ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر ۔۔۔ حصہ- 11

ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ-11

شیطانی کیمپ کے مناظر
میں کروٹیں بدل رہا تھا ۔ غنودگی اور بیداری کی ملی جلی کیفیت تھی۔ اچانک میں تصور کی آنکھ سے اس جنگ کے مناظر دیکھنے لگا۔ اب منظر بالکل واضح تھا۔ اس طرف اہل ایمان تھے اور دوسری جانب شیطان کا لشکر بھی ڈیرے ڈال چکا تھا۔ شیطانی خیموں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ان میں ایک ہلچل بپا تھی۔ رنگ برنگی روشنیوں سے ماحول میں ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ باہر پنڈال لگا تھا جہاں بے ہنگم موسیقی کی تھاپ پر شیطانی رقص جاری تھا۔ کچھ نیم برہنہ عورتیں اپنے مکروہ حسن کے جلوے دکھا رہی تھیں۔ ایک طرف شرابوں کی بوتلیں مزین تھیں جنہیں پیش کرنے کے لیے بدشکل خدام پیش پیش تھے۔ اس پنڈال کے ارد گرد شیاطین کے خیمے نصب تھے جو مختلف رنگ اور ڈیزائین کے تھے۔

سب سے پہلا خیمہ شرک و الحاد کا تھا۔ اس خیمے پر ان گنت بتوں کی تصاویر بنی ہوئی تھیں ۔ خیمے میں موجود شیاطین اپنے سردار کے سامنے ماضی کی کارکردگی پیش کررہے تھے کہ کس طرح انہوں نے انسانیت کو شرک و الحاد کی گمراہیوں میں مبتلا کیا۔نیز وہ اس عظیم موقع پر مستقبل کی منصوبہ بندی کررہے تھے کہ آئندہ کس طرح انسانیت کو شرک میں مبتلا کرنا اور خدا کی توحید سے دور کرنا ہے۔ان کا طریقہ واردات بہت سادہ تھا جس میں خدا کی محبت دل سے نکال کر مخلوق کی محبت دل میں ڈالنا، خدا کے قرب کے لئے ناجائز وسیلے کا تصور پیدا کرنا ، کامیابی کے لئے شارٹ کٹ کا جھانسا دکھانا وغیرہ جیسے اقدام شامل تھے۔

ایک اور خیمے پر عریاں تصایر اور فحش مناظر کی مصوری تھی ۔ یہ عریانیت کے علمبرداروں کی آماجگاہ تھی۔ ان شیاطین کے مقاصد فحاشی عام کرنا، انسانیت کو عریانیت کی تعلیم دینا، نکاح کے مقابلے میں زنا کو پرکشش کرکے دکھانا، ہم جنس پرستی کو فطرت بنا کر پیش کرنا وغیرہ تھے۔ یہاں کے عیار ہر قسم کے ضروری اسلحے سے لیس تھے۔ ان کے پاس جنسی کتابیں، فحش سائیٹس، عریاں فلمیں، فحش شاعری و ادب، دل لبھاتی طوائفیں، جنسیاتی فلسفہ کے دلائل، دجالی تہذیب کے افکار سب موجود تھے۔ ان کا نشانہ خاص طور پر نوجوان تھے جنہوں نے ابھی بلوغت کی دنیا میں قدم ہی رکھا تھا اور وہ ان ایمان فروش شیاطین کے ہتھے چڑھ چکے تھے۔

ایک اور خیمے پر ہتھیاروں کی تصویر آویزاں تھی۔ یہ انسانوں کو لڑوانے والوں کا کیمپ تھا۔ یہاں کا لیڈر اپنے چیلوں سے ان کی کامیابیوں کی رپورٹ لے رہا تھا۔ چیلے فخریہ بتارہے تھے کس طرح انہوں نے انسانیت میں اختلافات پیدا کئے، ان میں تعصب و نفرت کے بیج بوئے، ان کو ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ کیا، انہیں اسلحہ بنانے پر مجبور کیا جنگ کے ذریعے لاکھوں لوگوں کا قلع قمع کیا۔ اس کیمپ کی ذیلی شاخ کا مقصد خاندانی اختلافات پیدا کرنا، میاں بیوی میں تفریق کرانا، ساس بہو کے جھگڑے پیدا کرنا، بدگمانیاں ڈالنا، حسد پیدا کرنا،خود غرضی اور نفسا نفسی کی تعلیم دینا تھا۔
اگلے خیمے پر بڑی سی زبان بنی ہوئی تھی جو اس بات کی علامت تھی کہ یہاں زبان سے متعلق گناہوں ترغیب دی جاتی ہے۔ یہاں کے شریر شیاطین اس بات پر مامور تھے کہ لوگوں کو غیبت ، جھوٹ، چغلی، گالم گلوج، فحش کلامی، بدتمیزی، لڑائی جھگڑا اور تضحیک آمیز گفتگو میں ملوث کرکے انہیں خدا کی نافرمانی پر مجبور کریں۔

ایک اور خیمے پر بلند وبالا عمارات اور کرنسی کی تصاویر چسپاں تھیں۔ یہ دنیا پرستی کو فروغ دینے اور آخرت سے دور کرنے والوں کا کیمپ تھا۔ اس کیمپ میں اسراف، بخل، جوا، سٹہ، مال سے محبت، استکبار، شان و شوکت، لالچ، دھوکے بازی، ملاوٹ، چوری و ڈاکہ زنی، سود اور دیگر معاشی برائیوں کو فروغ دئے جانے کی منصوبہ بندی ہورہی تھی۔ یہاں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا جارہا تھا کہ انسانیت بالعموم اور مسلمان بالخصوص آخرت کو بھول چکے ہیں۔ ا ب ان کی اکثر سرگرمیوں کا مقصود دنیا کی شان و شوکت ہی ہے۔ نیز جو مذہبی جماعتیں دین کے لیے کام کرہی ہیں ان کی اکثریت کا مقصد بھی اقتدار کا حصول ہے نہ کہ آخرت کی فلاح بہبود۔

ایک آخری کیمپ بڑے اہتمام سے بنایا گیا تھا۔ یہ خاص طور پر مسلمانوں کو گمراہ کرنے لئے بنایا گیا تھا تاکہ وہ اپنی اصلاح کرکے دنیا کی راہنمائی کا سبب نہ بن جائیں۔ یہاں مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے قرآن سے دوررکھنے کی باتیں ہو رہی تھیں، یہا ں ان کو نماز روزہ حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے روکنے کا منصوبہ تھا ، یہاں انکی اخلاقی حالت کو پست کرنے کی پلاننگ تھی، انہیں آخرت فراموشی کی تعلیم دی جانی تھی، مغرب پرستی کا درس تھا، دنیا کی محبت کا پیغام تھا۔ اسی کے ساتھ ہی یہاں مسلمانوں کو فرقہ پرستی میں مبتلا کرنے کا بھی اہتما م تھا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے رہیں اور غیر مسلم اقوام تک خدا کا آخری پیغام پہنچانے سے قاصر رہیں۔

رحمانی خیموں کی کیفیت
دوسری جانب اہل ایمان بھی اپنے خیمے گاڑ چکے تھے۔ شیطان کے خلاف جنگ کا میدان سج چکا تھا۔شیطانی کیمپ کے برعکس یہاں خامشی تھی ، سکوت تھا، پاکیزگی تھی، خدا کی رحمتوں کا نزول تھا۔اعلیٰ درجے کے اہل ایمان تعداد میں کم تھے جبکہ اکثر مسلمان شیطان کی کارستانیوں سے نابلد، روحانی طور پر کمزور، اورنفس کی آلودگیوں کا شکار تھے ۔ لیکن یہ سب مسلمان شیطان سے جنگ لڑنے آئے تھے چنانچہ یہ اپنی کمزوریوں کے باوجود خدائے بزرگ و برتر کے مجاہد تھے۔ان فرزندان توحید کو امید تھی کہ خدا ان کی مدد کے لئے فرشتے نازل کرکے انہیں کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔

شیطان کے ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے لئے اللہ مسلمانوں کو پہلے ہی کئی ہتھیاروں سے لیس کرچکے تھے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ شرک و الحاد کا توڑ اللہ کی وحدانیت ، اسے تنہا رب ماننے اور اسے اپنے قریب محسوس کرنے میں تھا۔ فحاشی و عریانی کی ڈھال نکاح ، روزے ، نیچی نگاہیں اور صبر کی صورت میں موجود تھی۔ فرقہ واریت کا توڑ اخوت و بھائی چارے اور یگانگت میں تھا۔ معاشی بے راہ روی کا علاج توکل و قناعت میں پوشیدہ تھا۔ دنیا پرستی کا توڑ آخرت کی یاد تھی۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کے علم میں تو تھا لیکن شیطان کے بہکاووں نے ان تعلیمات کو دھندلا کردیا تھا۔ ایک قلیل تعدا د کے علاوہ اکثر مسلمان ان احکامات کو فراموش کرچکے تھے یا پھر ان کے بارے میں لاپرواہی اور بے اعتنائی کا شکار تھے۔

منٰی کے میدان میں یہ سب فرزندان توحید اسی لئے جمع ہوئے تھے کہ وہ اللہ سے کئے ہوئے عہد کو یاد کریں، وہ اس کے احکامات پر غور کریں، وہ اس کی پسند و ناپسند سے واقفیت حاصل کریں اور اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگ کر آئندہ شیطان کے چنگل سے بچنے کی تربیت حاصل کریں۔ یہاں اہل ایمان کے ہتھیار توکل ،تفویض ، رضا، تقویٰ، قنوت، توبہ اور صبر کی صورت میں ان کے ساتھ تھے۔ان کی مدد سے وہ طاغوتی لشکروں کے حملوں کا جواب دینے کےلئے تیار تھے۔چنانچہ اہل ایمان کے خیموں سے لبیک کی صدائیں بلند ہورہی تھیں ۔ وہ سب اپنے رب کی مدد سے اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لیے بے چین تھے۔

منیٰ کی صبح
صبح فجر کی نماز پڑھی اور دوبارہ سونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ چنانچہ میں قریب نو بجے اٹھا تو سب لوگ خیمے میں سو رہے تھے۔ مجھے نیند آنا مشکل تھی لہٰذا میں باہر نکلا۔ میں نے بیگم کو کہا کہ باہر چلتےہیں لیکن انہوں نے انکار کردیا ۔چنانچہ میں اکیلا ہی اپنے بیگ میں دعاؤں کی کتاب حصن حصین لے کر نکلا ۔ باہر کا موسم بہت سہانا تھا اور آسمان ابر آلود تھا۔ باہر بے شمار لوگ زمین اور ٹیلوں پر لیٹے اور بیٹھے ہوئے تھے۔چنانچہ میں نے بھی سوچا کہ کسی پہاڑی پر چڑھ کر اللہ کی حمد وثنا کروں۔ میں خیمے کی بائیں جانب چلنے لگا۔ کافی دور جاکر ایک پہاڑی نظر آئی جو موزوں لگی۔ میں نے اس پر چڑھنے کا ارادہ کرلیا۔

پہاڑ پرچڑھنے کا میرا کافی وسیع تجربہ تھا اور میں اس قبل مری، حسن ابدال، کاغان، ناران، سوات اور نورانی کے پہاڑوں پر چڑھ چکا تھا ۔ لیکن مکہ کے یہ پہاڑ کالے پتھروں کی چٹانوں کے بنے ہوئے تھے جن پر چڑھنا خاصا دشوار تھا۔نیز احرام کی بنا پر تو چلنا دشوار معلوم ہوتا تھا چہ جائیکہ اوپر چڑھنا۔ بہرحال ایک جگہ منتخب کی اور اوپر چڑھنا شروع کیا۔ ایک دفع تو سلپ ہوتے ہوتے بچا لیکن دوسری کوشش میں اللہ نے مشکل آسان کردی اور میں اوپر آہی گیا۔ میں نے وہاں پڑا ہوا ایک گتا اٹھایا اس پر پر بیٹھنے کا قصد کیا۔

یہاں کافی بڑی تعداد میں لوگ براجمان تھے۔ کچھ لوگوں نے چھوٹے چھوٹے سفری خیمے نصب کئے ہوئے تھے۔یہ زیادہ تر وہ لوگ تھے جو معلم کے بغیر حج کررہے تھے اور یہ غیر قانونی طور پر آئے تھے۔ سعودی حکومت کی جانب سے پابندی ہے کہ حج کرنے کے بعد پانچ سال تک کوئی اور حج نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کی وجہ ان حاجیوں کو موقع فراہم کرنا ہے جو اپنا فرضی حج کررہے ہوں۔ یہ غیر قانونی لوگ متلفی راستوں سے کچھ رقم دے کر عقیدت میں حج کرنے آجاتے ہیں ۔ لیکن ان پر ایک گروہ یہ تنقید کرتا ہے کہ ان کا رویہ درست نہیں کیونکہ اس طرح وہ حکومت وقت کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ دوسری جانب وہ فرضی حج کرنے والے حاجیوں کے وسائل پر بھی تصرف کرتے ہیں جو مناسب نہیں۔

میرے سامنے لوگوں کا ایک جم غفیر تھا چنانچہ میں نے یکسوئی حاصل کرنے کے لئےرخ تبدیل کرلیا ۔ اب میرے سامنے ایک انتہائی بلند پہاڑ تھا۔ آسمان ابھی تک کچھ حصے چھوڑ کر بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ میں نے حصن حصین کی کتا ب نکالی ۔ یہ کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں پر مشتمل ہے۔ میں نے اس میں سے دعائیں منتخب کیں اور حمدو ثنا میں مصروف ہوگیا۔ ہمارے ہاں دعا کو انتہائی محدود معنو ں میں لیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب مال، اولاد، صحت اور دنیاوی مقاصد کی تکمیل کے لئے اللہ کو پکارا جانا سمجھا جاتا ہے۔ نیز کچھ لوگ آخرت اور جنت کی کامیابی بھی مانگ لیتے ہیں لیکن دعا کا ایک انداز کچھ اور بھی ہے۔ یہ دعا اللہ سے باتیں کرنے کا نام ہے۔ یہ اپنے د ل کی بات کہنے کا نام ہے۔ یہ خدا کی حمد و ثنا، تسبیح و تہلیل، اس کی بڑائی بیان کرنے کا موقع ہے۔ اس کی جھلک اگر دیکھنی ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

ارد گرد کا ماحول انتہائی روح پرور تھا چنانچہ جلد ہی روحانیت کے دریچے کھلنے لگے۔ خدا کی عظمت پہاڑ کی شکل میں میرے سامنے موجود تھی۔ اس کی رحمت بادلوں کی صورت میں سایہ فگن تھی، اس کی محبت احساسات کی شکل میرے ذہن میں تھی، اس کی عنایت یاد کی صورت میں مرے دل میں تھی۔

میں رب سے باتیں کرتا رہا اور وہ مجھے اشاروں کنایوں میں جواب دیتا رہا۔ میں بولتا رہا وہ سنتا رہا۔ پھر وہ بولا اور میں نے سنا۔ وہ مجھے میری خطائیں، میرے جرائم، میری سرکشیاں، میری ہٹ دھرمی، میری چالاکیاں گنواتا رہا اور میں کہتا رہا کہ میں خطا کرتا ہوں اور تو معاف کردیتا ہے۔ میں چالاکی دکھاتا ہوں اور تو نظر انداز کرتا ہے، میں بھول جاتا ہوں پر تو یاد رکھتا ہے،میں گناہ کرتا ہوں پر تو پکڑتا نہیں، میں جرم کرتا ہوں اور اور تو لاتصریب کہہ کر چھوڑ دیتا ہے۔ کیونکہ تو عظیم ہے اور میں رذیل، تو آقا ہے اور میں غلام ابن غلام، تو بادشاہوں کا بادشاہ ہے اور میں فقیروں سے بھی حقیر، تو بے حساب عطا کرنے والا ہے، تیرا عرش سب سے بلند ہے، تیرے قبضے میں سب کچھ ہے، تو آسمان و زمین کی ہر شے کا مالک ہے جبکہ میری ملک میں ایک ذرہ بھی نہیں۔ تیرا اذن و اختیار ہر شے پر ہے جبکہ میری قدرت انگلی کو ہلانے تک کی نہیں۔زمین و آسمان اور ساری کائینات کی بادشاہی آج بھی تیری ہے اور کل بھی تیری ہی ہوگی۔ تیری باتیں لکھنے کے لئے اگر تمام درخت قلم اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں تو بھی تیری تعریف بیان نہیں جاسکتی۔ پس تو تو ہے اور میں میں۔ میں خطا کرتا ہوں اور تو معاف کرتا ہے۔

ارد گرد کا ماحول مزید خوشگوار ہوگیاتھا اور بادل اب پورے آسمان پر چھاچکے تھے۔وہاں پہاڑ پر میں دو تین گھنٹے بیٹھا روتا رہا گڑگڑاتا رہا ۔اپنی گڑگڑاہٹ کے ساتھ ہی مجھے بادلوں کی گڑگڑاہٹ بھی سنائی دی۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ میرا وہم ہے کیونکہ اس صحرا میں کہاں بارش ہوگی۔ لیکن کچھ دیر بعد یہ گڑگڑاہٹ بڑھی اور میری تشویش میں اضافہ ہونے لگا۔ بارش اگر شروع ہوجاتی تو پہاڑ سے نیچے اترنا خاصا دشوار ہوتا نیز میں اپنے خیمے سے کافی دور تھا جبکہ وہاں جگہ جگہ بورڈ لگے تھے کہ بارش کی صور ت میں اپنے خیمے سے نہ نکلیں کیونکہ منیٰ نشبی میں تھا اور سیلاب کا قوی امکان تھا۔ چنانچہ میں نے واپسی کا سفر باندھا اور بارش سے قبل ہی خیمے میں پہنچ گیا۔

جاری ہے ۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں