قرآن کہانی: حضرت موسیٰ ۔۔۔ حصہ دوم


حضرت موسیٰ علیہ السلام - حصہ دوم
مصنفہ: عمیرہ علیم
بشکریہ: الف کتاب



جب بنی اسرائیل پر فرعون نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُمِ موسیٰ پر نہ صرف کرم نوازی فرمائی کہ وہ موسیٰ کو بہ خیر و عافیت آپ کو دنیا میں لانے کا سبب بنیں بلکہ دریا میں بہا دینے کے بعد موسیٰ کو والدہ کی گود میں لوٹا کر فضل و احسان بھی فرمایا۔ آپ نے بادشاہِ وقت کے یہاں شہزادے کی حیثیت سے پرورش پائی۔ دنیا کی ہر نعمت آپ کو میسر تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کی قوم پر قبطیوں کے مظالم میں بھی کمی آگئی تھی، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ حضرت موسیٰ کا تعلق کسی نہ کسی طرح بنی اسرائیل سے ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا فرما دیے کہ فرعون آپ کو شاہی محل میں رکھنے پر مجبور ہوگیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ تنومند ہوتے جارہے تھے۔ آپ کی جسمانی صحت بھی آپ کو مضبوطی عطا کرتی تھی۔ حضرت آسیہ نے آپ کو اپنا بیٹا بنایا تھا، اس لیے لوگ آپ سے ڈرتے تھے۔ اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم شبِ معراج کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت موسیٰ کا حلیہ بتاتے ہیں جیسا کہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:

''شبِ معراج میں نے حضرت موسیٰ کو دیکھا۔ وہ دُبلے پتلے اور سیدھے بالوں والے تھے۔ گویا وہ قبیلہ شنو کے ایک فرد ہیں۔'' (صحیح بخاری)

آپ بہت شرمیلے اور ستر پوش تھے۔ حیا داری کی وجہ سے کوئی ان کے جسم کا ذرا سا بھی حصہ نہ دیکھ سکا تھا۔ آپ کی شخصیت میں درازیٔ قد نمایاں وصف تھا۔ مجموعی طور پر آپ کی شخصیت بے حد متاثر کن اور رعب و دبدبے والی تھی۔

سورة القصص میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔

''جب موسیٰ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گیا اور اس کی نشوونما مکمل ہوئی تو ہم نے اسے حکم اور علم عطا کیا۔ ہم نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔''(سورة القصص آیت نمبر ١٤)

اللہ تعالیٰ نے پہلے موسیٰ علیہ السلام کے بچپن کا تذکرہ فرمایا ہے پھر آپ کی جوانی کا ذکر کیا ہے۔ یہاں جس خاص وقت کا ذکر کیا جارہا ہے، اُس وقت آپ کی عمر کیا تھی، اس کے متعلق درست شواہد موجود نہیں۔ مختلف روایات میں اٹھارہ ، بیس اور چالیس سال کی عمریں بتائی گئی ہیں۔ یہاں آپ کی جواں عمری بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جس وقت کا یہاں ذکر ہے، اس وقت آپ اپنے پورے شباب پر تھے۔ آپ کی ذہنی صلاحیتیں عروج پر پہنچ چکی تھیں، تبھی تو فرمایا گیا کہ:

''ہم نے اسے حکم اور علم عطا کیا۔''

حکم سے مراد ''دانائی، حکمت، قوتِ فیصلہ، فہم و فراست'' اور علم سے مراد ''دینی اوردنیاوی علوم" ہیں۔

حضرت موسیٰ نے چوں کہ اپنا سارا بچپن اور لڑکپن والدین کے زیرِسایہ گزارا، تبھی آپ کو اپنے آباؤ اجداد یعنی حضرت یوسف ، حضرت یعقوب، حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم کی تعلیمات سے آگاہی ہوگئی تھی اور دوسری طرف شاہی محل میں آپ نے اس وقت کے رائج دنیاوی علوم میں بھی مہارت حاصل کرلی۔ یہاں حکم اور علم سے مراد عطیۂ نبوت نہیں ہے، کیوں کہ نبوت اس واقعہ کے کافی سال بعد آپ کو عطا کی گئی تھی۔

آگے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں:

''(ایک روز) وہ شہر میں ایسے وقت داخل ہوا جب کہ اہلِ شہر غفلت میں تھے۔'' (سورة القصص، آیت نمبر ١٥)

چوں کہ شاہی محلات عام شہری آبادی سے باہر واقع تھے اور موسیٰ شاہی محل میں رہتے تھے، تبھی فرمایا گیا کہ ''شہر میں داخل ہوئے۔'' تمام لوگ اپنے گھروں میں تھے اور سڑکوں پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔

آپ کو اچانک شور سنائی دیا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ دو آدمی آپس میں جھگڑا کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا جب کہ دوسرا قبطی تھا۔ آپ ان کی طرف بڑھتے ہیں، آپ کی قوم کا آدمی آپ کو دیکھ کر مدد کے لیے پکارتا ہے۔ قبطی کافر تھا اور حضرت موسیٰ ان کے ظلم و ستم سے بھی واقف تھے۔ تبھی آپ خیال کرتے ہیں کہ یقیناً بنی اسرائیلی شخص مظلوم اور قبطی ظالم ہے۔ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے آدمی کی مدد کے خیال سے قبطی کو ایک  مکا لگاتے ہیں۔ جیسے ہی اس کو مکا پڑتا ہے، اس کا کام تمام ہو جاتا ہے اور وہ نیچے گر پڑتا ہے۔ حضرت موسیٰ ندامت اور گھبراہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکلتے ہیں۔

''یہ شیطان کی کارفرمائی ہے، وہ سخت دشمن اور کھلا گمراہ کُن ہے۔'' (سورة القصص، آیت نمبر ١٥)

حضرت موسیٰ کا مقصد اس قبطی کی موت نہ تھا بلکہ آپ اس کو بنی اسرائیلی سے جھگڑا کرنے سے روکنا چاہتے تھے۔ کوئی بھی شخص یہ توقع نہیں رکھتا کہ ایک مکا کھا کر ایک اچھا بھلا تندرست شخص فوراً مر جائے گا۔ وہ مکا تو اس کو ڈرانے کے لیے مارا گیا تھا۔ لیکن اس کا کام ایک ہی ضرب سے تمام ہوگیا۔ تبھی آپ اس عمل پر نادم ہوئے۔ آپ جانتے تھے کہ یہ ایک فسادی عمل ہے کیوں کہ آپ سے ایک اسرائیلی کی حمایت میں ایک قبطی کو جان سے مار ڈالنے کا گناہ سرزد ہوچکا تھا۔ اس سے نہ صرف آپ بلکہ تمام بنی اسرائیل کے خلاف طوفانِ عظیم برپا ہوگا۔

آپ نے قبطی کو قومیت پرستی کی بنیاد پر قتل نہیں کیا تھا کہ اس کا جھگڑا اسرائیلی شخص ہے تو اس کو مار ڈالنا چاہیے بلکہ آپ سے غلطی اس بنیاد پر ہوئی کہ ہمیشہ قبطیوں نے بنی اسرائیل پر مظالم ڈھائے تھے اور عقل بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ ایک ایسا شخص جس نے آگے جاکر ایک اولوالعزم پیغمبر بننا ہو، وہ عدل و انصاف کا مظاہرہ نہ کرے۔

حضرت موسیٰ ربِ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض گزار ہوکر فرماتے ہیں:

''اے میرے رب! میں نے اپنے نفس پر ظلم کر ڈالا، میری مغفرت فرما دے۔'' (سورة القصص، آیت نمبر١٤)

آپ اللہ تبارک و تعالیٰ سے سترپوشی اور درگزر کرنے کی امید رکھتے ہیں تاکہ دشمنوں کو نہ پتا چلے اور فساد نہ برپا ہو۔

اللہ تعالیٰ چوں کہ اپنے بندے کے دل کا حال جانتے ہیں، تبھی آپ کا قصور معاف فرما دیتے ہیں۔ بے شک ربِ کریم غفور بھی ہے اور رحیم بھی۔ حضرت موسیٰ اپنے رب سے عہد باندھتے ہیں:

''اے میرے رب! یہ احسان جو تو نے مجھ پر کیا ہے۔ اس کے بعد اب میں مجرموں کا مددگار نہ بنوں گا۔'' (سورة القصص، آیت نمبر ١٧)

قتل کے وقت قبطی قوم کا کوئی شخص وہاں سے نہ گزرا اور حضرت موسیٰ کو نکل جانے کا موقع میسر آگیا۔ مفسرین کے مطابق اسی روز حضرت موسیٰ نے فرعون اور اس کی ظالم حکومت سے قطع تعلق کا عہد کرلیا تھا کیوں کہ اس نے زمین پر مجرمانہ نظام قائم کر رکھا تھا۔ آپ یہ محسوس کرچکے تھے کہ کسی ایمان دار کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ظالم حکومت کا حصہ ہو۔

حضرت موسیٰ نے رات بہ مشکل گزاری اور وقت ِصبح ڈرتے ڈرتے شہر میں داخل ہوئے کہ کہیں فرعون کو پتا تو نہیں چل گیا کہ قتل کس سے ہوا ہے، کیوں کہ مقتول کے عزیز و اقارب فرعون کے پاس فریاد لے آئے تھے اور فرعون قاتل کی تلاش میں تھا تاکہ اس کو سزا دی جائے۔ آپ اچانک دیکھتے ہیں کہ جس آدمی کی گزشتہ روز آپ نے مدد کی تھی، وہ آج بھی آپ کو مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ جیسے ہی وہ موسیٰ کو دیکھتا ہے تو مدِمقابل کے خلاف مدد کی درخواست کرتا ہے۔ اُس کی حالت دیکھ کر آپ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ جھگڑا لو اور شرارتی شخص ہے اور اس کو ملامت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

''تُو تو بڑا ہی بہکا ہوا آدمی ہے۔'' (سورة القصص، آیت نمبر ١٨)

پھر جیسے ہی حضرت موسیٰ ان دونوں کی طرف بڑھے تاکہ قبطی جو بنی اسرائیلی کے ساتھ گتھم گتھا تھا، الگ کرسکیں تو اسرائیلی خیال کرتا ہے کہ یہ مجھے مارنے آرہے ہیں تو وہ چیخ اُٹھتا ہے:

''اے موسیٰ! کیا آج تو مجھے اسی طرح قتل کرنے لگا ہے جس طرح کل ایک شخص کا قتل کرچکا ہے؟ تو اس ملک میں جبار بن کر رہنا چاہتا ہے، اصلاح کرنا نہیں چاہتا۔'' (سورة القصص، آیت نمبر١٩)

اسرائیلی کے اس طرح واویلا کرنے سے یہ راز افشا ہوگیا کہ کل جو قبطی مارا گیا وہ قتل درحقیقت موسیٰ نے کیا۔ بہرحال فرعون کو اطلاع کردی گئی۔ فرعون نے حضرت موسیٰ کو پکڑ کر دربار میں پیش کرنے کا حکم جاری کردیا۔

ایک شخص جو آپ سے محبت و الفت رکھتا تھا، کسی قریب ترین راستے سے دوڑتا ہوا آپ کے پاس آیا اور آپ کو آگاہ کرتے ہوئے کہا:

''موسیٰ! سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہورہے ہیں۔ یہاں سے نکل جا، میں تیرا خیر خواہ ہوں۔''(سورة القصص، آیت نمبر٢٠)

حضرت موسیٰ یہ خبر سن کر ڈر گئے ۔ آپ نے مصر سے ہجرت کا ارادہ فرمایا اور ربِ کریم سے دعا فرمائی:

''اے میرے رب! مجھے ظالموں سے بچا۔'' (سورة القصص، آیت نمبر ٢١)

آپ بے سرو سامانی کی حالت میں نکل کھڑے ہوئے۔ کھانے پینے کا سامان بھی آپ کے پاس نہ تھا۔ آپ نے شاہی محل میں ناز و نعم سے پرورش پائی تھی۔ جوان ہونے کے بعد یہ آپ کا پہلا امتحان تھا۔ دل میں مدین جانے کا خیال آیا تو اپنے رب کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے:

''امید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا۔'' (سورة القصص، آیت نمبر٢٢)

اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو مایوس نہیں لوٹاتا، تبھی آپ آرام سے مدین پہنچ گئے۔ اس زمانے میں مدین فرعون کی سلطنت سے باہر تھا۔ فرعون کی حکومت پورے جزیرہ ہائے سینا پر نہیں بلکہ صرف مغربی اور جنوبی کنارے پر تھی، جہاں بنی مدیان کی آبادیاں تھیں۔

مدین پہنچ کر حضرت موسیٰ نے جس مقام پر قیام فرمایا، وہاں قریب ہی ایک کنواں تھا، جہاں سے اہلِ مدین اپنی پانی کی ضرورت کو پورا کیا کرتے تھے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں اہلِ ایکہ آباد تھے۔ کنوئیں پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ لوگ اپنے اپنے مویشیوں کو کنوئیں سے پانی پلا رہے تھے۔ ہر طاقت ور کم زور کو پیچھے دھکیل رہا تھا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ دو عورتیں سب سے الگ تھلگ کھڑی ہیں اور پریشان دکھتی ہیں۔ آپ ان کی مدد کو آگے بڑھتے ہیں اور ان سے ان کا مسئلہ پوچھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ کی پُر اثر شخصیت کی بدولت وہ عورتیں اپنا مسئلہ بتاتی ہیں کہ ہم تنہا عورتیں ہیں، ہمارے والد عمر رسیدہ ہیں اور ان کے لیے یہ مشقت اٹھانا ممکن نہیں ہے۔ گھر میں کوئی دوسرا مرد بھی موجود نہیں ہے۔ اس لیے مجبوراً اور ضرورتاً ہمیں اس کام کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے اور جب تک تمام چرواہے اپنے مویشیوں کو پانی پلا کر فارغ نہیں ہو جاتے ہمیں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی ان سے مزاحمت کرکے اپنے مویشیوں کو پانی پلانا ہمارے بس میں نہیں۔ یہ ساری گفتگو مختصراً کی جاتی ہے جس سے ان کی شرم و حیاء کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ یہ بھی پسند نہیں کرتیں کہ یہ اجنبی ان کے خاندان کے متعلق غلط رائے قائم کرے۔ ان عورتوں کی ناتوانی دیکھ کر حضرت موسیٰ کو جوش آتا ہے۔ آپ ان کے مویشیوں کو پانی پلا دیتے ہیں اور پھر جا کر قریب کے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ جاتے ہیں۔

حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ جب حضرت موسیٰ نے سبزہ لہلہاتا دیکھا تو عرض کی:

''اے میرے رب! میں اس کھانے کا جو تو میرے لیے اتارے، محتاج ہوں۔'' (ابن جریر)

حضرت موسیٰ نے مصر سے مدین کے سفر میں سوائے سبزہ اور درخت کے پتوں کے کچھ بھی نہ کھایا۔ زیادہ چلنے سے آپ کے نعلین مبارک بھی گھِس گئے۔ بھوک کی شدت سے آپ کا شکم سکڑ گیا تھا۔

دوسری طرف دونوں خواتین وقت سے پہلے گھر پہنچ جاتی ہیں تو ان کے والد محترم حیران ہوتے ہیں کہ آج جلدی واپسی کیسے ممکن ہوئی۔ انہوں نے حضرت موسیٰ کا ذکر کیا کہ کس طرح اس اجنبی نوجوان نے ان کی مدد کی۔ ان کے والد ان میں سے ایک کو واپس بھیجتے ہیں کہ جاؤاور اور اس مسافر کو میرے پاس بلا لاؤ۔ وہ لڑکی نہایت باوقار طریقے سے چلتی ہوئی آپ کے پاس پہنچتی ہے۔ شرم و حیا اس کی وہ صفت تھی جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ یعنی وہ بے باک نہ تھی اور آکر آپ سے کہتی ہے:

''میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو جو پانی پلایا ہے، اس کی اجرت آپ کو دیں۔'' (سورة القصص، آیت نمبر٢٥)

اس عورت کی گفتگو میں کمال کی حیا داری اور سنجیدگی تھی اور معاوضے کا ذکر اس لیے ضروری تھا تاکہ مسافر کو کوئی شک نہ ہو۔ حضرت موسیٰ نے بھی جانے میں تامل نہ فرمایا۔ ہوسکتا ہے موسیٰ نے خیال کیا ہو کہ ابھی جو میں نے ربِ کریم سے دعا کی ہے، وہ قبول ہوگئی۔ آپ نے ربِ تعالیٰ کی میزبانی کو ٹھکرانا مناسب نہ سمجھا۔

اس بزرگ شخص کے پاس جب موسیٰ پہنچتے ہیں تو وہ آپ کی خوب آؤ بھگت کرتے ہیں اور موسیٰ سے ان کا حال احوال پوچھتے ہیں تو آپ اپنے سارے حالات سے ان کو آگاہ کرتے ہیں۔ وہ آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

''کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالم لوگوں سے بچ نکلے ہو۔'' (سورة القصص، آیت نمبر٢٥)

ان دونوں خواتین میں سے ایک خاتون اپنے والد کو مشورہ دیتی ہیں کہ اس شخص کو ملازمت پر رکھ لیں۔ کیوں کہ بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھیں، وہی ہوسکتا ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔''

ان خواتین کو گھر میں توانا مرد نہ ہونے سے وجہ سے باہر نکلنا پڑتا تھا اور باہر کے کام سنبھالنے کے لیے مرد کا طاقت ور اور امانت دار ہونا ضروری تھا تاکہ تمام معاملات بہتر طریقے سے حل کرسکے۔ حضرت موسیٰ اپنی رضامندی دے دیتے ہیں تاکہ ان کی رہائش کا بندوبست ہوسکے۔ دوسری طرف ان کے والد یہ پیشکش موسیٰ کے سامنے رکھتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان د ونوں بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ کردوں بشرطیکہ تم آٹھ سال تک میرے یہاں ملازمت کرو اور اگر دس سال پورے کردو تو یہ تمہاری مرضی ہے۔ میں تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا، تم ان شا اللہ مجھے نیک آدمی پاؤگے۔'' (سورة القصص، آیت نمبر٢٧)

حضرت موسیٰ ملازمت اور شادی کی اس پیش کش کو قبول کرلیتے ہیں۔ وہاں رہنے کا اقرار کرتے ہوئے اپنے سسر محترم سے فرماتے ہیں:

''یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہوگئی۔ ان دونوں مدتوں سے جو بھی میں پوری کردوں، اُس کے بعد پھر کوئی زیادتی مجھ پر نہ ہو اور جو کچھ قول و اقرار ہم کررہے ہیں، اللہ اس پر نگہبان ہے۔'' (سورة القصص، آیت نمبر ٢٨)

حضرت موسیٰ شادی کے بغیر بھی ان بزرگ کی مرضی سے وہاں رہ سکتے تھے لیکن ان بزرگ نے سمجھ داری کا مظاہرہ کیا کیوں کہ ایک نوجوان نامحرم کا غیرمعینہ مدت کے لیے گھر میں رہنا مناسب معلوم نہ ہوتا تھا۔ اس لیے انہوں نے موسیٰ کے حالات سے واقفیت کی بنیاد پر اور ان کی پراثر شخصیت کو پرکھ کر اپنی بیٹی کو ان کے عقد میں دینے کا فیصلہ کیا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ کو فرعونِ مصر کے محل سے نکال کر مدین بکریاں چروانے کے لیے بھیجا۔ لازماً اس پاک ہستی کی حکمت اس میں کارفرما تھی۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسم کے ہم راہ پیلو توڑ رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''کالے پیلو چنو، کیوں کہ وہ زیادہ عمدہ ہوتے ہیں۔ ہم نے پوچھا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بکریاں چرائی ہیں؟ ''تو آپ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا:
''کیا ایسا بھی کوئی نبی ہے جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔'' (بخاری شریف)

حضرت موسیٰ کی مدین میں قیام کی مدت کتنی تھی، اس کے متعلق سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ مجھ سے حیرہ کے یہودی نے پوچھا کہ حضرت موسیٰ نے کون سی مدت پوری کی؟ میں نے کہا کہ میں کچھ نہیں جانتا، جب تک کہ یہ بات عرب کے سب سے بڑے عالم کی خدمت میں پیش ہوکر پوچھ نہیں لیتا۔ میں ابنِ عباس کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

''حضرت موسیٰ نے زیادہ اور بہتر مدت پوری کی۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے رسول نے جو فرمایا، اس پر عمل بھی کیا۔'' (بخاری شریف)

حضرت موسیٰ نے چوں کہ آگے چل کر اللہ کا نبی بننا تھا، اسی وجہ سے آپ سے بکریاں چرانے کا کام بھی لیا گیا۔ آپ کی شادی ہوئی، بچے ہوئے اور آپ نے اپنے وعدے کے مطابق اپنی قیام کی میعاد کو پورا کیا۔ یہ تمام واقعات قبلِ از نبوت کے ہیں۔ جب آپ نے مصر کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا تو تبھی آپ کی نبوت کے دور کا آغاز ہوا۔

یہ ہیں موسیٰ اور یہ ہیں ان کی زندگی کے واقعات، جو ثابت کرتے ہیں کہ انبیاء کی زندگی پھولوں کی سیج نہ تھی بلکہ وہ بھی ان تمام حالات سے گزرے جن سے ایک عام آدمی گزرتا ہے۔ مقصد ان کو کندن بنانا تھا اور بے شک حضرت موسیٰ ان دشوار گزار واقعات سے گزر کر اس مقامِ عظیم تک پہنچے کہ نبوت کے حق دار ٹھہرے۔ اللہ رب العزت سب کا حامی و ناصر ہو۔ (آمین)



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

4 تبصرے:

  1. ما شاءاللہ۔ زبردست 🧡، اللہ اور ترقی عطا فرمائے آمین۔
    میرا نیا اور چھوٹا سا بلاگ ویزٹ کی جیئگا پلیز۔
    https://du-hapedia.blogspot.com

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ خیرا ۔

      جی میں نے دیکھا آپ کا بلاگ ۔۔۔ اچھی کلیکشن ہے

      حذف کریں
  2. بہت اچھا سلسلہ شروع کیا جزاک اللہ خیرا
    اللہ دونوں جہاں میں سرخرو کرے آمین

    جواب دیںحذف کریں