"اسلام میں ظاہر اور ضمیر کی اہمیت و تربیت"
خطبہ جمعہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
بشکریہ: اردو مجلس فورم
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 03-ذو الحجہ- 1438 کا خطبہ جمعہ " اسلام میں ظاہر اور ضمیر کی اہمیت و تربیت" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے انسان کو ظاہری طور پر خوبرو بنایا ہے تو اسے دل بھی دیا ہے ، اگر اس کا دل اور ضمیر کمال درجے کا بن جائے تو ظاہری خوبصورتی کو کئی چاند لگ جاتے ہیں، لوگ اگرچہ ظاہری خوبصورتی کو اہمیت دیتے ہیں لیکن اللہ تعالی کے ہاں اصل ضمیر اور دل ہے، جس قدر دل کا تعلق اللہ سے مضبوط ہو گا آسمان و زمین میں انسان کی شہرت اور محبت کا نقارہ بجے گا۔ انہوں نے بتلایا کہ قیامت کے دن ظاہر اور ضمیر دونوں کا احتساب ہو گا چنانچہ اسی چیز کو سمجھ کر انسان اپنے ضمیر کی اصلاح ضرور کرتا ہے کیونکہ آخرت میں کامیابی کا دار و مدار قلبی اور باطنی امور پر ہے اگرچہ ظاہری امور کی بھی وہاں بہت اہمیت ہے۔
خطبے سے منتخب اقتباس پیش خدمت ہے
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، وہ بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، میں معمولی اور ڈھیروں سب نعمتوں پر اسی کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ بہت عظمت اور کرم والی ذات ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ خیرِ عام کے داعی ہیں۔ اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ۔
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں؛ کیونکہ تقوی آخرت کیلیے زادِ راہ، تنگ حالات میں قوت، اور آزمائش کے وقت تحفظ کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔[آل عمران: 102]
اللہ تعالی نے انسان کو بہترین انداز سے پیدا فرمایا، اسے خوبرو بنانے کے ساتھ کامل دل بھی عطا فرمایا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{يَاأَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ (6) الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ (7) فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ}
اے انسان ! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکا دیا [6] جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے ٹھیک ٹھاک کیا اور تجھے متوازن بنایا [7] پھر جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا ۔ [الانفطار: 6 - 8]
انسان کی خوبصورتی دل کے صاف ہونے سے تکمیل کے زینے عبور کرتی ہے اور صاف دل ظاہری خوبصورتی کا حسن دوبالا کر دیتا ہے، نیز یہی دل کی صفائی رنگ روپ کو بار آور بنانے والا جوہر ہے۔
اگرچہ لوگ رنگ روپ کو ہی اہمیت دیتے ہیں اور اسی تک ان کی دوڑ دھوپ ہوتی ہے؛ لیکن اللہ تعالی کی نظر انسان کے دل پر ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی یقینی طور پر تمہاری صورت اور دولت کو نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے)
دل کا تعلق اللہ تعالی کے ساتھ جس قدر مضبوط ہو گا اتنی ہی لوگوں میں محبت اور شہرت پائے گا، لہذا جس بندے کا دل اللہ کی محبت سے معمور ہو تو زمین و آسمان میں کہیں بھی دلوں میں جگہ بنا لے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (یقیناً جس وقت اللہ تعالی کسی بندے سے محبت فرمائے تو جبریل کو بلا کر فرماتا ہے: "میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو" اس پر جبریل بھی اس سے محبت کرتا ہے، پھر آسمان میں صدا لگاتا ہے: "اللہ تعالی فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو" اس پر اہل آسمان بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر پوری زمین پر اس کی مقبولیت پھیلا دی جاتی ہے)
لوگوں کے ظاہر اور باطن سب کو قیامت کے دن حساب کتاب میں شامل کیا جائے گا، فرمان باری تعالی ہے:
{وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا}
جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ؛ کیونکہ کان ،آنکھ اور دل سب سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔[الإسراء: 36]
اتنی گہرائی والا یہ فہم مسلمان کو اپنے دل کی اصلاح کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، اور دل کی اصلاح کے لیے بنیاد یہ ہے کہ معبود کی عبادت خالص نیت کے ساتھ کی جائے؛ کیونکہ نیت ہی بندگی کا راز ہے۔
عبادت مسلمانوں کی ظاہری اور باطنی ہر دو طرح سے تربیت کرتی ہے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر غور و فکر کرنے والے کو ظاہری اور باطنی ہر دو پہلوؤں کا اہتمام واضح ملے گا، مثلاً: مسلمان نماز میں اپنے پروردگار کے سامنے سیدھی صفیں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں، بلکہ شریعت نے صف بندی کو نماز کے قیام میں شامل کیا ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ لوگوں کو صفیں سیدھی کرنے کا حکم دیتے اور فرماتے : (اللہ کے بندو! تم اپنی صفیں سیدھی کر لو، وگرنہ اللہ تمہارے چہروں کو ایک دوسرے سے موڑ دے گا)
اسی طرح ہم ظاہری طہارت اور باطنی پاکیزگی کا اہتمام مناسک حج میں بھی واضح دیکھتے ہیں؛ چنانچہ مسلمان کا حج بیت اللہ کے لیے گھر سے چلنا اللہ تعالی کے حکم کی ظاہری اور باطنی تعمیل کی اعلی ترین منظر کشی ہے؛ پھر حج کیلیے خاص لباس، نیت، تلبیہ اور ذکرِ الہی اس مفہوم کو مزید تقویت دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ}
حج کے مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کر لے وہ حج میں بیہودگی، گناہ اور لڑائی جھگڑا نہ کرے، تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالی باخبر ہے اور اپنے ساتھ زادِ راہ لے لو سب سے بہتر زادِ راہ تقوی الہی ہے اور اے عقلمندو ! مجھ سے ڈرتے رہو۔ [البقرة: 197]
ایسے ہی حبیب اور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام میں باطن کی قدر و قیمت ہمارے سامنے رکھی کہ اللہ تعالی کی نظریں تمہارے باطن پر ہیں، آپ نے فرمایا: (لوگو! یقیناً تمہارا پروردگار ایک ہے، تم سب کا والد بھی ایک ہے۔ سن لو! کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر ، نہ کسی گورے کو سیاہ پر نہ ہی کسی سیاہ کو گورے پر تقوی کے بغیر فوقیت حاصل نہیں ہے۔)
ہر مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی سے ظاہری اور باطنی دونوں طرح کا تعلق ہوتا ہے، چنانچہ مسلمان جب بھی اپنے بھائی سے ملتا ہے تو ظاہری طور پر خندہ پیشانی سے ملتا ہے اور ساتھ ہی باطنی طور پر سچے دل سے اس کے لیے دعائیں کرتا ہے، خیر سگالی جذبات کے ساتھ محبت کا اظہار بھی کرتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کوئی بھی مسلمان آدمی اپنے بھائی کے لیے پیٹھ پیچھے دعا کرے تو فرشتہ لازمی کہتا ہے کہ: "تمہیں بھی یہ سب کچھ ملے")
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ظاہری طور پر دیگر مسلمان محفوظ رہیں نیز حسد اور ۔
کینے جیسی بیماری سے باطنی طور پر محفوظ ہوں،
اسلامی اخوت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے بھائی کی ظاہری طور قلم اور کلام کے ذریعے مدد کریں ، نیز باطنی طور پر قلب و ذہن کے ذریعے بھی مدد کریں۔ ہر مسلمان پر مسلمانوں کے مسائل کی اپنے مال، اثر و رسوخ، اظہار رائے اور اللہ سے دعا کے ذریعے تائید کرنا واجب ہے
اگر مسلمان کوئی حکم صادر کرنا چاہیے تو اسے اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ لوگوں کی جاسوسی کرے اور ان کے خلاف تاک میں رہے، اللہ تعالی کو دلوں کے بھیدوں کا علم ہے چنانچہ ان کا حساب بھی وہی ذات لے گی جس کے سامنے کوئی خفیہ ترین چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے۔
اس لیے مسلمانوں کے ضمیر پر شک کرنا ان کی نیتوں پر حکم لگانا حقیقت میں مسلمان کی عزت اور احترام سے متصادم ہے، یہ مسلمانوں کے مقام اور مرتبے کو ٹھیس پہنچانے اور ان کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی طرف لے جائے گا۔
ایمان کے اثرات آزمائش میں ظاہر ہوتے ہیں: ظاہری طور پر صبر کی صورت میں اور باطنی طور پر امیدِ اجر کی صورت میں؛ لہذا مسلمان اپنے آپ کو بے قابو نہیں ہونے دیتا ، نہ ہی اللہ تعالی کے ساتھ ادب و احترام کا پیمانہ لبریز ہونے دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا [اپنے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر]فرمان ہے: (آنکھیں اشکبار ہیں اور دل افسردہ ہے، پھر بھی ہم وہی بات کریں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہو گی: "ابراہیم! ہم تمہاری جدائی پر یقیناً غم زدہ ہیں!")
اللہ تعالی کی یہ وسیع رحمت ہے کہ انسان کے لیے ایمانی اڈے قائم فرمائے جہاں پر انسان رک کر ایسی چیزیں حاصل کر سکتا ہے جن سے قلبی تزکیہ ہو اور ظاہر کی نشو و نما ہو، ایسے ہی عظیم اور بابرکت ایام جن میں اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے عشرہ ذو الحجہ کے دن ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ}
قسم ہے فجر کے وقت کی [1] اور قسم ہے [عشرہ ذو الحجہ کی]دس راتوں کی۔[الفجر: 1، 2]
اور انہی ایام کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ان ایام میں کئے ہوئے عمل سے بڑھ کر کوئی بھی عمل نہیں ہے) تو صحابہ کرام نے عرض کیا: " جہاد بھی افضل نہیں ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جہاد بھی افضل نہیں ہے، ما سوائے اس صورت کے کہ: کوئی شخص اپنا مال اور جان جوکھوں میں ڈالے اور ان میں سے کچھ بھی واپس نہ آئے) بخاری
انہی ایام کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ان ایام میں کثرت سے اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، اور الحمد للہ کا ورد کرو)
چنانچہ عشرہ ذوالحجہ سمیت تمام ایام تشریق میں ہر وقت تکبیرات کہنا مسنون ہے کہ عشرہ ذوالحجہ شروع ہوتے ہی آخری یوم تشریق تک تکبیرات کہیں[انہیں تکبیرات مطلق کہتے ہیں]، جبکہ نمازوں کے بعد کی تکبیریں یوم عرفہ کو فجر کی نماز سے لے کر آخری یوم تشریق کے دن سورج غروب ہونے تک جاری رہتی ہیں[انہیں تکبیرات مقید کہتے ہیں]۔
الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، والله أكبر الله أكبر ولله الحمد
اس عشرے کے اعمال میں قربانی ذبح کر کے قرب الہی کی جستجو بھی شامل ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (یوم النحر [دس ذو الحجہ عید الاضحی] کے دن کیے ہوئے اعمال میں سے اللہ کے ہاں قربانی سے زیادہ کوئی محبوب عمل نہیں)
اسی عشرے کے اعمال میں غیر حجاج کے لیے یوم عرفہ کا روزہ بھی شامل ہے، اس دن کا روزہ افضل ترین روزہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (یوم عرفہ کے متعلق مجھے اللہ سے امید ہے کہ یہ گزشتہ اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے)
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے اعمال کی توفیق مانگتے ہیں، نیز جہنم اور اس کے قریب کرنے والے تمام اعمال سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہم تجھ سے ہر قسم کی خیر کا سوال کرتے ہیں چاہے وہ فوری ملنے والی یا تاخیر سے، ہمیں اس کے بارے میں علم ہے یا نہیں۔ اور اسی طرح یا اللہ! ہم ہر قسم کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں چاہے وہ فوری آنے والا ہے یا تاخیر سے، ہمیں اس کے بارے میں علم یا نہیں۔
یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے لے کر انتہا تک ہر قسم کی جامع خیر کا سوال کرتے ہیں، شروع سے لے کر اختتام تک ، اول سے آخر تک ، ظاہری ہو یا باطنی سب کا سوال کرتے ہیں، اور جنت میں بلند درجات کے سوالی ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! حجاج کرام کی حفاظت فرما، یا اللہ! حجاج کرام کی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں ہر قسم کے شر اور گناہوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! تمام حجاج کرام کو صحیح سلامت اور اجر و ثواب کے ساتھ اپنے اپنے گھروں تک واپس لوٹا، یا ارحم الراحمین!
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں