نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) رمضان کا آخری عشرہ کیسے گزارتے تھے ؟ ... خطبہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔ 24 مئی 2019


نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) رمضان کا آخری عشرہ کیسے گزارتے تھے ؟
خطبہ مسجد الحرام (اقتباس)
 19 رمضان 1440  بمطابق 24 مئی 2019


فضیلۃ الشیخ اسامہ بن عبداللہ خیاط (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 19 رمضان 1440 کا خطبہ '' نبی صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان کا آخری عشرہ کیسے گزارتے تھے؟'' کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے رمضان کے آخری عشرے کو بہت فضیلت اور خوب انعام و اکرام کے ساتھ مختص فرمایا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم   کی حیاۃ مبارکہ میں بھی ان دس دنوں کو خصوصی مقام حاصل تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم باقی دنوں کے مقابلے میں ان دس دنوں میں زیادہ محنت کرتے ، جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم (عبادت کے لیے) کمر بستہ ہو جاتے، شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے۔ ا س عشرے کے شرف کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ اس میں لیلۃ القدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔ اعتکاف کا معنی اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ: خالق کی عبادت میں ڈوب کر مخلوق سے تعلقات منقطع ہو جائیں۔ جس قدر اللہ کی معرفت ، محب اور انسیت مضبوط ہو گی تو یہ معتکف کو اللہ کی جانب متوجہ ہونے کے لئے رہنمائی کریں گی۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے امت کو فریضہ رمضان سے نوازا، میں اللہ سبحانہ کی بے پایاں نوازشوں اور عظیم نعمتوں پر اس کی حمد بیان کرتا ہوں ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کہ علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اس نے رمضان کے آخری عشرے کو بہت فضیلت اور خوب انعام و اکرام کے ساتھ مختص فرمایا۔
میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عظیم اور مبارک مہینوں میں عبادت کے لئے محنت و کوشش کرنے والوں میں سب سے بہترین ہیں۔

اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ،اور صحابہ کرام پر ہمیشہ درود سلام نازل فرمائے کہ جب تک دن رات کا سلسلہ جاری رہے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو تقوی الہی اختیار کرو، اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ
اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

اس دن کے لئے تیاری کرو اور مستعد رہو، لہذا دنیا کی زندگی تمہیں لہو و لغو ، اور زینت کے دھوکے میں نہ ڈال دے، اور نہ ہی دھوکے باز شیطان تمہیں اللہ کے بارے میں غفلت میں ڈالے۔

مسلمانو! عقل مند لوگ جب اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو بلند روحانیت، دلی اطمینان ،اور تزکیہ نفس کا عظیم اثر اور نتیجہ پاتے ہیں۔ چنانچہ اپنے رب کے قریب ہو جاؤ، حصولِ رضائے الہی کے لئے کامل احسان کے ساتھ راغب ہو کر قیمتی مواقع کو غنیمت جانو، حقیقتِ احسان کی وضاحت نبی ہدایت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی: 
الإِحْسَانُ :أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ

احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، تو وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔( اسے امام بخاری اور مسلم نے روایت کیا)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد صحابہ کرام اسی طریقے پر چلے ، چنانچہ ان کے ہر طریقے میں احسان تھا، ان کے لئے ہر چیز کے کرنے اور چھوڑنے میں اللہ کا خوف ، اس کی طرف کامل توجہ، اور سچا توکل تھا۔

یہ چیز نیکیوں کی بہاریں آنے، رحمت الہی سے معمور ایام سایہ فگن ہونے اور فضیلت والے مبارک مہینوں کی آمد پر واضح اور نمایاں ہوتی ہے ۔ ان ہی بہاروں میں بلند مرتبت اور معزز ترین ایام اس مہینے کا آخری عشرہ ہے ۔

یہ آخری دس دن اللہ تعالی کے مبارک ایام میں سے ہیں ، یہ اللہ کا بندوں پر احسان ہے؛ تا کہ بندے نیکیوں میں سبقت لے جائیں اور باقی رہنے والی نیکیوں کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاۃ مبارکہ میں ان دس دنوں کا بڑا مقام اور بلند مرتبہ تھا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باقی دنوں کے مقابلے میں ان دس دنوں میں عبادت کے لئے زیادہ محنت کرتے۔ جیسے کہ صحیح مسلم اور جامع ترمذی میں عائشۃ (رضی اللہ عنہا ) سے روایت ہے:

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے)آخری دس دن (عبادت)میں اس قدر محنت کرتے کہ دیگر ایام میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے۔

یعنی رمضان کے باقی دنوں کے مقابلے میں ان دنوں کو اللہ کے قریب کرنے والی مختلف نیکیوں اور اطاعت کے کاموں میں زیادہ گزارتے تھے۔

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محنتیں اور کوششیں جن کے لئے آپ نے ان دنوں کو مخصوص فرمایا وہ تین قسم کی ہیں ۔

نمبر 1:

کمر بستہ ہو جاتے۔ صحیح موقف کے مطابق اس سے مراد عورتوں سے علیحدگی ہے۔ جسے کہ بخاری اور مسلم میں سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تونبی ﷺ (عبادت کے لیے)کمر بستہ ہو جاتے، شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے۔

نمبر 2:

نیکیوں کے لئے محنت: جیسے حصولِ قرب الہی کے لئے قیام ، تلاوت قرآن، ذکر، دعا، گڑگڑانا، مناجات، گریہ زاری، اور دیگر عبادات کے ذریعے شب بیداری کرتے۔ ان عبادات کے ذریعے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ، اور اپنی امت کو یہ سنتیں اور طریقے سکھاتے۔

نمبر3:

اہل و عیال کو نماز کے لئے جگاتے۔ جیسے کہ زینب بنت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) بیان فرماتی ہیں:

جب رمضان کے آخری دس دن رہ جاتے تو اپنے اہل بیت میں جو قیام کی طاقت رکھتا تو اسے ضرور جگاتے۔

اللہ کے بندو! اگرچہ قیام کے لئے بیدار کرنا ان دس دنوں کے علاوہ سال کے باقی دنوں میں بھی ثابت ہے۔ جیسے کہ صحیح مسلم میں ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) کہ حدیث میں آیا ہے۔

مگر اس عشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا خصوصی اہتمام کرتے اور کبھی بھی ناغہ نہ کرتے ،جبکہ اس عشرے کے علاوہ کبھی تو جگاتے اور کبھی نہ جگاتے تھے۔

اللہ کے بندو! یہ نبوی تربیت کا ایک انداز ہے اور کتنا ہی عظیم اور محکم انداز ہے ، جس کے کیا ہی خوبصورت اثرات اور اچھے نتائج ہیں ۔

اس لئے سلف صالحین (رحمہم اللہ تعالی) کا یہ ہی طریقہ تھا اور وہ اس بات کا مکمل طور پر خیال رکھتے تھے کہ ان کی زیر کفالت اہل و عیال کو بھی ان عظیم مبارک راتوں کی خیر میں سے حصہ ملے۔

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس عشرے میں جن عبادات کا اہتمام کرتے ان میں مسجد میں اعتکاف بھی شامل ہے۔ جیسے کی بخار ی اور مسلم میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی حدیث میں ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں پابندی سے اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ پھر آپ کے بعد بھی آپ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اعتکاف کرتی رہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس عبادت کے لئے اتنی پابندی کیوں کرتے تھے؟ اس کا جواب جاننے کی جستجو پیدا ہوتی ہے، اور اس کا جواب امام ابن قیم (رحمہ اللہ تعالی) نے بتلایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ: جب دل کی درستگی اور اللہ کی راہ پر استقامت ،دل جمی اور کامل توجہ پر موقوف ہے ، تو دل کے انتشار کو اللہ کی طرف کامل توجہ ہی ختم کر سکتی ہے۔
جبکہ بے تحاشا کھانا پینا، لوگوں سے بے فائدہ ملنا جلنا، بے مقصد کلام اور زیادہ سونا، دل کے انتشار میں اضافے کا سبب ہے اور اسے جگہ جگہ الجھا کر اللہ کی جانب چلنے میں سستی پیدا کرتا ہے، یا رکاوٹ ڈالتا ہے یا بالکل ہی روک دیتا ہے۔ تو عزیز و رحیم رب کی رحمت کا یہ تقاضا ہوا کہ ان کے لئے روزہ شریعت میں شامل کیا جائے اس سے فضول کھانا پینا ختم ہو جائے گا، اور اعتکاف شروع کیا جس کا مقصد اور ہدف اللہ کی بارگاہ میں حضور قلبی، دل جمی اور خلوت ہے ، نیز مخلوق سے ناتا توڑ کر ایک اللہ کی طرف رغبت ہے ۔ اس طرح کہ اللہ تعالی کا ذکر ، محبت ، اور اس کی طرف توجہ، دل کے افکار و خیالات پر غالب ہوجائے۔ تمام تر توجہ اللہ کے ذکر پر مرکوز ہو، نیز اس کی رضا اور قرب کے حصول کی فکر ہو۔ اسی طرح مخلوق سے انسیت کی بجائے اللہ سے انسیت ہو، اور قبر میں وحشت والے دن انسیت کے لئے خود کو تیار کرے جہاں کوئی انیس و غم خوار نہ ہو گا اور وہاں اس کے علاوہ خوشی بھی نہ ملے گی ۔یہ ہی اعتکاف کا عظیم مقصد ہے۔ ابن قیم (رحمہ اللہ تعالی) کا کلام مکمل ہوا۔

اللہ کے بندو! اعتکاف کے اس عظیم مقصد اور آج کے بہت سے معتکفین کی حالت میں کتنا فرق ہے؟!

آج کل معتکف حضرات خالق کی بجائے مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ مصروف رہتے ہیں، فضول کلام ، فضول ملنے جلنے، نیند پر زور دیتے ہیں ۔

اللہ کے بندو تقوی الہی اختیار کرو ان مبارک راتوں کی قدر و منزلت کو جانو، ان کے حقوق کا خیال رکھو، ان دنوں کے شرف کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے ان میں ایک ایسی رات رکھی ہے جس میں عبادت ایک ہزار رات کی عبادت سے بھی بہتر ہے ، اور یہ عظیم رات لیلۃ القدر ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں جاگ کر عبادت کرنے والوں کے لئے زیادہ بدلے اور بہترین اجر کی خبر دی ہے ۔

جو اس رات کی خیر سے محروم ہوا تو وہ ہی حقیقت میں محروم ہے اسے چاہیے کہ وہ دکھ اور حسرت کے آنسو بہائے۔ تاہم موقع اور مقابلہ ختم ہونے کے بعد کی حسرت یا رونے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا!!

سب سے زیادہ خوش بخت اور ہدایت یافتہ عقل والے ہیں جو اپنے صیام و قیام، اعتکاف اور زندگی کے تمام گوشوں میں صحیح ثابت شدہ نبوی طریقے کو لازم پکڑتے ہیں، اللہ تعالی نے بندوں کو اسی پر عمل کا حکم دیا ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :{وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا } [الحشر: 7]
اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ۔

اللہ تعالی کا مزید فرمان ہے :

{ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا} [الأحزاب: 21]
(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے، جیسے کہ حافظ ابن رجب (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر مصروفیات اور کاموں کو چھوڑ کر ، اللہ تعالی سے سرگوشی ، ذکر اور دعا کے لئے کنارہ کش ہو کر اعتکاف فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ چٹائی کا خیمہ لگا لیتے اور لوگوں سے الگ ہو کر اس میں تنہائی اختیار کرتے ۔ لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیتے اور ان کے ساتھ مصروف نہ ہوتے ۔ اسی لئے امام احمد کے نزدیک معتکف کے لئے لوگوں سے ملنا جلنا یہاں تک کہ تعلیم دینے اور قرآن پڑھانا بھی درست نہیں ۔ بلکہ معتکف کہ لئے افضل یہ ہے کہ تنہائی اختیار کرے ، رب سے مناجات ، ذکر اور دعا کے لئے خلوت اختیار کرے ۔ اس امت کے لئے شرعی تنہائی مسجدوں میں اعتکاف ہے خصوصاً رمضان کے مہینے میں اور پھر بطور خاص رمضان کے آخری عشرے میں جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ معتکف اللہ کی بندگی اور ذکر کے لئے اپنے کو بند کر لیتا ہے ، اور تمام مصروفیات سے الگ ہو جاتا ہے ۔ اور حضور قلبی سے اپنے رب اور قربِ الہی کا موجب بننے والی چیزوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔ معتکف کو رضائے الہی اور قربِ الہی کا موجب بننے والی چیزوں کے علاوہ کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی ۔ تو اعتکاف کا معنی اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ: خالق کی عبادت میں ڈوب کر مخلوق سے تعلقات منقطع ہو جائیں۔ جس قدر اللہ کی معرفت ، محب اور انسیت مضبوط ہو گی تو یہ معتکف کو اللہ کی جانب متوجہ ہونے کے لئے رہنمائی کریں گی۔ ابن رجب کا کلام ختم ہوا

اللہ کے بندو! تقوی اختیار کرو اور ان راتوں میں نیکیوں کے لئے آگے بڑھ کر کوشش کرو، تم آسمانوں زمیں کے خالق کی خوشنودی اور مغفرت پا لو گے ۔

اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ کو سب سے بہتر بشر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے سب سے سچی بات ، اور احسان الکلام (قرآن ) میں فرمایا:

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} [الأحزاب: 56]

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود اور خوب سلام بھیجا کرو۔

(اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ)

یا اللہ! ہمارے دلوں کو تقوی دے، ان کو پاکیزہ کر دے ، تو ہی ان کو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے۔ اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، نیز ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر میں اضافے کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے۔

یا اللہ !ہمارے تمام امور میں ہمارے انجام کو اچھا کر دے اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے پناہ میں رکھنا،

یا اللہ !تیری نعمتوں کے زوال، تیری عافیت کے ہٹ جانے، تیری ناگہانی سزا اور تیری ہر طرح کی ناراضی سے ہم تیری پناہ چاہتے ہیں۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ۔

اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

یا اللہ ! ہمارے بیماروں کو شفایاب فرما ، اور فوت شدگان کو معاف فرما۔ اور ہمیں اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اور نیک باقی رہنے والے اعمال کے ساتھ ہمارا خاتمہ فرمانا۔

یا اللہ! ہمارے روزے قیام اور نیک اعمال کو قبول فرما۔

{رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201]

''اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔''

یا اللہ ! ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی آل ، اور تمام صحابہ پر سلامتی نازل فرما ۔

والحمدللہ رب العالمین!



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں