حج میں پہلا انعام پانے والی تصویر کی کہانی

دنیا بھر میں شہرت پانے والی یہ تصویر انسانی ہمدردی کی عکاسی کرتی ہے- فوٹو سعود المسیہیج العنزی

حج میں پہلا انعام پانے والی تصویر کی کہانی
بشکریہ: اردو نیوز

حج سکیورٹی فورس کے اہلکار ماجد علی الحکمی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ دنیا بھر میں وہ اتنے مشہور ہو جائیں گے، ان کی تصویر دنیا کے اخبارات کی زینت بنے گی اور وہ خود سوشل میڈیا پر موضوع گفتگو بن جائیں گے۔

یہ ان کی اس تصویر کا ذکر ہے جسے مکہ گورنریٹ نے حج کے دنوں میں لی جانے والی تصاویر میں بہترین قرار دے کر اول انعام سے نوازا ہے۔ دنیا بھر میں شہرت پانے والی یہ تصویر نہ صرف انسانی ہمدری کی عکاسی کرتی ہے بلکہ حج سکیورٹی فورس کی والہانہ اور مخلصانہ خدمات کی بھی کہانی سناتی ہے۔ تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ حج سکیورٹی فورس کے اہلکار ماجد علی الحکمی نے ایک معمر حاجی کو گود میں اٹھا رکھا ہے۔

تصویر کی کہانی خود ماجد کی زبانی ہی سنیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’حج کی ڈیوٹی پر مامور سکیورٹی فورس کے مختلف اداروں کے تمام اہلکار یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ حجاج کی امن و سلامتی کے علاوہ ان کے آرام اور راحت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ یہی ہم سب کا اولین مقصد اور مشن ہے۔‘


ان کے بقول ’عرفات کے دن مجھے دور سے ایک معمر حاجی نظر آیا جسے چلنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ وہ تھوڑی مسافت چلتے اور پھر رک جاتے، پھر اپنے پیروں کو سہلاتے۔ میں ان کا حال معلوم کرنے کے لیے ان کے قریب گیا اور پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی مسئلہ ہے، کیا پیر زخمی ہو گیا ہے؟‘

ماجد الحکمی کہتے ہیں کہ ’معمر حاجی کو میری بات سمجھ نہیں آئی۔ وہ اردو زبان میں جواب دیے جا رہے تھے۔ میں بھی ان کی بات سمجھ نہیں پا رہا تھا مگر ان کا درد محسوس کر سکتا تھا۔ میں نے انہیں پانی پلایا اور ٹھنڈا پانی ان کے سر پر بھی ڈالا۔ مجھے خدشہ تھا کہ کہیں انہوں نے کسی تیز دھار چیز پر پیر رکھ دیا ہے۔ میں ان کا پیر دیکھنے کے لیے جھکا تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کے قدم ان کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہے۔‘

’مجھے ڈر تھا کہ وہ چند قدم چلنے سے کہیں گر نہ جائیں۔ میں نے انہیں اشارے کی زبان میں سمجھایا کہ آپ میرے والد جیسے ہیں، فکر مت کریں، میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔‘

سکیورٹی اہلکار کے مطابق ’ہم چند قدم ہی چلے تھے کہ ان کے مزید چلنے کی سکت نہیں تھی۔ میں نے انہیں اشارے کی زبان میں کہا کہ میں آپ کو گود میں اٹھا لیتا ہوں۔ پھر میں نے انہیں اٹھا لیا۔ میں انہیں مزدلفہ تک لے گیا اور پھر وہاں سے منی میں ان کے ٹھکانے تک پہنچایا۔ پورے راستے وہ مجھ سے اردو میں مخاطب ہوتے رہے، وہ مسلسل مجھے دعائیں دیتے رہے۔ بس ان کی دعائیں میرا حوصلہ بڑھا رہی تھیں اور مجھے کہیں بھی تھکن محسوس نہیں ہوئی۔‘

وہ مزید کہتے ہیں ’مجھے یوں محسوس ہوا کہ حج میں میری ڈیوٹی شاید اسی بوڑھے کی خدمت کرنے کے لئے ہی لگی ہے۔ ایک غیبی آواز آرہی تھی کہ اس معمر کی خدمت کر کے جتنا ثواب کما سکتے ہو کما لو۔ میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو شاید یہی کرتا۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ کوئی فوٹو گرافر میرا تعاقب کر رہا ہے۔ اگلے دن اخبارات میں اپنی تصویر دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔‘

فوٹو گرافر کون ہے؟

 دنیا بھر میں شہرت پانے والی اس تصویر کے فوٹو گرافر سعود المسیہیج العنزی ہیں جنہیں مکہ گورنریٹ نے بہترین تصویر پر اول انعام سے نوازا ہے۔ مکہ کے گورنر شہزادہ خالد الفیصل سے انعام پانے کے بعد ٹویٹر پر شہرت پانے والے سعودی فوٹو گرافر نےچھ سال قبل فوٹوگرافری کا آغاز کیا۔


وہ اپنی تصویر کے بارے میں کہتے ہیں ’میدان عرفات میں دیگر فوٹو گرافروں کی طرح میں بھی موجود تھا۔ حج سکیورٹی فورس کے اہلکار سے پہلے میری نگاہ معمر حاجی پر گئی تھی۔ میں انہیں مسلسل تاک رہا تھا۔ اچانک اہلکار وہاں پہنچے اور حاجی کی مدد کی۔ یہ تمام چیزیں میں نے اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیں۔ میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ تصویر اس قدر مشہور ہو جائے گی اور مجھے اس کے عوض انعام ملے گا۔‘



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں