تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ- 2
لبیک
ہماری فلائٹ رات ایک بج کر بیس منٹ پر تھی۔ میں نے لاؤنج میں اردگرد نگاہ ڈالی تو سب ہی مرد حضرات سفید احرام میں ملبوس تھے اور یہ منظر انتہائی دلفریب لگ رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے عمرے کی نیت کرلی تھی ۔تقریباً رات کے ایک بجے ہم جہاز میں سوار ہوئے۔ رن وے پر اس وقت تاریکی کاراج تھا لیکن فضا ساکت اور خوشگوار تھی۔ جہاز تقریباً آدھے گھنٹے لیٹ تھا۔میری بائیں جانب ایک بزرگ بیٹھے تھے جبکہ دائیں جانب میں نے اپنی بیوی کو بٹھا یا تھا۔ جہاز نے ہولے ہولے سرکنا شروع کیا اور میں نےبھی تلبیہ پڑھ عمرے کی نیت کرلی۔ طیارے کی فضا میں لبیک کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔
لبیک اللہم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک۔
یہ تلبیہ پڑھتے ہی اپنے رب کے بلاوے پر بندہ اپنے مال و اسباب کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے :
اے رب میں حاضر ہوں ، حاضر ہوں کہ تیرا کوئی شریک نہیں، تعریف تیرے ہی لئے، نعمت تیری ہی ہے اور تیری ہی بادشاہی ہے جس میں تیرا کوئی شریک نہیں۔
یہ ترانہ پڑھتے ہوئے بندہ اپنی وفاداری کا اظہار کرکے،اپنا مورال بلند کرتا او ر یقینی فتح کے نشے میں جھومتے ہوئے دشمن کے تعاقب میں نکل چکا ہے۔ وہ دشمن جو اس کا ازلی دشمن ہے جس نے اس کے آباو اجداد کو جنت سے نکلوایا اور اب بھی اس کوشش میں مصروف ہے کہ اسے شکست دے سکے۔
پاکستان سے جانے والوں کے لئے فضا میں ہی نیت کرنا لازمی ہوتا ہے کیونکہ جہاز فضا ہی میں میقات پر سے گذرجاتا ہے۔ میقات وہ حرم کی حدود ہے جس سےباہر احرام باندھنا اور اس کی نیت کرنا باہر سے آنے والوں کے ضروری ہوتا ہے۔
شیطان اور انسان
جہاز فضا میں بلند ہوتا گیا اور میرا ذہن ماضی کے دھندلکوں میں گم ہونے لگا۔میں چشم تصور میں اس زمانے میں پہنچ گیا جب انسان کی تخلیق ہونے والی تھی۔اللہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ زمین پر ایک ایسی ہستی کو بھیجنے والے ہیں جسے دنیا میں بھیج کر آزمایا جائے گا۔اس فیصلے سے قبل اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے تمام انسانی ارواح کو نکال کر اس آزمائش کے بارے میں بتایا اور ان کے سامنے ارادہ و اختیار کی امانت پیش کی جسے انسان نے بہ رضا و رغبت قبول کرلیا۔اس کے بعد اللہ نے اپنا تعارف کروایا اور اپنی توحید کا شعور انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا۔انسان کو یہ واضح طور پر بتادیا گیا کہ اس آزمائش میں اللہ کی وفاداری میں کامیابی کا نتیجہ جنت کی کبھی نہ ختم ہونے والی نعمتیں ہیں جبکہ سرکشوں کا ٹھکانہ جہنم کے گڑھے ہیں۔
انسان تخلیق کرنے سے قبل اللہ نے دیگر مخلوقات کو بھی اپنے اس منصوبے سے آگاہ کیا۔ ان مخلوقات میں جنات اور فرشتے شامل تھے۔ فرشتوں نے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ اگر انسان کو ارادہ و اختیار دے کر دنیا میں بھیجا گیا تو یہ بڑا خون خرابا اور فساد برپا کرے گا۔ خدا نے جواب دیا:
"ہاں ایسا تو ہوگا لیکن انہی لوگوں میں انبیاء، شہداء ، صدیقین اور نیک لوگ بھی پیدا ہونگے جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر میری وفاداری نبھائیں گے اور میرے لئے اپنی جان اور اپنا مال قربان کریں گے ۔یہ سیج انہی کے لئے سجائی جارہی ہے ۔ باقی جو نافرمانوں کی گھاس پھونس ہے اسے میں جہنم کے ایندھن کے طور پر استعمال کروں گا"۔
پھر اللہ نے اپنے ہاتھوں سے کھنکھناتی مٹی سے آدم کو تخلیق کیا اور فرشتوں حکم دیا کہ وہ سجدے میں گر جائیں۔اس سجدے کا مطلب یہ تھا کہ انسان دنیا میں محدود معنوں میں بادشاہ اور حاکم کی حیثیت سے بنے گا ۔یہ خدا کی مشیت کے مطابق اس دنیا میں مسکن بنائے گا، تمدن کی تعمیر کرے گا، کائنات مسخر کرے گا، اپنی مرضی سے خیر و شر کا انتخاب کرے گا اور آزمائش کے مراحل طے کرکے اپنی جنت یا دوزخ کا انتخاب کرے گا۔ اس سارے عمل میں فرشتوں اور جنات کو انسان کے سامنے عمومی طور پر سرنگوں رہنا اور اس آزمائشی عمل میں روڑے اٹکانے سےگریز کرنا لازم تھا ۔
یہ حکم صرف فرشتوں ہی کے لئے نہیں تھا بلکہ ان کی مانند دیگر مخلوقات کے لئے بھی تھا جن میں جنات بھی شامل تھے۔ انہی جنوں میں سےایک جن عزازیل نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ سجدے سے انکار درحقیقت خدا کی اسکیم سے بغاوت کا اعلان تھا ۔ خدا نے جب شیطان سےپوچھا کہ تونے سجدہ کیوں نہ کیا؟ ؟ تو اس نے کہا کہ میں اس انسان سے بہتر ہوں۔میں آگ اور یہ مٹی۔چنانچہ اللہ نے شیطان کو مردود بنادیا ۔ لیکن شیطان جھک جانے کی بجائے اکڑ گیا اور وہ خدا کو چیلنج دے بیٹھا:
"اے خداوند! تیری عزت کی قسم! میں نچلا نہیں بیٹھنے والا۔میں اس انسان کو تجھ سے گمراہ کردوں گا، میں اس کی گفتگو، میل جول، لباس، تمدن و تہذیب غرض ہر راستے سے اس پر نقب لگاؤنگا تاکہ اسے تیری وفاداری و بندگی سے برگشتہ کردوں اور تو ان میں سے اکثر لوگوں کو گمراہ اور بھٹکا ہوا پائے گا۔ بس تو مجھے قیامت کے دن تک کی مہلت دے دے”۔
شیطان نے یہ مہلت اس لئے مانگی تھی تاکہ وہ انسان کو منزل مقصود یعنی جنت تک نہ پہنچنے دے۔ لیکن اللہ کو اپنے چنے ہوئے اور متقی بندوں پر اعتماد تھا اس لئے اللہ نے فرمایا:
"جا تجھے اجازت ہے۔ تو اپنے پیادے اور سوار سب لشکر لے آ۔لیکن تیرا اختیار صرف وسوسے ڈالنے اور بہکانے کی حد تک ہے۔ پھر جس نے بھی تیری پیروی کی تو میں ان سب کو تیرے ساتھ جہنم میں ڈال دونگا جبکہ میرے چنے ہوئے بندوں پر تیرا کوئی اختیا ر نہ ہوگا”۔
اس چیلنج کے بعد اللہ نے حضرت آدم اور انکی بیوی کو جنت میں بسادیا اور جنت کی تمام نعمتیں ان پر ظاہر کر دیں۔ بس ایک پابندی تھی کہ وہ ایک مخصوص درخت کا پھل نہیں کھائیں گے۔ لیکن شیطان نے انہیں ورغلایا کیونکہ وہ ان کا ازلی دشمن تھا۔ یہاں تک کہ اس نے انہیں اس درخت کا پھل کھانے پر مجبور کردیا اور یوں وہ اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوگئے۔لیکن شیطانی رویے کے برعکس دونوں اللہ کے سامنے عجزو انکساری کا پیکر بن گئے اور رجوع کرلیا۔ چنانچہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ۔ اس کے بعد اللہ نے انہیں دنیا میں بھیجا اور ساتھ ہی یہ ہدایات بھی کیں ۔
