خود میں تبدیلی ۔۔۔ استاد نعمان علی خان ۔۔۔ تیسرا حصہ

خود میں تبدیلی (Self- Transformation)
استاد نعمان علی خان
تیسرا حصہ


‎دوسرے دو نام ہیں
 القدوس اور الحکیم
‎پاکیزگی و حکمت
پاکیزگی دور سے محسوس نہیں کی جا سکتی، پاکیزگی تب محسوس ہوتی ہے جب آپ کسی کے قریب ہوتے ہیں اور آپ ان کے آداب و اطوار دیکھتے ہیں. اسی طرح حکمت و دانش کا اندازہ تب ہوتا ہے جب کوئی آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آپ کو مشورہ دیتا ہے.، آپ کے مسئلے کو سمجھتا ہے اور پھر ٹھیک مشورہ دیتا ہے. الحکیم سے مجھے قرآن میں سورۃ لقمان کا قصہ یاد آتا ہے جب حضرت لقمان علیہ السلام نہایت محبت سے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں اور اللہ تعالٰی نے فرمایا 
" وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی. 

اور اس نے یہ حکمت اپنے بیٹے کو دی، یہ قریبی رشتوں کی محبت ہے کہ دوسرے کو دانشمندانہ باتیں سکھائی جائیں. آپ دور رہ کر کسی سے عقل کی باتیں نہیں سیکھ سکتے. القدوس، پاکیزہ لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کے ساتھ رہ کر آپ نفس کی پاکیزگی محسوس کر سکیں، مجھے القدوس و الحکیم میں ایک تعلق یہ بھی لگتا ہے کہ جب آپ نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے لگیں تو آپ کا دل پاک ہونے لگتا ہے.اور جب آپ دانشوروں کی صحبت میں رہنے لگیں تو دماغ صاف ہونے لگتا ہے. تو یہ دل و دماغ ہیں جو القدوس و الحکیم کی رحمت سے پاک و صاف ہوتے ہیں. 
‎دو نام ہیں جو دور لگتے ہیں، بادشاہت، حکومت، اور اگلے دو نام ایسے ہیں جو اللہ سے قربت کا باعث لگتے ہیں، پاکیزگی، حکمت.
 یہ دوری، قربت، دراصل اللہ سے ہمارا تعلق ہے جو کبھی دور کبھی قریب ہوتا رہتا ہے. اور یہی تعلق نہایت خوبصورتی سے قرآن میں بیان کیا گیا ہے. یہ دوری و قربت اللہ کے ساتھ ہمارے تعلق کے لیے نہایت ضروری ہے. اس کی نہایت خوبصورت مثال جو مجھے بہت پسند ہے وہ موسی علیہ السلام کی اللہ تعالٰی سے پہلی گفتگو ہے. موسی علیہ السلام جب آگ لینے کے لیے پہنچے تو ان کے گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی ملاقات ان کے رب سے ہو گی. جب وہ وہاں پہنچے تو کیا گفتگو ہوئی 
‎يَا مُوْسٰى 
‎اے موسٰی۔

‎اِنِّـىٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ 
‎میں تمہارا رب ہوں پس اپنی جوتیاں اتار دو،

‎حضرت موسی نے اللہ سے قربت محسوس کی، اللہ نے انہیں اپنی بادشاہت کا جلوہ دکھایا اور حکم سنایا، موسی علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں، انہیں بادشاہ کی طرف سے حکم ملا کے جوتے اتار دو. یہ ان کا اللہ سے پہلا تعلق بنا اور آگے اللہ تعالٰی نے کیا فرمایا 

‎اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى
‎ بے شک تم پاک وادی طوٰی میں ہو۔

‎وَاَنَا اخْتَـرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى 
‎اور میں نے تمہیں پسند کیا ہے جو کچھ وحی کی جارہی ہےاسے سن لو۔

‎اللہ تعالٰی موسی علیہ السلام کو اپنے مزید قریب کرتے ہیں کہ میں نے تمہیں پسند کیا ہے. تمہیں منتخب کیا ہے. سو غور سے سنو جو ہدایات دی جائیں، اور اسی کے فوراً بعد اللہ تعالٰی نے کہا 

‎اِنَّنِىٓ اَنَا اللّـٰهُ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِىْۙ وَاَقِمِ الصَّلَاةَ لِـذِكْرِىْ 
‎بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری ہی بندگی اختیار کرو، 

‎یہ پھر سے آقا و غلام کا تعلق ہے، بادشاہ و عبد کا تعلق، اور اسی کے فوراً بعد اللہ تعالٰی نے ایک محبت بھرا پیغام دیا 

‎وَاَقِمِ الصَّلَاةَ لِـذِكْرِىْ 
‎اور نماز قائم کرو کہ مجھے یاد رکھ سکو 

‎اللہ کو یاد کرنا دل سے ہے اور یہ اللہ کی محبت کا باعث ہے. 

‎اسی کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کو ڈرایا گیا کہ 

‎اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ اَكَادُ اُخْفِيْـهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰى
‎بے شک قیامت آنے والی ہے میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ مل جائے۔

‎فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْـهَا مَنْ لَّا يُؤْمِنُ بِـهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَـتَـرْدٰى
‎سو تمہیں قیامت سے ایسا شخص باز نہ رکھنے پائے جو اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشوں پر چلتا ہے کہ پھر تم تباہ ہوجاؤ۔

‎وقت آنے والا ہے جس کا کسی کو نہیں معلوم، کسی کو بھی اجازت نہ دو کہ وہ تمہیں بہکا سکے، خاص طور پر اس کو جو خود قیامت پہ یقین نہیں رکھتا. اور جب موسی علیہ السلام روزِ قیامت کے بارے میں خوفزدہ ہو گئے تو اللہ نے نہایت پیار سے کہا کہ 

‎وَمَا تِلْكَ بِـيَمِيْنِكَ يَا مُوْسٰى
‎اور اے موسٰی تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے۔

‎ایسے جیسے کسی عام قریبی دوست سے بات ہو رہی ہو، ایسے جیسے موسی علیہ السلام کو دوبارہ محبت سے اپنے قریب کیا گیا ہو. میں اس پر زور اس لیے دے رہا ہوں کہ یہ اندازِ گفتگو قرآن میں بارہا استعمال کیا گیا ہے. اب اسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ.ایسا کیوں ہے کہ اللہ کے کچھ نام ہمیں قربت کا باعث لگتے ہیں اور کچھ ہمیں اللہ سے ڈراتے ہیں ؟ کچھ نام اللہ کی بادشاہت، عظمت کی یاد دلاتے ہیں اور کچھ اللہ کے نام ایسے ہیں کہ کوئی ہے جو آپ سے بے پناہ محبت رکھتا ہو اور آپ اس سے، یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ کیسے ہیں؟ اگر آپ کا اللہ سے محض بادشاہت و اتھارٹی کا رشتہ ہو تو آپ اللہ سے اس قدر خوفزدہ ہو جائیں گے کہ امید کھو بیٹھیں گے. اور اگر آپ کا اللہ سے تعلق ایسا ہو جو محض محبت و دوستی پر مبنی ہو کہ اللہ تعالٰی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں، اللہ تعالٰی میرے بہترین دوست ہیں تو جانتے ہیں دوستوں میں کیا ہوتا ہے ؟ دوست ایک دوسرے پر حکم نہیں چلاتے، دوست کہتے ہیں ہاں میں نے یہ کہا اسے پر کیا یار میرا دوست ہے، اگر ہمارا اللہ سے تعلق محض دوستی پر قائم ہو تو ہم اس کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے، اللہ کی نافرمانی کریں گے اور اللہ کے احکامات کو نظرانداز کریں گے. اللہ تعالٰی ان دو چیزوں میں توازن رکھتے ہیں، امید و خوف میں، قربت و حکومت میں، اور نہایت خوبصورتی سے . 
‎الملك القدوس اللعزیز الحکیم، ان چاروں ناموں کے بارے میں آپ کو بتایا، اب میں ان چار احکامات کے متعلق بتاتا ہوں جو اللہ نے آپ صل اللہ علیہ والہ و السلام کو دیے .

جاری ہے۔۔۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں