آج کی بات ۔۔۔ 28 نومبر 2017

~!~ آج کی بات ~!~

"خواب ہمیشہ خواب ہی رہتا ہے،
 فرق یہ ہے کہ کچے ذہنوں پر یہ لوحِ محفوظ کی صورت رقم ہو جاتا ہے اور بیدار اذہان پر زندگی کا ایک قیمتی سبق، ہمیشہ کا سرمایہ بن کر رخصت ہو جاتا ہے۔"

نورین تبسم

~!~ آج کی بات ~!~ " خواب ہمیشہ خواب ہی رہتا ہے،  فرق یہ ہے کہ کچے ذہنوں پر یہ لوحِ محفوظ کی صورت رقم ہو جاتا ہے اور بیدار ا...

خود میں تبدیلی ۔۔۔ استاد نعمان علی خان ۔۔۔ساتواں حصہ

خود میں تبدیلی (Self- Transformation)
استاد نعمان علی خان
ساتواں حصہ

‎صحابہ کرام کہتے ہیں کہ جب وہ رسول الله ‎صلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھے تھے تب سورہ جمعہ نازل ہوئی.رسول الله صلی اللە علیہ وسلم نے اس کی تلاوت شروع کی اور جب انہوں نے یہ تلاوت کی کہ *ابھی دوسرے ان سے نہیں آ کر ملے* تو صحابہ کرام نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یہ دوسرے کون ہیں؟ تو رسول اللە صلی اللە علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کی طرف دیکھا.... 
‎اس سے پہلے کہ میں آپ کو بتاؤں کہ رسول اللە نے آگے کیا فرمایا میں پہلے آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سلمان فارسی کون تھے. ان کا نام سلمان فارسی تھا.وہ فارس سے تھے. ان کا تعلق آتش پرستوں کے ایک کٹر مذہبی خاندان سے تھا. انہوں نے اپنے مذہب سے بیزار ہو کر اسے چھوڑ دیا. انہیں ایک سچے معبود کی تلاش تھی. اپنے آبائی مذہب کو چھوڑنے کی پاداش میں انہیں قیدی بنایا گیا اور مختلف طرح کی ایذا رسائی دی گئی یہاں تک کہ وہ قید سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور ایک عیسائی راھب کی سرپرستی میں پہنچ گئے.اس راھب نے انہیں عیسائیت کی تعلیم دینی شروع کی اور آخری نبی کے ظہور کی نشانیاں بھی بتائیں کہ آخری رسول مدینہ منورہ میں تشریف لائیں گے تو حضرت سلمان فارسی نے سوچا کہ انہیں تو پھر مدینہ جانا چاہیے.
‎تو وہ آخری نبی صلی الله علیہ وسلم کی تلاش میں نکل پڑے اور رستے میں کسی گروہ کے ہاتھ لگ کر قیدی بنا لیے گئے اور ایک غلام کی حیثیت سےمدینہ لے جائے گئے. وہ وہاں رسول الله کی آمد کے انتظار میں وقت بتاتے رہے اور جب رسول الله مدینے تشریف لائے تو سلمان فارسی نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں اپنی کہانی بتائی کہ وہ رسول الله کی تلاش میں کیسے یہاں تک پہنچے. 
‎یہ ایک ایسے انسان کی آپ بیتی تھی جو ایک انتہائی دور دراز کے مختلف خطے سے تعلق رکھتا تھا جہاں اسلام کا نام و نشان تک نہ تھا نہ ہی اسلام کی کوئی خیر خبر ہی پہنچی تھی. وہ انسان اپنے دم پر، اپنی سوچ پر بھروسا کر کے حق کی تلاش میں نکلا اور آخر کار صحابہ رسول الله صلی اللە علیہ وسلم کہلایا.
‎واپس اپنی بات پر جاتے ہیں کہ صحابہ رسول ان سے سوال پوچھتے ہیں کہ وہ دوسرے کون لوگ ہیں؟ رسول الله صلی اللە علیہ وسلم حضرت سلمان فارسی کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں "اگر عقیدہ کسی دوسرے سیارہ پر ہی کیوں نہ ہوتا ان(سلمان فارسی) جیسے لوگ اس تک پہنچ جاتے."
‎ایسے بہت لوگ ہوں گے جو حق کی تلاش میں نکلیں گے خواہ اسلام سے کوسوں دور ہوں، جنہیں کلمہ طیبہ کا ذرا بھی علم نہ ہو، نہ ہی عربی زبان سے اور نہ کسی مسلمان سے کوئی واقفیت ہو، نہ انہیں قرآن نہ ہی وحی کے بارے کچھ علم ہو انہیں حق کی تلاش ہے تو وہ لوگ الله تک پہنچ کر رہیں گے. رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس آیت میں ایسے لوگوں کے بارے میں ذکر ہے.
‎دوسرے الفاظ میں انقلابی تبدیلی صرف اسی نسل، قوم تک محدود نہ رہی۔ جب رسول اللە صلی اللە علیہ وسلم سلمان فارسی کی طرف اشارہ کر ہے تھے درحقیقت وہ ہم سب کی طرف اشارہ کر رہے تھے. وہ ہماری تبدیلی صلاحیتوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے. اب یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس تبدیلی کو لانے کی کتنی کوشش کرتے ہیں۔

‎مختصراً میں آپ کو یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ خود کو تبدیل کرنے کے اس نظریے کے متعلق بس میری ہوائی باتیں سنیں بلکہ میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ میں نے خود بھی اسے اپنا مشن بنا لیا ہے کہ میں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی تبدیل کرنا چاہتا ہوں. 

جاری ہے۔۔۔

خود میں تبدیلی (Self- Transformation) استاد نعمان علی خان ساتواں حصہ ‎صحابہ کرام کہتے ہیں کہ جب وہ رسول الله ‎صلی الله علیہ وسلم...

آج کی بات ۔۔۔ 26 نومبر 2017

~!~ آج کی بات ~!~

کہتے ہیں تنہائی آس پاس لوگوں کی غیر موجودگی کا نام نہیں، ہمارے آس پاس موجود انسانوں میں ہماری غیر دلچسپی ہمیں تنہا کرتی ہے۔

~!~ آج کی بات ~!~ کہتے ہیں تنہائی آس پاس لوگوں کی غیر موجودگی کا نام نہیں، ہمارے آس پاس موجود انسانوں میں ہماری غیر دلچسپی ہمیں تنہا...

کیسی محبت؟؟ (اقتباس)


یہ کیسی محبت ہے کہ ہم دنیا کو دکھانے کے لیے تو جلسے اور جلوس کرتے ہیں لیکن جن سے محبت کا اس طرح سے اظہار کرتے ہیں نہ اُن کے کہے پر عمل کرتے ہیں اور نہ اُن کا طریقہ اپناتے ہیں ؟ ہم سوائے اپنے آپ کے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟ کیا یہ منافقت نہیں کہ ہم جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمارا عمل اس سے مطابقت نہیں رکھتا ؟

افتخار اجمل بھوپال

یہ کیسی محبت ہے کہ ہم دنیا کو دکھانے کے لیے تو جلسے اور جلوس کرتے ہیں لیکن جن سے محبت کا اس طرح سے اظہار کرتے ہیں نہ اُن کے کہے پر عمل...

"استغفار،،، اہمیت، آداب اور مسنون الفاظ" ... خطبہ جمعہ مسجد نبوی

خطبہ جمعہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 06 ربیع الاول 1439 کا مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ بعنوان "استغفار،،، اہمیت، آداب اور مسنون الفاظ" ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ کہا: نیکیوں کے طریقے اور انداز بہت زیادہ ہیں چنانچہ ان میں سے ایک استغفار بھی ہے جو کہ آدم، حوا، نوح، ابراہیم، موسی، داود علیہم السلام اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سمیت تمام انبیائے کرام کی عادت مبارکہ ہے، نبی ﷺ سے استغفار کیلیے متعدد الفاظ ثابت ہیں، استغفار نیک لوگوں کی امتیازی صفت ہے، بخشش اور توبہ ایسی نیکیوں میں شامل ہے جن کی قبولیت کا وعدہ اللہ تعالی نے کیا ہوا ہے۔

خطبے سے منتخب اقتباس پیش ہے

مسلمانو!

اللہ تعالی نے فضل و کرم اور جود و سخا کرتے ہوئے ہمارے لیے نیکی اور عبادات کے بہت سے دروازے کھول رکھے ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان نیکی کے کسی بھی دروازے سے داخل ہو کر اطاعت گزار بنے ؛ اس کے بدلے میں اللہ تعالی دنیا و آخرت سنوار کر درجات بلند فرما دے، چنانچہ اللہ تعالی اسے دنیا میں سکھ و سعادت والی زندگی بخشے گا، اور مرنے کے بعد دائمی نعمتیں اور رضائے الہی حاصل کرے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ}
 نیکیوں کی طرف بڑھ چڑھ کر حصہ لو، تم جہاں بھی ہو گے اللہ تعالی تم سب کو اکٹھا کر لے گا، بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ [البقرة : 148]

نیز اللہ تعالی نے تمام لوگوں کے لیے نمونہ و قدوہ بننے والے انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام کے بارے میں فرمایا:
 {إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ}
بیشک وہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے، اور وہ ہمیں امید اور خوف کے ساتھ پکارتے اور ہم سے خوب ڈرتے تھے۔ [الأنبياء : 90]

نیکیوں میں اضافے اور گناہوں کو مٹانے کا ایک طریقہ استغفار ہے، چنانچہ بخشش کی دعا انبیاء و المرسلین علیہم الصلاۃ و السلام کی عادت مبارکہ ہے، اللہ تعالی نے بشریت کے والدین -ان دونوں پر اللہ کی طرف سے سلامتی، رحمتیں، اور برکتیں نازل ہوں-کے بارے میں فرمایا: 
{قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ}
[حوا اور آدم ] دونوں نے کہا: ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا، اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ [الأعراف : 23]

اور نو ح علیہ السلام کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا:
 {رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ }
 میرے پروردگار! مجھے ، میرے والدین، اور میرے گھر میں داخل ہونے والے مومن مرد و خواتین تمام کو بخش دے۔[نوح : 28]

اور ابراہیم علیہ السلام کی بات حکایت کرتے ہوئے فرمایا:
{رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ}
ہمارے پروردگار! مجھے، میرے والدین، اور تمام مومنین کو حساب کے دن بخش دینا۔[ابراہیم : 41]

اور موسی علیہ السلام کا مقولہ نقل کرتے ہوئے فرمایا:
 { رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ}
 میرے پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے، اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ [الأعراف : 151]

ایسے ہی فرمایا: 
{وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ}
 داؤد علیہ السلام سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، تو پھر اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور پوری طرح رجوع کیا ۔[ص : 24ٌ]

اور نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
 {فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ }
یہ بات جان لیں! اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ہے، اور اپنے تسامحات سمیت سب مومن مرد و خواتین کیلیے اللہ تعالی سے بخشش مانگیں۔[محمد : 19]

اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے، حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی گزشتہ و پیوستہ تمام لغزشیں معاف فرما دی ہیں ، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ایک ہی مجلس میں سو سے زیادہ مرتبہ استغفار کے یہ الفاظ شمار کر لیتے تھے: (رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ) [میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور میری توبہ قبول فرما، بیشک تو توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے]ابو داود، ترمذی اور اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔

اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم وفات سے پہلے اکثر اوقات یہ فرمایا کرتے تھے: (سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ) [اللہ اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے، میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔]بخاری و مسلم

آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نماز کا سلام پھیرنے کے بعد تین بار کہا کرتے تھے: " أَسْتَغْفِرُ اللهَ " [میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں]مسلم نے اسے ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس کے بعد نماز کے بعد والے اذکار فرماتے ۔

استغفار نیک لوگوں کی عادت ، متقی لوگوں کا عمل اور مومنوں کا اوڑھنا بچھونا ہے، اللہ تعالی نے انہی کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا: 
{رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ} 
ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ بخش دے، اور ہماری برائیاں مٹا دے، اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دینا۔[آل عمران : 193]

ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:" گناہوں سے استغفار کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں کو مٹانے کی درخواست اللہ تعالی سے کریں، انسان کو استغفار کی بہت زیادہ ضرورت ہے؛ کیونکہ انسان دن رات گناہوں میں ملوّث رہتا ہے، اور قرآن مجید میں توبہ و استغفار کا ذکر بار بار آیا ہے، نیز انسان کو کثرت سے استغفار کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے"۔

اسی طرح انسان اپنے سارے گناہوں کی بخشش بھی اللہ تعالی سے مانگ سکتا ہے، چاہے اسے اپنے گناہ یاد ہوں یا نہ یاد ہوں، کیونکہ انسان بہت سے گناہ کر کے بھول جاتا ہے، لیکن اللہ تعالی کو بندے کے سب گناہ یاد رہتے ہیں، اور انہی کی بنیاد پر بندے کا محاسبہ بھی ہو گا، چنانچہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "نبی ﷺ عام طور پر دعا مانگا کرتے تھے:
 (اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي ، وَجَهْلِي وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِيْ ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي ، اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي جِدِّيْ وَهَزْلِي، وخَطَئِيْ، وَعَمْدِي وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي ، اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ ، وَمَا أَخَّرْتُ ، وَمَا أَسْرَرْتُ ، وَمَا أَعْلَنْتُ ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّيْ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) 
[میرے پروردگار! میرے گناہ، اپنے بارے میں جہالت و زیادتی سمیت ان تمام گناہوں کو بھی بخش دے جنہیں تو مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے، یا اللہ! میرے سنجیدہ و غیر سنجیدہ ، سمجھ و نہ سمجھ والے سب گناہ بھی بخش دے، میرے گناہوں میں یہ سب اقسام موجود ہیں، یا اللہ! میرے گزشتہ، پیوستہ، خفیہ، اعلانیہ، اور جنہیں تو مجھے سے بھی زیادہ جانتا ہے سب گناہ معاف فرما دے، تو ہی آگے بڑھانے اور پیچھے کرنے والا ہے، اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔]بخاری و مسلم

اور نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (اس امت میں شرک چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی انداز میں سرایت کرے گا)، تو اس پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا: "اس سے خلاصی کا کیا ذریعہ ہے؟" تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے انہیں کہا کہ تم کہو: 
(اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ شيئا وَأَنَا أَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَا أَعْلَمُ) 
[یا اللہ! میں جان بوجھ کر تیرے ساتھ کسی کو شریک بنانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور ان گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں جو میرے علم میں نہیں ہیں۔]ابن حبان نے اسے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، جبکہ امام احمد نے ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

چنانچہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی سے اپنے تمام گناہ جنہیں جانتا ہے یا نہیں جانتا سب کی بخشش مانگے تو اسے بہت بڑی بات کی توفیق مل گئی ہے۔

گناہوں کی بخشش کےلیے انسان کی طرف سے کی جانے والی دعا اخلاص، اصرار، گڑگڑانے، اور اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری کے اظہار پر مشتمل ہوتی ہے، نیز اس میں گناہوں سے توبہ بھی شامل ہے، اور اللہ تعالی سے توبہ مانگنا بھی استغفار ہی کی ایک شکل ہے، چنانچہ یہ تمام امور استغفار اور توبہ کے ضمن میں آتے ہیں، لہذا مذکورہ الفاظ الگ الگ ذکر ہوں تو تمام معانی ان میں یکجا ہوتے ہیں، اور جب یہ الفاظ سب یکجا ہوں تو استغفار کا مطلب یہ ہو گا کہ: گناہوں اور ان کے اثرات کے خاتمے، ماضی میں کیے ہوئے گناہوں کے شر سے تحفظ اور گناہوں پر پردہ پوشی طلب کی جائے۔

جبکہ توبہ کے مفہوم میں: گناہ چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع ، گناہوں کے خطرات سے مستقبل میں تحفظ اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم شامل ہے۔

انسان کو ہر وقت استغفار کی سخت ضرورت رہتی ہے، خصوصاً دورِ حاضر میں کیونکہ اس وقت گناہوں اور فتنوں کی بھر مار ہے، نیز استغفار دنیاوی اور اخروی زندگی میں کامیابی کا ضامن بھی ہے، چنانچہ استغفار خیر و بھلائی کا دروازہ اور تکالیف و مصائب ٹالنے کا باعث ہے، پوری امت کو بحیثیت کل دائمی طور پر توبہ استغفار کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ پوری امت پر نازل شدہ آفات اور تکالیف ٹل جائیں، نیز آنے والی مصیبتوں سے تحفظ حاصل ہو۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے استغفار کو اپنی عادت بنا لیا، تو اللہ تعالی اس کیلیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ اور تمام غموں سے کشادگی عطا فرمائے گا، نیز اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں تھا) ابو داود

نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے استغفار کے بارے میں متعدد الفاظ اور اذکار ثابت ہیں، انہیں اپنانے سے بہت ہی عظیم ثواب ملے گا، ان میں سے چند یہ ہیں:

آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے کہا: "أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ، الْحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيهِ" [میں اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتا ہوں اس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ زندہ جاوید اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے، اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ]تو اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، چاہے وہ میدان جہاد کا بھگوڑا ہی کیوں نہ ہو) ابو داود، ترمذی نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے بستر پر لیٹتے وقت تین بار کہا: "أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ، الْحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيهِ"[میں اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتا ہوں اس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ زندہ جاوید اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے، اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ]اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں) ترمذی

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص رات کے وقت بیدار ہو اور پھر کہے: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ "[اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ تنہا و یکتا ہے، اسی کی بادشاہی ہے، اور تعریفیں اسی کیلیے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ پاک ہے، تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، اللہ بہت بڑا ہے، نیکی کرنے کی طاقت اور گناہ سے بچنے کی ہمت صرف اللہ کی طرف سے ہی ملتی ہے]پڑھ کر اس نے کہا: "یا اللہ! مجھے بخش دے" تو اس کی دعا قبول ہو گی، اور اگر نماز پڑھے تو وہ بھی قبول ہو گی) بخاری

اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ: (جو شخص جمعہ کے دن فجر سے پہلے تین بار کہے: "أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ، الْحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيهِ" [میں اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ زندہ جاوید اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے، اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ] اس کے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں )

نیز شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: (سید الاستغفار یہ ہے کہ تم کہو: "اَللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ"[یعنی: یا اللہ تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا ہے، اور میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے کیے ہوئے اعمال کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں تیرے حضور مجھ پر ہونے والی تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں، ایسے ہی اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، لہذا مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے] آپ نے فرمایا: جس شخص نے کامل یقین کے ساتھ دن کے وقت اسے پڑھا، اور اسی دن شام ہونے سے پہلے اس کی وفات ہو گئی ، تو وہ اہل جنت میں سے ہو گا، اور جس شخص نے اسے رات کے وقت کامل یقین کے ساتھ اسے پڑھا اور صبح ہونے سے قبل ہی فوت ہو گیا تو وہ بھی جنت میں جائے گا) بخاری

کسی بھی عبادت کے دوران اور اس سے فراغت کے بعد بھی استغفار کرنا شرعی عمل ہے، تا کہ عبادت میں ممکنہ کمی کوتاہی پوری ہو سکے، نیز خود پسندی اور ریاکاری سے انسان دور رہے۔

اسی طرح ہر مسلمان تمام مومن و مسلم مرد و خواتین، زندہ و فوت شدہ سب کیلیے بخشش طلب کرے، کیونکہ یہ عمل نیکی، مسلمانوں سے محبت اور دلی صفائی کا باعث ہو گا، نیز اللہ کے ہاں ان کیلیے شفاعت کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ}
 جو ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے بارے میں بُغض نہ رہنے دے ، اے ہمارے رب تو بڑا نرمی کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے [الحشر : 10]

اللہ کے بندو!

اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرو؛ کیونکہ حدیث قدسی ہے کہ: (میرے بندو! تم شب و روز گناہ کرتے ہو، اور میں سارے گناہ معاف کرنے پر قادر ہوں، اس لئے تم مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہیں معاف کر دونگا) مسلم نے اسے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اس لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کرو تو تم اس کے فضل و کرم، جود و سخا، اور برکتوں کا مشاہدہ کر لو گے، تمہارے گناہ مٹا اور درجات بلند کر دیے جائیں گے۔

تقوی الہی اختیار کرنے کیلیے اس کی رضا مانگو ، اسی کی بندگی کرو اور حرام کردہ چیزوں سے بچو۔

ہمارے پروردگار نے تمہیں عملِ صالح کی صلاحیت دیتے ہوئے دنیا کو تمہارے لیے دارِ عمل اور آخرت کو دارِ جزا بنایا، تو یہاں پر با عمل، مخلص اور اچھے طریقے سے عبادت کرنے والے لوگ ہی کامیاب ہوئے، جبکہ بد اعمال اور رو گردانی کرنے والے لوگ تباہ ہو گئے۔

گویا کہ تم موت کے انتظار میں تھے اور وہ آ کر رہے گی ، لیکن تمہاری تمام تمنائیں پوری نہ ہوں گی، سو قصۂ پارینہ بن جانے والوں کی تاریخ اور واقعات میں تمہارے لیے نصیحت و عبرت ہے۔

قبروں والے یہ تمنا کریں گے کہ دنیا میں لوٹ جائیں اور انہیں صرف دو رکعت ادا کر کے ڈھیروں استغفار کرنے کی مہلت دے دی جائے، لیکن ان کی یہ تمنا پوری نہیں کی جائے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ} [المؤمنون: 99، 100]
 اس لیے یہاں پر کسی بھی چھوٹی سی نیکی یا برائی کو معمولی مت سمجھیں، ایک حدیث میں ہے کہ (چھوٹے گناہوں کو معمولی مت سمجھو؛ کیونکہ یہ چھوٹے چھوٹے گناہ جمع ہو کر انسان کو ہلاک کر دیتے ہیں) اور اسی طرح ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ: (کسی بھی نیکی کو حقیر مت جانو، چاہے وہ نیکی اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنے پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو)

یا اللہ! تمام مسلمان و مومن مرد و خواتین کو بخش دے، زندہ اور فوت شدہ سب کو معاف فرما دے، یا رب العالمین!




"استغفار،،، اہمیت، آداب اور مسنون الفاظ" خطبہ جمعہ مسجد نبوی ترجمہ: شفقت الرحمان مغل فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن ...

خود میں تبدیلی ۔۔۔ استاد نعمان علی خان ۔۔۔چھٹا حصہ

خود میں تبدیلی (Self- Transformation)
استاد نعمان علی خان
چھٹا حصہ


بادشاہ (مطلب حکمران) کی طرف آجائیے. بادشاہ اپنی طرف سے بھیجے گئے کسی نمائندہ یا سفیر کے ذریعے دوسرے لوگوں سے متعارف ہوتا ہے. جب آپ کسی نمائندہ/ سفیر کو دیکھتے ہیں تو اس سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ واقعی کسی بادشاہ کی طرف سے ہیں؟ 
‎ تو یہاں اللہ تعالٰی کے نمائندے (سفیر یعنی پیغمبر) کے پاس اس کا ثبوت اللہ کی آیات ہیں. 
‎ جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کی آیات لوگوں کے سامنے تلاوت کرتے ہیں تو وہ دراصل کیا کر رہے ہوتے ہیں؟ وہ اس وقت یہی ثبوت دے رہے ہیں کہ یہ اُس عظیم بادشاہ (اللہ) کا کلام ہے. 
‎ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کا پہلا تعارف کیا ہے؟؟ 
‎ الحمدللہ رب العالمین. الرحمن الرحیم. مالک یوم الدین
‎ سب تعریفیں اللہ( بادشاہ) رب العالمین کے لیے ہیں. وہ رحمان ہے رحیم ہے. وہ بادشاہ ہے، یوم حساب کا مالک ہے. 
‎ پس بادشاہ اپنی علامات سے پہچانا جاتا ہے. یہ ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پہلا کام
‎يَتلو عَلَيهِم آياتِهِ

‎اب دوسرے نام کی طرف آجائیے. 
القدوس (خالص)
‎حضور اکرم کو تفویض کردہ دوسرا کام، جو دوسری آیت میں بیان ہوا ہے 
‎ "ویزکیہم" وہ ان کو پاک کرتا ہے خالص کرتا ہے. 
‎اللہ کا نام ہے "القدوس" اور اس سے متعلقہ حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کا مشن، لوگوں کو خالص کرکے، اللہ کے قریب کرنا، اللہ سے جوڑنا. اللہ کا یہ نام، اور پیغمبر اسلام کا کام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں. 
‎ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ان چاروں ناموں کو لوگوں کے دلوں میں منتقل کر رہے ہیں. 

‎ اب تیسرے نام کی طرف آجائیے 
العزیز (مختار کل، اتھارٹی= با اختیار) 
‎ ایسی ہستی جس کی عزت کی جانی چاہیے. یہ قوانین بنانے والی با اختیار ہستی ہے. حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اسی قانون بنانے والی ہستی کے بل بوتے پر لوگوں کو قانون سکھا رہے ہیں. آپ اس وقت تک کسی کی عزت نہیں کر سکتے. جب تک آپ کے دل میں اس ہستی کے لئے عزت کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا. جب تک آپ کے اندر یہ احساس پیدا نہ ہو جائے کہ ہر کام اس اتھارٹی کی طرف سے ہے. 
‎ جب تک آپ کا دل خالص نہ ہو، آپ قانون کو اپنے اوپر لاگو نہیں کر سکتے. پیغمبر لوگوں کو سکھا رہے ہیں کہ قوانین العزیز کی طرف سے ہیں. 
‎ پہلی آیت میں اللہ کا آخری نام ہے: الحکیم (حکمت و دانش کا ذریعہ) 
‎ یہ نام بھی حضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی ایکٹویٹی پر منطبق ہوتا ہے. اللہ تعالٰی فرماتے ہیں 
ویعلمہم الکتاب والحکمہ 
‎ اللہ جو حکیم ہیں وہ اپنی حکمت ودانش آپ کو دے رہے ہیں اور آگے آپ وہ حکمت اپنے پیرو کاروں کو سکھا رہے ہیں. سبحان اللہ 
‎ اللہ کے یہ چاروں نام حضور پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو دیئے گئے مشن پر منطبق ہوتے ہیں.
‎ یہ ہے قرآن کا ناقابل یقین سفر، جس میں سے وہ لوگ ایسے اچھے طریقے سے گزرے کہ پھر آسمانوں میں بھی ان کا نام جانا گیا. 
‎ اگر آپ بھی اپنے اندر ان ناموں کو جذب کر لیں تو آپ کی بھی آسمان و زمین کے ساتھ مطابقت پیدا ہو جائے گی. حضور پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے کیا کیا؟ انہوں نے آپ کو اس نظام سے جوڑ دیا جو کہ پہلے ہی آپ کے ارد گرد موجود تھا. 
‎ مثلاً اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: 
‎ الشَّمْس وَالْقَمَر بِحُسْبَانٍ. وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ

‎ اللہ تعالٰی ہمیں کیوں بتا رہے ہیں کہ ستارے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں؟ اللہ ہمیں کیوں بتا رہے ہیں کہ پرندے تسبیح کر رہے ہیں؟ کیوں؟ 

‎ اس میں سے کوئی چیز بھی تکمیل کا دعوٰی نہیں کرسکتی. لیکن تمام مخلوقات میں سے صرف آپ ہیں جو اس کی کاملیت کو سمجھ سکتے ہیں. آپ ہیں جو زمین و آسمان کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتے ہیں. 
‎ ہم کیسے تبدیلی کے اس عمل کو سمجھ سکتے ہیں؟ شخصیت کی تبدیلی کا عمل کیسے وقوع پذیر ہو سکتا ہے؟ 
‎ حضور پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے یہ عمل کیسے سر انجام دیا؟ 
‎ ہم نے ہمیشہ سے تقریروں میں یہ سن رکھا ہے کہ حضور پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے ساتھی کتنے عظیم تھے. ان کی زندگیوں میں حیران کن تبدیلیاں آئی تھیں. وہ ناقابل بیان مراحل سے گزرے تھے. وہ اللہ کے سامنے حیرت انگیز طور پر فرمانبردار تھے

‎وہ اصحاب رسول تھے ان جیسا کوئی نہ تھا. مگر میں تو کبھی بھی ان جیسا نہیں ہو سکتا. میں نہیں جانتا کہ میں اپنے اندر ویسی تبدیلیاں لا سکتا ہوں یا نہیں یا کہ قرآن مجھے ان عظیم تاریخی تبدیلیوں کی اطلاع دے رہا ہے یا مجھے اپنی کایا پلٹنے کا سبق دے رہا ہے.تیسری آیت میں دیکھیں الله سبحان و تعالی کیا فرماتا ہے. 
‎*" وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيز الْحَكِيم "*
‎دوسرے کچھ اور لوگ بھی ہیں. اس سے مراد عرب کے علاوہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں اور آنے والی دوسری نسلیں بھی جو ابھی تک ان سے آن نہیں ملے اور الله سب سے زبردست حکمت والا ہے.

‎اللة تعالی خود یہاں فرما رہا ہے کہ یہ مذہبی، اخلاقی، سماجی انقلاب صرف اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم تک محدود نہیں ہے بلکہ اس انقلاب نے رہتی دنیا تک تبدیلیاں لاتے رہنا ہے کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور جو لوگ ان سے ذاتی طور پر نہ مل سکے اور نہ ان کے اصحاب سے، ان تک قرآن ضرور پہنچتا رہے گا اور وہ اسی تبدیلی سے گزریں گے جن سے وہ لوگ گزرے.
‎الله کی ایسی بات سن کر اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم بھی حیران رہ گئے کہ وہ دوسرے کون ہیں؟

جاری ہے ۔۔۔۔ 

خود میں تبدیلی (Self- Transformation) استاد نعمان علی خان چھٹا حصہ ‎ بادشاہ (مطلب حکمران) کی طرف آجائیے. بادشاہ اپنی طرف سے بھ...

تبلیغ (مکالمہ از عمر الیاس)

تبلیغ (ڈائلاگ)
بشکریہ: عمر الیاس 

کہاں گئے ہوئے تھے؟؟

تبلیغی دورے پر۔۔

کیسا رہا؟

اپنی پوری کوشش کی ۔۔ پر ایک بندہ بھی مائل نہیں ہوا۔۔ الٹا میں خود تذبذب کا شکار ہو گیا۔۔

اس کوشش کے بارے میں بتاؤ۔۔۔

خطبات دیے ۔۔۔ بیانات ۔۔۔ وعظ ۔۔۔۔  بہت سارے ۔۔ روزانہ کم از کم پانچ

اسی لیے نتیجہ نہیں نکلا تبلیغ کا

کیوں؟؟

"تبلیغ کہہ کے نہیں کی جاتی :) 
اور جو کہہ کے کی جائے وہ تقریر، خطابت، وعظ، تکرار، بحث تو ہو سکتی ہے ۔۔۔ 'تبلیغ" نہیں"۔۔ 

تبلیغ (ڈائلاگ) بشکریہ: عمر الیاس  کہاں گئے ہوئے تھے؟؟ تبلیغی دورے پر۔۔ کیسا رہا؟ اپنی پوری کوشش کی ۔۔ پر ایک بندہ بھی ...

فتویٰ دینے اور سوال پوچھنے کے آداب۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)

مسجد الحرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید

جمعۃ المبارک 28 صفر 1439ھ بمطابق 17 نومبر 2017ء

ترجمہ: محمد عاطف الیاس
 نظر ثانی:  میاں عتیق الرحمٰن

لوگو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے، اللہ سے ڈرتے رہو اور اس علم سے بچو جس کا اثر آپ کے عمل میں نہیں، اس عبادت سے بچو جس میں اخلاص نہیں، اس مال سے بچو جس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی جاتی، اس دل سے بچو جس میں محبت الٰہی اور اسے ملنے کا شوق نہیں، اور اس وقت سے بچو کہ جسے بھلائیوں اور نیک کاموں سے معمور نہیں کیا جاتا۔

یاد رکھو کہ وہ خطرناک ترین چیزیں کہ جن سے بچنا ناگزیر ہے: دل کی بربادی اور وقت کا ضیاع۔ دل کی بربادی تو دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے سے ہوتی ہے اور وقت کا ضیاع خواہشات کی پیروی اور طویل امیدوں سے ہوتا ہے۔ مکمل نیکی یہ ہے کہ راہ ہدایت پر چلا جائے اور قیامت کی تیاری کی جائے۔

اے مسلمانو!

علم، انبیا کی میراث ہے اور سوال علم کی کنجی ہے۔ شریعت اسلامیہ نے علم سیکھنے کے لیے سوال کا حکم دیا ہے اور کی ترغیب دلائی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
 ’’اُن لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں‘‘ [يونس: 94]۔ 
اسی طرح فرمایا: 
’’اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے‘‘ [النحل: 43]۔

ابن شہاب کہتے ہیں کہ: ’’علم کئی خزانوں پر مشتمل ہے، ہر خزانے کی کنجی سوال ہے۔‘‘

الخلیل کہتے ہیں: ’’ہر علم پر ایک تالا لگا ہوتا ہے جس کی کنجی سوال ہے۔ جب تمہارے ہاتھ میں کنجیاں آ جائیں تو پھر تم جس تالے کو چاہو، کھول لو‘‘

سوال کرنے والے کے سوال سے اس کی عقل اور اس کا ادب جھلکتا ہے۔ عقل مند ہر چیز کو اپنی زبان پر نہیں لاتا اور جاہل یہ نہیں جان پاتا کہ کون سی چیز کہنی چاہیے اور کون سی نہیں کہنی چاہیے، یا کون سی چیز کب اور کیسے کہنی چاہیے۔

اس حوالے سے چند قاعدے جان لیجیے۔ سوال یوں کرو، گویا کہ تم جاہل ہو۔ عقلمندوں کی طرح جواب کو سمجھو۔ سوال درست ہو تو اسی میں آدھا جواب ہوتا ہے۔ جو استادوں کے سامنے ذلیل ہوتا ہے وہ استاد بن کر بڑی عزت کماتا ہے۔ علم وہی سیکھتا ہے جس کی زبان سوال کرنے والی، دل عقلمند اور بہترین ادب کا حامل ہو۔

اے مسلمان معاشرے کے لوگو!

چونکہ علم کے میدان میں سوال وجواب کی بڑی اہمیت ہے، تو اہل علم نے سوال پوچھنے اور فتویٰ دینے کے آداب پر طویل تحریریں لکھی ہیں۔

آج کے دور میں اللہ تعالیٰ نے رابطے کے وسائل بڑھا دیے ہیں اور کسی سے بات چیت کرنا انتہائی آسان ہو گیا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ ان آداب کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو اہل علم نے سوال وجواب کے متعلق بیان کیے ہیں۔

اور جب ہم اخبارات، میگزینز، ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ پر مفتیوں کا حال دیکھتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ فتویٰ واقعتًا ایک اہم اور عظیم ذمہ داری ہے۔

میں اس حوالے سے چند گزاشات پیش کرتا ہوں جن میں چند آداب آ جائیں گے۔

پہلی گزارش: سوال کرنے والے اور فتویٰ پوچھنے والے کے متعلق ہے۔

علماء کرام کا کہنا ہے کہ: سوال کرنے والے اور فتویٰ پوچھنے والے کو چاہیے کہ اپنے سوال میں حقائق کو جوں کا توں، انتہائی باریک بینی کے ساتھ نقل کرے، یہاں تک کہ اسے تسلی ہو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے یہاں اسے اس کے سوال کی سچائی کے متعلق پوچھا گیا تو وہ سرخرو ہی ہو گا۔

ان مسائل کے متعلق پوچھنا چاہیے جو سائل کو درپیش ہیں۔ جن مسائل کا سامنا ہی نہ ہو، ان کے متعلق پوچھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ سوال کرتے وقت حقائق چھپانے، حقائق کو چلاکی سے تبدیل کرنے یا الفاظ کے ہیر پھیر سے غلط مطلب سمجھنے سے بچنا چاہیے۔

ایک ہی سوال کو لے کر مفتیوں میں گھومتے نہیں رہنا چاہیے۔ یہ دیانت داری اور خدا خوفی کے خلاف ہے۔

آسانیاں تلاش کرنے اور مفتیوں کے فتووں سے آسان ترین یا من پسند فتووں کو اپنانے سے بچنا چاہیے۔ اہل علم کہتے ہیں: ’’جو ہر عالم کی دی گئی رخصت پر عمل کرتا ہے اور ہر مفتی کی غلطی ڈھونڈتا رہتا ہے، اس میں ساری برائی جمع ہو جاتی ہے‘‘

جو اپنے لیے بھلائی چاہتا ہے، وہ علما کی باتوں کا تقابل کر کے انہیں غلط ثابت کرنے میں نہ لگے۔ کیونکہ علما تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دور سے اپنے اجتہاد، رائے اور جوابوں میں اختلاف کرتے رہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے۔ چنانچہ ہمیں خود بری الذمہ ہونے کی فکر کرنی چاہیے تاکہ ہمارا دین بھی سلامت رہے، عبادت بھی درست ہو، معاملات بھی ٹھیک ہو جائیں اور زندگی آگے بڑھ سکے۔

اے میرے بھائیو!

اگر کسی مسئلے میں دو مختلف جواب سامنے آ جائیں تو اس عالم کے جواب پر عمل کرنا چاہیے کہ جو اپنے دین، علم اور خدا خوفی کے اعتبار سے بہتر ہے۔ خواہشات کی پیروی اور رخصتوں کی تلاش سے بچنا چاہیے۔

جو عالم کے امتحان کے لیے سوال کرتا ہے، وہ محرومی، گھاٹے اور دل کی سختی لے کر لوٹتا ہے۔ سوال تو سائل کی ضرورت کے لیے ہوتا ہے اور اس کا مقصد جواب معلوم کرنا، اس سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے، نہ کہ اہل علم سے بحث کرنا اور اپنی علمیت جتانا۔

حدیث میں آتا ہے: ’’جو علماء سے بحث کرنے کے لیے، جاہلوں کے سامنے اپنی علمیت جتانے کے لیے یا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے علم حاصل کرتا ہے اللہ اسے جہنم میں ڈال دیتا ہے۔‘‘

سوال کو ضرورت سے زیادہ طویل نہیں کرنا چاہیے۔ ضرورت کے بغیر زیادہ سوال بھی نہیں کرنے چاہیں، تاکہ مفتی کے قیمتی وقت اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا جا سکے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں: ’’میں نے صحابہ کرام سے بھلے لوگ کبھی نہیں دیکھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں صرف تیرہ مسئلے ہی پوچھے اور ان سب کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ وہ صرف ضرورت کے وقت سوال کیا کرتے تھے۔‘‘

ادب کا تقاضا یہ ہے کہ سائل اپنے سوال میں یہ نہ کہے: ’’فلاں عالم نے کہا ہے‘‘ یا ’’فلاں عالم آپ کی رائے کی مخالفت کرتے ہیں‘‘ کیونکہ یہ بدتمیزی ہے اور کسی کو یہ پسند ہوتا کہ اس سے سوال کرتے وقت دوسروں کے اقوال نقل کیے جائیں۔

دانشمندوں کا کہنا ہے: ’’ہم عصر لوگوں کی باتیں کتابوں میں ہی رہنی چاہیں۔ انہیں آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔‘‘

علماء کے درمیان اختلاف کو ہوا دینے یا ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے برے جذبات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

اے مسلمان معاشرے کے لوگو!

دوسری گزارش: عورت کے حوالے سے ہے۔ 
اسے بھی حق کا سوال ہے اور اسے کن آداب کا لحاظ کرنا چاہیے؟

عورت کو بھی دینی مسائل دریافت کرنے کا حق ہے اور مسلمان عورت سوال سے بے نیاز بھی نہیں ہو سکتی۔

امام بخاری کی کتاب میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب بھی کوئی ایسا مسئلہ معلوم ہوتا جس کا جواب نہیں معلوم نہ ہوتا تو وہ اس کے متعلق پوچھتی رہتیں، یہاں تک وہ اس کا جواب معلوم کر لیتیں۔ صحابیات رسول صحابہ کرام سے سلام کرتیں، فتویٰ پوچھتیں، سوال کرتی اور مشورہ طلب کرتی تھیں۔

امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’انصار کی عورتیں بھی خوب عورتیں تھیں۔ حیا نے انہیں دین سیکھنے اور سمجھنے سے نہیں روکا‘‘

سائل کو یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ مفتی کا فتویٰ نہ کسی حرام کو حلال کرے گا اور نہ کسی حلال کو حرام کرے گا۔ اگر سائل سوال میں حیلہ کیا ہو اور سوال کے لفظوں میں ایسے تبدیلی کی ہو کہ معنیٰ اور مفہوم محتمل ہو جائے تو مفتی تو سوال کے مطابق ہی جواب دیتا ہے۔

اسی طرح اگر مفتی اس کا لحاظ کرے یا خاص تعلق کی وجہ سے درست فتویٰ نہ دے تو دونوں گناہ گار ہیں۔

اللہ مفتیوں کو صحیح فتوے  دینے کی توفیق عطا فرمائے، صحیح راستہ دکھائے۔ ہم سب نے اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔

تیسری گزارش: مفتی کے آداب کے حوالے سے یہ ہے۔

مفتی اللہ رب العالمین کی طرف سے مہر لگانے والا ہے۔ وہ جس چیز کا فتویٰ دیتا ہے وہ اسے شریعت اسلامیہ کی طرف منسوب کرتا ہے۔ یا تو کسی واضح آیت یا حدیث کی بنا پر، یا پھر اہل علم ہونے کی حیثیت سے مناسب اجتہاد کی بنا پر فتویٰ دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 
’’لوگ تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں کہو اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے‘‘ [النساء: 176]،
 تو گویا مفتی اللہ کی طرف سے لوگوں کو احکام بتاتا ہے اور اللہ کی طرف سے ان احکام پر مہر لگاتا ہے۔

مفتی کو فتویٰ دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ آرام سے اور ٹھنڈے دماغ سے سوال پر غور کرنا چاہیے اور اسے اپنے دماغ میں واضح کر کے صورت حال کا صحیح اندازہ لگانا چاہیے۔

جواب واضح ہونا چاہیے، مکمل اور شامل ہونا چاہیے۔ سائل کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے اور سوال سمجھنے اور جواب سمجھانے میں صبر سے کام لینا چاہیے۔

اسی طرح لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنی چاہیں، ان کے احوال، عادات اور صورت حال کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ ان سے سختیاں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

یاد رہے کہ آسانی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرائض چھوڑنے کی اجازت دے دی جائے یا شرعی احکام کو ختم کر دیا جائے اور لوگوں کی خواہشات کے ساتھ چلا جائے۔

اہل علم فرماتے ہیں: وقت، جگہ، عادات اور حالات کی تبدیلی سے فتویٰ بدل سکتا ہے، مگر لوگوں کی خواہشات کے ساتھ نہیں بدل سکتا، بلکہ یہ ان اصولوں پر قائم رہتا جو شریعت اسلامیہ نے وضع کیے ہیں اور جن میں ہر تبدیلی کی وجہ اور ضرورت کا مکمل طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے، اللہ سے ڈرو۔  ہر مفتی اور سائل اللہ سے ڈرے۔ شریعت کے احکام کی قدر کرو۔ یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرو، خود بریء الذمہ ہو جاؤ، آخرت میں اللہ کے سامنے پیش ہونے اور حساب کتاب دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

فتویٰ دینے اور سوال پوچھنے کے آداب مسجد الحرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید جمعۃ المبارک 28 صفر 1439ھ ...

" زندگی کے رنگ امنگوں کے سنگ" ۔۔ خطبہ جمہ مسجد نبوی

خطبہ جمعہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 28-صفر- 1439 کا خطبہ جمعہ " زندگی کے رنگ امنگوں کے سنگ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ انسانی زندگی نہ ختم ہونے والی امنگوں سے بھری ہوئی ہے ، ان میں سے جو تمنا نیکی کیلیے ہو تو وہ اچھی ہے اور جو تقدیری فیصلوں سے متصادم ہو تو وہ مذموم ہے، بلند لوگوں کے ارمان بھی انہی کی طرح بلند ہوتے ہیں ، صرف دنیا تک ہی محدود نہیں ہوتے بلکہ آخرت بھی ان میں شامل ہوتی ہے۔

خطبے سے منتخب اقتباس پیش ہے:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
 اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔[آل عمران: 102]

اللہ تعالی نے اس وسیع کائنات کو مسخر فرمایا اور اس دنیا کو انسان کی نہ ختم ہونے والی امنگوں کا میدان قرار دیا، تو کچھ لوگوں کی زیادہ تو کچھ کی کم امنگیں ہوتی ہیں؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ابن آدم کھجوروں کی ایک وادی کا مالک ہو تو وہ اس جیسی ایک اور وادی کا ارمان کرنے لگے پھر دوسری کا یہاں تک کہ کئی وادیوں کی خواہش کرنے لگے گا اور ابن آدم کے پیٹ کو مٹی ہی بھرے گی) اس روایت کو ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔

امنگ نیکی کے لیے ہو تو قابل ستائش ہے، اور جو تمنا تقدیری فیصلوں پر اعتراض اور ناممکن الحصول کے لیے ہوں تو وہ قابل مذمت ہیں، انسان کے ارمان انسان کے ارادوں کے ترجمان ہوتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (انسانی نفس تمنا اور چاہت رکھتا ہے)انہی ارمانوں کی وجہ سے کچھ تو شان و شوکت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں اور کچھ ذلت کے گڑھوں میں جا گرتے ہیں۔

اچھی خواہشات اور تمنائیں بھی عظیم ثواب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں، ابو کبشہ انماری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے چار قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایا: (ایک شخص کو اللہ نے مال اور علم عطا فرمایا تو وہ اپنے علم کے مطابق دولت کو راہِ حق میں خرچ کرتا ہے اور ایک شخص کو اللہ تعالی نے علم دیا لیکن اسے مال نہیں دیا اور وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ اگر اسے بھی دولت مل جائے تو وہ بھی اسی طرح خرچ کرے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: یہ دونوں اجر میں برابر ہیں۔ اور ایک شخص کو اللہ تعالی نے مال دیا لیکن اسے کے پاس علم نہیں ہے اور وہ مال کو ناحق راستوں میں خرچ کرتا ہے ، اور ایک شخص کو اللہ تعالی نے نہ مال دیا اور نہ ہی دولت سے نوازا تو وہ بھی یہ کہتا ہے کہ اگر مجھے اس کی طرح مال مل جائے تو میں بھی اسی طرح اسے ناحق خرچ کروں گا جیسے یہ کرتا ہے کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں) ابن ماجہ

نیک نیتی کے ساتھ عملی کاوش اور جہدِ مسلسل نہ ہو تو خالی ارمانوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے ، اللہ تعالی کا [عملی کاوش کی ترغیب کے لیے ]حکم ہے:
 {وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ}
 اور اپنے رب کی مغفرت کی جانب دوڑ پڑو۔[آل عمران: 133]

بلکہ تمنائیں اور ارمان بھی دعا کی اقسام میں سے ایک ہیں، یہ بھی قبولیت کی بنا پر شرمندہ تعبیر ہو جاتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کوئی اللہ سے تمنا کرے تو خوب کھل کر مانگے؛ کیونکہ وہ اپنے پروردگار سے مانگ رہا ہے) اس روایت کو ہیثمی نے روایت کیا ہے اور البانی کے مطابق اس روایت کے راوی صحیح [بخاری] کے ہیں۔

مسلمان کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ ارمان پورے ہونے کا تعلق اللہ تعالی کے حکم سے ہے، اس لیے اگر اس کے ارمان ادھورے رہ جائیں تو جھلملاتا نہیں ہے اور نہ ہی افسردہ ہوتا ہے؛ کیونکہ خیر اسی چیز میں جو اللہ تعالی نے اس کے لیے اختیار فرمائی ہے، چنانچہ بندہ ہر حالت میں اپنے پروردگار کا شکر ہی بجا لاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}
 اور یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی چیز کو تم پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں بری ہو۔ اور اللہ ہی خوب جانتا ہے، تم نہیں جانتے [البقرة: 216]

اگر انسان کے ارمان دنیاوی امور تک ہی رہیں آخرت کے لیے ان میں کوئی جگہ نہ ہو تو وہ راہِ راست سے دور اور گمراہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا (18) وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا}
 جو شخص دنیا چاہتا ہے تو ہم جس شخص کو اور جتنا چاہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں پھر ہم نے جہنم اس کے مقدر کر دی ہے جس میں وہ بدحال اور دھتکارا ہوا بن کر داخل ہو گا [19] اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لئے اپنی مقدور بھر کوشش بھی کرے اور مومن بھی ہو تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔ [الإسراء: 18، 19]

اپنے ارمانوں کو پورا کرنے کے لیے جو شخص جادو گروں اور شعبدہ بازوں سے تعاون لے تو وہ اپنے آپ پر بہت زیادہ ظلم ڈھاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص کسی کاہن یا جادو گر کے پاس آئے اور اس کی بات کی تصدیق کر دے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم - پر نازل شدہ شریعت سے کفر کرتا ہے) اس روایت کو طبرانی نے نقل کیا ہے اور ابن حجر نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔

امنگوں کے اس سفر میں اعلی ترین صورت حال اس وقت پیدا ہو گی جب اہل جنت اپنے ارمانوں کے مطابق جنت کی نعمتیں پا لیں گے، پروردگار بھی ان پر فیاضی فرمائے گا اور انہیں اپنے کرم سے عطا فرمائے گا (جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا جب جنت میں جائے گا تو جنت اس کے لیے وسیع اور خوبصورت بن چکی ہو گی، تو پروردگار فرمائے گا: تم اپنی خواہشیں بتلاؤ، تو بندہ اپنی خواہشات بیان کرنا شروع کرے گا تو اللہ تعالی فرمائے گا: تجھے تیری ساری خواہشات دیتا ہوں اور دنیا سے دس گنا زیادہ بھی)

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے اعمال کی توفیق مانگتے ہیں، نیز جہنم اور اس کے قریب کرنے والے تمام اعمال سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

آمین

" زندگی کے رنگ امنگوں کے سنگ " خطبہ جمعہ مسجد نبوی ترجمہ: شفقت الرحمان مغل فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی...

آج کی بات ۔۔۔ 20 نومبر 2017

 ~!~آج کی بات~!~ 

ماضی رہنے کے لیے نہیں، سیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔

 ~!~آج کی بات~!~  ماضی رہنے کے لیے نہیں، سیکھنے کے لیے ہوتا ہے۔

گرین فرائی ڈے

گرین فرائی ڈے
ابو یحییٰ کا ایک اہم مضمون

ماہ نومبر کے آخر میں مغربی دنیا میں بلیک فرائی ڈے منایا جاتا ہے۔یہ دن مغربی دنیا خاص کر امریکہ میں کرسمس کے لیے کی جانے والی خریداری کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ اس موقع پر ہر جگہ زبردست ڈسکاؤنٹ دیے جاتے ہیں۔ اسی کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی پاکستان کی اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس نے بلیک فرائی ڈے منانا شروع کردیا ہے۔ اس روز زیادہ تر برانڈز اپنی مصنوعات پر 70 فی صد تک ڈسکاؤنٹ دیتی ہیں اور شاپنگ سنٹر کے اندر خریداروں کا ہجوم رہتا ہے۔

بلیک فرائی ڈے اپنے تصور کے لحاظ سے ایک اچھی چیز ہے۔ کسی تہوار سے پہلے اس طرح رعایتی نرخ پر اشیا کی فروخت اپنی ذات میں ایک اچھا تصور ہے۔ اس کے نتیجے میں غریب اور کم آمدنی والے طبقات بھی تہوار کی خوشیوں میں شریک ہوجاتے ہیں۔ اسے ہمیں ضرور اپنانا چاہیے لیکن کچھ ترمیم کے ساتھ۔

ہمارے ہاں 97 فی صد مسلمان ہیں جن کا تہوار عید ہے، کرسمس نہیں۔ اس لیے بلیک فرائی ڈے جیسی چیز ضرور منائی جائے لیکن اس کا وقت اور نام ٹھیک کرلیا جائے۔ ہم اس کا نام بلیک فرائی ڈے سے بدل کر کچھ اور جیسے گرین فرائی ڈے رکھ سکتے ہیں۔ جبکہ اس دن کا درست موقع محل رمضان سے قبل ہے۔ یہ عید کا تہوار ہے جس میں عام لوگوں کو سستی اشیا کی ضرورت ہوتی ہے، کرسمس نہیں۔ اس لیے تاجر برادری منافع ضرور کمائے لیکن ہماری تہذیبی روایات کو مد نظر رکھے۔ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ اشرافیہ کے ساتھ عام لوگوں تک اس کا دائرہ وسیع کیا جائے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں اشیاء کی قیمتیں کم کرنے کے بجائے بڑھانے کا رواج عام ہے۔ ایسے میں اگر مغربی تہذیب کی پیروی میں کوئی اچھی چیز ہمارے ہاں آرہی ہے تو کم از کم کچھ معقولیت کے ساتھ آئے۔ ہم میں اگر اتنی زندگی بھی نہیں پائی جاتی تو ہماری تہذیب جلد ہی مردہ ہوجائے گی۔

گرین فرائی ڈے ابو یحییٰ کا ایک اہم مضمون ماہ نومبر کے آخر میں مغربی دنیا میں بلیک فرائی ڈے منایا جاتا ہے۔یہ دن مغربی دنیا خاص کر...

خود میں تبدیلی ۔۔۔ استاد نعمان علی خان ۔۔۔پانچواں حصہ

خود میں تبدیلی (Self- Transformation)
استاد نعمان علی خان
پانچواں حصہ


‎میں مطابقت کے حوالے سے بات کرنا پسند کروں گا. جس سے ان بنیادی تصورات کی وضاحت ہوگی جو یہاں بیان ہوئے ہیں. آپ ذرا پہلے زمانے کے کسی غیر ترقی یافتہ گاؤں کا تصور کریں، جہاں کے رہنے والے بھی زیادہ مہذب نہ ہوں. ان کے پاس قوانین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ بھی نہیں. ایک دن ان کے پاس باوردی فوجیوں پر مشتمل، ایک گھڑسوار وفد آتا ہے، ساتھ ایک منفرد لباس میں ملبوس سفارت کار بھی ہے. واضح رہے کہ یہ سفیر اس علاقے سے تعلق نہیں رکھتا، وہ مقامی لوگوں کے پاس آکر اپنے بادشاہ کی طرف سے بھیجا گیا ایک لمبا سا فرمان کھول کر پڑھنا شروع کر دیتا ہے- کہ ان کا بادشاہ اس گاؤں کا اپنے ساتھ الحاق کرنا چاہتا ہے اور اپنی سلطنت کا حصہ بنانے کے بعد وہ ان کو کچھ فائدے بھی دے گا- یہاں کے لوگوں پر کچھ قوانین کا اطلاق بھی ہوگا. اب لوگوں کا متوقع ردعمل یہ ہوگا کہ وہ اس سے دریافت کریں گے کہ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم واقعی کسی بادشاہ کے نمائندے ہو؟ ایسے موقع پر وہ سفیر جواباً کوئی شاہی سکے یا قیمتی چیزیں دکھائے گا جو شاہی دربار سے متعلقہ ہوں گی. اب اگر آپ کو اس شاہی وفد اور سفارت کار پر یقین آجائے، تو پھر آپ کا اگلا لائحہ عمل یہ ہو گا کہ آپ اس بادشاہ سے ملنا چاہیں گے. اس ملاقات کے لئے آپ اپنے آپ کو صاف ستھرا کر کے بہترین لباس زیب تن کریں گے. دربار کے سارے لوازمات کا اہتمام کریں گے - 
‎یہ عرب، اللہ تعالٰی کے معجزانہ الفاظ کا تجربہ کر رہے تھے. وہ الفاظ ان کو حلیم و بردبار بنا رہے تھے. ایسے ثبوت ملتے ہیں کہ ایک دفعہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس بحث و مباحثہ کے لیے آئے. آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) آیات تلاوت کر رہے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اس آیت پر پہنچے جہاں اللہ تعالٰی کی طرف سے سجدہ کا حکم ہے تو ہر کوئی سجدہ میں گر گیا، کافروں کا وہ سارے کا سارا وفد سجدہ ریز ہوگیا. دیکھئے قرآن کے الفاظ نے ان کو کتنا مغلوب کر دیا تھا، اسی طرح حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے لوگوں کو قرآن کی معجزانہ طاقت سے متعارف کروایا

پہلا کام جو اللہ کے نبی کرتے تھے:
‎1_ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِهٖ 
وہ ان پر آیات پڑھتے تھے

‎ وہ لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہے ہیں کہ یہ الفاظ کسی انسان کی طرف سے نہیں ہیں، بلکہ ایک بہت عظیم الشان اور طاقتور ہستی سے تعلق رکھتے ہیں. اب کچھ لوگ ان الفاظ کو پہچان کر قبول کر رہے ہیں. یہی لوگ پاک صاف بھی ہونا چاہتے ہیں. اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر وقت حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں، ان لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے گرد ایک سوسائٹی بنا لی ہے. 

دوسرا کام: 
‎ 2_ وَيُزَكّيهِم 
انہیں پاک کرتے تھے

‎چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی طرف سے مسلسل یاد دہانی کا عمل جاری ہے. جس سے ان کو فائدہ پہنچ رہا ہے. 
‎ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کے الفاظ کے ذریعے لوگوں کو مسلسل نصیحت کر رہے ہیں. 
‎ اس سے دو نتائج مل رہے ہیں، ایک تو ان کے دل لالچ، حسد، مادیت پرستی دنیاوی خواہشات سے پاک ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور دوسرا ان کے دل اللہ کے سامنے جھک جاتے ہیں اور وہ اللہ کے ساتھ جڑنا شروع ہو جاتے ہیں. اور مادی چیزوں سے تعلق کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے. وہ چیزوں کو زیادہ شائستگی اور خوبصورتی سے دیکھنے لگتے ہیں. ان کے ذہن بھی تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں. یہی ہے "ویزکیہم" ... وہ ان کو پاکیزہ بنا رہا ہے. 

تیسرا کام
‎ 3_ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتابَ
اور انہیں کتاب سکھاتے

‎ اب تبدیلی کا تیسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے. اب وہ ان چیزوں پر تنقید کر رہے ہیں جن پر پہلے نہیں کرتے تھے. وہ ان چیزوں کی تعریف کرنے لگتے ہیں جن کے وہ پہلے معترف نہ تھے. صفائی/ تطہیر ہو رہی ہے. کیوں کہ وحی ایک تواتر سے مسلسل نازل ہو رہی ہے. جب وہ پاکیزگی کے عروج پر پہنچتے ہیں تو ان کے دل و دماغ مکمل طور پر اللہ کے مطیع ہو چکے ہوتے ہیں. اب اللہ کے معجزات تیار ہیں. یہ لوگ مضبوط ہو چکے ہیں. غلط چیزوں کو پیچھے چھوڑنے پر تیار ہیں. 
‎ آخر کار اللہ رب العزت اپنے قوانین نازل کرنا شروع کرتے ہیں. 
‎ مثلاً کوئی ایسی خوراک جو آپ نے پچھلی ساری زندگی میں کھائی ہے. اب آئندہ نہیں کھانی. 
‎ کچھ ایسے مشروب جن کے آپ عادی تھے. اپنی گزشتہ زندگی میں خوب لطف اندوز ہوتے رہے، اب آج کے دن سے ان کو پینا منع ہے. 
‎ کچھ مخصوص کپڑے، جیسا کہ عموماً خواتین لوگوں کے اجتماع میں خوبصورت لگنے کے لیے اپنے آپ کو مختلف چیزوں سے آراستہ کرتی ہیں، لیکن اب قرآن کہتا ہے کہ آئندہ تم نے ایسا لباس زیب تن نہیں کرنا. یعنی اللہ تعالٰی ہمیں قوانین سے متعارف کروا رہے ہیں. 
‎ جب یہ احکامات بھیجے گئے تو لوگ فوراً ان پر عمل پیرا ہو گئے. یہ سب کیونکر ہوا؟ کیونکہ تبدیلی کے پہلے دو مراحل گزر چکے تھے. یعنی تبدیلی کافی لمبے عرصے سے رواج پا رہی تھی. 

‎يَتلو عَلَيهِم آياتِهِ وَيُزَكّيهِم 

‎کافی عرصہ سے اللہ کے معجزانہ کلام کی ‎تلاوت ہو رہی تھی۔ لوگ اللہ کے الفاظ کے ذریعے حلیم اور بردبار ہو چکے تھے. چونکہ کلام الہی مسلسل ان کی تطہیر کر رہا تھا، اس لیے وہ اب قوانین /احکامات لینے کے قابل ہو گئے تھے

‎حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں 
‎کہ اگر قرآن کا پہلا حکم ہی یہ ہوتا، کہ شراب مت پیو، تو خدا کی قسم لوگ اس کو کبھی نہ چھوڑتے. 

‎ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتابَ 
‎ وہ کتاب سیکھاتا ہے 

‎ہمیں اسلام کے اصولوں کو انٹرنلائز کرنا چاہیے. جیسے آج کل بچوں کو منع کیا جاتا ہے کہ یہ حرام، یہ حرام ہے. ایسا مت کیجئے اگر آپ ان میں واقعی کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ کو بھی اسی طریقہ پر چلنا ہو گا جو قرآن نے بتائے ہیں 

‎اب اس تبدیلی کے عمل کا آخری نکتہ آگیا ‎ہے. جس کا سفر کبھی ختم ہونے والا نہیں 


وَالحِكمَة
‎وہ ان کو حکمت سکھاتا ہے

‎ہم حکمت کو کبھی نہ ختم ہونے والا سفر کیوں کہہ رہے ہیں؟ 
‎ قوانین /احکامات، قواعد و ضوابط کا ایک محدود مجموعہ ہیں. مثلاً یہ منع ہے،یا یہ حرام ہے وغیرہ. 
‎ اسی طرح یہ لازم ہے، یا یہ ضروری ہے. جیسے پانچ وقت کی نماز فرض ہے. زندگی میں ایک دفعہ (اگر آپ استطاعت رکھتے ہیں تو) حج لازم ہے. سال میں ایک ماہ کے روزے فرض ہیں. یعنی احکامات کی تعداد محدود ہے. یہ بہت منظم ہیں. اسلام میں لامحدود قوانین کا تصور نہیں. 
‎ لیکن حکمت ایک بالکل ہی مختلف چیز ہے. کبھی نہ ختم ہونے والی. زندگی کے ساتھ ساتھ چلنے والی. قرآن کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا، کسی مسلمان کی ساری زندگی اس کی حکمتوں کی تلاش میں گزر سکتی ہے اور دنیا سے جاتے وقت اس کے ہاتھ میں حکمت و دانش کے چند موتی ہی آئے ہوں گے. یہی حکمت و دانش کی حقیقت ہے. پس اللہ فرماتے ہیں
‎ وہ حکمت سکھاتے ہیں
‎وہ لوگوں کو اللہ کی کتاب میں مشغول کرتے ہیں اور اس کے پوشیدہ خزانوں کی تلاش سکھاتے ہیں
‎ یہی وہ سارا طریقہ کار ہے جو مرحلہ وار بیان کیا گیا ہے. قوانین/احکامات کے پیچھے بھی حکمت کار فرما ہے. قوانین محض قواعد و ضوابط نہیں بلکہ ایک اخلاقی کوڈ ہے. روحانی کوڈ ہے. یعنی ان قوانین کے روحانی اور اخلاقی فوائد ہیں. قوانین کے اندر حکمت پوشیدہ ہے. 
‎ یہ تبدیلی کے وہی مراحل ہیں جو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو دئیے گئے تھے. یہی چاروں نکات ابھی آپ سے شئیر کئے گئے ہیں. ان نکات پر عمل پیرا ہو کر معاشرتی تبدیلی ممکن ہے. ایک ایسے معاشرے کی تبدیلی جو کئی نسلوں سے بھٹکا ہوا تھا.
‎ یہ قوانین آپکو بتاتے ہیں کہ آپ قرآن کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں. یہ محض پڑھنے کی کتاب نہیں ہے. یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کو آپ نے مکمل تبدیلی کے لئے عمل میں لانا ہے. 
‎ حضور پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو جو چار مشن سونپے گئے تھے.. آئیے ذرا انہیں دہرا لیں

‎ آیات کی تلاوت
‎ پاک کرنے کا عمل (تزکیہ) 
‎ احکامات سکھانے کا عمل 
‎ حکمت و دانش کی تعلیم 

‎ یہ چاروں عوامل اللہ کے چاروں ناموں پر منطبق ہوتے ہیں جو ہم نے اس گفتگو کے شروع میں دیکھے. 

‎1_ الملک (بادشاہ) 
2_القدوس (خالص) 
‎ 3_العزیز (زبردست، مختار، اتھارٹی) 
‎ 4_الحکیم (حکمت والا) 

جاری ہے۔۔۔

خود میں تبدیلی (Self- Transformation) استاد نعمان علی خان پانچواں حصہ ‎میں مطابقت کے حوالے سے بات کرنا پسند کروں گا. جس سے ان ...

خود میں تبدیلی ۔۔۔ استاد نعمان علی خان ۔۔۔چوتھا حصہ

خود میں تبدیلی (Self- Transformation)
استاد نعمان علی خان
پہلا حصہ

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم

‎هُوَ الَّـذِىْ بَعَثَ فِى الْاُمِّيِّيْنَ رَسُوْلًا مِّنْـهُـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِهٖ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَۖ وَاِنْ كَانُـوْا مِنْ قَبْلُ لَفِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ 

‎وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، اور بے شک وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے۔

‎اللہ تعالٰی کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا، جو انہیں اللہ کی آیات، نشانیاں یا معجزات کے بارے میں پڑھ کر سناتا ہے، اور انہیں پاک کرتا ہے، اور انہیں کتاب یا قانون سکھاتا ہے، اور انہیں دانش مندی کی باتیں سکھاتا ہے. 
‎اس پہ دوبارہ غور کریں، اللہ تعالٰی نے امیین کے درمیان ایک رسول بھیجا جو ان کے لیے چار کام کرتا ہے
‎ ١) وہ انہیں آیات پڑھ کر بتاتا ہے، انہیں معجزات کے متعلق بتاتا ہے جو وہ پہلے سے نہیں جانتے تھے. 
‎٢) وہ انہیں پاک کرتا ہے. 
‎٣) انہیں قانون سکھاتا ہے. 
‎٤) انہیں حکمت و دانشمندی کی باتیں بتاتا ہے. 
‎اور اس سے پہلے وہ صریح گمراہی میں تھے، وہ لوگ صدیوں سے گمراہ تھے. نسل در نسل گمراہی کا شکار تھے، بتوں کو پوجتے تھے. تو چار کاموں کا ذکر کیا گیا، 

‎١) اللہ کے معجزات و نشانیاں بتانا (الملك)
‎٢) پاک کرنا (القدوس)
‎٣) قانون سکھانا (العزيز )
‎٤) حکمت سکھانا (الحکیم)

‎حضور اکرم صل اللہ علیہ والہ و السلام پر تمام انبیائے کرام علیہ السلام کی نسبت ایک خاص بھاری ذمہ داری تھی. آخری نبی کا محض یہ مطلب نہیں کہ آپ کا نام فہرست کے سب سے آخر میں تھا. اس کا مطلب یہ تھا کہ سب سے زیادہ ذمہ داری آپ پر تھی. آپ کے بعد کوئی اور نبی انسانیت کی رہنمائی کے لیے نہیں آئے گا تو ان کو وہ دیا گیا جو انہیں اپنے ٢٣ سالہ دورِ نبوت میں لوگوں تک اس طرح پہنچانا تھا جو نہ صرف سامعین کی کایا پلٹ دے بلکہ ایسا معجزہ ہو کہ وہ قیامت تک لوگوں کو اسی طرح اللہ کی طرف دعوت دیتا رہے جیسا کہ انبیائے کرام دیتے آئے تھے. وہ کام جو انبیائے کرام کرتے تھے اب ایک نبی کو اس طرح سے کرنا تھا کہ قیامت تک کے ہر دور ہر نسل تک یہ پیغام پہنچ جائے. یہ ایک نہایت بھاری ذمہ داری تھی. دوسرے تمام انبیائے کرام علیہ السلام کو بڑے واضح معجزات دیے گئے تاکہ وہ بڑی تبدیلیاں آسانی سے لا سکیں، لوگوں کو قائل کر سکیں جیسا کہ موسی علیہ السلام کو معجزات دیے گئے. لیکن رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام کو صرف قرآن کریم دیا گیا. ان چار احکامات کی خوبصورتی و گہرائی کو سمجھنے کے لیے انالوجی کو سمجھنا ہو گا۔

جاری ہے۔۔۔


خود میں تبدیلی (Self- Transformation) استاد نعمان علی خان پہلا حصہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ‎هُوَ الَّـذِىْ بَعَثَ فِى ا...

راز کی بات

بشکریہ: ڈاکٹر محمد عقیل

آج کی بات ۔۔۔ 14 نومبر 2017

~!~ آج کی بات ~!~

‏جس طرح محبت دینے کے لئے
"وسیع القلب" ہونا ضروری ہے۔
اسی طرح محبت سمیٹنے کے لئے 
" وسیع الظرف" ہونا بھی ضروری ہے !!

~!~ آج کی بات ~!~ ‏جس طرح محبت دینے کے لئے " وسیع القلب " ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح محبت سمیٹنے کے لئے  " وسیع ...

خود میں تبدیلی ۔۔۔ استاد نعمان علی خان ۔۔۔ تیسرا حصہ

خود میں تبدیلی (Self- Transformation)
استاد نعمان علی خان
تیسرا حصہ


‎دوسرے دو نام ہیں
 القدوس اور الحکیم
‎پاکیزگی و حکمت
پاکیزگی دور سے محسوس نہیں کی جا سکتی، پاکیزگی تب محسوس ہوتی ہے جب آپ کسی کے قریب ہوتے ہیں اور آپ ان کے آداب و اطوار دیکھتے ہیں. اسی طرح حکمت و دانش کا اندازہ تب ہوتا ہے جب کوئی آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آپ کو مشورہ دیتا ہے.، آپ کے مسئلے کو سمجھتا ہے اور پھر ٹھیک مشورہ دیتا ہے. الحکیم سے مجھے قرآن میں سورۃ لقمان کا قصہ یاد آتا ہے جب حضرت لقمان علیہ السلام نہایت محبت سے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی نے فرمایا 
" وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی. 

اور اس نے یہ حکمت اپنے بیٹے کو دی، یہ قریبی رشتوں کی محبت ہے کہ دوسرے کو دانشمندانہ باتیں سکھائی جائیں. آپ دور رہ کر کسی سے عقل کی باتیں نہیں سیکھ سکتے. القدوس، پاکیزہ لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کے ساتھ رہ کر آپ نفس کی پاکیزگی محسوس کر سکیں، مجھے القدوس و الحکیم میں ایک تعلق یہ بھی لگتا ہے کہ جب آپ نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے لگیں تو آپ کا دل پاک ہونے لگتا ہے.اور جب آپ دانشوروں کی صحبت میں رہنے لگیں تو دماغ صاف ہونے لگتا ہے. تو یہ دل و دماغ ہیں جو القدوس و الحکیم کی رحمت سے پاک و صاف ہوتے ہیں. 
‎دو نام ہیں جو دور لگتے ہیں، بادشاہت، حکومت، اور اگلے دو نام ایسے ہیں جو اللہ سے قربت کا باعث لگتے ہیں، پاکیزگی، حکمت.
 یہ دوری، قربت، دراصل اللہ سے ہمارا تعلق ہے جو کبھی دور کبھی قریب ہوتا رہتا ہے. اور یہی تعلق نہایت خوبصورتی سے قرآن میں بیان کیا گیا ہے. یہ دوری و قربت اللہ کے ساتھ ہمارے تعلق کے لیے نہایت ضروری ہے. اس کی نہایت خوبصورت مثال جو مجھے بہت پسند ہے وہ موسی علیہ السلام کی اللہ تعالٰی سے پہلی گفتگو ہے. موسی علیہ السلام جب آگ لینے کے لیے پہنچے تو ان کے گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی ملاقات ان کے رب سے ہو گی. جب وہ وہاں پہنچے تو کیا گفتگو ہوئی 
‎يَا مُوْسٰى 
‎اے موسٰی۔

‎اِنِّـىٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ 
‎میں تمہارا رب ہوں پس اپنی جوتیاں اتار دو،

‎حضرت موسی نے اللہ سے قربت محسوس کی، اللہ نے انہیں اپنی بادشاہت کا جلوہ دکھایا اور حکم سنایا، موسی علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں، انہیں بادشاہ کی طرف سے حکم ملا کے جوتے اتار دو. یہ ان کا اللہ سے پہلا تعلق بنا اور آگے اللہ تعالٰی نے کیا فرمایا 

‎اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى
‎ بے شک تم پاک وادی طوٰی میں ہو۔

‎وَاَنَا اخْتَـرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى 
‎اور میں نے تمہیں پسند کیا ہے جو کچھ وحی کی جارہی ہےاسے سن لو۔

‎اللہ تعالٰی موسی علیہ السلام کو اپنے مزید قریب کرتے ہیں کہ میں نے تمہیں پسند کیا ہے. تمہیں منتخب کیا ہے. سو غور سے سنو جو ہدایات دی جائیں، اور اسی کے فوراً بعد اللہ تعالٰی نے کہا 

‎اِنَّنِىٓ اَنَا اللّـٰهُ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِىْۙ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ لِـذِكْرِىْ 
‎بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری ہی بندگی اختیار کرو، 

‎یہ پھر سے آقا و غلام کا تعلق ہے، بادشاہ و عبد کا تعلق، اور اسی کے فوراً بعد اللہ تعالٰی نے ایک محبت بھرا پیغام دیا 

‎وَاَقِمِ الصَّلَاةَ لِـذِكْرِىْ 
‎اور نماز قائم کرو کہ مجھے یاد رکھ سکو 

‎اللہ کو یاد کرنا دل سے ہے اور یہ اللہ کی محبت کا باعث ہے. 

‎اسی کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کو ڈرایا گیا کہ 

‎اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ اَكَادُ اُخْفِيْـهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰى
‎بے شک قیامت آنے والی ہے میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ مل جائے۔

‎فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْـهَا مَنْ لَّا يُؤْمِنُ بِـهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَـتَـرْدٰى
‎سو تمہیں قیامت سے ایسا شخص باز نہ رکھنے پائے جو اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشوں پر چلتا ہے کہ پھر تم تباہ ہوجاؤ۔

‎وقت آنے والا ہے جس کا کسی کو نہیں معلوم، کسی کو بھی اجازت نہ دو کہ وہ تمہیں بہکا سکے، خاص طور پر اس کو جو خود قیامت پہ یقین نہیں رکھتا. اور جب موسی علیہ السلام روزِ قیامت کے بارے میں خوفزدہ ہو گئے تو اللہ نے نہایت پیار سے کہا کہ 

‎وَمَا تِلْكَ بِـيَمِيْنِكَ يَا مُوْسٰى
‎اور اے موسٰی تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے۔

‎ایسے جیسے کسی عام قریبی دوست سے بات ہو رہی ہو، ایسے جیسے موسی علیہ السلام کو دوبارہ محبت سے اپنے قریب کیا گیا ہو. میں اس پر زور اس لیے دے رہا ہوں کہ یہ اندازِ گفتگو قرآن میں بارہا استعمال کیا گیا ہے. اب اسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ.ایسا کیوں ہے کہ اللہ کے کچھ نام ہمیں قربت کا باعث لگتے ہیں اور کچھ ہمیں اللہ سے ڈراتے ہیں ؟ کچھ نام اللہ کی بادشاہت، عظمت کی یاد دلاتے ہیں اور کچھ اللہ کے نام ایسے ہیں کہ کوئی ہے جو آپ سے بے پناہ محبت رکھتا ہو اور آپ اس سے، یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ کیسے ہیں؟ اگر آپ کا اللہ سے محض بادشاہت و اتھارٹی کا رشتہ ہو تو آپ اللہ سے اس قدر خوفزدہ ہو جائیں گے کہ امید کھو بیٹھیں گے. اور اگر آپ کا اللہ سے تعلق ایسا ہو جو محض محبت و دوستی پر مبنی ہو کہ اللہ تعالٰی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں، اللہ تعالٰی میرے بہترین دوست ہیں تو جانتے ہیں دوستوں میں کیا ہوتا ہے ؟ دوست ایک دوسرے پر حکم نہیں چلاتے، دوست کہتے ہیں ہاں میں نے یہ کہا اسے پر کیا یار میرا دوست ہے، اگر ہمارا اللہ سے تعلق محض دوستی پر قائم ہو تو ہم اس کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے، اللہ کی نافرمانی کریں گے اور اللہ کے احکامات کو نظرانداز کریں گے. اللہ تعالٰی ان دو چیزوں میں توازن رکھتے ہیں، امید و خوف میں، قربت و حکومت میں، اور نہایت خوبصورتی سے . 
‎الملك القدوس اللعزیز الحکیم، ان چاروں ناموں کے بارے میں آپ کو بتایا، اب میں ان چار احکامات کے متعلق بتاتا ہوں جو اللہ نے آپ صل اللہ علیہ والہ و السلام کو دیے .

جاری ہے۔۔۔


خود میں تبدیلی (Self- Transformation) استاد نعمان علی خان تیسرا حصہ ‎دوسرے دو نام ہیں   القدوس اور الحکیم ‎پاکیزگی و حکمت ...