مصنفہ: عمیرہ علیم
بشکریہ: الف کتاب
حضرت یوسف علیہ السلام کا دور گزرنے کے کافی عرصہ بعد جب مصر کا اقتدار قبطیوں کے پاس آیا تو انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں بنی اسرائیل کا زور توڑنے کے لیے ہر حربہ آزمایا۔ اسرائیلیوں کو نہ صرف ذلیل و خوار کیا جاتا بلکہ ان سے ادنیٰ درجے کی خدمات لی جاتیں۔ انہوں نے یہ پالیسی بھی اختیار کی کہ کسی طرح بنی اسرائیل کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کم کیا جائے۔ وہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو پیدائش کے وقت قتل کرنے لگے۔ صرف ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جاتا تاکہ رفتہ رفتہ بنی اسرائیل کی عورتیں اُن کے تصرف میں آجائیں اور ان سے قبطی نسل پیدا ہو۔ قبطی، بنی اسرائیل کی اہمیت سمجھتے اور خود کو ان سے زیادہ طاقت ور خیال کرتے تھے۔ اس دور میں مصر کا بادشاہ فرعون کہلاتا تھا۔ وہ نا صرف بادشاہی کے زعم میں مبتلا تھا بلکہ نعوذ باللہ خدائی کا بھی دعویٰ دار تھا۔ اس نے معاشرے کو مختلف طبقات میں تقسیم کردیا۔
اللہ تبارک تعالیٰ، فرعون کی سرکشی اور ہٹ دھرمی کی روش کا ذکر فرماتے ہوئے سورة القصص میں بیان کرتے ہیں:
''واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔''
فرعون نے نہ صرف طاغوتی روش اپنائی بلکہ وہ جابر و سرکش بھی ہوگیا تھا۔ وہ باغی یہ بھول گیا تھا کہ بنی اسرائیل کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے، حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے اور اپنے دور کے بہترین لوگوں میں سے ہیں۔ وہ ظالم اور کافر بادشاہ، بنی اسرائیل کی نسل کشی پر اتر آیا اور یہ بھول گیا کہ یہ قوم، ربِ کریم کی پسندیدہ ترین قوم ہے۔
کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ فرعونِ مصر کو کاہنوں نے بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو اس کی ہلاکت و تباہی کا باعث بنے گا۔ کچھ کا گمان ہے کہ فرعون کو اس قبیح فعل پر ابھارنے والے خود بنی اسرائیل کے لوگ تھے جو اپنا کلام دہراتے رہتے جس میں ایک بچے کی بشارت کا ذکر تھا، جو بنی اسرائیل کو فرعون کے تسلط سے آزاد کروائے گا۔ جب کہ ایک روایت کے مطابق، فرعون نے ایک خواب دیکھا جس کا بیان کچھ یوں ہے کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ مصر کی جانب بڑھ رہی ہے جس سے تمام شہر اور قبطی نسل کے لوگ جل جاتے ہیں، مگر وہ آگ بنی اسرائیل پر بے اثر رہتی ہے۔
فرعون نے جب اس خواب کی تعبیر پوچھی تو اس کو ایک بچے کی پیدائش کے بارے میں بتایا گیا جو اس کو تخت و تاج سے بے دخل کرنے والا ہے۔ تب ہی اس نے بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل اور لڑکیوں کے زندہ رہنے کا حکم صادر کیا۔
اللہ تبارک تعالیٰ کو خدائی کا دعویٰ کرنے والے اس سرکش شخص کی یہ ظالمانہ روش پسند نہ آئی۔ اس لیے ارشاد ہوا:
''اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر، جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں، جس کا انہیں ڈر تھا۔'' (سورة القصص)
اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کو قیادت اور رہ نمائی عطا کرنے کا ارادہ فرمایا تاکہ وہ زمین پر حکمران اور فرماں روا ہوں۔ تب ہی اس بچے نے دریا میں آنکھ کھولی، جس کو لوگ موسیٰ علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں۔ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران بتایا جاتا ہے۔ مفسرین، آپ علیہ السلام کا شجرہ ِ نسب یوں بیان کرتے ہیں۔
''حضرت موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عاذر بن لاوی بن یعقوب بن اسحق بن ابراہیم علیہ السلام۔''
اپنے پیارے بندے کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
''اور ذکر فرمائیے کتاب میں موسیٰ کا۔ بے شک وہ (اللہ کے) چنے ہوئے تھے اور رسول و نبی تھے۔'' (سورة المریم)
قرآن مجید میں آپ کا نام تقریباً ایک سو تیس مقامات پر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کی وجہ سے آپ کو ''کلیم اللہ'' بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت ابنِ عباس سے روایت ہے کہ ایک دن حضورِ کریم صؒی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے باہر تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا:
''میرے سامنے ساری امتیں پیش کی گئیں تو ایک امت میں نے اتنی کثیر تعداد میں دیکھی کہ اس نے تمام افق گھیر رکھا تھا۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت ہے۔'' (بخاری)
قرآن مجید میں آپ علیہ السلام کا زیادہ تذکرہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ علیہ السلام کے بیشتر حالات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تھے اور یہ کہ ان کے تذکرے سے رسول اللہ اور صحابہ کرام کو تقویت دینا تھا کہ وہ مصائب و آلام سے گھبرائیں نہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ''اسرائیل'' بھی کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت یعنی اولادِ یعقوب ''بنی اسرائیل'' کہلاتی ہے۔ لغت کے مطابق موسیٰ، عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ''پانی سے نکالا ہوا'' کے ہیں۔
فرعونِ مصر نے چوں کہ بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا حکم صادر کیا تھا، اس لیے مردوں کی تعداد کم ہونے لگی۔ قبطیوں کو پریشانی نے آگھیرا۔ ان سب نے ارادہ کیا کہ فرعون سے شکایت کی جائے کہ اگراسی طرح چلتا رہا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ سارے زور آور کام ہمیں کرنے پڑیں گے اور مفت کے مزدور بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ وہ سب فرعون کے پاس جا پہنچے اور اس مسئلے کا ذکر کیا۔ بہرحال فرعون نے نیا حکم صادر کردیا کہ ایک سال لڑکوں کا قتل کیا جائے گا اور ایک سال انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی، حضرت ہارون علیہ السلام جو نبی ہوئے ہیں، معافی کے سال پیدا ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام قتل کے سال دنیا میں تشریف لائے۔
حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی والدہ کو جب حمل کی گرانی محسوس ہوئی تو آپ پریشان ہوگئیں کہ آنے والا بچہ تو قتل کے سال دنیا میں آئے گا۔ تب ہی انہوں نے حمل کو چھپا لیا اور ربِ تعالیٰ کی قدرت کہ ان کو دیکھ کر کسی کو احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ حاملہ ہیں۔ آخر کار اللہ کے پیارے نبی نے دنیا میں آنکھ کھولی۔ تب اللہ رب العزت نے ان کی والدہ کو حکم دیا کہ وہ اپنے لختِ جگر کو اس وقت تک دودھ پلاتی رہیں، جب تک خطرہ محسوس نہ کریں۔ درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے پاس باقاعدہ فرشتہ، اللہ تعالیٰ کا پیغام نہیں لایا تھا بلکہ ان کے دل میں یہ بات ڈالی گئی تھی اور ان کا دل اس پر مطمئن کر دیا گیا تھا کہ حزن و ملال کی بات نہیں، بلکہ اگر یہ تجھ سے بچھڑ بھی گیا تو ہم اس کو تیرے پاس لوٹا دیں گے اور وہ نبوت کے بلند مرتبے کو حاصل کرے گا۔ جیسا کہ سورة القصص میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
''ہم نے موسیٰ کی ماں کو اشارہ کیا کہ اس کو دودھ پلا، پھر جب تجھے اس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، ہم اسے تیرے ہی پاس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل کریں گے۔''
اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندے کی والدہ کو اطمینان کے لیے دو بشارتیں دیں۔ پہلی تو یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کو ربِ کریم ضائع نہیں ہونے دیں گے اور ان کی والدہ کو واپس لوٹا دیں گے۔ دوسری بشارت یہ تھی کہ وہ صالحین میں شامل ہوگا۔
دوسری طرف رب تعالیٰ نے فرعون کے ساتھیوں کے دلوں پر پردہ ڈال دیا۔ اس کے جاسوس بنی اسرائیل کی بستی میں آئے لیکن پیدائشِ موسیٰ سے بے خبر رہے۔ حتیٰ کہ آپ علیہ السلام کے گھر آنے والوں کو بھی خبر نہ پہنچی کہ یہاں زچگی ہوئی ہے اور ایک نومولود گھر میں موجود ہے۔ یہ ہے اس رب کی شان، جو اس کائنات کا خالق و مالک ہے۔ وہ جو چاہتا ہے، وہی کرتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو آپ کی پیدائش کے فوراً بعد آپ علیہ السلام کو دریا میں ڈالنے کا حکم نہ تھا بلکہ ربِ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب راز فاش ہونے کا اندیشہ ہو، تو اسے دریا میں ڈال دینا۔ آپ کی والدہ کے دل میں یہ خیال ڈالا گیا کہ صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈالیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی والدہ اکثر آپ کو صندوق میں ڈال کر دریا میں بہا دیتیں اور جب خطرہ ٹل جاتا تو اس میں سے نکال لیتی تھیں۔ وہ صندوق خاص طریقے سے بنایا گیا تھا تاکہ اس میں سے ہوا کا گزر بھی ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ دریا خود ہی صندوق کو اگل دے گا اور اس بچے کو میرا اور اس بچے کا دشمن نکالے گا۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
''یاد کرو وہ وقت، جب کہ ہم نے تیری ماں کو اشارہ کیا۔ ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعہ سے ہی کیا جاتا ہے کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے کا دشمن اٹھالے گا۔'' (سورة الطٰہٰ)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا تمام عمل حکمِ خداوندی پر مبنی تھا۔ خطرہ بھانپ کر جب موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے صندوق کو دریا کی لہروں کے سپرد کردیا تو فرعون کے جاسوس آپ علیہ السلام کے گھر داخل ہوئے، پورے گھر کی چھان بین کی لیکن انہیں وہاں کچھ نہ ملا۔ وہ حیرت زدہ سے واپس چلے گئے کہ شاید انہیں غلط خبرملی ہے۔ دوسری طرف موسیٰ علیہ السلام کی والدہ بے قرار ہوگئیں۔ اُن کا دل دہلنے لگا کہ کہیں بچے کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ انہوں نے اپنی بڑی بیٹی سے کہا کہ وہ صندوق کے ساتھ ساتھ جائے اور دیکھے کیا معاملہ ہوا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کا وعدہ تو وعدہ خداوندی تھا۔ اس کا پورا ہونا تو طے تھا۔ آپ کی بہن دریا کنارے درختوں کے آس پاس ایسے چلنے لگیں جیسے ان کو کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ آگے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''آخر کار فرعون کے گھر والوں نے اسے (دریا سے) نکال لیا،کہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے سبب رنج بنے۔ واقعی فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر (اپنی تدبیر میں) بڑے غلط کار تھے۔'' (سورة القصص)
فرعون کا محل، بستی سے کچھ فاصلے پر تھا تاکہ اس کے آرام میں کوئی مخل نہ ہو۔ محل کی حفاظت کے لیے پہرے دار اردگرد کھڑے تھے۔ کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ صندوق کو فرعون کی ملکہ حضرت آسیہ اور ان کی خادماؤں نے دیکھا تھا جو سیرگاہ میں چہل قدمی کررہی تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ:فرعون اور حضرت آسیہ سیرگاہ میں موجود تھے۔ (واللہ اعلم)۔ صندوق جب فرعون اور اس کی ملکہ کے سامنے کھولا گیا تو کیا دیکھا کہ چاند سی صورت کا ایک معصوم اور خوب صورت بچہ لیٹا ہوا ہے۔ حضرت آسیہ اس بچے کی صورت پر فدا ہوگئیں۔
جب کہ فرعون اور اس کے وفادار غلام، بچے کو قتل کرنا چاہتے تھے کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ بچہ، اسرائیلی بستی کی طرف سے بہتا ہوا آیا ہے لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ ان کی چال اللہ نے انہی طرف پلٹ دی۔ بے شک رب تعالیٰ ہی بہتر چال چلنے والا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صورت پر نبوت کا نور چمک رہا تھا اور دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہورہی تھیں۔ حضرت آسیہ نے فرعون سے بچے کی جان بخشی کی التجا کی اور فرمایا:
''یہ بچہ تو میری اور تیری آنکھوں کے لیے ٹھنڈک ہے۔'' (سورة القصص)۔
فرعون نے جواباً کہا:
'' یہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں ہوسکتا۔ میں اس سے کوئی غرض نہیں رکھتا۔'' حضرت آسیہ نے فرمایا:
''شاید یہ ہمیں نفع دے۔'' (سورئہ القصص)
یہ نفع حضرت آسیہ نے نہ صرف دنیا میں بھی حاصل کیا بلکہ آخرت میں بھی ان کے ایمان کی بدولت جنت الفردوس کی بہاریں ان کا نصیب ہوں گی۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''دنیا کی بہترین عورتیں چار ہیں۔ مریم بنتِ عمران، فرعون کی بیوی آسیہ، خدیجہ خویلد اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم۔'' (ترمذی)
حضرت آسیہ نے فرعون سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا بیٹا بنانے کی درخواست کی۔ چوں کہ فرعون کی بربادی اور خاتمہ، موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں طے شدہ تھا، تب ہی ان کو اجازت دے دی گئی۔
قدیم زمانے میں بچوں کو پیدائش کے بعد دودھ پلانے کے لیے انّائوں کے سپرد کردیا جاتا تھا۔ اور وہ اپنے یہاں ہی بچوں کی پرورش کرتی تھیں۔ جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حلیمہ سعدیہ کے سپرد کیا گیا تھا بالکل اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو جب محل میں رہنے کی اجازت مل گئی تو حشم و خدام نے کوشش کی کہ بچہ کسی انّا کا دودھ پینے لگے لیکن بچہ کسی کا دودھ پینے کو تیار ہی نہیں تھا۔ آپ علیہ السلام کی بہن محل کے آس پاس ہی موجود ہوتی تھیں تاکہ موسیٰ علیہ السلام کی کچھ خبر حاصل ہو۔ پھر ان کو معلوم ہوا کہ بچہ کسی عورت کا دودھ پینے کو تیار ہی نہیں تو کہا:
''میں تمہیں ایسے گھر کا پتا بتاؤں کہ جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمّہ لیں اور خیر خواہی کے ساتھ اسے رکھیں۔'' (سورة القصص)۔
خدام مشکوک ہوئے ہیں کہ یہ لڑکی ایسے کیوں کہہ رہی ہے۔ تو آپ علیہ السلام کی بہن نے کہا:
''میں تو بادشاہ کی وفادار ہوں اور اس کی بھلائی چاہتی ہوں۔'' پھر اس کو اجازت دے دی گئی کہ وہ اس عورت کو بلائے۔ چناں چہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو طلب کیا گیا اور جب انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اٹھایا تو قدرت، دشمنوں پر ہنسی کہ وہ لوگ اپنے دشمن کی پرورش کرنے لگے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے اپنی والدہ سے دودھ پی لیا۔ محل میں خوشیاں منائی گئیں کہ ایسی انّا مل گئی جس کی ضرورت تھی۔ آپ کی والدہ کو محل میں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رہنے کی پیش کش کی گئی تاکہ آپ علیہ السلام کی پرورش اچھے طریقے سے ہو۔ جیسا کہ سورة القصص میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
''اس طرح ہم موسیٰ علیہ السلام کو اس کی ماں کے پاس پلٹا لائے تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو، اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچّا تھا۔ مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں مانتے۔''
حضرت آسیہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ سے فرمایا:
'' وہ بھی بچے کے ساتھ محل میں رہائش اختیار کریں، ان کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا۔'' آپ کی والدہ نے انکار کردیا اور کہا:
''میں اپنے خاوند اور بچوں کو نہیں چھوڑ سکتی۔ آپ بچہ میرے سپرد کردیں، میں اس کو ساتھ لے جاتی ہوں۔'' حضرت آسیہ مان گئیں اور موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے ساتھ واپس گھر آگئے۔ اس طرح حضرت موسیٰ اپنی والدہ کے پاس واپس آگئے۔ آپ کی پرورش کی بنیاد آپ کی والدہ نے رکھی۔ بہن بھائیوں کے ساتھ رہ کر آپ علیہ السلام کو اپنی اصلیت سے بھی آگاہی حاصل ہوگئی اور ساتھ ساتھ مذہب، اپنی قوم اور خاندانی روایات سے ان کا رشتہ جڑا رہا۔ اس طرح آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کے فرد بن کر اٹھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش معجزانہ طریقے سے ہوئی۔ پھر ربِ تعالیٰ نے آپ کو انہی لوگوں میں پہنچا دیا جو آپ کی جان کے دشمن تھے۔ بنی اسرائیل، جو قبطیوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے مالی تنگی کا بھی شکار تھے، آپ کو اس سے بھی نکالنے کا انتظام فرمایا۔ آپ علیہ السلام نے نازو نعم سے پرورش پائی اور بہترین عورتوں سے تربیت حاصل کی۔ ایک اپنی والدہ ماجدہ اور دوسری حضرت آسیہ۔ بہترین کھانا، بہترین لباس، خدام و کنیزیں آپ کو میسر آئیں اور ربِ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان جو موسیٰ کلیم اللہ پر کیا گیا وہ ان کی جان بخشی تھی۔ قتل کے سال پیدا ہونے والا بچہ، دنیا کے بہترین لوگوں اور صالحین میں شمار ہوا۔ اس طرح آپ علیہ السلام نے خاص سرکاری نگرانی میں پرورش پائی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت و بڑائی بیان کرتے ہوئے حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں:
'' ایک مسلمان اور یہودی میں بدکلامی ہو گئی۔ مسلمان نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں سے چُن لیا اور یوں قسم کھائی۔ پس یہودی نے کہا، قسم اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہانوں سے چُن لیا۔'' اس پر مسلمان نے یہودی کو طمانچہ رسید کردیا۔ یہودی بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا اور تمام واقعہ بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات ناگوار گزری اور غصّے کے آثار چہرہِ پُر نُور سے نمایاں ہونے لگے۔ پھر فرمایا:
'' انبیائے اکرام میں ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دو۔ کیوں کہ جب پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان میں جتنی مخلوق ہے، سب بے ہوش ہوجائے گی مگر جس کو اللہ چاہے۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام عرشِ الٰہی کو پکڑے کھڑے ہوں گے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کوہِ طور کی بے ہوشی کا صلہ ہوگا، جو وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے۔'' (بخاری)
سبحان اللہ! کیا شان بخشی رب تعالی نے اپنے مقربین و صالحین کو۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے جس طرح موسیٰ علیہ السلام پر احسان فرمایا، اسی طرح امتِ محمدیہ پر بھی احسان فرمائے اور اُن کو سیدھا راستہ دکھلائے اور ان کے لیے آسانیاں فرمائے۔ (آمین)
(جاری ہے)
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ پوسٹ۔ جزاک اللہ خیرا
اللہ مزید ترقی دے اور دونوں جہاں میں سرخرو کرے آمین