تدبر قرآن: سورہ یوسف - حصہ اول


تدبر قرآن
سورہ یوسف

سورہ یوسف عام الحزن میں نازل ہوئی تھی جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ اور ابو طالب کی وفات ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب قریش مکہ کی آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم پہ زیادتیاں بڑھ گئیں تھیں۔ آپ اندرونی طور پہ بھی غمگین تھے اور بیرونی طور پہ بھی اپنے ہی رشتے داروں اور اپنی قوم اور وطن کے لوگوں کی طرف سے ستائے جارہے تھے۔
ان حالات میں اس سورت کا نزول ہوا۔

ایک ضعیف روایت میں آتا ہے کہ جو شخص غمگین ہو وہ سورت یوسف کو پڑھے تو اس کا غم جاتا رہے گا۔

اگر اس بات کو ہم نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف نہ بھی منسوب کریں کہ آپ نے فرمایا ہے تو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں صبر اور تقوی کی ایسی مثالیں ملتی ہیں اور یہ واقعہ ایسا ہے جس میں بہت سی نشانیاں اور سبق ہیں۔ اگر انسان اس کو غور سے پڑھے تو یہ سورت واقعی غم دور کرنے والی ہے۔

یوسف علیہ اسلام کے واقعہ کا آغاز ہوتا ہے جب وہ اپنے والد یعقوب علیہ السلام کو اپنا خواب سناتے ہیں۔ خواب سن کر یعقوب علیہ السلام نے جو جواب دیا اس میں ہم سب کے لیے ایک بہت اہم سبق ہے۔

یعقوب علیہ السلام نے خواب سن کر فرمایا: اے میرے بیٹے نہ بیان کرنا اپنا خواب اپنے بھائیوں سے ورنہ وہ چلیں گے تیرے ساتھ کوئی چال۔ بےشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ یعقوب علیہ السلام انتہائی سمجھدار انسان تھے۔ وہ بچوں کے باہمی تعلقات کو بھی دیکھ رہے تھے ان کے انداز کو بھی سمجھتے تھے اسکے علاوہ جانتے تھے کہ شیطان کتنا خطرناک ہے وہ ایک بھائی کو دوسرے بھائی کے خلاف بہکا دیتا ہے۔

اس آیت میں سے سب سیکھنے والا سبق "حسد" ہے۔ یعقوب علیہ السلام کو اندیشہ تھا کہ شیطان بھائیوں کے درمیان حسد ڈال سکتا ہے اس لیے انہوں نے یوسف علیہ السلام کو خبردار کردیا تھا۔

حسد ہوتا کیا ہے؟

کسی صاحب نعمت کے زوال کی تمنا کرنا۔

اس آیت سے ہم سیکھ رہے ہیں کہ بھائیوں کے درمیان، خون کے رشتوں کے درمیان بھی حسد آسکتا ہے۔ تو پھر ان کا کیا جن سے ہمارا خون کا رشتہ نہیں ہوتا؟
ہم آج سوشل میڈیا کے زمانے میں رہ رہے ہیں جہاں رازداری کا کوئی تصور نہیں رہا۔ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات ہم دنیا کو دکھانے کے لیے پوسٹ کردیتے ہیں۔
ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ ہم انسان اتنے کمزور ہیں کہ ہمارے دل میں محبت کے جذبے کے ساتھ منفی جذبات بھی پائے جاتے ہیں اور شیطان کا تو کام ہی یہی ہے کہ انسان میں جو منفی جذبات ہیں ان کو ابھارے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنی حاجات کو پورا کرنے میں کتمان سے کام لو۔

کتمان کہتے ہیں "چھپانا

یعنی اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے رازداری سے کام لو۔ کیونکہ ہر صاحب نعمت حسد کیا جاتا ہے۔

ایک اور مشہور حدیث ہے کہ "ہر نعمت والا شخص محسود ہے۔ (اس سے حسد ہوتا)

دنیا میں پہلا قتل حسد کی بناء پر ہوا تھا۔ ہابیل اور قابیل۔ جب ایک بھائی کی قربانی قبول ہوگئی تھی اور دوسرے کی نہیں۔ تو قابیل نے حسد میں اپنے بھائی ہابیل کا قتل کردیا تھا۔

حسد ایک کمزوری ہے۔ یہ تو چھوٹے سے بچے میں بھی پائی جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک چھوٹا سا بچہ جس میں کوئی برائی نہیں ہوتی، جو گناہوں سے پاک ہوتا ہے جب اس کا ایک اور بھائی یا بہن دنیا میں آئے اور وہ اپنی ماں کو ہر وقت اسی کو پکڑے دیکھتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے؟ اس بچے کو ماں کی گود سے ہٹانے لگتا ہے۔ اس چھوٹے سے بچے میں جو پہلی کمزوری آتی ہے وہ حسد ہوتی ہے۔ یہ ایک شیطانی جذبہ ہے۔ ایک آگ ہے جس میں جلتے ہوئے شیطان نے آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوایا تھا اور وہ اسی حربے کے ذریعے اب آدم کی اولاد پہ وار کرتا ہے۔

یہ ایک ایسی بیماری ہے جس سے چھٹکارا پانا مشکل ہے اور انسان کے اندر اتنے چپکے سے آتی ہے کہ پتا نہیں لگتا۔

ایسی برائی ہے جس کے آتے ہی انسان کی نیکیاں ایسے جلنے لگتی ہیں جیسے آگ سوکھی لکڑی کو کھاتی ہے۔

ابو داود کی روایت ہے کہ جب بھی ایک کے مقابلے میں دوسرے کو کوئی نعمت مل جائے اور انسان اس پہ کمفرٹیبل نہ ہو خوش ہونے کے بجائے ناراض ہونے لگے یا پھر جسے نعمت ملی ہے اس کو کوئی نقصان پہنچانے لگے تو سمجھیں کہ یہ حسد کی وجہ سے ہے۔

اس بیماری کا واحد حل تقوی ہے۔ اللہ کا خوف۔ صرف خوف خدا ہے جو انسان کو اس سے بچا سکتا ہے۔ اس کا اور کوئی علاج نہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔ 


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں