خطبہ مسجد الحرام: اچھی توقع رکھنے کی اہمیت ۔۔۔۔ 27 ستمبر 2019ء

Image

خطبہ مسجد الحرام: اچھی توقع رکھنے کی اہمیت (اقتباس)
 28 محرم 1441ھ بمطابق 27 ستمبر 2019ء
امام و خطیب:  فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر ماہر بن حمد المعیقلی
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: عمر وزیر ویب 

منتخب اقتباس:

ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے۔ ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے۔ اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ہر شے کی تقدیر لکھی ہے۔ وہی اپنی حکمت کے مطابق بندوں کی معاملات چلاتا ہے۔ وہ انتہائی باریک بین اور خبر رکھنے والا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے ہر طرح کی حمد وثنا ہے۔ یقینًا! وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت سے پہلے بشارت دینے والا، خبردار کرنے والا، اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور سراج منیر بنا کر بھیجا۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتی ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر اور صحابہ کرام پر اور قیامت تک ان نقش قدم پر استقامت کے ساتھ چلنے والوں سے بھی راضی ہو جا۔ اے اللہ! ان سب پر سلامتی بھی نازل فرما!

بعدازاں!
اے مؤمنو! اللہ سے یوں ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ کھلے اور پوشیدہ کاموں میں اس سے ڈرتے رہو۔ تنہائی میں اور سب کے سامنے اس کی خشیت سے پیچھے نہ ہٹو۔ اسے اس یقین کے ساتھ یاد رکھو کہ وہ تمہیں دیکھتا اور سنتا ہے، وہ تمہارے رازوں اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے۔

﴿اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے اُن سب اعمال سے باخبر ہے، جو تم کرتے ہو﴾ [الحشر: 18]۔

اے امت اسلام! ایک قابل تعریف صفت، جو رضا مندی اور امید پیدا کرتی ہے، جو دلوں میں خوشی اور مسرت پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ اس میں اللہ کے بارے میں اچھا گمان بھی ہوتا ہے اور اس پر کامل توکل بھی ہوتا ہے، یہ صفت اچھی توقع اور بھلی امید رکھنے کی صفت ہے، مستقبل کے بارے میں اچھی توقعات رکھنا ہے، چاہے آزمائشیں اور سختیاں بہت بڑھ کیوں نہ جائیں شدت اور تنگی کا زمانہ طویل ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اچھی توقع رکھنے والا ہمیشہ اپنے پروردگار سے راضی ہوتا ہے، اس کی تقدیر پر ایمان رکھتا ہے، اس کی حسن تدبیر اور حکمت کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ اسے آزمائشوں کے مقابلے اور صبر پر اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا۔

(ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے) [البقرۃ: 216]۔

اے مؤمنو!
 جو انبیاء اور رسولوں کی سیرت میں نظر دوڑاتا ہے، وہ ان کی سیرتوں میں اچھی توقع کو ہر جگہ پاتا ہے۔ چاہے وہ اچھی توقع قوم کی ہدایت کے بارے میں ہو، یا اللہ کی نصرت کے بارے میں ہو، یا آزمائشیں اور پریشانیوں کے خاتمے کے حوالے سے ہو۔ نوح اپنی قوم کو نو سو پچاس سال تک دعوت دیتے رہے، کبھی ان کی دعوت اور قبولیت سے مایوس نہ ہوئے۔ اسی طرح یعقوب کئی سال گزر جانے کے بعد بھی اپنے بیٹے یوسف کو دیکھنے کی توقع اپنے دل میں لیے ہوئے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا:
(میرے بچو، جا کر یوسفؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں) [یوسف: 87]۔

رہی بات امام الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی، تو وہ تو سب سے بڑھ کر صبر کرنے والے تھے، سب سے زیادہ پر امید اور اچھی توقع رکھنے والے تھے۔ جب انہیں اسلام کے نور کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو ان کے قریب ترین لوگوں نے بھی انہیں خوب ستایا، انہیں ان کے سب سے پسندیدہ شہر سے نکال دیا گیا، انہیں جھٹلایا گیا اور ان کے ساتھ جنگ کی گئی۔ مگر پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نصرت پر پورا یقین رکھتے تھے۔ امید رکھتے تھے کہ یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا پہنچتا ہے۔ طبقات ابن سعد میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے لوٹے تو چند دن نخلہ کے مقام پر گزارے۔ تب زید بن حارثہ نے ان سے کہا: اب آپ ان کے پاس کس طرح جائیں گے، انہوں نے تو آپ کو نکال دیا تھا؟ یعنی قریش نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زید! یہ حالات جو تم دیکھ رہے ہو، اللہ تعالیٰ ان سے نکلنے کا راستہ ضرور بنائے گا اور انہیں بدل ڈالے گا۔ اللہ اپنے دین کی مدد ضرور فرمائے گا۔ اپنے نبی کو ضرور غالب کرے گا۔ 
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے دلوں میں امید پیدا کرتے تھے اور انہیں اچھی توقع رکھنے کی تلقین کرتے تھے۔ اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کی، اس پر کما حقہ بھروسہ کرنے کی اور اسی سے توقع وابستہ رکھنے کی تعلیم دیتے تھے۔

ایمانی بھائیو!
 نیک امید رکھنا اور اچھی امید رکھنا، نیکی، بھلائی اور حالات کی درستی کی امید کرنا اللہ تعالیٰ کے بارے میں اچھے گمان کا حصہ ہے۔ اسی میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے۔ اسی سے انسان کو نیکی کرنے بلکہ ہر عمل کو بہترین طریقے سے کرنے کی ہمت ملتی ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اچھی امید سے بھری نظر آتی ہے۔ اسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی تربیت کی۔ اپنے قول وعمل سے یہ مفہوم ان کے دلوں میں راسخ کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اچھا نام سنتے، یا کوئی بھلا بول سنتے، یا کسی اچھی جگہ سے گزرتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل خوش ہو جاتا، جس کام کا عزم کیا ہوتا، اس کے حوالے سے اچھی توقع کا اظہار کرتے، خوش ہوجاتے اور پر امید ہو جاتے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھتے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کوئی بات سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت اچھی لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے تمہاری اچھی توقع تمہاری زبان ہی سے معلوم کر لی ہے۔ ہم نے تمہاری اچھی توقع تمہاری زبان ہی سے معلوم کر لی ہے۔ (اسے امام ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے) یعنی: تمہارے اچھے بول کو سن کر ہمارے اندر اچھی توقع پیدا ہو گئی ہے۔

سفر ہجرت میں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے، تو مدینہ کی بلند جگہ پر رکے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین بھی بلندی حاصل کرے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کی نماز پڑھاتے تھے تو خطبے کے بعد اپنی چادر الٹی کر لیتے، امید کرتے کہ خشکی بارشوں اور ذرخیزی میں بدل جائے گی۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو مدینہ کو یثرب کہا جاتا تھا، یہ لفظ اچھا نہیں تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بدل دیا اور اس کا نام طابہ، اور طیبہ رکھ دیا۔ اب وہ قیامت تک پاکیزہ اور بابرکت رہے گا۔

اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ جب ابن المسیب کے دادا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاس گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: آپ کا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: حزن(سخت مزاج)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ تم تو سہل(نرم مزاج) ہو۔ اس نے کہا: نہیں! میں وہ نام کبھی نہ بدلوں گا جو میرے باپ نے رکھا ہے۔ ابن مسیب بیان کرتے ہیں: پھر ہمارے اندر حزونت (سختی)کبھی ختم نہیں ہوئی۔ حزونت طبیعت اور مزاج کی سختی کو کہتے ہیں۔ 

ابن تیمیہ رح فرماتے ہیں: جو فال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھی وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے کوئی کام کرے اور پھر کوئی اچھا لفظ سن لے تو اس سے خوش ہو جائے، جیسا کہ اے کامران ہونے والے! اے کامیاب ہونے والے! اے خوش ہونے والے! اے نصرت پانے والے! وغیرہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی کو پسند کرتے تھے اور اس کی توقع رکھتے تھے، جب کوئی اچھا بول سنتے تو آپ کو اچھی توقع رکھنا بڑا پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برے ناموں کو ناپسند کرتے، مگر انہیں منحوس نہیں سمجھتے تھے، اچھے ناموں کو پسند کرتے تھے، اور ان سے اچھی توقع رکھتے۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی بیماری بذات خود متعدی نہیں ہوتی، کوئی چیز منحوس نہیں ہوتی۔ مجھے اچھا فال بڑا پسند ہے‘‘ اچھا فال، یعنی اچھا بول۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو منحوس نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ایسا کرنے کو ناپسند کرتے تھے، کسی چیز کے بارے میں نحوست کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ فرماتے: جب کوئی شخص یہ کہتا ہے: لوگ تو ہلاک ہو گئے، تو وہ سب سے پہلے ہلاک ہونے والا ہے۔ (امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کیا ہے)۔
 یعنی: وہ سب سے پہلے ہلاک ہونے والا ہے، کیونکہ اس نے مایوسی اپنائی اور بری توقع رکھی۔ لوگوں کو حقیر سمجھا اور ان کی تنقیص کی۔ خود کو ان سے برتر اور بہتر سمجھا۔

مایوسی اور بری توقع ایسی بری صفات ہیں، جن سے ایمان کمزور ہوتا ہے، رحمٰن ناراض ہوتا ہے۔ حسرت اور ندامت کا سامنا ہوتا ہے۔ جو اپنے پروردگار کے بارے میں برا سوچتا ہے، اور اپنی باتوں میں بھلائی کا راستہ نہیں اپناتا، اسے اپنے برے گمان اور برے الفاظ کی سزا ملتی ہے۔ کیونکہ آزمائشیں عمومًا باتوں سے ہی جڑی ہوتی ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کرنے کے لیے تشریف لے گئے۔ فرماتے ہیں: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی عیادت کے لیے جاتے تو کہتے: «کوئی بات نہیں! ان شاء اللہ یہ بیماری گناہوں سے پاک کر دے گی»، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس اعرابی سے بھی یہی کہا کہ: «کوئی بات نہیں! ان شاء اللہ یہ بیماری گناہوں سے پاک کر دے گی» لیکن اس بدو نے کہا: کیا کہا؟ پاکیزہ؟ نہیں! بلکہ یہ تو سڑتا اور جلتا بخار ہے، جس نے ایک بوڑھے پر حملہ کیا ہے، اور جو اسے قبر تک لے جائے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا! تو پھر ایسا ہی سہی۔ 
یعنی: اگر تم نے موت کو پسند کیا ہے تو پھر تمہارے لیے وہی ہے جو تم پسند کرتے ہو۔ 
ابن حجر رح فتح الباری میں کہتے ہیں: وہ بدو صبح سے پہلے ہی مر گیا۔

صحیح حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس سے فرمایا: ’’یاد رکھنا کہ نصرت صبر کے ساتھ ملتی ہے، آسانی سختی کےبعد ضرور آتی ہے، مشکل کے ساتھ آسانی ہوتی ہے‘‘۔

میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے! (اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ، “تماررے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو”، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور اُنہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارسا ز ہے (173) آخر کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انہیں حاصل ہو گیا، اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے) [آل عمران: 173 -174]۔

مایوسی اور ناامیدی بڑے گناہوں میں سے ہے۔ ابن مسعود فرماتے ہیں: ’’بڑے گناہوں میں شرک کرنا، اللہ کی سزا سے بے فکر رہنا، اس کی رحمت سے مایوس ہونا، اور اس سے نا امید ہونا شامل ہے‘‘۔
 قرآن کریم میں ہے:
(میرے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں) [الحجر: 56]۔

جو لوگ ملکوں کی تعمیر کرتے ہیں، تہذیبوں کو بناتے ہیں، وہ سب سے زیادہ پر امید اور اچھی توقع رکھنے والے ہوتے ہیں۔ رہی بات بری توقعات رکھنے والوں کی، تو وہ نہ زمین کو تعمیر کرتے ہیں، نہ ملک بناتے ہیں، اور نہ تہذیب قائم کرتے ہیں۔ اچھی توقع اور امید پیدا کرنے میں معاون چیزوں میں دل میں ایمان کی مضبوطی شامل ہے۔ یہ کام اللہ تعالیٰ کے حسین ناموں اور شان دار صفات جانے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ایمان بڑھانے کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے، اس کی آیات پر غور کرنا چاہیے، اللہ کے وعدوں پر یقین رکھنا چاہیے، کثرت سے اس کا ذکر کرنا چاہیے۔ نفل عبادتیں بھی کرنی چاہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر بھی غور کرنا چاہیے۔

اللہ کے بندو! اللہ کے بارے میں بھلا گمان رکھو۔ اچھی امید رکھو۔ بھلی توقعات رکھو۔ اپنے دلوں سے مایوسی نکال دو۔
صحیح حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں۔ وہ جو چاہے میرے بارے میں سوچے‘‘۔

امام قرطبی نے اپنی کتاب مفہم میں کہا ہے: گمان سے مراد یہ ہے کہ جب دعا کی جائے تو قبولیت کی توقع رکھی جائے، جب توبہ کی جائے تو بھی قبولیت کی امید رکھی جائے۔ جب معافی مانگی جائے تو معافی کی امید رکھی جائے۔ جب عبادت کی شرائط پوری کر کے عبادت ادا کی جائے تو جزا کی توقع رکھی جائے۔

چنانچہ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کما حقہ ادا کرے، پھر یقین رکھا جائے کہ اللہ قبول فرمائے گا اور معاف فرما دے گا۔ کیونکہ اس نے یہی وعدہ کیا ہے۔ وہ پاکیزہ ہے اور وہ وعدہ خلاف نہیں کرتا۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ اس کی عبادت قبول نہیں کرے گا، یا اسے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا تو وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے والا ہے۔ یہ کام بڑے گناہوں میں سے ہے۔ اور جو اسی حال میں فوت ہو جائے وہ اپنے گمان کے سپرد کر دیا جائے گا۔

تو اے اللہ! ہمیں شکر گزار بنا، ذکر کرنے والا بنا، اپنے سے ڈرنے والا بنا۔ اپنے سامنے جھکنے والا بنا۔ اپنی طرف لوٹنے اور رجوع کرنے والا بنا۔

 اے پروردگار! ہماری توبہ قبول فرما! ہمارے گناہ دھو دے۔ ہماری دعا قبول فرما! ہماری دعا قبول فرما! ہماری حجت قائم فرما! ہمارے دلوں کو ہدایت عطا فرما! ہماری زبانوں کو درست فرما! ہمارے دلوں کی کدورتیں دور فرما!

اے اللہ! اپنا ذکر کرنے، اپنا شکر کرنے اور بہترین طریقے سے اپنی عبادت میں میری مدد فرما!

اے اللہ! رحمتیں نازل فرما! محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر، جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمتیں نازل فرمائی تھیں۔ یقینًا! تو بڑا قابل تعریف اور پاکیزگی والا ہے۔ برکتیں نازل فرما! محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر، جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمتیں نازل فرمائی تھیں۔ یقینًا! تو بڑا قابل تعریف اور پاکیزگی والا ہے۔

اے اللہ! خلفائے راشدین سے راضی ہو جا! ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے، اور تمام صحابہ کرام سے اور تابعین عظام سے بھی راضی ہو جا۔ اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر استقامت کے ساتھ چلنے والوں سے بھی راضی ہو جا۔ اے سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والے! اپنا فضل وکرم اور احسان فرما کر ہم سب سے بھی راضی ہو جا۔

اے اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کے احوال درست فرما! اے اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کے احوال درست فرما! اے اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کے احوال درست فرما! اے اللہ! ہم تجھ سے تیری رحمت، فضل، احسان اور کرم نوازی کا واسطہ دے کر سوال کرتے ہیں تو مسلمانوں کی سرزمین کو ہر برائی اور پریشانی سے محفوظ فرما!

اے اللہ! اے پرودگار عالم! تمام مسلمانوں کو اتحاد واتفاق نصیب فرما!

﴿اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے اُن سب بھائیوں کو بخش دے، جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ، اے ہمارے رب! تو بڑا مہربان اور رحیم ہے﴾ [الحشر: 11]۔

(اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی! اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا!) [البقرۃ: 201]۔

(پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں، (180) اور سلام ہے مرسلین پر، (181) ہر طرح کی تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہی ہے) [الصافات: 182]۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں