مطالعہ سورہ یوسف
"مستقبل کی جھلک، ماضی کی سمجھ" ۔۔۔ حصہ آخر
حضرت یوسف علیہ السلام، ان کے والد اور ان کے بھائی سب مصر میں رہائش پذیر ہوگئے، جہاں ان کی زندگی سکون میں بسر ہونے لگی۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ بنی اسرائیل میں سب سے زیادہ پیغمبر بھیجے گئے ہیں۔ کوئی نسل ایسی نہیں گزری جس میں کوئی پیغمبر نہ ہو، ہر نسل میں کوئی نہ کوئی پیغمبر تھا۔ یہی حضرت یعقوب علیہ السلام کی خواہش تھی کہ اللہ تعالی آل یعقوب پر بھی اپنی نعمت تمام کریں، اور یہاں پر نام لے کر بولا گیا یعقوب کا خاندان۔۔۔۔ اور برسوں بعد آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں اسی نسل میں سے حضرت زکریا علیہ سلام دعا کر رہے ہیں کے اللہ مجھے وارث عطا کر، جو میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے۔ یوں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک اچھے مستقبل کی جھلک دکھائی کہ اللہ تعالی تم پر اپنی روحانی اور دنیاوی نعمت تمام کرے گا، لیکن تمہیں اپنے بھائیوں پر بھی نظر رکھنی ہے کیونکہ وہ تمہارے لیے مسئلہ کر سکتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں حقائق پر مبنی امید دلانا۔
آگے حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق کے بارے میں یاد کروا رہے۔ ترتیب کے مطابق حضرت اسحاق کا ذکر پہلے آنا چاہیے تھا، حضرت یعقوب پھر ان کے والد حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم۔ حضرت ابراہیم کا ذکر پہلے کیا گیا کیوں؟ حضرت ابراہیم کون تھے؟ یہ وہ نوجوان تھا جس نے بولا تھا میں ہمیشہ حق پر قائم رہوں گا اور سچ بات بولوں گا، چاہے مجھے آگ میں کیوں نہ پھینک دیا جائے۔ یہ وہ نوجوان تھا جس کو اپنے بیٹے اسماعیل سے بہت پیار تھا، لیکن جب اللہ تعالی نے اس کی قربانی مانگی تو آپ بنا ہچکچائے اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔ آپ کو ہر طرح سے آزمایا گیا لیکن آپ ہر آزمائش میں ثابت قدم رہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو حضرت اسحاق سے نواز کر آپ پر اپنی آخری نعمت تمام کی۔
حضرت ابراہیم کی طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی بچپن سے اپنے بھائیوں کی نفرت دیکھی پھر ایک اندھیرے کنویں میں پھینک دیے گئے، جس کی تہہ میں سانپ بھی ہوسکتے تھے۔ ایک قافلے نے آکر آپ کو وہاں سے نکالا، اور اس ڈر سے کہ آپ کے خاندان والے آپ کو کہیں ڈھونڈتے نہ آجائیں جلدی سے آپ کو غلام بنا کر بیچ دیا گیا۔ آپ نہیں جانتے تھے کہ آگے آپ کا مستقبل کیا ہوگا، آپ پھر کبھی اپنے والد کو دیکھ پائیں گے یا نہیں۔ لیکن اس سارے غم اور خوف کے عرصے میں دو چیزیں آپ کی طاقت بنائی گئی تھیں۔ ایک وہ جس کا اللہ تعالی نے وعدہ کیا تھا کہ اللہ تعالی نے تمہاری قابلیت کو دیکھ کر تمہیں چن لیا ہے، اپنے مقصد کے لئے۔ یہاں پر مجھے کسی نے بولا کے آپ کو نبوت کے لیے چنا گیا تھا لیے آپ کا مشکلات کو دیکھنا ضروری تھا لیکن سورۃ الحج ہم سب کے لئے ہے۔
۔۔۔۔هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام "مسلم" رکھا تھا
اس میں اللہ تعالیٰ خود مجھ سے آپ سے ہم سب سے بات کر رہے کہ میں نے تمہیں چن لیا ہے تم سب کو میں نے چن لیا ہے اس دین میں میں نے تمہارے لیے کوئی تنگی نہیں رکھی۔
یہ حضرت یعقوب علیہ السلام نہیں بتا رہے بلکہ اللہ تعالی بذات خود مجھے آپ کو ہم سب کو بتا رہے ہیں کہ اس نے ہمیں چن لیا ہے۔ اگر اس نے تمہیں مسلمان بنایا ہے تو اس نے تمہارے اندر کچھ دیکھا ہے، تمہارے اندر کچھ ہے جو کسی اور کے اندر نہیں ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اگر اتنی آزمائشوں سے گزرے تو کسی مقصد کے لئے گزرے، اور اپنی قابلیت کی وجہ سے اس مقصد کے لیے چنے گئے تھے۔ اللہ تعالی نے ہمیں مسلمان بنایا مطلب ہمارا بھی کوئی مقصد ہے۔ کوئی بھی تکلیف جو آپ پر آتی ہے وہ کسی وجہ سے آتی ہے۔ آپ ایک رسی کے ذریعے پہاڑ پر چڑھ رہے ہیں اور صرف وہیں تک جاسکتے ہیں جہاں تک رسی جاتی ہے۔ اگر رسی سو فٹ تک ہے تو آپ سو فٹ کی بلندی تک جا سکتے ہیں۔ اور اگر رسی دو سوفٹ کی ہے تو آپ دو سو فٹ تک اوپر جا سکتے ہیں۔ لیکن آپ کے ایمان کی رسی آپ کو اللہ تک لے جاتی ہے۔ اپنے اردگرد کی مشکلات پر ہمت نہیں ہارنی زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ مشکلات آئیں گی، چاہے آپ مسلم ہیں یا غیر مسلم لیکن اللہ کی مدد، اچھے مستقبل کی امید اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کا عزم انسان کو رکنے نہیں دیتا۔ میں اپنی مثال دیتا ہوں میں جب کالج میں تھا میرے والدین پاکستان چلے گئے میں نیویارک میں اکیلا تھا کچھ بھی کر سکتا تھا مگر میں نے اپنا مقصد قرآن میں پایا لیا اور ویک اینڈ پر عربی کورس اور بیڈمنٹن کے علاوہ میرا کوئی اور مقصد نہیں تھا۔ جس وقت آپ اپنے مقصد سے ہٹتے ہیں آپ کے ہاتھوں سے رسی چھوٹ جاتی ہے اور شیطان بس اسی موقع کے انتظار میں ہوتا ہے۔ اس کے پاس اور بہت دوسری پہاڑیاں ہوتی ہیں جس پر وہ آپ کو گرنے میں مدد کرتا ہے۔ اور جب آپ نیچے گر رہے ہوتے ہیں تو شیطان آپ کو اوپر نہیں دیکھنے دیتا، آپ کی توجہ نیچے دوسری چیزوں کی طرف کرواتا ہے، Gravity (کشش، گناہوں کی) آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور یوں رسی ہاتھوں سے نکل جاتی ہے۔ لیکن جب تک آپ بامقصد ہیں آپ اپنی منزل کی طرف بڑھتے جاتے ہیں گریویٹی کے خلاف اوپر کی طرف جاتے جاتے ہیں اور یہ آپ کو روک بھی نہیں پاتی آپ کی منزل تک جانے سے۔
اچھے مستقبل کی امید اور بامقصد ہونا یہ ان دو چیزوں میں سے پہلی چیز ہوگئی جو حضرت یوسف علیہ السلام کی طاقت بنی۔
دوسری چیز کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ برصغیر کا دو ملکوں میں بٹنے کا تو سنا ہوگا آپ نے پاکستان اور ہندوستان میں۔ 1947 میں مسلمانوں نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی اور ایک ملک حاصل کرلیا۔ آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اس ملک حاصل کرنے کے پیچھے وجہ کیا تھی یہ نعرہ تو سنا ہی ہوگا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ اس ملک کو اس لیے حاصل کیا گیا کہ مسلمان یہاں پر اسلام کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ ڈر تھا کہ انگریز جاتے جاتے سارے اختیارات ہندوؤں کو دے جائیں گے جو مسلمانوں پر ظلم و ستم کریں گے۔ ان کے لیے اپنے دین پر عمل کرنا مشکل بنا دیں گے اور یوں آہستہ آہستہ ان کی نسلیں اللہ تعالی کی تعلیمات کو بھلا دیں گی۔ تو اپنی نسلوں کے اچھے مستقبل کے لئے ان کو باعمل مسلمان بنانے کے لئے اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کے لئے ان لوگوں نے قیام اللیل کیا، تہجد پڑھی۔ ساری ساری رات اللہ تعالی کے آگے آنسو بہا کر دعائیں کی کہ اللہ ان کو آزاد ملک عطا فرمائے۔ جہاں وہ اسلام پر عمل پیرا ہو سکیں۔ آج بارڈر کے اس طرف ایک ملک ہے اور ایک ملک اس طرف ہے۔ ایک مسلم گھرانے کی شادی دیکھیں اور ایک ہندو یا سکھ گھرانے کی شادی دیکھیں۔ دونوں میں کیا فرق نظر آتا ہے آپ کو؟ فیصلہ آپ خود کریں گے میں نہیں بولوں گا کچھ۔ جان جائیں گے کہ دونوں شادیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہمیں شرم آنی چاہیے کہ ہمارے باپ دادا نے کس طرح رو کر ہمارے لئے کچھ سال پہلے دعائیں کی، اور آج ہم کس مقام پر ہیں۔ اس طرح سوچنا میری نسل پرستی تھی جب تک میں نے خود کو پاکستانی کی نظر سے دیکھا۔ لیکن جیسے ہی میں قرآن کا طالب علم بنا میں قرآن کی نظر سے دیکھنے لگ گیا۔ یہی دعائیں بہت صدیوں پہلے ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی تو آج کچھ بھی ہو کتنی ہی قربانی ہی کیوں نہ دینی ہو مجھے آپ کو اس دین پر رہنا ہے۔ جس کی دعائیں ہم سب کے باپ ابراہیم علیہ السلام نے کی۔ یہ ہماری جڑ ہے ہم سب کی جڑیں ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام سے جاملتی ہیں۔ یہ تھی دوسری بات جو حضرت یوسف علیہ السلام کی طاقت کا ذریعہ بنی اپنے ماضی کو یاد رکھنا اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں پر پورا اترنا۔
اپنے بچوں کو یہ دونوں باتیں سکھائیں اچھے مستقبل کے لیے بامقصد بننا اور اپنے ماضی کو نظروں میں رکھنا وہ کسی بھی ماحول میں چلے جائیں کسی بھی طرح کے لوگوں میں چلے جائیں حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح ہر آزمائش میں ثابت قدم رہ جائیں گے۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں