ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر ۔۔۔ حصہ- 12

ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ-12

منیٰ کا خیمہ
خیمے میں اب بھی اکثر لوگ سورہے تھے۔ کچھ دیر بعد مجھے باتھ روم کی حاجت ہوئی لیکن باتھ رومز کا تو منظر ہی کچھ اور تھا۔ وہاں طویل لائینیں لگی ہوئی تھیں۔ بہرحال فراغت کے بعد واپس ہی آیا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ یہ بارش قریب بارہ بجے تیز ہوئی اور عصر تک جاری رہی۔ خیموں میں پانی تو نہیں بھرا البتہ عورتوں کی سائیڈ پر پانی آگیا۔لوگ بارش کے نافع ہونے اور اس کے ضرر سے بچنے کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ بارش کافی طوفانی تھی اور جدہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ خدا خدا کرکے بارش رکی۔ اور سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ بعد میں علم ہوا کہ اس بارش سے خاص طور جدہ میں بڑی تباہی ہوئی ہے اور ہزاروں لوگ اس سیلاب کی نظر ہوگئے۔

حج کا فرض اسلام سے قبل بھی ادا کیا جاتا تھا اور مشرکین مکہ منی میں قیام کے دوران شعرو شاعری کی محفلیں منعقد کرتے، اپنے آباو اجداد کے قصے بیان کرتے، جگت بازی کرتے، کہانیاں و قصے بیان کرتے اور دیگر باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کے رویے پر تنقید کی اور مسلمانوں کو ان خرافات سے بچنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ ہدایت بھی کہ اللہ کا ذکر اپنے آبا و اجداد کے ذکر سے بڑھ کر کرو اور اللہ کی حمدو ثنا کرو۔

میں نے مشاہدہ کیا کہ مسلمانوں کی اکثریت اس حکم پر عمل کرنے سے قاصر تھی۔ کوئی فون پر باتوں میں مشغول تھا تو کوئی سیاست پر اپنے خیالات کا اظہار کررہا تھا۔ کسی کو اپنے بچے یاد آرہے تھے تو کوئی وقت پاس کرنے کے لئے اونگھ رہا تھا۔ کبھی کبھی لبیک کی صدائیں بلند ہوجاتی تھیں اور اس کے بعد پھر وہی دنیا۔ حالانکہ یہ وہ موقع تھا کہ لوگ اپنا احتساب کرتے، اپنے گناہوں کی لسٹ بنا کر ان پر توبہ کرتے، انہیں دور کرنے کی پلاننگ کرتے۔ اچھائیوں کو اپنانے کا عہد کرتے، نیکیوں میں سبقت لے جانی کی منصوبہ بندی کرتے ۔ سب سے بڑھ کر اللہ کو یاد کرتے، اس کی حمدو ثنا کرتے، اس کی بڑائی بیان کرتے، اس سے محبت کا اظہار کرتے ، اس کی رحمتوں کو گن کر شکر کرتے اور آئندہ ہر مشکل میں اس پر توکل کے ساتھ صبر کرنے کا عزم کرتے۔انہی اقدام کی بدولت وہ طاغوت کے خلاف جنگ میں اس حج کے موقع پرکامیاب ہوسکتے اور جنت کے حصول کی تمنا کرسکتے تھے۔ اس قسم کا ذوق لوگوں میں اسی وقت پیدا کیا جاسکتا تھا جب انہیں اس بارے میں تربیت فراہم کی گئی ہو ۔ لیکن ہمارے مذہبی حلقے میں عام طور پر ظاہری فقہ کی تو تعلیم دی جاتی ہے لیکن باطن کی صفائی کا اہتمام نہیں کیا جاتا اور لوگوں کو بغیر کسی تعلیم وتربیت کے یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔

عرفات میں پڑاؤ
۸ ذی الحج کا پورا دن بارش کی نظر ہوا اور مغر ب تک مطلع صاف ہوچکا تھا۔ اکثر لوگ منیٰ میں نمازیں اپنے اپنے وقت پر قصر کرکے پڑھتے ہیں۔ البتہ احناف نماز قصر نہیں کرتے بلکہ وہ پوری ہی نماز پڑھتے ہیں۔ منیٰ میں ایک عجیب خبر سنی۔ اسمٰعیل صاحب جنہیں اسپتال میں داخل کرادیا تھا ان کے بارے میں رافع نے بتایا کہ وہ اسپتال سے فرار ہوچکے ہیں تاکہ حج کے مناسک انجام دے سکیں۔ رافع نے مزید کہا کہ ان کا ہم سے ملنا خاصا مشکل ہے کیونکہ ان کے پاؤں چلنے کا قابل نہیں تھے۔

عشاء کی نماز کے بعد اگلی منزل عرفات کا میدان تھا۔ بس تقریباً بارہ بجے رات میں آئی اور ہم لوگ بس میں سوار ہوگئے۔ کچھ لوگ بس میں بیٹھنے سے رہ گئے اور دوسری بس کا انتظار کرنے لگے جبکہ کچھ نوجوان چھت پر بھی بیٹھ گئے۔ عرفات پہنچتے پہنچتے رات کے دو بج چکے تھے۔ وہاں کے خیموں پر قالین بچھی ہوئی تھی جو بارش کے باعث گیلی ہوگئی تھی۔ چار سو اندھیرے کا راج تھا۔ میں نمی سے بچنے کے ٖلئے چٹائی بچھا کر لیٹ گیا۔

نیند دوبار کچی پکی آرہی تھی۔میرے تخیل میں دوبارہ اسی تمثیلی جنگ کا نقشہ سامنے آنے لگا۔ابلیس کی افواج بھی اپنا پڑاؤ بدل کر عرفات پہنچ چکی تھیں۔ ان شریروں کا مقصد حاجیوں کو تزکیہ و تربیت حاصل نہ کرنے دینا اور مناسک حج کی ادائیگی میں خلل پیدا کرنا تھا۔ لیکن اس مرتبہ شیطانی کیمپ میں ایک اضطراب اور بےچینی تھی۔ رحمانی لشکراپنی پوزیشن لے چکا تھا۔ اور اب وہ ایسے میدان میں تھا جو خدا کی رحمتوں کامنبع تھا۔ آج کے دن خد انے بے شمار لوگوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ دینا تھا۔ آج فرشتوں کے نزول کا دن تھا۔ چنانچہ شیطان کو اپنی شکست سامنے نظر آرہی تھی لیکن وہ اپنی اسی ہٹ دھرمی پر اڑا ہوا تھا۔ اس کے چیلے گشت کررہے تھے اور اپنے شکار منتخب کررہے تھے۔ ان کا نشانہ زیادہ تر کمزور مسلمان تھے جو علم و عمل میں کمزور تھے۔یہ وہ مسلمان تھے جنہوں نے دین کا درست علم حاصل نہیں کیا تھا اور زیادہ تر نفس کے تقاضوں کے تحت ہی زندگی گذاری تھی۔ اس سے بڑھ یہ کہ یہ لوگ اس عظیم جہاد کی حقیقت سے بھی نابلد تھے۔

عرفات کی صبح
صبح میری آنکھ کھلی تو فجر پڑھی اور پھر سوگیا۔ پھر صبح کو گیارہ بجے آنکھ کھلی۔ دیکھا تو اسمٰعیل صاحب سامنے بیٹھے تھے۔ وہ اسپتال سے فرار ہوکر ہمارا کیمپ جوائین کرچکے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے معجزوں پر ایک بار پھر یقین آگیا۔ اللہ نے انکے جذبے کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے پیروں کو چلنے کی طاقت بھی عطا کی اور عافیت کے ساتھ کیمپ بھی پہنچادیا۔

صبح اٹھ کر ہلکا پھلکا ناشہ کیا۔ اسی اثناء میں آفتاب کا فون آیا۔ وہ بھی حج کرنے اپنےساتھیوں کے ساتھ موجود تھا اور مجھے مسجد نمرہ بلا رہا تھا۔ میں نے انکار کردیا کیونکہ مسجد نمرہ میرے کیمپ سے خاصی دور تھی اور وہاں بھٹک جانے کا اندیشہ تھا۔

عرفات کا میدان کافی بڑا ہے اور اس میں لاکھوں حجاج کو سمولینے کی گنجائش ہے۔ اس میں ایک پہاڑی جبل رحمت ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبہ دیا تھا۔ یہاں ایک مشہور مسجد۔۔ مسجد نمرہ موجود ہے جہاں اما م حج کا خطبہ دیتا ہے۔ یہ امام امت مسلمہ کا لیڈر یا اس لیڈر کا نمائندہ ہوتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو خدا سے کیا ہوا عہد یاد دلاتا، انہیں شیطان اور نفس کے فریب سے بچنے کی ترغیب دیتا اور شیطان کو اس علامتی جنگ میں شکست دینے کی ہدایات جاری کرتا ہے۔

میں نے ارد گرد کا جائزہ لیا تو وہاں شامیانے لگے ہوئے تھے۔ قریب میں بنگالی بھائیوں کے کیمپ بھی تھے۔ باتھ روم اس مرتبہ خالی تھے اور کوئی لائین نہیں لگی ہوئی تھی۔ دھوپ خاصی تیز تھی جس کی بنا پر گیلے قالین سوکھ چکے تھے۔ مولانا یحییٰ نےبتایا کہ وقوف عرفہ کا وقت زوال کے فوراً بعد شروع ہوجاتا اور غروب آفتاب تک جاری رہتا ہے۔ یہاں حاجی کا قیام حج کا رکن اعظم ہے اور اگر کوئی حاجی یہاں وقوف کرنے سے رہ جائے تو تو اس کا حج نہیں ہوتا۔ یہاں مناسب تو یہی ہے کہ کھلے آسمان کے نیچے برہنہ پا کھڑے ہوکر دعائیں مانگی جائیں لیکن تھکاوٹ کی صورت میں بیٹھنا یا لیٹنا ممنوع نہیں۔ یہاں ظہر اور عصر کی نمازیں قصر کرکے اور ملا کر یعنی ایک ہی وقت میں پڑھتے ہیں البتہ احناف اس کے قائل نہیں ہیں۔

جتنی دعائیں یاد تھیں۔۔۔
ظہر کے بعد وقوف شروع ہوگیا۔ لوگ باہر نکل کر بلند آوازمیں دعائیں کررہے تھے جس سے ارد گرد کے لوگ ڈسٹرب ہورہے تھے۔ میں نے سوچا کہ کوئی گوشہ تنہائی تلاش کی جائے چنانچہ میں بس اسٹینڈ کے پیچھے جگہ تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ موسم خوشگوار ہوچلا تھا اور بادلوں کی آمدو رفت تھے۔ کافی دور چلنے کے باوجود مجھے کوئی مناسب جگہ نہ مل پائی چنانچہ میں واپس کیمپ میں ہی آگیا۔ یہاں کھانا کھایا اور پھر برہنہ پا ہوکر باہر نکلا اور قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوگیا۔یہاں رب کی حمد وثنا بیان کی اور اور دعاؤں میں مشغول ہوگیا۔یہاں میں لبیک کہتا رہا ، اپنے رب کے بلاوے پر۔
میں کہتا رہا کہ’’ میں حاضر ہوں تیرے احسان کے بوجھ کے ساتھ کہ یہ ساری نعمتیں تیری ہی عطا کردہ اور عنایت ہیں۔ میری آنکھوں کی بینائی تیری دین، میرے کانوں کی سماعت تیری عطا، میرے سانسوں کے زیر و بم تیرا کرم، میرے دل کی دھڑکن تیری بخشش، میرے خون کی گردش تیری سخاوت، میرے دہن کا کلام تیرا لطف، میرے قدموں کی جنبش تیراا حسان ہے۔کوئی ان کو بنانے میں تیرا ساجھی، تیرا معاون اور شریک نہیں۔
میں حا ضر ہوں اس عجزکے ساتھ کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ تیری ملکیت ہے، یہ زمین تیری ، آسمان تیرا، سورج ، چاندستارے تیرے، پہاڑ تیرے ، میدان تیرے ، دریا و سمندر تیرے ہیں۔یہ میرا گھر، میرا مال، میری دولت، میرا جسم، میرے اہل و عیال میرے نہیں تیرے ہیں۔ کوئی ان کو بنانے اور عطا کرنےمیں تیر ا شریک نہیں ۔ پس تیرا اختیارہے توجس طرح چاہے اپنی ملکیت پرتصرف کرے ۔
میں حاضر ہوں اپنے تمام گناہوں کے بار کےساتھ کہ تو انہیں بخش دے، اپنی تمام خطاؤں کے ساتھ کہ تو انہیں معاف کردے، اپنے تمام بدنما داغوں کے ساتھ کہ تو انہیں دھودے، اپنی تمام ظاہری و باطنی بیماریوں کے ساتھ کہ تو ان کا علاج کردے ،اپنے من کے کھوٹ کے ساتھ کہ تو اسے دور کردے ، اپنی نگاہوں کی گستاخیوں کے ساتھ کہ تو ان سے چشم پوشی کرلے، اپنی کانوں کی گناہ گار سماعت کے ساتھ کہ تو اس کا اثر ختم کردے، اپنے ہاتھوں کی ناجائز جنبشوں کے ساتھ کہ تو ان سے درگذر کرلے، اپنے قدموں کی گناہ گار چال کے ساتھ کہ تو انہیں اپنی راہ پر ڈال دےاوربدکلامی کرنے والی زبان کے ساتھ کہ تو اس کو اپنی باتوں کے لئے خاص کرلے۔
میں حاضر ہوں اور پناہ مانگتا ہوں تیری رضامندی کی ،تیرے غصے سے اور تیری مغفرت کی ،تیرے عذاب سے اور میں تجھ سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں ۔میں تیری تعریف کر ہی نہیں سکتا پس تو ایسا ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔
میں حاضر ہوں شیطان سے لڑنے کے لئے، نفس کےناجائز تقاضوں سے نبٹنے کے لئے، خود کوتیرے سپرد کرنے کے لئے اور اپنا وجود قربان کرنے کے لئے۔پس اے پاک پروردگار! میرا جینا، میرا مرنا، میری نماز، میری قربانی، میرا دماغ ، میرا دل، میرا گوشت، میرا لہو، میرے عضلات اورمیری ہڈیاں غرض میرا پورا وجود اپنے لئے خاص کرلے۔
حاضر ہوں ، اے میرے رب میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔بے شک تو ہی تعریف کے لائق ہے اور نعمت تیری ہی ہے، بادشاہی تیری ہی ہے،تیرا کوئی شریک نہیں۔

اہل ایمان ادھر خدا سے مناجات میں مصروف تھے اور دوسری جانب طاغوتی لشکر اپنے کام میں مصروف تھا۔ چنانچہ بہت سے لوگوں کو شیطانی چیلے یہ درس دے رہے تھے کہ اب بہت دعا مانگ لی اب بس کرو، کچھ کو انہوں نے دنیاوی باتوں میں مصروف کررکھا تھا، کچھ کو کھانے پینے میں لگادیا تھا تو کچھ کو تھکاوٹ کاحساس دلا کر نڈھال کرنے کی سعی کی تھی۔

مغرب کا وقت
سورج اپنی منزل جانب رواں دواں تھا اور اہل ایمان اپنی منزل کی جانب۔ ارد گرد لوگ تھک کر بیٹھ گئے تھے اور کچھ باتوں میں مصروف تھے۔ اصل میں وہی مسئلہ سامنے آیا کہ ہمارے مسلمان بھائی دعا کے فلسفے سے ناآشنا ہونے کی بنا پر کچھ ہی دیر میں دعا سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں ۔ کچھ دیر بعد مولانا یحییٰ نے اجتماعی دعا کرائی جو خاصی رقت آمیز تھی ۔ اس نے کئی آنکھوں کو اشکبار کردیا ۔ دعا کے دوران مغرب ہوگئی لیکن اب رب کا حکم یہ تھا کہ یہ مغرب مؤخر کرنی ہے اور اسے اگلے پڑاؤ مزدلفہ میں جاکر ادا کرنا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں