تعارف سورہ یوسف ۔۔ حصہ- 10


تعارف سورہ یوسف ۔۔ حصہ- 10

اب ہم آتے ہیں اس لیکچر کے دوسرے حصے کی طرف

تنہائی کے سال (Years Of Isolation)

آج ہم سب بھی isolated ہیں. الگ اپنے اپنے گھروں میں کچھ اپنی فیملی کے ساتھ اور کچھ  دور. ہمارے ان پیغمبروں نے بھی تنہائی کی زندگی گزاری. اب ان کے حالات پر غور کرتے ہیں.

یوسف علیہ السلام نے جیل میں تنہائی کی زندگی گزاری. اور حضرت موسی علیہ السلام نے صحرا میں.

اب اس کا موازنہ کرتے ہیں.

»» ملاقات

حضرت یوسف علیہ السلام جیل میں دو آدمیوں سے ملے جبکہ حضرت موسی علیہ السلام صحرا میں دو عورتوں سے.

»» مقصد

وہ دو آدمیوں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس مدد کے لئے آئے.
حضرت موسی علیہ السلام خود ان دو عورتوں کی مدد کے لیے گئے جو اپنی بھیڑ بکریوں کو پکڑنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھیں.

»» خصوصیت

یوسف کی خصوصیت ان کی حکمت اور دانائی بھی جس سے یوسف علیہ السلام نے ان کی مدد کی تھی، ان نوجوانوں کے خوابوں کی تعبیر بتا کر.
حضرت موسی علیہ السلام کی خاص بات ان کی طاقت تھی جس سے انہوں نے دو عورتوں کی مدد کی، ان کی بکریاں لے کر لوگوں کو دور کیا اور راستہ بنایا تاکہ بکریوں کو پانی پینے کی جگہ مل سکے۔

 اگر اللہ تعالی نے آپ کو کوئی خصوصیت عطا کی ہے جس سے آپ لوگوں کی مدد کرسکیں تو ادب کے دائرے میں رہ کر آپ کو ان کی مدد کرنی چاہیے.

»» ملاقات میں فرق

حضرت یوسف علیہ السلام چونکہ ہم جنس لوگوں کی مدد کر رہے تھے اس لیے ان سے تھوڑی باتیں کرنے لگے. ان کے آباؤ اجداد کے بارے میں. کہاں سے ہیں وغیرہ اور کہا کہ میں تمہیں کچھ باتیں بھی سکھاؤں گا اور تمہیں وہ بھی بتاؤں گا جو تم پوچھنے آئے ہو اور تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گا.

جب کہ حضرت موسی علیہ السلام نے نے ان عورتوں سے کوئی بات نہیں نہ کوئی نصیحت کی ان سے ان کا مسئلہ پوچھا اور ان کی مدد کردیں.

یہ فرق ہم سب کو سمجھنا چاہیے کہ جب ہم مختلف جنس سے مخاطب ہوں تو ہمیں اپنے مقصد تک مختصر رہنا چاہیے. ان کی مدد بھی اگر کی جائے تو لحاظ کے دائرے میں رہ کر. فضول گوئی سے فتنہ بڑھتا ہے.

»» امید

حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کے خواب کی تعبیر بتا کر ان سے کہا کہ جب تم میں سے ایک شخص یہاں سے نکل کر بادشاہ کے دربار میں پہنچ جاؤ تو میرا ذکر ضرور کرنا. میرا نام ضرور لینا.

جب کہ حضرت موسی علیہ السلام نے خود کو مینشن کرنے یا خود کا ذکر کرنے کی کوئی بات نہیں کی۔ ان کی مدد کی اور درخت کو چھاؤں میں آکر بیٹھ گئے .

حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے قید کے ساتھی سے مدد کی امید رکھی، لیکن اس نے نکلنے کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر نہیں کیا اور وہ بھول گیا .
جبکہ حضرت موسی علیہ السلام نے ایسی کوئی امید نہیں رکھی.

کبھی ہمیں اللہ تعالی کی مدد فوری مل جاتی ہے جہاں سے امید بھی نہیں ہوتی جیسے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ ہوا.
اور جب امیر رکھی جائے کہ لوگ آپکی مدد کریں گے لیکن وہ مدد نہیں کرتے.
لیکن اللہ تعالیٰ کی خاص مدد آتی بہت سالوں کے بعد ہی سہی لیکن ضرور آتی ہے.
جیسے حضرت یوسف یعقوب اور حضرت یوسف علیہ السلام کی آزمائش کی گئی لمبی مدت سے. اور جب وہ طویل مدت کے بعد ملے تو حالات اور واقعات بالکل الگ تھے، دیر سے سہی لیکن اللہ نے ان دونوں کی مدد کی تھی.

»» قید کے ساتھی کا دوبارہ آنا

حضرت موسی علیہ السلام کے پاس ان میں سے ایک لڑکی ان کو بلانے آئی کہ آپ کو میرے ابو بلا رہے ہیں کہ آپ کی مدد کریں اس وقت موسی علیہ السلام نے اس مدد کو ریجیکٹ نہیں کیا بلکہ اس کو اللہ کی طرف سے خیر مان کر اسے قبول کیا.
اللہ کی مدد الگ الگ راستوں سے آتی ہے جہاں سے ہمیں امید نہیں ہوتی وہاں سے فوراً آجاتی ہے اور جب ہم امید رکھتے ہیں کسی سے وہاں ہمیں انتظار کرنا پڑتا ہے.

حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس وہ بندہ بہت سالوں کے بعد لوٹتا ہے لیکن اپنے *مقصد* کے لئے اپنی *غرض* کی خاطر جب بادشاہ کو اپنے خواب کی تعبیر جاننی ہوتی ہے. وہ اس وقت یہ سوچتا ہے کہ وہ یوسف علیہ السلام سے جو اس کا قید کا ساتھی تھا اس سے خواب کی تعبیر پوچھ کر اور بادشاہ کو بتا کر بادشاہ کے سامنے خود کو قابل ثابت کرسکتا ہے.

»» طریقہ ملاقت

اب بادشاہ کو مدد کی ضرورت تھی اور یوسف علیہ السلام کو بلوایا گیا.

جبکہ دوسری طرف مدد کی ضرورت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہے. اور وہ دوشیزہ جو حضرت موسی کی مدد کرنے کے لئے انہیں بلانے آئی، اس کی اپنی کوئی غرض شامل نہیں تھی. بلکہ وہ بہت شرم و حیا کے ساتھ آئی۔

»» بات چیت

حضرت یوسف علیہ سلام نے جیل میں جب ان دو آدمیوں سے بات چیت کی تھی تب کہا کہ "میں بہت خوش قسمت ہوں اپنی زندگی کی رحمتوں کی بدولت" جبکہ وہ جیل میں تھے
تو ہمیں بھی اپنی زندگی میں ہر طرح کے حالات میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر غور کرنا چاہیے، اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔

اور حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اس بزرگ سے ملے اور انہیں پہچان گئے، بزرگ بھی موسی علیہ السلام کو پہچان گئے. اور انہیں اپنا قصہ، واقعہ اور حالات سنائے.
کبھی کبھی یہ بالکل جائز ہے کہ ہم اپنے دل کی بات کسی سے بیان کردیں. کہ وہ باتیں ہم پر بہت بھاری ہوتی ہیں اور ہم اپنے آپ کو ہلکا کرنا چاہتے ہیں.
لیکن اپنی باتیں صرف انہی کے سامنے بیان کرنی چاہیے جو واقعی آپ سے مخلص ہو۔ جبکہ یوسف علیہ سلام جیل کی تنہائیوں میں اپنے اوپر خدا کی رحمت پر غور کر رہے تھے، ان کا شکر ادا کررہے تھے۔

جاری ہے۔۔۔۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں