سعادت حج اور حجاج کرام کی ذمہ داریاں - خطبہ جمعہ مسجد نبوی



فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 26 -ذو القعدہ- 1438 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " سعادت حج اور حجاج کرام کی ذمہ داریاں" ارشاد فرمایا .
جس سے منتخب اقتباس پیش خدمت ہے

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے تزکیۂ نفس فرمایا ،فرائض اور واجبات کے ذریعے نفسوں کو پاک کیا، نیز دلوں کو برائی اور خبیث چیزوں سے تحفظ دینے کے لیے حرام چیزوں کو حرام قرار دیا اور برائیوں کو چھوڑنے کی ترغیب دلائی، پھر دلوں کو ایمانی زندگی عطا کرنے کیلیے واضح نشانیاں نازل فرمائیں، اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ہدایات و بلیغ تعلیمات کو ایمانی زندگی کا ذریعہ قرار دیا، میں بے پناہ نعمتوں پر اسی کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں کہ جنہیں اس کے علاوہ کوئی شمار نہیں کر سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، وہی آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ نے جس جگہ بھی عبادت کی وہاں عبادت کا حق ادا کر دیا، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد - صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم-، انکی آل اور نیکیوں کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تمام صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

مسلمانو!

بیت اللہ کا حج بالغ اور مکلف مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے، ایک سے زیادہ حج نفل ہو گا، چنانچہ جس کو اللہ تعالی نفل یا فرض حج کا موقع دے اور وہ حج کے سارے اعمال مکمل بھی کر لے تو یہ اس پر اللہ تعالی کی جانب سے عظیم نعمت ہے ۔ جو کہ انتہائی بلند مقام ہے، اس میں وسیع مغفرت پنہاں ہے، نیز ایسے حج کا اجر و ثواب بھی متنوع ہے۔

اللہ تعالی جسے فضل سے نوازتے ہوئے حج کا موقع دے تو اس پر خوشی کا اظہار اس کا حق بنتا ہے کہ وہ مسرت کا اظہار کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ} آپ کہہ دیجئے کہ لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے۔ جو کہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں۔ [يونس: 58]

ایک حدیث میں ہے کہ: (ایک عمرہ دوسرے عمرے تک کے درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہی ہے) اس روایت کو بخاری، مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص اللہ کے لیے حج کرے اور اس میں کوئی بیہودگی یا فسق کا کام نہ کرے تو وہ ایسے واپس آتا ہے جس طرح آج اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو) اس کو بھی بخاری، مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "اللہ کے رسول! ہم جہاد کو افضل ترین عمل کہتے ہیں تو کیا ہم جہاد میں شریک نہ ہوں؟" تو آپ  صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: (تمہارے لیے افضل ترین اور خوبصورت ترین جہاد : حج مبرور ہے) بخاری، نسائی

حجاج کرام اور معتمرین اللہ تعالی کے وفد ہیں اور اللہ تعالی اپنے وفد کی نہایت ہی تکریم کرنے والا ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: (حجاج اور معتمرین اللہ کے وفد ہیں، اگر وہ اللہ سے دعا کریں تو اللہ تعالی ان کی دعا قبول فرماتا ہے اور اگر وہ اللہ سے بخشش مانگیں تو اللہ تعالی انہیں بخش دیتا ہے) نسائی

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی  صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: (حاجی کو بخش دیا جاتا ہے اور اس شخص کو بھی جس کے لیے حاجی مغفرت کی دعا کرے) طبرانی، بزار

ایسے ہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی  صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: (کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالی یوم عرفات سے بڑھ کر لوگوں کو جہنم سے آزادی دیتا ہو، اللہ تعالی قریب ہو کر تجلی فرماتا ہے اور پھر فرشتوں کے سامنے فخر سے کہتا ہے: "یہ لوگ کیا چاہتے ہیں!؟") مسلم

حج کا ثواب اور اس میں حاصل ہونے والے فوائد تو صرف اللہ تعالی ہی شمار کر سکتا ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ حج کے فوائد میں سے لوگوں کو اب تک معمولی سے فوائد کا ہی علم ہو سکا ہے؛ کیونکہ جس کا حج اللہ تعالی قبول فرما لے اسے ڈھیروں اجر ملتا ہے۔

حاجی اگرچہ دورانِ حج حاصل ہونے والے فوائد شمار کرنے سے قاصر ہے لیکن پھر بھی اسے دینی اور دنیاوی دونوں ڈھیروں فوائد حاصل ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (27) لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ}
اور لوگوں میں حج کیلیے صدا لگا دے، لوگ تیرے پاس پیادہ آئیں گے۔ اور دور دراز کی تمام راہوں سے دبلے پتلے اونٹوں پر بھی آئیں گے [27] تا کہ وہ اپنے لیے رکھے گئے فوائد حاصل کریں۔[الحج: 27، 28]

یہ بھی حج کی برکتوں میں شامل ہے کہ اگر مسلمان کا حج قبول ہو جائے تو اس کے سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔

حج کی وجہ سے مسلمان کو شیطان سے تحفظ ملتا ہے، حج کے باعث شیطان کی مکاری کمزور پڑ جاتی ہے۔ چنانچہ جو شخص حج کرتے ہوئے مخلص ہو اور سنت پر عمل پیرا رہے تو وہ شیطان کے گمراہ کرنے سے بچ جاتا ہے، اور جس کا حج کوتاہیوں سے پاک رہے تو اس کی بقیہ زندگی بھی گناہوں سے پاک رہتی ہے۔

حج کی توفیق ملنے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا مسلمان پر حق ہے کہ اللہ تعالی نے اسے حج کی توفیق دی اور اس کے اسباب بھی مہیا فرمائے، حج کے لیے ضروری اقدامات، خدمات اور تمام ضروریات کی چیزیں میسر فرمائیں۔

اسی طرح یہ بھی یاد رکھے کہ اللہ تعالی نے حجاج کیلیے بری، بحری اور فضائی تمام راستے آسان بنا دئیے۔ آنے جانے کیلیے پر سکون ذرائع وافر مقدار میں مہیا فرمائے۔ ان کے مالی اخراجات برداشت کرنے کیلیے روزی سے بھی نوازا۔ حرمین شریفین میں امن و استحکام کو برقرار رکھا؛ حالانکہ آج کل فتنے ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر کی مانند امنڈ رہے ہیں ، ان فتنوں میں تباہ کن آتش فشاؤں جیسی جنگیں بپا ہیں، اسی امن و امان کی نعمت کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ}
کیا ہم نے انہیں پرامن حرم عطا نہیں کیا؟! جہاں ہماری طرف سے بطور رزق ہر طرح کے پھل کھچے چلے آتے ہیں ؟ لیکن ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں۔ [القصص: 57]

اللہ تعالی نے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی دعا بیان فرمائی:
{وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا}
اور ہمیں مناسک سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما۔[البقرة: 128] ،
 اس کی تفسیر میں بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: " تو اللہ تعالی نے ان دونوں کی دعا قبول فرمائی اور پھر جبریل کو بھیجا تو انہوں نے مناسک سکھائے " انتہی

لہذا اگر کسی کو حج کی توفیق ملی ہے اور اس کے نصیب میں حج لکھ دیا گیا ہے تو وہ حج کے احکام اور ارکان سیکھے، پھر صحیح طریقے کے مطابق حج ادا کرے تا کہ اس کا حج، حج مبرور بن جائے۔

حج کے ارکان یہ ہیں : احرام کے ساتھ حج یا عمرے کی نیت، عرفات میں وقوف، مزدلفہ کی رات کے بعد طوافِ زیارت، اور سعی۔ چنانچہ اگر کسی سے وقوفِ عرفات چوک جائے تو اس کا حج شروع ہی نہیں ہو سکا۔ نیز حج کا رکن رہ جائے تو اس کے بغیر حج مکمل ہی نہیں ہو گا۔

حج کے واجبات یہ ہیں کہ: میقات سے احرام باندھیں، عرفات میں غروب آفتاب تک وقوف کریں، منی اور مزدلفہ کی راتیں کم ازکم آدھی وہاں گزاریں، کنکریاں ماریں، سرمنڈوائیں، اور طواف الوداع کریں۔

مسلمان کو حج کی سنتوں اور مستحبات کا بھی بھر پور خیال رکھنا چاہیے۔

مسلمان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ احرام کی حالت میں ممنوع کاموں سے بھی مکمل اجتناب کرے اور حج کو باطل کر دینے والی چیزوں سے دور رہے۔

لیکن اگر کوئی شخص حج میں آتا ہی اس لیے ہے کہ مسلمانوں کو گزند پہنچائے، انہیں تکلیف میں مبتلا کرے، حجاج کو مشقت میں ڈالے، مسلمانوں کے خلاف مکاری اور عیاری کرے، لوگوں کی جیبیں کُترے، منشیات پھیلائے، یا کسی بھی کسی قسم کے جرم کا ارتکاب کرے تو اللہ تعالی ایسے فسادی شخص کی گھات میں ہے، اللہ تعالی مسلمانوں کو اس کے شر سے کافی ہے، اللہ تعالی اس کی تمام کارستانی کو غارت فرما دے گا۔

دوسری طرف دور جاہلیت کے لوگ شرک پر ہونے کے باوجود بلد الحرام کی تعظیم کرتے تھے، حتی کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ کے قاتل کو بھی وہاں دیکھتا تھا تو اسے کچھ نہ کہتا۔

بالکل اسی طرح سچا مسلمان بھی اللہ تعالی کی احترام والی اشیا کی تعظیم کرتا ہے، اسلامی اخوت کے تقاضوں کا بھر پور خیال رکھتا ہے، بلکہ اسلامی اخوت کے حقوق کو مکمل تحفظ بھی دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ}
اور جو بھی اللہ تعالی کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے متقی [ہونے کی ایک دلیل] ہے۔[الحج: 32]

یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہمارے اگلے ، پچھلے، خفیہ، اعلانیہ اور جنہیں تو ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے ہمارے سب گناہ معاف فرما، توں ہی پست و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
یا اللہ! یا ذو الجلال و الاکرام! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہمیں ایک لمحے کیلیے بھی ہمارے اپنے رحم و کرم پر مت چھوڑنا، یا اللہ! مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا رب العالمین!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں