شاباش گروپ


 👍 شاباش گروپ 👍
(Copied and edited) عظمیٰ عنبرین


ہم سب انسان ہیں اور انسان کے لیے داد، تالیاں، ویل ڈن، شاباش، بہت خوب اور آپ نے کمال کر دیا جیسے لفظ آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں، ہم زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں، ہم روزانہ جس مشقت سے گزرتے ہیں اور ہم صبح سے شام تک پیشے، فن اور کام کی جو صلیب کندھے پر اٹھا کر پھرتے رہتے ہیں اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے ویل ڈن، واہ جی واہ، شاباش اور کیا بات ہے۔ بس۔
ہماری ساری زندگی، ہماری ساری مشقت ان چند لفظوں سے بندھی ہوتی ہے،انسان اورجانوروں میں صرف تخلیق کا فرق ہوتا ہے، انسان نے اپنی ہر محرومی کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے شکست دے دی جب کہ جانور ایسا نہیں کر سکے مثلاً اللہ تعالیٰ نے انسان کو رات دی، انسان نے مشعل، چراغ، موم بتی اور برقی قمقمے کے ذریعے اس رات کو دن میں بدل دیا، قدرت نے انسان کو کھلے آسمان کے نیچے ننگی زمین پر پیدا کیا، اسے پسینے کی بو دی، اسے ننگے بدن اور ننگے پاؤں زمین پر بھجوایا۔
اسے کمزور ٹانگیں اوربغیر پنجوں کے پیدا کیا، اس کی جلد کو نرم رکھا اور اس کے جسم کو پروں، سر کو سینگ اور منہ کو تیز نوکیلے دانتوں سے محروم رکھا لیکن انسان نے اپنی ان تمام محرومیوں کو خوفناک ہتھیار، تیز رفتار گاڑیوں، بلٹ پروف جیکٹس، مضبوط جوتوں، دیدہ زیب کپڑوں، خوشبودار صابن، شیمپو اور پرفیومز،زلزلہ پروف گھروں، ہوائی جہازوں اور چھتریوں کی ایجاد سے دور کر لیا جب کہ انسان کے مقابلے میں دنیا کا کوئی جانور آج تک کوئی مکان بنا سکا، کوئی جہاز بنا سکا، پیزا ایجاد کر سکا، شیمپو ایجاد کر سکا اور نہ ہی یہ ٹوتھ پیسٹ کرنا سیکھ سکا۔
دنیا کے پہلے انسان اور آج کے اکیسویں صدی کے انسان کے لائف اسٹائل میں سات آسمان کا فرق ہے جب کہ دنیا کی پہلی بھیڑ اور آج کی اکیسویں صدی کی بھیڑ، حضرت آدم ؑ کے زمانے کی بھینس اور آج کی سپرسانک اور لیزر ایج کی بھینس کے لائف اسٹائل میں کوئی فرق نہیں، بھینس کل بھی بھولی تھی اور یہ آج کے پیزا دور میں بھی چارہ ہی کھا رہی ہے! یہ ہے فرق انسان اور جانور میں لیکن یہ فرق پیدا کیسے ہوا؟ یہ فرق تالیوں، شاباش اورواہ جی واہ کا مرہون منت ہے۔ انسان میں دوسروں کو متاثر کرنے کی خوفناک خواہش موجود ہے، یہ اپنی شہرت کو ٹائم لیس بنانا چاہتا ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے صدیوں بعد بھی جب اس کا نام لیا جائے تو لوگ اٹھ کرتالیاں بجائیں۔
ہم جب کسی کے لیے تالیاں بجاتے ہیں ,ویل ڈن یا شاباش کہتے ہیں تو اس کے حوصلے کو ایک سیکنڈ میں اٹھارہواں گیئر لگ جاتاہے۔
انسان کو کامیابی کے لیے دوسرے انسانوں کی ہمت اور مدد درکار ہوتی ہے اور جس معاشرے میں لوگ دوسروں کی ہمت افزائی کو اپنے لائف اسٹائل کا حصہ بنا لیتے ہیں، جس میں لوگ دوسروں کی سپورٹ کو روٹین کی شکل دے دیتے ہیں، اس میں کامیاب لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور جس معاشرے میں لوگ دوسروں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے وہ معاشرے غار کی زندگی کی طرف چلے جاتے ہیں. 
آپ آج سے جائزہ لے لیں آپ کو محسوس ہوگا ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کی گفتگو شکوے سے اسٹارٹ ہوتی ہے اور شکوے پر ختم ہوتی ہے، ہم کسی دوست سے ملتے ہیں تو ہمارا پہلا فقرہ ہوتا ہے یار اب تم تو مجھے ملتی ہی نہیں ہو، اوئے تم کہاں غائب رہے، بھائی جان میں نے آپ کو پندرہ فون کیے لیکن آپ نے اٹھایا ہی نہیں وغیرہ وغیرہ، دوسرا ہم لوگ دوسروں کی خوشیوں پر ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے ہمیں معلوم ہی نہیں تھا اور ان دونوں رجحانات نے ہمارے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک شاباش گروپ بنایا ہے، ہم لوگوں نے فیصلہ کیا ہے ہم زندگی سے شکوے کم کر دیں گے، ہم اپنی گفتگو کا آغاز کبھی شکوے سے نہیں کریں گے اور ہمیں جہاں کوئی شخص کوشش کرتا دکھائی دے گا ہم اس کے لیے تالی بجائیں گے، اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ ہمارا یہ گروپ کامیاب جا رہا ہے، ہم اپنے سرکل میں صحت مندانہ تبدیلی بھی دیکھ رہے ہیں۔ میری خواہش ہے آج سے آپ بھی ہمارے اس گروپ کے ممبر بن جائیں، آج سے آپ بھی شکوہ کرنا بند کر دیں اور دوسروں کی خوبیوں اور کامیابیوں پر تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ یقین کیجیے معاشرے کی تلخیاں کم ہو جائیں گی، ہم بھی انسانی معاشرہ بن جائیں گے.


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں