ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر۔۔۔ حصہ- 3

ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل

حصہ-3

جدہ ائیرپورٹ
بالآخر جدہ ائیر پورٹ آگیا۔ اس وقت وہاں فجر کی نماز کا وقت ہورہا تھا۔ چنانچہ لاؤنج ہی میں فجر ادا کی۔ وہاں فلو کی ویکسی نیشن بھی ہوئی۔ امیگریشن کے مراحل ڈیڑھ گھنٹے ہی میں طے ہوگئے پھر کچھ دیر بعد ہی ہمیں پاکستان کے کیمپ میں بٹھا دیا گیا جہاں سے مکہ روانگی تھی۔ اس دوران پہلی مرتبہ سعودی باشندوں کو دیکھا ۔ ابتدا میں ا نکی باڈی لینگویج خاصی جارحانہ لگی لیکن بعد میں احساس ہوا کہ میرا یہ احساس غلط تھا اور یہ ان کا فطری انداز تھا۔
موجودہ سعودی عرب کی بنیاد عبدالعزیز بن سعود نے سن ۱۹۳۲ عیسوی میں رکھی۔ اس کی ابتدا سن ۱۷۴۷ میں ہوچکی تھی جب محمد بن سعود نے ایک اسلامی اسکالر عبدالوہاب کے ساتھ اشتراک قائم کیا۔ابتدا میں سعودی عرب ایک غریب ملک تھا لیکن ۱۹۳۸ میں تیل کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد اس ملک کی قسمت بدل گئی۔ آج سعودی عرب کا شمار امیر ملکوں کی فہرست میں ہوتا ہے۔ یہاں کا سیاسی نظام بادشاہت پر قائم ہے اور کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی کی یہاں کوئی اجازت نہیں۔

مکہ روانگی
تقریباً تین سے چار گھنٹے کے بعد مکتب کی بس آئی جب اس میں سوار ہوئے تو ہم سے پاسپورٹ لے لیا گیا اور ہمیں بتایا گیا کہ اب واپس جاتے وقت ہی ہمیں پاسپورٹ ملیں گے ۔بس جب مکہ میں داخل ہونے لگی تو ایک عجیب سی کیفیت عود آئی۔ میں سوچنے لگا کہ یہ وہی مقدس مکہ ہے جہاں خدا کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، جہاں خدا کا کلام نازل ہوا، جہاں جبریل امین نے قدم رنجا فرمایا، جہاں معراج کا واقعہ ہوا، جہاں کفر و اسلام کی جنگ لڑی گئی۔ یہ وہی مکہ ہے جہاں انسانوں کے لئے عبادت کا پہلا گھر تعمیر کیا گیا،جہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیوی اوربچے کو خدا کے حکم سے بسایا، جہاں حضرت حاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سعی کرکے صفا مروہ کو امر کردیا، جہاں اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی داستان رقم کی گئی۔

جدہ سے مکہ قریب دوگھنٹے میں پہنچے اس وقت وہاں کے وقت کے مطابق بارہ بج رہے تھے۔وہاں حج مرکز میں رجسٹریشن ہوئی۔ مرکز میں بس کھڑی ہوئی تھی ۔ رجسٹریشن کے بعد بس اگلی منزل روانہ ہوئی جو معلم کا دفتر تھا۔ یہاں رجسٹریشن ہونے کے بعد سوئے حرم چلے۔ہوٹل پہنچتے پہنچتے ڈیڑھ گھنٹا مزید لگ گیا۔

ہوٹل کا نام السرایا ایمان تھا اور یہ ہوٹل حرم سے پانچ منٹ کی واک پر تھی ۔ مجھے کمرہ چوھویں فلو ر پر دیا گیا جس میں میرے ساتھ دو نوجوان دانش اور یاسر تھے۔ میری بیوی کا فلورتیرھواں تھا۔ جب ہم ہوٹل پہنچے تو اس وقت سعودی وقت کے مطابق ساڑھے تین بج رہے تھے۔ ہوٹل پہنچ کر تھکن سے چور ہوچکے تھے چنانچہ ظہر اور عصر کی نماز پڑھی اور بستر پر ڈھیر ہوکر یاسر کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کی پلاننگ کرنے لگے۔ دونوں کا کہنا تھا کہ کعبہ پر پہلی نظر پڑے تو جو دعا مانگو قبول ہوجاتی ہے۔ لیکن محدثین اس روایت کو ضعیف مانتے ہیں۔

عشاء کی نماز پڑھنے کے لیے میں دانش اور یاسر کے ساتھ مسجد الحرام جانب نکلا  لیکن تاخیر سے پہنچنے کی بنا پر پہلی رکعت رہ گئی اور مسجد الحرام کے باہر ہی جگہ ملی۔ نماز کی امامت میرے فیورٹ قاری الشریم کررہے تھے۔ ان کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ شاید میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں اور ابھی کوئی مجھے جگا دے گا۔ لیکن وہ ایک حقیقت تھی۔

نماز ختم ہونے کے بعد پہلی مرتبہ مسجد الحرام کو غور سے دیکھا۔ میں اس وقت باب عبد العزیز کے سامنے کھڑا تھا۔میں نے ارد گرد نگاہ ڈالی تو علم ہوا کہ یاسر اور دانش جدا ہوچکے ہیں۔ اب مجھے تن تنہا مسجد میں داخل ہوکر عمرہ کرنا تھا۔ میں باب عبدالعزیز کے سامنے کھڑا ہوکر لوگوں کے نکلنے کا انتظار کرنے لگا ۔ لیکن جب دس منٹ تک بھی نکلنے والے لوگوں کی تعداد میں کوئی کمی نہ ہوئی تو پھر بائیں جانب ایک ذیلی دروازے سے داخل ہونے کی ٹھانی۔ دروازے سے داخل ہوا تو سمت بھول گیا کہ کعبہ کس جانب ہے۔ سوچا کسی سے پوچھ لوں۔ لیکن پھر شرم آئی کہ کوئی کیا کہے گا کہ اسے کعبہ کا علم نہیں ہے۔ بہر حال اندازے سے دائیں جانب چلنے لگا۔ جب تھوڑا سا آگے چلا تو سامنے کعبہ موجود تھا۔

بیت اللہ
سامنے بیت اللہ اپنی پوری آب و تاب سے سیاہ غلاف میں ملبوس موجود تھا۔ اس وقت پورا ماحول دودھیا روشنی سے منور تھا اور اس کے ساتھ ہی خدا کی رحمت کا نور بیت اللہ کو چار چاند لگائے دے رہا تھا۔ وہ خانہ کعبہ جس کی سمت ہمیشہ سجدے کیے وہ آج بالکل سامنے تھا۔ اس سے پہلے کعبہ ٹی وی پر یا تصویروں میں دیکھا تھا لیکن وہ دیکھنا کوئی دیکھنا نہ تھا۔ آج کے دیدار کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔

کعبہ کا سیاہ غلاف ہیبت الٰہی کی عکاسی کررہا تھا۔ یہ کعبہ قدرت الٰہی کی تمام صفات کو خاموش زبان میں بیان کرہا تھا۔ یہ کہہ رہا تھا کہ خدا بادشاہوں کے بادشاہ ہیں، ان کے جیسا رعب ، وجاہت، قہاری، عظمت، بزرگی، بڑائی،جلال اور شان وشوکت کسی کے پاس نہیں۔وہ ایک عزت والی، زبردست، صاحب قوت و اختیار، غالب اور قادر ہستی ہیں۔ وہ ملکیت رکھنے والے ، آقا، حاکم ، بااختیار، قابض اور متصرف ہیں۔ وہ ایسی قدرت مطلق کے حامل ہیں کہ کسی سرکش، بڑے سے بڑے قوی اور باجبروت کا ناپاک ہاتھ انکی عظمت اور طاقت کی بلندی کو چھو بھی نہیں سکتا۔

میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور زبان پر دعائیں۔ ساتھ ہی خدا کا شکر گزار تھا کہ اس نے آج ان گناہ گار آنکھوں کو وہ گھر دکھایا جسے ابراہیم، اسماعیل اور نبی کریم علیہم السلام نے دیکھا۔

جاری ہے ---- 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں