ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر ۔۔۔ حصہ- 5

ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ-5

شیطانی مشن
عمرے کی ادائیگی کے بعد میں ہوٹل پہنچا۔ تھکن کافی ہوچکی تھی جس کی بنا پر نیند آجانا چاہئے تھی۔ لیکن نئی جگہ کے باعث نیند نہیں آرہی تھی۔ چنانچہ میری سوتی جاگتی آنکھوں میں وہی منظر آنے لگا جب شیطان نے چیلنج دیا تھا کہ میں انسان کے دائیں ، بائیں ، آگے اور پیچھے غرض ہر جگہ سے آؤں گا اور اسے جنت کے راستے سے بھٹکا کر جہنم کے دہا نے تک لے جاؤں گا۔ میں نے غور کیا تو علم ہوا کہ شیطان نے بڑی عیاری سے انسان کے گرد اپنے فریب کا جال بنا اور اکثریت کو راہ راست سے دور لے جانے میں کامیاب ہوگیا۔

اس نے پہلا وار تو حضرت آدم و حوا علیہما السلام پر کیا اور انہیں جنت سے نکلوانے میں کامیاب ہوگیا۔ دوسری کاری ضرب حضرت آدم کے بیٹے قابیل پر لگائی اور اسے حسد اور مادہ پرستی کی راہ پر ڈال کر اپنے ہی بھائی کے قتل پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد اس نے انسان کا پیچھا نہ چھوڑا اور تواتر سے اپنی سازشوں کا دائرہ وسیع کرتا گیا۔ قوم نوح کو شرک کی گمراہیوں میں اس طرح الجھایا کہ وہ مرتے مر گئے لیکن خدا کی توحید پر ایمان نہ لائے۔ شرک کی گمراہیوں میں تو اس نے ہر قوم کو الجھایا لیکن اس کے ساتھ کئی دوسرے پہلوؤں سے لوگوں کو خدا سے دور کرتا رہا۔ اس نے کبھی تو قوم عاد ، قوم ہود قوم ثمود اور قوم شعیب کو مادہ پرستی ، جھوٹی شان و شوکت ، انکار آخرت، لوٹ مار اور قتل و غارت جیسے گناہوں میں الجھادیا تو کہیں قوم لوط کو جنسی بے راہ روی کی پست ترین سطح میں ملوث کردیا ۔ لیکن یہ سب کام کرنے پر اسے انسان پر کوئی اختیار نہ تھا۔ اس نے تو بس انسان کو دعوت دی اور لوگوں نے اس کی دعوت پر لبیک کہہ کر خود کو طاغوت کے سپرد کردیا۔ شیطان کی کارستانیوں اور نفس کے جھانسوں کے سبب کئی قومیں طاغوت کی بندگی میں داخل ہوئیں اور بے شمار شخصیات نے اپنے نفس کو آلودہ کرکے جہنم کا حق دار بنالیا۔

دوسری جانب شیطان کے مقابلے میں خدا کا فرمان اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا کہ میرے بندوں پر تیرا کوئی اختیار نہ ہوگا۔ چنانچہ شیطان کو ہر دور میں ان بندوں نے شکست فاش سے دوچار کیا۔ اگر قابیل نے شیطان کی دعوت پر لبیک کہا تو ہابیل نے تقویٰ کا پیکر بن کر خدا کی راہ امیں جان دے ڈالی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے مخالفین کی سختیاں برداشت کیں اور بیٹے کو قربان کردیا لیکن خدا کی راہ نہ چھوڑی۔ حضرت صالح، ہود،شعیب اور لوط علیہم السلام نے مشکلات، جبر و تشدد اور شدید مخالفت کے باوجود خدا کی بندگی کا قلاوہ نہ اتارا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں کودنا گوارا کرلیا لیکن صراط مستقیم پر قائم رہے۔حضرت موسی و ہارون علیہما السلام تنہا فرعون کے ظلم و ستم برداشت کرتے رہے لیکن ان کے قدموں میں لغزش نہ ہوئی۔ حضرت زکریا کو آرے سے چیر دیا گیا اور حضرت یحیٰی کا سر رقاصہ کی فرمائش تھال پر رکھ کر پیش کیا گیا لیکن وہ کلمہ حق سے دستبردار نہ ہوئے۔حضرت عیسی علیہ السلام نے یہود کے الزامات سہے اور ان کی تمام سازشیں جھیلیں لیکن خدا کا پیغام پہنچاتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کی سختیاں جھیلیں، طائف میں پتھر کھائے، جنگوں میں سختیوں سے گذرے لیکن کبھی کوئی شکایت کا حرف بھی زبان پر نہ لائے۔

ان پیغمبروں کے علاوہ ان کے ماننے والے بھی ہر دور میں طاغوت کو شکست دینے کے لئے کھڑے رہے۔گو کہ یہ سب تعداد میں کم تھے لیکن شیطان کی ناک رگڑنے کے لئے کافی تھے۔

یہ کشکمش آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ آج بھی شیطان نے انسان کو اپنے جال میں جکڑا ہوا ہے اور ہر طرف سے اس کی یلغار جاری ہے۔ ماضی کی تمام برائیاں آج وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہیں۔ شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار الحاد کا ہے جس میں اس نے ڈارونزم، کمیونزم اور مادہ پرستی جیسے فلسفوں کے ذریعے خدا کے وجود کے بارے میں تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسری جانب آج کے ماڈرن اور سائنسی دور میں بھی لوگوں کو بت پرستی اور شرک کے دیگر مظاہر میں الجھا رکھا ہے۔ ابلیس کا تیسرا جال آخرت سے غفلت کا ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو مادہ پرستی، نفسانی خواہشات کی تکمیل اور مفاد پرستی کی جانب لانے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کا ایک اور طریقہ واردات ماڈرنزم کا ہے جس کی بنا پر اس نے حیا کو ایک فرسودہ روایت اور عریانی کو ایک جدید اور اعلی قدر کے طور پر پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ اس کی بنا پر زنا، ہم جنس پرستی، فحش تصاویر، جنسی فلمیں اور عریاں ادب عام ہوچکے ہیں۔ معیشت کے میدان میں شیطان نے لوگوں کو سرمائے کا غلام بنادیا کہ صبح سے رات تک غلاموں کی طرح کام کرتے رہتے اور اگلے دن دوبارہ کولہو کے بیل کی طرح اس لامتناہی مشقت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیطان نے انسان کو صرف دعوت دی باقی اس دعوت پر لبیک انسان نے خود کہا اور طاغوتی قوتوں کا ساتھی بن گیا۔

شیطان کی اس عظیم یلغار کے باوجود اللہ نے انسانیت کی راہنمائی کا بہترین اہمتام کر رکھا ہے۔ چنانچہ آج دنیا کے کسی بھی خطے میں انسان موجود ہو وہ برائی کو برائی ہی مانتا ہے اور جب بھی وہ کوئی برا عمل کرتا ہے اس کا ضمیر اس پر اسے ملامت کرتا ور معاشرہ بحیثیت مجموعی اسے ٹوکتا ہے۔ چنانچہ آج بھی خدا کے وجود کا انکار کرنے والے اقلیت میں ہیں۔ آج بھی حیا کو ایک اعلی اخلاقی قدر مانا جاتا اور اس کی خلاف ورزی کو برا سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب شرک کو بھی چند کمزور قسم کے دلائل سے سہارا دینے کی کوشش کی جاتی ہے جسے سائنس کی دریافتیں آہستہ آہستہ رد کررہی ہیں ۔ لہٰذا ایسا نہیں کہ شیطان نے دنیا پر قبضہ کرلیا ہے۔ خدا کی ہدایت آج بھی فطرت اور وحی کی صورت میں موجود ہے اور آج بھی اس شورش زدہ ماحول میں خدا کے بندوں نے اپنے نفس کو آلودگی سے پاک رکھا ہوا ہے۔ اب یہ لوگوں کا اختیار ہے کہ وہ ابلیس کی پکار پر لبیک کہتے ہیں یا رحمٰن کی دعوت پر لپکتے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں