اللہ کی رحمت کے آثار اور اس کے حصول کے اسباب.. خطبہ حج 9 ذو الحجہ 1440ھ بمطابق 8 اگست 2019


Image may contain: one or more people, people standing, crowd, sky and outdoor

Image

 اللہ کی رحمت کے آثار اور اس کے حصول کے اسباب
 خطبہ حج
بتاریخ:  9 ذو الحجہ 1440ھ بمطابق 8 اگست 2019 
 خطیب حج: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر محمد بن حسن آل الشیخ  
ترجمہ:فرہاد احمد سالم 


فضیلۃ الشیخ محمد بن حسن آل شیخ (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد نمرہ میں حج کا خطبہ 9ذوالحجہ 1440ھ بمطابق 10اگست 2019 کو ''اللہ کی رحمت کے آثار اور اس کے حصول کے اسباب'' کے عنوان پر ارشاد فرمایا: جس میں انہوں نے کہا کہ جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد ایک اللہ کی عبادت ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ساری مخلوق کو پیدا کیا وہ بہت رحمت والا ہے، اس نے اپنے آپ پر رحمت کو لازم کر لیا ہے ، نیز اپنے پاس کتاب میں بھی یہ لکھا ہے '' میری رحمت میرے غضب سے زیادہ ہے۔ دین اسلام مکمل دین ہے، اس کی بنیاد پانچ ارکان پر ہے ، کو کہ یہ ہیں، شھادتین، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔ اسی طرح ایمان کے چھ ارکان یہ ہیں: اللہ پر ایمان ، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھنا۔ اللہ تعالی کی رحمت کے آثار مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے لوگوں پر رحم کرتے ہوئے انبیاء اور رسولوں کو بھیجا ، اسی طرح لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے کتابیں بھی نازل فرمائیں، رحمت کے آثار میں مسلمانوں کا ایک دوسرے پر رحم و شفقت کرنا بھی شامل ہے ۔ معاشرتی تعلقات کی بنیاد بھی رحمت پر ہوتی ہی جیسے والدین اور اولاد میں اور میاں بیوی میں رحمت ہوتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ قیامت کہ دن اللہ تعالی اپنی رحمت ہی سے اہل ایمان کو جنت میں داخل کرے گا۔ پھر فضیلۃ الشیخ نے رحمت کے حصول کے اسباب ذکر کئے ، جن میں سر فہرست تقوی، نرمی ، تدبر کے ساتھ قرآن کی تلاوت ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت شامل ہیں، اسی طرح آپس میں صلح کروانا، صبر ، کثرت استغفار اور دعا بھی رحمت کے حصول کے اسباب ہیں۔ آخر میں شیخ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مختصر حج کا طریقہ ذکر کیا اور دعا کروائی۔


خطبہ کا اردو ترجمہ سماعت کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو بہت رحم کرنے والا ، بہت معاف کرنے والا ، بڑی سخاوت کرنے والا اور بہت وسیع رحمت والا ہے۔ وہ اپنی بےشمار نعمتوں کے ساتھ فضل کرنے والا ہے۔

جیسے اللہ تعالی نے فرمایا :
 {أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً} [لقمان: 20]

کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ نے تمہارے لئے مطیع کر دیا ہے اور اس نے اپنی تمام ظاہری و باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور امانت ادا کر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کی آل اور صحابہ پر اللہ کی رحمتیں اور ڈھیروں سلامتی نازل ہو ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانو! اللہ سے ڈرو اس لئے کہ تقوی ہی میں آخرت کی نجات اور دنیا کی کامیابی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ} [الزخرف: 35]
 اور آخرت آپ کے رب کے ہاں صرف متقین کے لئے ہے۔

اور اللہ تعالی کا فرمان:
{أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (63) لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ } [يونس: 62 - 64]

سن لو ! جو اللہ کے دوست ہیں انہیں نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔ ان کے لئے دنیا میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔

تقوی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ توحید کو لازماً اپنایا جائے جو کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے عظیم حکم ہے۔ اور توحید یہ ہے کہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔ یقیناً انسانوں اور جنوں کو اسی مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ } [الذاريات: 56] 
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔

ہم ایک اللہ کی عبادت کیوں نہ کریں، جبکہ اس نے اپنی رحمت سے ساری مخلوق کو پیدا کیا اور ہر قسم کی بھلائی عطا کی ۔ عنقریب تمام بندے اس کے سامنے اپنے اعلانیہ اور پوشیدہ اعمال کے محاسبے کے لئے کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} [فاطر: 2]
 جو کچھ اللہ لوگوں کے لیے رحمت میں سے کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو بند کر دے تو اس کے بعد اسے کوئی کھولنے والا نہیں اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ} [الأنعام: 133] 
اور تیرا رب ہی ہر طرح بے پروا، کمال رحمت والا ہے۔ اسی طرح فرمایا:
 { فَقُلْ رَبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ} [الأنعام: 147]
 آپ فرما دیجئے تمھارا رب وسیع رحمت والا ہے۔

اےعقلمندو! غور کرو اور کائنات میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار دیکھو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ } [الشورى: 28]
 وہی تو ہے جو لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد بارش برساتا ہے اور اپنی رحمت عام کر دیتا ہے اور وہی کارساز ہے، حمد کے لائق ہے۔ اسی طرح مزید فرمایا:
 {فَانْظُرْ إِلَى آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ ذَلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتَى وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ} [الروم: 50]
 سو اللہ کی رحمت کے نشانات کی طرف دیکھو کہ وہ کس طرح زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے، یقیناً وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ اور فرمان باری تعالی ہے:
 {وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ } [القصص: 73] 
اور اس نے اپنی رحمت ہی سے تمھارے لیے رات اور دن کو بنایا ہے، تاکہ اس میں آرام کرو اور اس کا کچھ فضل تلاش کرو اور تم شکر کرو۔ اور اللہ عزوجل نے فرمایا:
{قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لِلَّهِ كَتَبَ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ} [الأنعام: 12]
 آپ ان سے پوچھئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ کس کا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے، اس نے اپنے آپ پر رحمت کو لازم کر لیا ہے۔

اسی طرح صحیح حدیث میں ہے کہ
حضرت ابو ہریرۃ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھا دیا تھا ، اور یہ تحریر اس کے پا س عرش پر ہے ،" کہ میری رحمت میرے غضب سے زیادہ ہے"۔ 

یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے دین اسلام کو مکمل کر دیا ہے۔ جیسے کہ اس آیت میں فرمایا جو شرف والی جگہ عرفات میں نازل ہوئی تھی:
 {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} [المائدة: 3]
 آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا۔

یہ عظیم دین پانچ ارکان پر قائم کیا گیا ہے۔ جن میں پہلی چیز شھادتین ، پھر نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا ہے۔

شھادتین (دو چیزوں کی گواہی) سے مراد یہ گواہی دینا کہ اللہ کہ علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت درست نہیں، چنانچہ ہم اس اکیلے ہی کی عبادت کریں گے۔

اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے حکموں کی اطاعت کریں ، آپ کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کریں ، نیز اللہ کی عبادت اسی طریقے پر کریں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دن اور رات میں پانچ نمازیں ادا کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ زکوۃ سے مراد یہ ہے کہ اپنے مال میں سے طے شدہ شرح کے مطابق ایک حصہ نکالا جائے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :
 {وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} [النور: 56] 
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رسول کا حکم مانو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اسی طرح اللہ تعالی نے رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا اور بیت اللہ کا حج کرنے کا حکم بھی دیا ۔ حدیث میں ہے:’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج میں سر کے بال منڈانے والوں کے لئے تین مرتبہ رحمت کی دعا کی ۔

یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ایمان کو اپنی رحمت حاصل کرنے کا اور نجات پانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ فرمایا:
 { فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا} [النساء: 175]

چنانچہ جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس (قرآن) کو مضبوطی سے تھامے رکھا انہیں اللہ اپنی رحمت اور فضل میں شامل کرے گا اور اپنی طرف آنے کی سیدھی راہ دکھا دے گا۔

اور رحیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتایا ، کہ ایمان کے ارکان چھ ہیں۔ فرمایی:
’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھو‘‘

یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے انبیاء (علیہم السلام) کو ساری دنیا کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ} [الأنبياء: 107]
 اور ہم نے آپ کو تمام دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

اور فرمان باری تعالی ہے :
{ وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَكِنْ رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ} [القصص: 46]
 نیز آپ طور کے کنارے پر بھی نہ تھے جب ہم نے (موسیٰ کو) آواز دی تھی، لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے (کہ اس نے آپ کو یہ سچی غیب کی خبریں دیں) تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا۔ شاید وہ نصیحت قبول کریں۔

اور اللہ تعالی نے اپنے نبی کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
{يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ } [التوبة: 61]
 وہ نبی اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مومنوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور ان کے لیے ایک رحمت ہے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نام نبی رحمت بھی ہے۔ رحمٰن کا فرمان سنیں:
 {فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ } [آل عمران: 159] 
پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقینا وہ تیرے ارد گرد سے منتشر ہو جاتے، سو ان سے در گزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے ایسی کتابیں نازل کی ہیں جو اس کی احکام بیان کرتی ہیں اور اس کی رحمت سے لوگوں کے احوال درست کرتی ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
 {أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ } [العنكبوت: 51] 
اور کیا انہیں یہ کافی نہیں ہوا کہ ہم نے تجھ پر کتاب نازل کی جو ان کے سامنے پڑھی جاتی ہے۔ اس میں یقینا ً ایمان لانے والوں کے لیے بڑی رحمت اور نصیحت ہے ۔

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :
 {وَلَقَدْ جِئْنَاهُمْ بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ} [الأعراف: 52] 
یقینا ہم ان کے پاس ایسی کتاب لائے ہیں جسے ہم نے علم کی بنا پر خوب کھول کر بیان کیا ہے، ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو ایمان لاتے ہیں۔

اللہ تعالی نے مزید فرمایا:
 {يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ (57) قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ} [يونس: 57، 58]
 لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت آ چکی۔ یہ دلوں کے امراض کی شفا اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ آپ لوگوں سے کہئے کہ (یہ کتاب) اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے (نازل کی گئی ہے) لہذا انہیں اس پر خوش ہو جانا چاہئے۔ یہ ان چیزوں سے بہتر ہے جو وہ جمع کر رہے ہیں۔

سلف صالحین جن میں صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والے نیک علماء بھی شامل ہیں، وہ اس رحمت بھرے طریقے پر ہی چلتے رہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی یہی صفت بیان کی۔ فرمایا:
{ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا } [الفتح: 29]
 آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انہیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور اس کی رضا تلاش کرتے ہیں ۔

اللہ کے نبی اور اس کے اولیائے کرام بھی اللہ کی مخلوق پر بھی شفقت و مہربانی کرتے تھے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً} [هود: 17] 
اور اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب بھی جو امام اور رحمت تھی۔ اور خضر (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا:
{آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا} [الكهف: 65] 
ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔

اور اسی طرح قیامت تک مسلمان ایک دوسرے پر رحم کرتے ہی رہیں گے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
{ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (17) أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ} [البلد: 17، 18]
 پھر ( یہ کہ) ہو جائے وہ ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو رحم کرنے کی وصیت کی۔ یہی لوگ دائیں ہاتھ والے ہیں۔

اہل علم بھی اللہ تعالی کے قول کی پیروی کرتے ہوئے فتویٰ پوچھنے والوں کے ساتھ رحمت کا معاملہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{ وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ} [الأنعام: 54]
 اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہہ سلام ہے تم پر، تمھارے رب نے اپنے آپ پر رحم کرنا لازم کر لیا ہے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ تم میں سے جو شخص جہالت سے کوئی برائی کرے، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے تو یقینا وہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

بلکہ سب مسلمان ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے: ’’مسلمانوں کی باہمی مودت، رحمت اور بھائی چارے کی مثال ایک جسم جیسی ہے، جس کا ایک حصہ تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں رہتا ہے۔

رحمت تمام مخلوق کو بھی شامل ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یہ بھی ہے: رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے۔

یہ بھی اللہ پاک کا فضل ہے کہ اس نے معاشرتی تعلقات کی بنیاد بھی رحمت پر رکھی ہے۔ والدین اور اولاد کے درمیان بھی رحمت ہوتی ہے ، اسی طرح میاں بیوی کے درمیان بھی رحمت ہوتی ہے ۔ والدین کے بارے میں فرمایا:
{وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا} [الإسراء: 24]
 اور رحم دلی سے ان کے لیے تواضع کا بازو جھکا دے اور کہہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم کر جیسے انہوں نے چھوٹا ہونے کی حالت میں مجھے پالا۔

اور میاں بیوی کے متعلق فرمایا:
 {وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ} [الروم: 21]
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھی سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف (جا کر) آرام پاؤ اور اس نے تمھارے درمیان دوستی اور مہربانی رکھ دی، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں ۔

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا آپ اپنے بچوں کو چومتے بھی ہیں؟ ہم تو نہیں چومتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر اللہ نے آپ کے دل سے رحمت چھین لی ہے، تو میں کیا کر سکتا ہوں‘‘

بلکہ دین اسلام میں تو پورے معاشرے اور جانوروں کے ساتھ بھی رحمت والا معاملہ کرنے کا حکم ہے۔ ایک بد کردار عورت کو جنت میں اسی لیے داخل کر دیا گیا کہ اس نے ایک پیاسے کتے پر رحم کرتے ہوئے اسے پانی پلا دیا تھا۔ اسی طرح ایک اور شخص کو جنت میں اس لیے داخل کر دیا گیا کہ اس نے لوگوں کو اذیت دینے والی کانٹے دار ٹہنی کو راستے سے ہٹا دیا تھا تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔

اس لیے ہمیں اپنے تمام تر معاملات میں رحمت کو بنیادی حیثیت دینی چاہیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ کی سو رحمتیں ہیں۔ جن میں سے اس نے ایک رحمت جنوں، انسانوں، جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں میں نازل کی ہے، اسی ایک حصے سے وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔ اسی ایک حصے کی وجہ سے وحشی جانور اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں۔ ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے لیے مؤخر کر رکھی ہیں جن سے وہ اس دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔

جب لوگ ایک دوسرے پر رحم کرنے لگتے ہیں تو بہت سے مثبت اثرات نظر آتے اور شاندار نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ جیسے لوگوں میں محبت پیدا ہوتی ہے، رواداری بڑھتی ہے، الفت پھیلتی ہے اور آپس میں تعاون نظر آنے لگتا ہے۔

اسی طرح ہماری آج کی زندگی میں بھی بہت سے مواقع ایسے ہیں کہ جن میں ہمیں رحمت و شفقت اپنانی چاہیے۔ جیسے قانون سازی اور اس کے نفاذ میں ، رابطے کے ذرائع کے استعمال اور جدید ٹیکنالوجی ، میڈیا وغیرہ کے استعمال میں بھی رحمت اپنانی چاہیے۔

رحمت و شفقت کے مظاہر میں ایک صورت وہ بھی ہے جو ہم مشاعر مقدسہ میں کام کرنے والوں اور سپاہیوں میں دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح حجاج کرام کی رہنمائی کرتے اور عبادت کی ادائیگی میں ان کی مدد کرتے ہیں، بالخصوص بوڑھوں، معذوروں ، بچوں اور چھوٹوں کا خیال کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس ملک سعودی عرب کے حکمرانوں کی کریمانہ ہدایات ہی کی بدولت ہے ۔ اور یہ ہدایات ان خدمات کی ایک کڑی ہیں جو سعودی عرب کی حکومت حرمین شریفین اور حاجیوں کی تمام کاموں میں سر انجام دے رہی ہے۔

سعودی عرب کے قابل تعریف منصوبوں میں حرمین کی توسیع کا منصوبہ ، مشاعر مقدسہ کو حج کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا اور اس کے بنیادی ڈھانچے کو ترتیب دینا بھی شامل ہے۔

اس ملک کے تمام بادشاہ حرمین اور حجاج کرام کی خدمت میں ایک سے ایک بڑھ کر پیش پیش نظر آتے ہیں۔ نیک بادشاہ، شاہ عبد العزیز کو اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائے، انہیں معاف فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے، انہوں نے بھی اس معاملے میں کسر نہیں چھوڑی اور پھر ان کی نیک اولاد، شاہ سعود، شاہ فیصل، شاہ خالد، شاہ فہد اور شاہ عبد اللہ بھی اسی راستے پر چلتے رہے، اللہ ان سب کے درجات بلند فرمائے۔ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔

ان دنوں بھی ہمیں مشاعر مقدسہ میں دل خوش کر دینے والی خدمات نظر آتی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر ہر مسلمان کا دل خوش ہو جاتا ہے۔

ہم اللہ تعالی سے سوال کرتے ہیں کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کو توفیق عطا فرمائے ، اے اللہ! تو اس کا مدد گار، معاون اور نگہبان بن جا۔ ہر خیر میں اس کی مدد فرما! اے اللہ! ہر نیک کام پر اسے اجر عظیم عطا فرما اور اسے ہدایت، خیر اور رحمت کا راستہ ہموار کرنے والا بنا۔ اے اللہ! ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان کو برکت عطا فرما! اسے بھی جزائے خیر عطا فرما! اسے ساری امت کے لیے خیر اور رحمت کا ذریعہ بنا۔ اسے ان کاموں کی توفیق عطا فرما جن سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے۔

اللہ کے فضل ہی سے نفس پاکیزہ ہوتے ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے:
{ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} [النور: 21]
 اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہ رہ سکتا تھا۔ مگر اللہ جسے چاہے پاک سیرت بنا دیتا ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

اور فرمایا:
 { إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ} [يوسف: 53]
 بے شک نفس امارہ تو برائی کا بہت حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔ یقیناً میرا رب بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے ۔

اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اپنی رحمت ہی سے جنت میں داخل کرے گا۔ صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کسی شخص کا عمل اسے جنت میں ہرگز داخل نہیں کر سکے گا۔ “ صحابہ کرام‬ ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کا عمل بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: ”میرا عمل بھی نہیں۔ ہاں مگر اللہ تعالی مجھے اپنے فضل و کرم سے نواز دے۔"

اللہ کی رحمت سے ہی لوگ مختلف قسم کی مصیبتوں اور برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
  {وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ} [الكهف: 58]
اور تیرا رب نہایت بخشنے والا، خاص رحمت والا ہے، اگر وہ انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے پکڑے جو انہوں نے کیے ہیں تو وہ یقینا ً ان کے لیے جلد عذاب بھیج دے ۔

اسی طرح فرمایا:
 { وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ } [النور: 14]
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر دنیا اور آخرت میں نہ ہوتا تو یقیناً جن باتوں میں تم پڑگئے تھے اس بارے میں تمہیں بہت بڑا عذاب پہنچتا ۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دشمن شیطان ملعون کے مقابلے میں ہمیں کافی ہو جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا} [النساء: 83] 
اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو چند لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔

ذیل میں چند اسباب درج ہیں کہ جن کے ذریعے رحمت الہی حاصل کی جا سکتی ہے :

1) رحمت الہی کے حصول کا ایک سبب تقوی ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} [يس: 45]
 بچو اس (عذاب) سے جو تمھارے سامنے ہے اور جو تمھارے پیچھے ہے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

2) رحمت الہی کے حصول کے اسباب میں ایک سبب نرمی بھی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے خریدتے اور تقاضا کرتے وقت نرمی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرے۔

3) رحمتِ الٰہی کے حصول کے اسباب میں تلاوت قرآن ، اس پر غور کرنا اور اسے سننا بھی شامل ہے۔ جیسے کی حدیث میں ہے:
"جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے اور آپس میں اس کا درس و مذاکرہ کرتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے ، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ، فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ عزوجل ان کا ذکر ان میں کرتا ہے جو اس کے پاس ( ملائکہ مقربین)ہوتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
 { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} [الأعراف: 204]
 اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اسی طرح فرمایا:
 {وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} [الأنعام: 155] 
اور یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، بڑی برکت والی ہے، پس اس کی پیروی کرو اور بچ جاؤ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔

ایک اور جگہ فرمایا:
 { أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ} [الزمر: 9]
(کیا یہ بہتر ہے) یا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے؟ کہہ دے کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ جو نہیں جانتے؟ نصیحت تو بس عقلوں والے ہی قبول کرتے ہیں ۔

4) اسی طرح اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ لوگوں پر احسان کرنا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
 {إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ} [الأعراف: 56] 
بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔

ایک اور جگہ فرمایا:
{نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ} [يوسف: 56]
 ہم اپنی رحمت جس کو چاہتے ہیں پہنچا دیتے ہیں اور ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔

5) اللہ کی رحمت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ لوگوں کی آپس میں صلح کروانا بھی ہے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا:
 {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} [الحجرات: 10] 
مومن تو بھائی ہی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

6) رحمت الٰہی کے حصول کا ایک سبب اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت بھی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} [آل عمران: 132]
اور اللہ اور رسول کا حکم مانو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

7) اسی طرح صبر بھی رحمت کےحصول کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ } [البقرة: 156، 157]
 وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔

8) اسی طرح رحمت کا ایک سبب وہ بھی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرمایا ہے:
 { وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ} [التوبة: 71]
اور مومن مرد اور مومن عورتیں، ان کے بعض بعض کے دوست ہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا ۔

9) ایک سبب وہ بھی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے:
{وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ (156) الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ} [الأعراف: 156، 157]
 اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے، سو میں اسے ان لوگوں کے لیے ضرور لکھ دوں گا جو ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور (ان کے لیے) جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں، جو امی نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انھیں نیکی کا حکم دیتا اور انھیں برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا اور ان پر نا پاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان سے ان کا بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔

10) کثرت سے استغفار کرنا بھی رحمت الٰہی کے حصول کا ایک سبب ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ } [النمل: 46] 
تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اے مسلمان بھائیو! تمہارے گناہ چاہے بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہوں، تم اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس مت ہونا۔ اس لئے کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ} [الزمر: 53]
 آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقینا سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے۔

اور فرمایا:
{وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ} [الحجر: 56]
 اور گمراہوں کے سوا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہوتا ہے۔

11) ایک سبب یہ بھی ہے کہ رحمت نازل کرنے کی دعا کی جائے۔ جیسے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا:
{وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ} [الأعراف: 151]
 موسیٰ نے تب دعا کی : ''پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما۔ تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

اور جیسے سلیمان (علیہ السلام) نے بھی دعا کی :
{وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ} [النمل: 19]
 اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما ۔

فرشتے بھی اللہ سے یہی دعا کرتے ہیں:
{رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ } {رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (8) وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (9)} [غافر: 8، 9]

اے ہمارے رب! تو نے ہر چیز کو رحمت اور علم سے گھیر رکھا ہے، تو ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے پر چلے اور انہیں بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب سے بچا ۔ اے ہمارے رب! اور انہیں ہمیشہ رہائش والی ان جنتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کو بھی جو ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے لائق ہیں۔ بلاشبہ تو ہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ اور انہیں برائیوں سے بچا اور تو جسے اس دن برائیوں سے بچا لے تو یقیناً تو نے اس پر مہر بانی فرمائی اور یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔

ہمارے والدین، آدم اور حواء (علیہما السلام) کی بھی یہ ہی دعا تھی:
{قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ} [الأعراف: 23] 
دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ً ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

اصحاب کہف کی بھی یہی دعا تھی:
 { رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا} [الكهف: 10]
 اے ہمارے پروردگار! اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ} [المؤمنون: 109] 
(بات یہ ہے) کہ جب میرے کچھ بندے یہ کہتے تھے کہ : اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما کیونکہ تو ہی سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔

نیز راسخ اہل علم کی بھی یہی دعا ہے:
{ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ} [آل عمران: 8]
 اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بڑی عطا دینے والا ہے۔

اے بیت اللہ کا حج کرنے والو!

آپ بڑی فضیلت والی جگہ پر ہو کہ جس میں دعائیں قبول ہوتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو،وہ(اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے ۔

اسی لئے مسلمانوں پر رحم کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے دن روزہ نہ رکھا، تاکہ وہ اس دن کثرت سے ذکر کریں اور دعائیں مانگیں ۔

اللہ تعالیٰ کو بھلے بن کر دکھاؤ۔ اس سے اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے اور جن کے حقوق آپ کے ذمے ہیں اور تمام مسلمانوں کے لیے رحمت اور خیر کا سوال کرو۔ نیز اللہ تعالی سے دعا کرو کہ ان کے احوال اور معاملات کو درست فرمائے۔

رحمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسک حج ادا کر کے دکھائے ۔ چنانچہ عرفات کے میدان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اذان دی گئی اور اقامت کہی گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز کو قصر کرتے ہوئے دو رکعتیں ادا کیں، پھر دوبارہ اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کو بھی قصر کرتے ہوئے دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کے میدان میں اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر اللہ کا ذکر اور دعا کرتے رہے، پھر جب سورج کی ٹکیا غروب ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچے تو اذان دی گئی اور اقامت کہی گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی تین رکعتیں ادا کیں، پھر اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع اور قصر کرتے ہوئے عشاء کی دو رکعتیں ادا کیں۔ 

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو مزدلفہ میں سو گئے، صبح کو فجر کی نماز وہاں ہی اول وقت میں ادا کی، اور اچھی طرح روشنی پھیل جانے تک اللہ سے دعا کرتے رہے۔ 

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منی کی طرف چلے اور طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ پر سات کنکریاں ماریں، پھر قربانی کی اور اپنے بال منڈوائے۔ پھر بیت اللہ کا طواف، طواف افاضہ کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق منیٰ ہی میں گزارے اور وہاں اللہ کا ذکر کرتے رہے، اور تینوں جمروں پر زوال آفتاب کے بعد کنکریاں مارتے رہے۔ چھوٹے اور درمیانی جمرے پر کنکریاں مارنے کے بعد دعا بھی کرتے رہے، نیز اہل عذر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ وہ ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں نہ گزاریں۔ 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ منیٰ میں تیرہ ذو الحجہ تک ٹھہرا جائے، یہی افضل بھی ہے، اگرچہ بارہ ذو الحجہ کو چلے جانے کی اجازت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دی ہے۔ 

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج سے فارغ ہوئے تو واپسی کے سفر سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بیت اللہ کا طواف کیا۔ 

یااللہ! حاجیوں پر رحم فرما! ان سے حج قبول فرما! ان کے معاملات آسان فرما۔ شریروں کے شر سے انہیں محفوظ فرما! اے اللہ! انہیں اپنے ملکوں تک امن و سلامتی کے ساتھ اس حال میں پہنچا کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوں، اور ان کی حاجتیں پوری ہو چکی ہوں۔

یا اللہ! مسلمانوں کے احوال درست فرما، ان کے اختلافات دور فرما اور ان کے رزق کو کشادہ فرما۔

یا اللہ! ان کے بیماروں کو شفا عطا فرما، یا اللہ! ان کے گناہ گاروں سے درگزر فرما، اور ان کے فوت شدگان کی مغفرت فرما۔

یا ا للہ ان کے فوت شدگان کی مغفرت فرما اور ان کے فقراء کو مال و دولت عطا فرما نیز مقروضوں کے قرض ادا فرما۔

اے اللہ! تمام مسلمان ممالک کو خیر سے بھر دے، انہیں ترقی نصیب فرما! انہیں سکون و چین اور بہترین زندگی نصیب فرما۔

{سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ (180) وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ (181) وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (182) } [الصافات: 180 - 182]

پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں ۔ اور رسولوں پر سلام ہو۔ اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اور صحابہ کرام پر۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

2 تبصرے:

  1. بے شک سب کچھ اللہ ہی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ بہت اچھا خطبہ ہے جزاک اللہ۔ اللہ سب محنت قبول کرے آمین۔

    جواب دیںحذف کریں