تعارف سورہ یوسف -- حصہ-6
دوسرا موازنہ:
سفر
دوسرا موازنہ حضرت موسی اور حضرت یوسف کے سفر کا ہے حضرت موسی کا سفر گھر سے کنویں, کنویں سے غلامی اور غلامی سے آخرکار مصر کے محل تک ہے۔ حضرت موسیٰ کا سفر بھی ٹوکری سے شروع ہوکر آخرکار مصر کے محل تک ختم ہوتا ہے۔ ابھی ان دونوں کے سفر کے بارے میں بات کریں گے جو کہ انتہائی دلچسپ ہے۔
»» حضرت یوسف کو کنویں میں پھینکا گیا جبکہ حضرت موسی کو ٹوکری میں ڈال کر دریا میں ڈالا گیا دونوں کے ڈوبنے کا خدشہ تھا لیکن فرق یہ تھا کہ حضرت موسی کو بہتے پانی میں ڈالا گیا اور حضرت یوسف کو ساکت پانی میں ۔
»» حضرت یوسف کو پانے کے لئے کسی کو ان کے پاس آنا تھا جبکہ حضرت موسی خود کسی کے پاس جا رہے تھے عربی میں پانے کے لئے بہت سارے لفظ استعمال ہوتے ہیں لیکن یہاں پر لفظ "التقت" آتا ہے دونوں کے لیے - ایک کو پانے کے لیے قافلہ اس کے پاس آیا جبکہ موسی کی ٹوکری جب خود محل کے پاس پہنچی تو فرعون اور اسکی بیوی نے اس کو پایا۔
»» حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ دونوں کا انجام آخرکار ایک شاہی محل میں ہوتا ہے۔
»» حضرت یوسف کو عزیز مصر اپنی سرپرستی میں لیتا ہے جبکہ حضرت موسی کو فرعون کی بیوی اپنی سرپرستی میں لیتی ہے دونوں شادی شدہ ہیں لیکن ایک طرف مرد ہے اور دوسری طرف ایک عورت ہے۔
»» عزیز مصر حضرت یوسف کو خریدتا ہے اور گھر تک لاتے ہوئے اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ خاص بچہ ہے گھر پہنچ کر اپنی بیوی کو ہدایت دیتا ہے کہ اسے عزت سے رکھو شاید کہ ہم اسے اپنا بچہ بنا لیں لیکن خریدا بطور غلام ہوتا ہے دوسری طرف فرعون کی بیوی حکم دینے کی پوزیشن میں نہ تھی فرعون سے اس بچے کو پاس رکھنے کی درخواست کرتی ہے کہ شاید کے ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں یا اس سے کچھ فائدہ اٹھائیں غلام بنا کر۔
»» حضرت یوسف کی کہانی میں برا کردار عزیز مصر کی بیوی کا ہے اور حضرت موسی کی کہانی میں برا کردار فرعون کا ہے دونوں مفسدوں کو دو ایک جیسے اختیارات دیے گئے قرآن میں ان دونوں کے لئے ایک جیسے الفاظ آتے ہیں کہ بچہ ہمیں فائدہ دے گا بطور غلام یا ہم اس کو اپنی اولاد بنا لیں گے عزیز مصر حضرت یوسف سے متاثر تھا اور امید تھی کہ وہ اس کو اپنا بیٹا بنالے گا جبکہ دوسری طرف فرعون بنی اسرائیلیوں کے سخت خلاف تھا اور ان کو قتل کروا رہا تھا تو امید تھی کہ وہ اس کو اپنا غلام بنائے گا لیکن حقیقت میں اس کے بالکل خلاف فیصلہ لیا گیا حضرت یوسف کو غلام بنایا گیا جبکہ حضرت موسی کو بیٹا بنا لیا گیا۔
»» عزیز مصر کی بیوی کے دل میں حضرت یوسف کے لئے محبت تھی لیکن اس کے پیچھے نیت بری تھی دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے فرعون کے دل میں بھی حضرت موسی کے لیے محبت ڈالی لیکن چونکہ وہ خدا کی طرف سے ڈالی گئی تھی اس لئے بنی اسرائیلیوں سے سخت نفرت کے باوجود بھی اس کی محبت حضرت موسی کے لیے خالص شفاف تھی۔
»» حضرت یوسف کو عزیز مصر کی بیوی کی نا جائز محبت کی وجہ سے جیل میں ڈالے جانے کی دھمکی دی گئی دوسری طرف حضرت موسی کو فرعون کی خالص محبت کے باوجود جیل میں ڈالے جانے کی دھمکی دی گئی حضرت یوسف کو اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے کا کہا گیا جبکہ حضرت موسی کو دل سے خدا کو نکالنے کا کہا گیا ایک کا تعلق عمل سے تھا اور ایک کا تعلق دل سے اور آپ جانتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل اور عمل دونوں سے ہوتا ہے نماز کے لیے بھی قرآن میں ایک جگہ ایمان کا لفظ آیا ہے تو یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اسی طرح بعض اوقات آپ کے معاشرے میں بھی اسی طرح کی مثالیں سامنے آتی ہیں آپ کے چاہنے والے آپ کو اس دین پر جمے رہنے کی وجہ سے دھمکیاں دیتے ہیں وہ اپنی محبت کو وجہ بناکر آپ کو ایموشنل بلیک میل کریں گے آپ کو یہاں پر یوسف یا موسیٰ بننے کی ضرورت ہے بعض اوقات ان کی دھمکی سچ ثابت ہوجاتی ہے جس طرح حضرت یوسف کو جیل میں ڈال دیا گیا اور بعض اوقات دھمکی کارگر ثابت نہیں ہوتی جس طرح حضرت موسی کے معاملے میں ہوا۔
»» حضرت یوسف نے بغیر کسی روحانی استاد کے پرورش پائی. انہوں نے ایک مصری محل میں وقت گزارا جہاں کا ماحول مکمل طور پر غیر اسلامی ہے اور وہ وہاں پر ایک ملازم ہیں. دوسری جانب پیدائش سے ہی حضرت موسیٰ کے دو روحانی پیشوا تھے. ایک تو ان کی والدہ جنہوں نے پیدا کیا انہیں اور دوسری حضرت آسیہ علیہ السلام، دونوں ہی پختہ ایمان والیوں میں سے تھیں۔ جب حضرت موسی علیہ السلام مصر سے جا رہے تھے تو انہوں نے کہا:
“اے میرے اللہ مجھے ان برے لوگوں سے نجات دلادے”
(سورۃ الشعراء)
سورۃ التحریم میں فرعون کی بیوی حضرت آسیہ نے دعاء مانگی کہ “مجھے فرعون سے نجات دلادے”۔ انہوں نے بالکل وہی دعا مانگی جو حضرت موسی علیہ السلام نے مانگی تھی۔ مطلب یہ دعا انہوں نے حضرت آسیہ سے سیکھی ۔
جاری ہے۔۔۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں