کچھ نصیحتیں

کچھ نصیحتیں

آج جب اپنے ماضی کے پچھلے اوراق پلٹ رہا تھا تو ایک واقعہ یاد آیا جو آپ لوگ سے شیئر کرنا چاہوں گا جو شاید آج کل کے بہت سے نوجوانوں کی ضرورت بھی ہے ...
..............
یہ ان دنوں کی بات ہے جب باوا جی سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی تب میں بہت ہی زیادہ الجھا ہوا تھا نہیں سمجھ لگتی تھی کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے بس ایک جنوں تھا اسلام کے لئے کچھ کرنے کا
پر نماز ایک نہیں پڑھنی ..
قرآن پاک کی حقانیت کے خلاف کوئی بات کرے تو جی چاہتا تھا اسکی جان ہی لے لوں
پر یاد نہیں کبھی قران پاک پڑھا ہو
اسی طرح الله پاک جی جتنی ذمہ داریاں مسلمان پر ڈالتا ہے ان میں سے کوئی 90٪ تو مجھے پتا ہی نہیں تھی پر خود سے بڑا مسلمان شاید ہی کسی کو سمجھتا ہوں گا ..
................
جب باوا جی سے ملاقات ہوئی تو انہیں میرے اندر یہ چیزیں دِکھ گئی پہلے تو میری غلطیوں کو نظر انداز کرتے گئے پھر ایک دن مجھے بٹھایا اور کہا جب تک میں بات مکمل نہ کر لوں ایک لفظ بھی نہ کہنا صرف سننا ..
پتر یہ کہاں اپنے دماغ کی سوچوں کے گھوڑے بھگاتا رہتا ہے کہاں کہاں بھگاۓ گا ؟
تو بھاگ کس سے رہا ہے ؟ اپنے آپ سے ؟؟ اپنے الله سے ؟
دھوکہ کس کو دےرہا ہے ؟
خود کو؟ یا الله پاک جی کو ؟؟
نماز تو ایک نہیں پڑھتا قرآن پاک تو نہیں کھولتا پھر باتیں کرتا ہے بڑی بڑی ...
تیری باتوں میں اثر کیسے ہو جب تو رب سوہنے سے بات ہی نہیں کرتا ..
تیری بات سن کر کوئی کیسے اثر پکڑے جبکہ تو خود قرآن پاک نہیں سنتا ..
فضول ہے تیرا بھاگنا نہ تو خود سے بھاگ سکتا اور نہ ہی سوہنے الله پاک جی سے ایک لازم ہے تو دوسرا ملزوم ...
...............................
رک جا اب اور ٹھہر جا اپنے دماغ کی بھاگتی سوچوں کو لگام دے اور اپنے پاس بٹھا اپنی سوچوں کو بات چیت کر پھر جو الله کی مقررہ کردہ حدود میں رہنا چاہیں انہیں ایک حد تک اپنے دماغ میں دوڑنے کی اجازت دے باقی سب کو نکال باہر پھینک..
یا رب کا ہوجا یا اپنی بے لگام سوچوں کا ۔۔ میرے پتر اس رشتے میں منافقت نہیں چلتی ..
...............................
اور یاد رکھ جو سنتے ہیں وہی سیکھتے ہیں۔ پہلے سننے والا بن پھر بولنا شروع کر،  پہلے خود کو اس قابل بنا کہ سن سکے،  اصل علم والے وہی ہوتے ہے پتر جو سنتے ہیں دھیان لگاتے ہیں پھر دیکھنا تجھے چڑیوں کی چہچہاہٹ سے لیکر شیر کی دھاڑ اور گھوڑے کے ہنہنانے میں بھی سبق ملے گا۔ "بولنا " تو بہت بعد کا عمل ہوتا ہے پتر! تھوڑا بولنا جب بھی بولنا.. اور فضول بولنے سے بہتر ہے تو رب پاک سے دعا کر کہ تجھے گونگا ہی کردے تا کہ کوئی مسلمان تیری فضول گوئی سے بھٹکے نہ ..
.............................
اگر کوئی سچی بات کڑوے لہجے میں بھی کہے تو اس سے لڑ نہیں نہ ہی اپنی انا کا مسئلہ بنا،  اگر انا پیاری ہے تو یہیں سے لوٹ جا،  یہ رب سوہنے کا دین ہے یہاں اپنی انائیں نہیں چلتیں۔ کوئی سکھاۓ تو سیکھ جا آنکھ بند کئے،  بس سکھانے والا حق سکھا رہا ہو۔ غلطی کر تو مان جا، جو غلطی نہ مانے اس کا بھی یہاں کوئی کام نہیں،  غلطی مانے گا تو یہ غلطی ہی تجھے علم سکھاۓ گی ورنہ یہ غلطی تجھے بھٹکنے میں ایک لمحے کا توقف نہیں کرے گی ....
...........................
یہ میری زندگی کا سب سے پہلا سب سے لمبا اور سب سے مشکل سبق تھا پر میری طبیعت میں ٹھہراؤ اور سنجیدگی شاید اسی سبق کی مرہون منّت ہے یہاں ایک بہت ہی قابل دوست کا بھیجا ہوا شعر یاد آرہا ہے ..

"ہمارے لہجے میں یہ توازن بڑی صعوبت کے بعد آیا......
کئی مزاجوں کے دشت دیکھے کئی روّیوں کی خاک چھانی "

آج تقریباً ہر نوجوان کے اندر مجھے وہی الجھا ہوا جہانگیر دکھائی دیتا ہے بہت کچھ کرنے کا جنوں پر سمجھ نہیں کے شروعات کہاں سے کی جاۓ یا کیسے کی جاۓ ہر جگہ ہاتھ ماریں گے پر اپنے دل اور دماغ کو چھوڑ کر ..
جناب ہر چیز کی شروعات " میں " کو مار کر ہوتی ہے اسلئے اپنی ذات سے شروع کیجئے،  اپنا رابطہ اپنے الله پاک جی سے بڑھائیے پھر میدان میں آئیں ورنہ کچھ ہی دنوں بعد اپنے ہی دین کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں گے کیونکہ دشمن پوری تیاری سے حملہ آور ہوا ہے اپنی اخلاقی اور دماغی تربیت کیجئے،  گالی کے بجاۓ سوال کرنے والے بنئے .. سوال کرنے کا ہنر ہی آدھا علم ہے اور باقی کا آدھا علم اس سوال کی جستجو میں چھپا ہوتا ہے۔ یہ کر کے دیکھئے الله پاک بیشک سب سے بہترین جواب دینے والا ہے .....

" پیچیدہ تخلیق "


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں