مطالعہ سورہ یوسف "مستقبل کی جھلک، ماضی کی سمجھ" ۔۔۔ حصہ دوم



مطالعہ سورہ یوسف
"مستقبل کی جھلک، ماضی کی سمجھ" ۔۔۔ حصہ دوم



اب ہم اگلے جملے پر چلتے ہیں

وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ

اس کا عام طور پر ترجمہ کیا جاتا ہے کہ تمہارا رب تمہیں خوابوں کی تعبیر بتائے گا یا خبر دے گا۔

میں اس سے بالکل بھی متفق نہیں، میرے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمہیں سکھانا شروع کر دیا ہے اور پہلا سبق یہ خواب ہے تم جانتے ہو کہ یہ خواب عام نہیں ہیں اس کا تمہارے خاندان سے کوئی تعلق ہے۔ تمہیں اس کا صحیح مطلب نہیں پتہ، جو کہ اب سے اللہ نے تمہیں سکھانا شروع کر دیا ہے۔ بتانا صرف کچھ لمحات کے لیے ہوتا ہے کہ کسی کو کوئی بات بتاؤ اور کام ختم لیکن سکھانے کے لئے ایک وقت چاہیے ہوتا ہے اور یہاں پر اللہ تعالی حضرت یعقوب علیہ السلام کے ذریعے حضرت یوسف علیہ السلام کو بتا رہے ہیں کہ میں نے تمہیں سیکھانا شروع کردیا ہے۔ اور یہ سکھانا اس سے مختلف ماحول میں بھی ہوگا۔ تم اس خواب کی مکمل حقیقت بھی جان لو گے اور اسی حقیقت پر سورہ کا اختتام ہوتا ہے۔ لوگ یہاں پر ابھی کا مطلب لیتے ہیں تمہارا رب آخر میں تمہیں اس خواب کی حقیقت بتائے گا لیکن یہاں پر تو خواب کے لئے کوئی لفظ استعمال ہی نہیں ہوا۔ حدیث کا مطلب ہے نئی بات یعنی تمہارا رب تمہیں نئی باتوں کی حقیقت سمجھائے گا وہ باتیں جو تمہارے سامنے دوسرے کریں گے وہ سب باتیں جن سے زندگی میں تمہارا واسطہ پڑے گا تم ان کے پیچھے کا مطلب جانتے ہو گے۔ کہنے والوں کے دماغ میں کیا چل رہا ہے تمھیں اس چیز کا علم دیا جائیگا، وہ یہ بات کیوں کر رہے ہیں اور اس کے نتائج کیا ہونگے یہ سب تمہارا رب سیکھائے گا۔ جس کا آغاز وہ کر چکا ہے۔ اور آپ کو یاد ہے جب عزیز مصر اس کو خرید کر اپنے گھر لے کر آیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ اسے عزت سے رکھو اس وقت اللہ تعالی نے فرمایا

وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِیث۔

یوں اللہ تعالی کا منصوبہ کامیاب ہوا۔

اب سوچئے حضرت یوسف علیہ السلام کچن میں ہی کام کر رہے ہیں عزیز مصر کی بیوی خاتون خانہ اپنی دوستوں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھی باتیں کر رہی ہے سیاست کے اوپر بحث کر رہی ہے آپ سب سن رہے ہیں پھر عزیزمصر گھر آتا ہے اپنے دوستوں کے ساتھ جو کہ بڑے بڑے سیاستدان ہوتے ہیں ان میں بیٹھ کر ملک کے حالات کے پر بات کرتا ہے معیشت پر بات کرتا ہے آپ جانتے ہیں کہ وہ سب سیاستدان غریب کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں، امیر کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں، دوسرے ملکوں کے بارے میں ان کے کیا خیالات ہیں۔ حکومت کے متعلق ان کا کیا خیال ہے۔ آپ ان کی اصل زندگیوں کو جانتے ہیں۔ جب وہ کیمروں کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں کہ وہ اندر سے کس طرح کے لوگ ہیں اور جب یہی لوگ کیمرے پر جاکر پریس کانفرنس کرتے ہیں تب وہ کیا کہتے ہیں۔ آپ ان کے اندر اور باہر سے واقف ہیں۔ پھر جب آپ سودا سلف لینے کے لیے باہر مارکیٹ میں جاتے ہیں وہاں جاکر آپ عام لوگوں سے ملتے ہیں ان سے باتیں کرتے ہیں ان کی باتیں سنتے ہیں ان میں مزدور کسان سیلزمین ہر طرح کے لوگ شامل ہیں اور جب باقی غلاموں کے ساتھ اپنا کھانا کھاتے ہیں تو ان غلاموں کی بات سنتے ہیں غلاموں کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے۔ ان کی اپنی باتیں ہوتی ہیں پھر آپ کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وہاں آپ دیگر مجرموں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی باتیں باقی سب لوگوں سے مختلف ہوتی ہیں وہ سیاستدانوں کی طرح نہیں سوچتے، وہ عام لوگوں کی طرح نہیں سوچتے ان کی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ یوں اللہ تعالی نے آپ کو کئی طرح کی دنیاؤں سے متعارف کروادیا۔ بہت قسم کے لوگوں کی باتوں سے متعارف کروادیا اور آپ سیکھ رہے ہیں کہ کس کی کیا سوچ ہے، کون کسطرح سوچتا ہے۔ ایک جملہ جو آپ کے والد حضرت یعقوب علیہ اسلام نے آپ سے بولا تھا اللہ تعالی نے اپنے لئے چن لیا ہے اور وہ تمہیں اس خواب کے علاوہ باتوں کی حقیقت تک پہنچنا بھی سکھائے گا۔

میں ایک خاص بیک گراونڈ سے تعلق رکھتا ہوں میں کسی اور بیک گراونڈ سے تعلق رکھنے والے انسان کو نہیں سمجھ سکتا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام جب ایک سیاست دان بنیں گے آپ علیہ السلام جانتے ہوں گے کہ ایک سیاستدان کیسے سوچتا ہے، ایک منسٹر کیسے سوچتا ہے، ایک کسان کی سوچ کیا ہے، امیر اور غریب آدمی کی سوچ کس طرح کی ہے ایک بزنس مین کس طرح کی سوچ رکھتا ہے آپ سب کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ یہ وہ قابلیت ہے جو اللہ تعالی نے آپ کے اندر دیکھی اور آپ کو یہ علم سکھانا شروع کر دیا اور نہ صرف ظاہری دنیا کا بلکہ باطنی دنیا یعنی خوابوں کا بھی آپ کو علم سکھایا آپ جانتے تھے کہ میرے خواب کا کیا مطلب ہوگا یہ ہر طرح کا علم تھا جو اللہ تعالی نے آپ کو سکھایا۔

آگے آتا ہے

وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَىٰ أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ ۚ

اور وہ اپنی نعمت تمہارے اوپر تمام کر دے۔

یہاں پر علماء میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے کہ اللہ تعالی نے پہلے ہی آپ کو چن لیا تھا پھر نعمت تمام کرنے کا کیا مطلب؟ میں یہاں آپ کے ساتھ اپنے خیالات شیئر کروں گا۔ آپ اپنا مطالعہ بھی کر سکتے ہیں اور ضروری نہیں کہ آپ میرے ساتھ متفق ہوں۔
نعمتیں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک دینی نعمت اور ایک دنیاوی نعمت۔

دینی نعمت میں آپ کا ایمان آجاتا ہے۔ یعنی کہ ہمیشہ ایمان کا مضبوط رہنا ایمان پر ڈٹے رہنا۔ یہ اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ آپ کے خلاف سازش ہوئی، آپ کو کنویں میں پھینکا گیا، آپ پر الزام لگایا گیا، آپ کو جیل میں ڈالا گیا، آپ ہر حال میں ایمان کے اوپر ڈٹے ریے۔

دنیاوی نعمت میں کسی بھی دنیا کی آسانی کا ملنا ہے، نوکری کا ملنا واپس گھر والوں کا ملنا، صحت کا ملنا۔۔۔ یہ سب دنیاوی نعمتیں ہیں۔

انسان اپنی زندگی میں یہ دونوں طرح کی نعمتیں چاہتا ہے۔ ہر کوئی دنیا کا بھی بہترین چاہتا ہے اور آخرت کا بھی بہترین چاہتا ہے۔ اور یہی بات اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہی کہ آج میں نے تمہارے اوپر اپنی نعمت تمام کر دی۔ جس کا مطلب کہ میں نے تمہارے پر قرآن کی نعمت تمام کر دی۔ اور تمہارے سارے دشمنوں کو شکست دے دی، تمہیں ان پر غالب کر دیا، تمہارے خلاف جتنی بھی سازشیں کی گئیں وہ سب ختم ہوگئیں۔ تم آج سب پر غالب ہو۔ یہاں پر ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بولی گئی تو آپ مدینہ میں تھے اور سورۃ یوسف مکہ میں نازل ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جانتے تھے کہ اللہ تعالی نے حضرت یوسف پر روحانی اور دنیاوی نعمتیں کس طرح نازل کی تھی ساری مشکلات اور مصائب کے باوجود آپ اپنے ایمان پر ڈٹے رہے جس کے نتیجے میں آپ کو اپنے خاندان سے ملا دیا گیا۔ آپ کو حکمرانی عطا کی گئی اور بھائیوں نے آپ سے معافی مانگ لی۔ ہر چیز امن میں آگئی تھی۔ اور یہی سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی ہوا۔ مشکلات کا ایک لمبا عرصہ کاٹنے کے بعد آپ نے دوبارہ اپنے وطن کو فتح کیا، آپ کو حکمرانی ملی، آپ کے دشمن مغلوب ہوئے،کچھ معافی مانگ کر آپ کے ساتھی بن گئے، یوں اللہ تعالی نے آپ پر بھی اپنی نعمت تمام کی۔

جاری ہے ۔۔۔۔ 


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں