تربیت کریں تو پورا جسم بھی فعال دِکھتا ہے، چنانچہ سچی مسکراہٹ، رحمت بھرا ہاتھ، ڈھارس باندھتے ہوئے کلمات اور شفقت بھرے جذبات سامنے آتے ہیں۔

تربیت کنندہ کسی بھی ایسے وقت کو ضائع نہیں جانے دیتا جس میں زیر تربیت فرد کا دل موم ہو، وہ فوری اخلاقیات کا بیج بو دیتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ زیر تربیت فرد ابھی عمر میں چھوٹا ہے، جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "ایک بار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" (لڑکے! میں تمہیں کچھ باتیں سکھاتا ہوں: تم اللہ کو یاد رکھنا وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تم اللہ کو یاد رکھنا تم اللہ تعالی کو اپنی سمت میں پاؤ گے ) ترمذی نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

محبت بھری تربیت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اولاد سے محبت کرتے ہوئے عدل سے کام لیں؛ اس لیے سب کے ساتھ برابری کی سطح پر محبت کریں، کسی کو امتیازی سلوک کا نشانہ مت بنائیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے گواہ بننے پر انکار کر دیا تھا جس نے اپنے صرف ایک بیٹے کو تحفہ دیا تھا، اور اسے فرما دیا تھا: (میں ظلم کا گواہ نہیں بنتا) بخاری

محبت سے بھر پور تربیت ، جذبات کی قدر، اور احساسات کا ادراک نبوی طریقہ اور فطری ضرورت ہے، اس کی بیٹیوں کی پرورش میں زیادہ ضرورت ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص بیٹیوں کا ذمے دار ہو اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک اپنائے، تو بیٹیاں اس کے اور جہنم کے درمیان پردہ بن جائیں گی) بخاری، مسلم، یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ انہیں تعلیم دیں، عفت اور پاکدامنی پر ان کی تربیت کریں، انہیں بے پردگی اور دیگر اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے محفوظ رکھیں۔

بچوں کو سنجیدہ سرگرمیوں میں مشغول کرنا، انہیں اچھے منصوبے بنانے میں مگن رکھنا اور رفاہی سرگرمیوں میں مصروف رکھنے سے ان کے خیالات بلند ہوتے ہیں، وہ فضول اور بے فائدہ امور میں گھرنے سے بچ جاتے ہیں۔

محبت بھری تربیت سے متصادم امور میں یہ چیز شامل ہے کہ بچوں کے ساتھ حد سے زیادہ لاڈ پیار کریں، ان کے تمام تر مطالبے پورے کریں، ان کی غلطیوں پر تنبیہ نہ کریں؛ اس لیے بسا اوقات سختی بھی محبت کا مظہر ہوتی ہے۔

بچوں کے سامنے ان کی ماں کے ساتھ سختی کرنے سے محبت کا چشمہ خشک ہو جاتا ہے، اسی طرح والدین کی جانب سے اعلانیہ گناہ کرنا اور شرعی احکامات کو پامال کرنے سے بھی تربیت منہدم ہو جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (انسان کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو ضائع کر دے) ابو داود اور احمد نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

عصر حاضر میں اثر انگیزی کے وسائل بہت آگے نکل چکے ہیں، ان کی وجہ سے سوچ، فکر، مفاہیم اور تعامل میں بہت زیادہ تبدیلی آ گئی ہے، بلکہ ان وسائل نے تربیت کے حوالے سے گھر اور چار دیواری کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا ہے؛ ایسے میں محبت بھری تربیت کی اہمیت مزید دو چند ہو جاتی ہے کہ اس دور میں باہمی اعتماد کی فضا کس قدر مضبوط ہونی چاہیے۔ اخلاقی اقدار مزید ٹھوس بنانے کے لیے اسلوب تربیت میں جدّت لانے کی ضرورت ہے، تعلیمی اور تربیتی اداروں کے عزائم بلند کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ وہ مستقبل کو تحفظ دینے کی غرض سے اپنا پیغام نوجوانوں تک پہنچا سکیں، اپنے ملک اور وطن کی دولت کا تحفظ کر سکیں، اس کے لیے اخلاقیات اور مبادیات نوجوانوں کے دلوں میں راسخ کریں، نوجوانوں کے خواب شرمندہ تعبیر کرنے میں ان کی مدد کریں، ان کی پریشانیوں کو دور کریں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَة}
 ایمان والو! اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ، اس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔[التحريم: 6]

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بہ خوبی واقف ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں