تواصو بالصبر
اقتباس از جنت کے پتے (نمرہ احمد)
وہ آج پھر یونیورسٹی چلی آئی تھی۔ ڈاکٹر ابراہیم سے آج اس نے وقت نہیں لیا تھا لیکن پھر بھی وہ اس کو اپنے آفس میں مل گئے۔
آپ نے ٹھیک کہا تھا سر! ہمیں لوگوں کو وقت دینا چاہیے۔ ان کے بالمقابل بیٹھی وہ آج بہت سکون سے کہہ رہی تھی اور وہ اسی توجہ سے اسے سن رہے تھے۔ سامنے اس کے لیے منگوا کر رکھی کافی کی سطح سے دھوئیں کے مرغولے اٹھ کر فضا میں گم ہو رہے تھے۔ ان کے آفس کا خاموش پرسکون ماحول اس کے اعصاب کو ریلیکس کر رہا تھا۔
یقین کریں سر! شروع میں آپ کے حجاب کی جتنی مرضی مخالفت کر لیں، ایک وقت آتا ہے کہ وہ اسے قبول کر لیتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آپ کو اس میں قبول کر لیتے ہیں۔ چاہے انہیں حجاب تب بھی اتنا ہی ناپسند کیوں نہ ہو جتنا پہلے تھا۔ اب مجھے یقین آ گیا ہے کہ آہستہ آہستہ سارے مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔
بالکل۔ انہوں نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا کر تائید کی۔
مگر سر! جب میں اپنے مسئلوں سے گھبرا گئی تو آپ کے پاس آئی اور تب میں نے آپ سے کہا تھا کہ یہ ”تواصو بالصبر“ انسانوں کو انسانوں سے ہی چاہیے ہوتا ہے۔ آپ نے میری بات کی تائید کی تھی رائٹ!
جی پھر؟ وہ پوری توجہ سے سن رہے تھے۔
پھر سر! یہ کہ میری پھپھو کہتی ہیں کہ انسان کو اپنے مسئلے دوسروں کے سامنے بیان نہیں کرنے چاہئیں۔ جو شخص ایسا کرتا ہے وہ خود کو بے عزت کرتا ہے۔ کیا ایسا ہی ہے سر! کیا ہمیں اپنے مسئلے کسی سے نہیں شئیر کرنے چاہئیں؟
وہ اپنی کافی کی سطح پہ آئے جھاگ کو دیکھتے ہوۓ کہہ رہی تھی جس میں مختلف اشکال نظر آ رہی تھیں۔
مگر پھر ہم ”تواصو بالصبر“ کیسے کریں گے سر؟ جہان کی طرف کی روداد سن کر اس کے ذہن میں یہ سوال اٹک کر رہ گیا تھا۔
آپ کی پھپھو ٹھیک کہتی ہیں۔ سوال کرنا یعنی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا بھلے وہ ہمدردی لینے کے لیے ہی ہو ہر حال میں ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ انسان کو واقعی اپنے مسئلے اپنے تک رکھنے چاہیے۔ دنیا کو اپنی پرابلم سائیڈ دکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اپنے مسئلے کا واقعی اشتہار نہیں لگایا کرتے۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لحظہ بھر کو رکے۔
وہ نا محسوس طریقے سے کرسی پہ آگے کو ہوئی۔ اسے اسی ”مگر“ کا انتظار تھا۔
مگر انسان پہ ہر وقت ایک سا فیز نہیں رہتا میرے بچے! وقت بدلتا ہے۔ مسئلے بھی بدلتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان ایسی سچویشن میں گرفتار ہو جاتا ہے جس سے وہ پہلے کبھی گزرا نہیں ہوتا۔ تب اسے چاہیے کہ اپنے مسئلے کا حل کسی سے پوچھ لے۔ انسان کو صرف تب اپنے پرابلم شیئر کرنے چاہئیں جب اس کو واقعی اپنے پاس سے اس کا حل نا ملے۔ کوئی ایک دوست، ایک ٹیچر یا پھر کوئی اجنبی، کسی ایک بندے کے سامنے اپنے دل کی بھڑاس نکال دینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا جو واقعتاً ”تواصو بالصر“ کرے۔ ہاں! لیکن ایک بات یاد رکھیں۔ اس شخص کو کبھی اپنی بیساکھی نہ بنائیں۔ آپ کو ہر کچھ دن بعد کسی کے کندھے پہ رونے کی عادت نہیں ڈالنی چاہیے۔ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ ہر وقت دوسروں سے تسلی لینے کے بجائے بہتر ہے کہ ہم تسلی دینے والے بنیں ”تواصو بالصبر“ صبر کی تلقین دینے کا نام ہوتا ہے، ہر وقت لیتے رہنے کا نہیں۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
درست کہا۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
حذف کریں