"اے آدم، اس تجربے سے سبق حاصل کرنے کے بعد اب تم اپنی بیوی کے ساتھ زمین میں اترو اور ساتھ ہی یہ مردود شیطان بھی۔ تم دونوں ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ تمہیں ایک مقررہ مدت تک اسی زمین میں جینا اور یہیں مرنا ہے اور اسی زمین سے تم دوبارہ زندہ کرکے آخرت کی جوابدہی کے لئے اٹھائے جاؤگے۔بس اپنے اس ازلی دشمن ابلیس اور نفس امارہ سے بچ کر رہنا۔
میں نے تمہاری فطرت میں خیر اور شر کا بنیادی شعور رکھ دیا ہے ۔ اسی کے ساتھ ہی میں نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہدایت کا بندوبست بھی کیا ہے۔ چنانچہ جس کسی کے پاس بھی یہ نور ہدایت پہنچے اور وہ اس کی پیروی کرے تو وہ شیطان کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گا ۔یاد رکھو شیطان اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تمہارا گمان بھی نہیں ہوتا۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تمہیں فحاشی، خدا سے بغاوت، ظلم و عدوان اور فساد فی الارض کی زندگی میں ملوث رکھے تاکہ تمہیں میری بندگی سے نکال کر لے جائے۔ پس جس نے میرا کہا مانا تو وہ میراوفادار ہے اور جس نے اس کی بات مانی تومیری بندگی سے نکل گیا”۔
شیطا ن کا چیلنج اور حج
شیطان کا چیلنج آج بھی موجود ہے۔ وہ اور اس کے چیلے مصروف ہیں کہ کسی طرح انسان کو اس امتحان میں فیل کرواکے خدا کے انتخاب کو غلط ثابت کروادیں ۔ چنانچہ ہر دور میں شیطان نے انسان پر نقب لگائی اور اسے راہ راست سے بھٹکانے کی کوشش کی۔ شیطان کے ہتھکنڈے بڑے مؤثر نکلے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان کبھی شرک و الحاد کی غلاظتوں میں لت پت ہوا تو کبھی مادہ پرستی سے دامن کو داغدار کیا۔ کبھی جنسی بے راہ روی کو اپنایا تو کبھی معاشی فساد کو پھیلایا۔
شیطانی سازشوں کے باوجود ہر دور میں خدا کے ایسے بندے ضرور موجود رہے جنہوں نے خود کو ان آلائشوں سے پاک رکھا لیکن اکثریت نے شیطان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اپنے نفس کو آلودہ کردیا ۔ اس آٖلودگی کو دور کرنے کے لئے اللہ نے انسان کے لئے کئی اہتمام کئے۔ ایک طرف تو اس نے انسان کے اندر نفس لوامہ یعنی ضمیر میں خیر و شر کا شعور رکھ دیا تاکہ اس کے نفس پر جب بھی غلاظت کا چھینٹا پڑے تو اسے احساس ہوجائے اور وہ توبہ کے ذریعے دوبارہ اسے پاک کرلے۔ دوسری جانب اس نے وحی کا سلسلہ روز اول ہی سے شروع کردیا تاکہ انسان کو خیرو شر کے تعین میں جو ٹھوکر لگ سکتی تھی اس سے بچایا جاسکے۔ اس عظیم الشان اہتمام کے باوجود انسان کا نفس آلودگی کا شکار ہوتا رہا ۔ چنانچہ عبادات کا ایک جامع تربیتی نظام مرتب کیا تاکہ ان آلائشوں سے پاکی اختیار کی جاسکے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں