حساب ۔۔۔ ایک مکالمہ
تحریر: عمر الیاس
“پتہ چلا آپ حج پر جا رہے ہیں۔”
“جی۔ الحمد للہ”
“میرے لیے ضرور دُعا کیجیئے گا”
“جی ان شاء اللہ۔ بالکل۔ آپ کے لئے دعا ہو گی۔ اگر کِسی خاص حاجت یا مقصد کے لئے دعا کرنی ہو تو ضرور بتایئے گا۔”
“آپ میرے لئے ، میرے بچوں کے لئے بے حِساب رِزق کی دُعا کیجیئے گا”
“بے حساب رزق؟”
“جی۔ کہ اللہ بے حساب رزق نصیب فرمائے”
“رزق میں برکت کی دُعا میں ضرور کروں گا۔ پر بے حِساب رزق تو میرے خیال میں آپکو اللہ نے دے رکھا ہے”
“کہاں جی! اللہ کا شُکر ہے کہ کُچھ کمی نہیں ہوتی۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں پڑتا۔ بالکہ کسی نہ کسی کی مدد ہی کرتے ہیں ہم۔ ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔ کُچھ خواہشیں شاید تشنہ رہ بھی جاتی ہیں، پر اللہ کا کرم ہے ، حق حلال کھاتے ہیں ، پہنتے ہیں ، استعمال کرتے ہیں”
“یہی تو ہے بے حساب رِزق”
“کیا مطلب؟”
“مطلب یہ، کہ وہ رِزق جو اُس دِن کی ضرورتیں پوری کرے ، اور اگلے دِن کے لئے نہ بچ پائے۔ کیونکہ ضرورت سے زیادہ رزق کا حساب ہو گا۔ اور حساب تو ظاہر ہے ، مشکل میں ڈالتا ہے”
“اور وہ رِزق جو بے تحاشا ہو ، اور خوب ہو ، اور اگلے دن کیا ، اگلے سال کے لئے کافی ہو ، وہ؟”
“وہ تو بے حِساب رزق نہ ہوا ناں۔ وہ تو حِساب والا رزق ہے۔ اس میں تو حساب ہی حساب۔”
“جزاک اللہ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ بے حساب رزق کا مطلب آج سے پہلے سمجھ ہی نہ آیا تھا”
“سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ 🙂 “
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
جزاک اللہ ۔ بہت خوبصورت پوسٹ۔ اللہ آپ کو آسانیاں دے ہر بات ہر کام میں ۔ آمین یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریںآمین وایاک
حذف کریں