داستانِ سفر مجھ کو یوں مت سنا


داستانِ سفر مجھ کو یوں مت سنا
تحریر: ابو شہیر

حج ایک ایسی تمنا ہے جو بلا شبہ ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے ۔ ایک ایسی آرزو جس کے پورے ہونے کے خواب دیکھے جاتے ہیں ۔ جس نے مقامات مقدسہ کو نہیں دیکھا ، وہ ایک بار حاضری کی تمنا کرتا ہے اور جس کو ایک مرتبہ حاضری کا شرف حاصل ہو جاتا ہے وہ پھر باربار حاضری کی دعا کرتا ہے۔  بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جس نے حرمین شریفین کو نہیں دیکھا اس کی تو طلب ہے اور جو دیکھ آیا  اس کی تڑپ ہے۔

عازمین حج و عمرہ کی قسمت پر رشک ہی کیا جا سکتا ہے بلکہ ان معاملات میں تو حسد بھی جائز ہے ۔ جس وقت حجاج کرام روانہ ہو رہے ہوتے ہیں تو ان کے متعلقین ان کو بڑی حسرت کے ساتھ رخصت کرتے ہیں اور جب وہ مقامات مقدسہ کی زیارت کر کے واپس لوٹتے ہیں تو جا جا کر ان سے ملاقات کرتے ہیں۔ ان کی داستان سفر بڑے ذوق و شوق سے سنتے ہیں ۔ قابل مبارکباد اور لائق تحسین ہیں وہ نفوس جو اس عظیم عبادت کی ادائیگی کا شرف حاصل کر چکے ہیں یا کرنے والے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں میں ہمارے بہت سے متعلقین حج و عمرہ کا شرف حاصل کر کے واپس لوٹے ۔ ان میں سے کئی افراد کے تاثرات جان کر خاصا دکھ ہوا کہ ان کے منہ سے شکوہ شکایت کے علاوہ کچھ نہ سنا ۔پہلے تو یہ دیکھ لیجئے کہ شکایات کیا تھیں ؟ کسی نے کہا : اس قدر گرمی تھی کہ توبہ توبہ ! کوئی بولا : رش بہت تھا ۔ کسی نے کہا : رہائش حرم سے بہت دور تھی ۔ کسی نے شکوہ کیا : پیدل چل چل کے بھیا میری تو ٹانگیں ٹوٹ گئیں ۔ کسی کو کھانے کا ذائقہ سمجھ نہیں آیا ۔ کسی کو مہنگائی نے پریشان کیا ۔ کسی کو عرب باشندوں کے رویہ میں درشتگی کی شکایت رہی ۔ یہاں تک کہ ایک صاحب کے بارے میں لوگوں نے بتایا کہ وہ تو ہجوم دیکھ کر اس قدر بوکھلائے کہ کہہ بیٹھے : دوبارہ نہیں آؤں گا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔

ایسے لوگوں کو اول تو توبہ کرنی چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ ان کی شکایات کس قدر بے جا ہیں ۔ ہم ایسے لوگوں کی خدمت میں بصد ادب یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ کو کسی نے نہیں بتایا تھا کہ وہاں کا موسم کس قدر گرم ہوتا ہے؟ کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ وہاں کس قدر اژدھام ہوتا ہے ؟  کم و بیش پچیس لاکھ افراد ، وہ بھی مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے ۔ سب کا رہن سہن الگ ۔ طور طریقے الگ ۔ معاشرت الگ ۔ تو ایسے مختلف النوع افراد کے اتنے بڑے ہجوم کو سنبھالنا کوئی آسان کام ہے ؟ رہائش حرم سے دور تھی تو کیا یہ بات آپ کے علم میں نہیں تھی ؟ سرکاری اسکیم میں فارم بھرتے وقت آپ کو معلوم ہو جانا چاہئے تھا کہ حرم شریف سے آپ کی رہائش کا کم سے کم فاصلہ اتنے کلومیٹر ہو گا ۔ اور پرائیویٹ اسکیم کے تحت حج پر جانے والوں کو بھی ٹور آپریٹر بتا دیتے ہیں کہ ان کی رہائش حرم سے کتنے فاصلے پر ہو گی ۔ تو اس فاصلے پر شکایت و برہمی کیسی ؟ اور پھر ذرا یہ تو سوچئے کہ کیا پچیس کے پچیس لاکھ افراد حرم شریف سے بالکل متصل رہائش حاصل کر سکتے ہیں؟ بہت مبالغہ کر لیا جائے تو شاید تین چار لاکھ افراد قریب کی رہائش گاہوں میں قیام پذیر ہو سکیں، بقیہ حجاج کرام کو تو یقیناً درجہ بدرجہ پیچھے ہی جانا ہو گا ۔ پیدل چلنے کی شکایت کرنے والوں کو بھی تربیت کے دوران بتا دیا جاتا ہے کہ میلوں پیدل چلنا پڑتا ہے ، اس کے لئے ذہنی و جسمانی طور پر تیار رہئے ۔ لیکن ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ برصغیر کے اکثر باشندوں کو ڈھلتی یا آخر عمر میں حج کا خیال آتا ہے ۔ اور پھر یہی لوگ واپس آ کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میاں !حج تو جوانی کی عبادت ہے ۔ تو اب بڑھاپے میں تو دو قدم چلنا بھی مشکل ہوا کرتا ہے ، میلوں چلنے کا دم کہاں۔کھانے کا ذائقہ سمجھ نہیں آ رہا تھا تو بھائی خود پکا لیتے۔ لیکن وہاں پہنچ کر خواتین صاف کہہ دیتی ہیں کہ ہم یہاں ہانڈی چولہا کرنے نہیں آئے  اور کسی حد تک وہ حق بجانب بھی ہوتی ہیں کہ ان بے چاریوں کی عمر کا بیشتر حصہ باورچی خانے کی نذر ہو جاتا ہے ۔ تاہم اگر چند لوگ خدمت کے جذبے کے ساتھ باری باری کھانا بنا لیا کریں تو کسی پر بار بھی نہیں ہو گا اور لذت کے علاوہ خاطر خواہ بچت کا بھی باعث ہو گا ۔ عرب باشندوں کے رویہ کی شکایت کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ پچیس لاکھ افراد کا مجمع جو کہ ان کی زبان نہیں سمجھ سکتا اور نہ وہ ان کی زبان سمجھتے ہیں تو اس مجمع کو کنٹرول کرنا کس قدر مشکل کام ہے ؟ سوچئے تو سہی کہ اپنا ہی بچہ بات نہ مانے یا بیوی آپ کی بات نہ سمجھے تو کس قدر غصہ آتا ہے ۔ وہاں تو معاملہ ہی مختلف ہے۔

خیر یہ تو شکایات کے پلندے کا جواب ہو گیا ۔ اب ذرا نعمتوں  اور رحمتوں کا تذکرہ  ہو جائے ۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھئے کہ آپ کے اطراف میں ایسے کتنے لوگ ہیں جن کی مالی حیثیت آپ سے کہیں زیادہ ہےلیکن حج عمرہ ابھی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور آپ کی خوش نصیبی کہ آپ کو یہ سعادت حاصل ہو رہی ہے ۔ حج عمرہ کی توفیق ہو جانا بھی در حقیقت اللہ کا بہت بڑا انعام ہے ۔  بہت سے لوگ اس بہانے ہوائی جہاز کا سفر بھی کر لیتے ہیں ، تو ہو سکتا ہے آپ کا بھی یہ پہلا ہوائی سفر ہو ۔ چلئے یہ خواہش بھی پوری ہو گئی ۔ تمام عمر نمازوں کی نیت کرتے وقت “منہ میرا کعبہ شریف کی طرف ” کہتے رہے ، آج اس کعبہ شریف کی زیارت کا شرف حاصل ہو گیا ۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟ اس گھر کا طواف کر لیا بلکہ ان گنت طواف کر لئے ۔ اس گھر کے اندر نوافل ادا کر لئے ۔ (جی ہاں حطیم خانہ کعبہ کا ہی حصہ ہے جو کہ تعمیر نہیں کیا گیا ) ۔ ملتزم سے لپٹ لپٹ کر دعائیں مانگ لیں ، حدیث مبارکہ کے مطابق جہاں کوئی دعا رد نہیں ہوتی ۔ کس قدر خوش نصیبی کی بات ہے ۔صفا مروہ جیسے مبارک مقامات کو دیکھ لیا ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدم مبارک کے نشان کی زیارت کر لی۔حرم مکی میں نمازیں ادا کر لیں کہ جہاں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے ۔ پھر وہ وادی جہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لخت جگر  کے گلے پر چھری چلائی ، جہاں شیطان کو کنکریاں ماریں اس وادی یعنی منیٰ کو بھی دیکھ لیا  ۔ اور بالآخر وہ مبارک ساعت آن پہنچی کہ جب نو ذی الحج کو زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک کا وقت میدان عرفات میں گزارا ، جہاں اللہ رب العزت کی بارگاہ سے مغفرت کے پروانے حاصل ہوئے ۔ تمام گناہ معاف کر دئیے گئے ۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ۔ کتنی بڑی ۔۔۔ کتنی بڑی سعادت ہے ۔ کتنی بڑی کامیابی ہے ۔ کتنا بڑا انعام ہے ۔

اور پھر حبیب کبریا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر حاضر ہو کر بنفس نفیس درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنے کا شرف بھی حاصل ہو گیا ۔  کتنی بڑی سعادت حاصل ہو گئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مسعود سے آراستہ مسجد کی زیارت ہو گئی ۔ اس مسجد میں خوب نمازیں پڑھیں جہاں ایک نماز کا ثواب ایک روایت کے مطابق ایک ہزار کے برابر ہے ۔ پھر جنت (ریاض الجنۃ) میں داخل ہو گئے … کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ میرے حجرے سے میرے منبر تک کا درمیانی حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جنت کہا تو میں کیوں نہ کہوں کہ ریاض الجنۃ میں پہنچ گئے گویا جنت میں پہنچ گئے۔ سو جنت میں بھی پہنچ گئے۔ کتنی بڑی سعادت ہے ۔ اسلام کی پہلی مسجد یعنی مسجد قبا میں نوافل ادا کئے اور مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے عمرہ کا شرف حاصل ہوا ۔ جی ہاں ! حدیث مبارکہ کے مطابق مسجد قبا میں دو رکعت اخلاص کے ساتھ ادا کرنے پر مقبول عمرہ کا ثواب ہے ۔ مسجد قبلتین کی زیارت ہوئی ۔ احد پہاڑ کی زیارت ہوئی جس کے بارے میں فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے ۔ اللہ اکبر ۔ جنت البقیع میں آرام فرما صحابہ کرام اور احد کے دامن میں شہدائے احد کے مقبروں پر فاتحہ خوانی کا شرف حاصل ہوا ۔ کیا کیا گنِواوَں!

عبادات سے ہٹ کر دیکھئے ! ایئر کنڈیشنڈ کمرے ۔ ایئر کنڈیشنڈگاڑیاں ۔ ایئر کنڈیشنڈ مسجدیں ۔ ایئر کنڈیشنڈ خیمے ۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے کبھی ایئر کنڈیشنڈکمروں میں آرام کیا ؟ ایئر کنڈیشنڈگاڑیوں میں سفر کیا؟ اب تو وہاں ہر جگہ سہولیات میسر ہیں ۔ سوچیں تو سہی کہ اگر یہ سب سہولیات نہ ہوتیں تو کیا ہوتا ؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔ دنیا جہان کی نعمتیں آج اس شہر میں موجود ہیں جو کبھی قرآن کی گواہی کے مطابق بے آب و گیاہ وادی ہوا کرتا تھا ۔ دودھ ، گوشت ، اناج ، چائے کی پتی ، چینی اور مصالحہ جات سے لے کر سبزیوں اور موسم و بے موسم کے پھلوں تک ہر چیز اس شہر میں موجود ہے ۔  دودھ جوس کولڈڈرنگ لسی پانی آئس کریم چائے کافی وغیرہ وغیرہ ۔ اور ان سب سے بڑھ کر آب زم زم ۔ وہ مقد س پانی جو ایک نبی کے قدموں سے جاری ہوا اور پھر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا جھوٹا پانی اس میں شامل ہوا۔ جی ہاں ! میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو آب زم زم کے کنویں سے ڈول میں پانی بھر کر پیش کیا گیا ۔ آپ نے خوب سیر ہو کر پیا اور باقی پانی واپس کنویں میں انڈیل دیا ۔ یاد کیجئے کہ وہ پانی جو کبھی گھونٹ دو گھونٹ تبرک کی شکل میں ملتا تھا ، اس مقدس سفر کے دوران کتنا پی لیا ؟ بلا مبالغہ سینکڑوں گلاس ۔ یاد کیجئے ! خوب یا د کیجئے ! کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے زم زم کے کولر کے نیچے گلاس رکھ کر بٹن دبایا ہو اور پانی نہ آیا ہو؟ کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ نے وضو کرنے کے لئے یا بیت الخلاء میں طہارت کے لئے نل کھولا ہو اور پانی نہ آیا ہو ؟ کیا کبھی کسی چیز کی قلت دیکھی ؟ مقامی باشندوں کے علاوہ پچیس لاکھ افراد کا مجمع ایک شہر میں جمع ہے۔ کیا کبھی دودھ کی قلت ہوئی ؟کبھی ایسا ہوا کہ چائے نہ ملی ہو ؟ یا آٹا شارٹ ہو گیا ہو ؟ یا چینی نہ مل رہی ہو ؟ یا کولڈرنک مارکیٹ سے غائب ہوئی ہو ؟ چلو یہ تو شہر ہے ۔ منیٰ مزدلفہ عرفات میں بھی سب کچھ مل رہا ہے ۔ پھر راستوں میں جگہ جگہ بڑے بڑے ٹرالرز سے اشیائے خورد و نوش اللہ کے مہمانوں پر مفت نچھاور کی جا رہی ہیں ۔ سرد موسم میں نلکوں میں گرم پانی آ رہا ہے تو گرمی کی تمازت سے بچانے کے لئے حجاج کرام پر  فواروں سےٹھنڈے پانی کی پھواریں ماری جا رہی ہیں۔ کون کر رہا ہے یہ سب کچھ؟ کیا انسانوں کے بس کی بات ہے ؟ کیا کیا نہ کھلایا رب کعبہ نے ۔ کیا کیا نہ پلایا رب کعبہ نے۔

رب کعبہ نے شیخ عبد الرحمٰن السدیس کی بلند و بالا تلاوت سے فیض یاب ہونے کے مواقع عطا کئے ۔ شیخ سعود الشریم کی مسحور کن قرات سنوا دی ۔ کیسٹ یا سی ڈی یا ٹی وی پر سننے اور براہ راست سننے میں فرق محسوس کیا آپ نے ؟ شیخ علی احمد ملا کی فلک شگاف  ، شیخ فاروق ابراہیم حضراوی کی گھمبیر اور شیخ محمد ماجد حکیم کی مسحور کن آواز وں میں بلند ہونے والی اذانیں ،شیخ صلاح البدیر کی رقت آمیز تلاوتیں ، کیا کیا گِنواوَں؟ کون کون سی رحمت کا تذکرہ کروں ؟  مقصد یہ باور کرانا تھا کہ بھائی ! کتنا کچھ ہوتا ہے حاجی کے پاس بتانے کو !

اے مدینے کے زائر !خدا کے لئے  داستان سفر  مجھ کو یوں مت سنا
دل مچل جائے گا ، بات بڑھ جائے گی ، میرے محتاط آنسو چھلک جائیں گے

جی ہاں!داستان سفر اس طرح سنائیے کہ سننے والے کا بھی دل مچل جائے وہاں جانے کو ۔ حسرت سے اس کی آنکھیں جل تھل ہو جائیں ۔ اس کے شوق کی چنگاری بھڑک کر شعلے میں تبدیل ہو جائے ۔ آپ ضیوف الرحمٰن یعنی اللہ تعالیٰ کے مہمانوں میں شامل رہے … گویا اللہ تعالیٰ آپ کی میزبانی کرتا رہا ۔۔۔ اس کیفیت ، اس سعادت کو ذہن میں رکھتے ہوئے مذکورہ بالا رحمتوں کو یاد کیجئے اور ان کا تذکرہ کیجئے ۔ زحمتوں اور تکالیف کو فراموش کر دیجئے ، بھول جائیے ۔ اور اگر کبھی مشکلات کا تذکرہ بھی کریں تو تربیت کی غرض سے ، سکھانے کے لئے ، اگلے کو دشواری سے بچانے کے لئے ، آگاہی دینے کے لئے ۔۔۔ نہ کہ شکوہ شکایت کے لئے ۔ خدانخواستہ نا شکری میں شمار نہ ہو جائے ۔

چلتے چلتے صبیح رحمانی کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیے ۔ دیکھئے شاعر نے اپنے مشاہدات ِحرم کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے ۔

کعبے کی رونق ! کعبے کا منظر !اللہ اکبر اللہ اکبر
دیکھوں تو دیکھے جاوَں برابر !اللہ اکبر اللہ اکبر

حیرت سے خود کو کبھی دیکھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کبھی میں حرم کو
لایا کہاں مجھ کومیرا مقدر ! اللہ اکبر اللہ اکبر

حمد خدا سے تر ہیں زبانیں ، کانوں میں رس گھولتی ہیں اذانیں
بس اک صدا آ رہی ہے برابر ، اللہ اکبر اللہ اکبر

مانگی ہیں میں نےجتنی دعائیں منظور ہوں گی مقبول ہوں گی
میزاب رحمت ہے میرے سر پر اللہ اکبر اللہ اکبر

یاد آ گئیں جب اپنی خطائیں ، اشکوں میں ڈھلنے لگیں التجائیں
رویا غلاف کعبہ پکڑ کر اللہ اکبر اللہ اکبر

اپنی عطا سے بلوا لیا ہے ، مجھ پر کرم میرے رب نے کیا ہے
پہنچا ہوں پھر سے حطیم کے اندر  اللہ اکبر اللہ اکبر

قطرے کو جیسے سمندر سمیٹے ، مجھ کو مطاف اپنے اندر سمیٹے
جیسے سمیٹے آغوش مادر اللہ اکبر اللہ اکبر

باب کرم پر آئے ہوئے ہیں ، پھر ملتزم پر آئے ہوئے ہیں
اے سچے داتا !تیرے گداگر اللہ اکبر اللہ اکبر

بھیجا ہے جنت سے تجھ کو خدا نے ، چوما ہے تجھ کو خود مصطفیٰ نے
اے حجر اسود تیرا مقدر ! اللہ اکبر اللہ اکبر

جس پر نبی کے قدم کو سجایا ، اپنی نشانی کہہ کے بتایا
محفوظ  رکھا رب نے وہ پتھر اللہ اکبر اللہ اکبر

دیکھا صفا بھی ، مروہ بھی دیکھا  رب کے کرم کا جلوہ بھی دیکھا
دیکھا رواں اک سروں کا سمندر اللہ اکبر اللہ اکبر

کعبے کے اوپر سے جاتے نہیں ہیں ، کس کو ادب یہ سکھاتے نہیں ہیں !
کتنے موَدب ہیں یہ کبوتر ! اللہ اکبر اللہ اکبر

تیرے کرم کی کیا بات مولا ! تیرے حرم کی کیا بات مولا!
تا عمر کر دے آنا مقدر اللہ اکبر اللہ اکبر

مولا! صبیحؔ اور کیا چاہتا ہے ؟ بس مغفرت کی عطا چاہتا ہے
بخشش کے طالب پہ اپنا کرم کر اللہ اکبر اللہ اکبر




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں