رزق اور رزّاق ۔۔۔ ایک مکالمہ


رزق اور رزّاق ۔۔۔ ایک مکالمہ

⃤  کیسے ہیں آپ؟ گھر کی سُنائیں؟ شِفٹنگ ہو گئی؟

⃟ جی۔ بس مصروفیت  چل رہی ہے۔ اور کُچھ مسئلے مسائل بھی ہیں۔

⃤  اللہ آسانی فرمائیں گے۔ مناسب سمجھیں تو شیئر کیجیئے گا مسائل۔ شاید میں مدد کر سکوں۔

⃟ فی الحال تو معاشی مسائل میں مدد مِل گئی ہے، پر لگتا ہے یہ مسائل آئندہ بھی آئیں گے۔

⃤  وہ کیسے؟

⃟ حالات اچھے نہیں ہیں۔ مہنگائی نے مجھ جیسے سفید پوشوں کے لئے مسائل بڑھا دیئے ہیں۔

⃤  ملک کے معاشی حالات تو واقعی اچھے نہیں ہیں۔ پر بہتری کی اُمید ہے۔ بہرحال ، عام آدمی کے لئے زندگی کی سہولیات کا حصول مشکل ہو گیا ہے ،  لیکن ناممکن نہیں۔

⃟ آپ کیا مشورہ دیں گے اس معاملے میں۔

⃤  سب سے پہلے ، رزقِ حلال کمایا جائے۔ یہ بہت بڑا لفظ ہے: حلال۔ اِس کا مطلب ہے کہ انسان اپنے رزق کو کمانے والے پراسیس ، نوکری ، کام اور  کاج میں ایک پائی کی بھی بددیانتی، سُستی  اور غیر ذمہ داری کا مظاہر ہ نہ کرے۔

⃟ یہ تو بالکل درست بات ہے۔

⃤  اس کے بعد مال کو پاک کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔

⃟ وہ کیسے؟

⃤  مال بے شک رزقِ حلال ہی کیوں نہ ہو ، وہ پاک نہیں ہوتا  جب تک کہ اُس میں سے وہ حصہ نہ نِکالا جائے جو اللہ نے مخصوص کیا ہے۔ یہ وہ حِصہ ہے ، جو ہمیں ہمارے علاوہ  اللہ کی مخلوق کے لئے عطا کیا جاتا ہے ، جو کِسی نہ کِسی طرح ہمارے قریب ، یا ہمارے دائرہ کار میں آتی ہے۔ بے شک اللہ رازِق ہیں ، لیکن وہ ہمارے مالوں کو اِس طریقے سے پاک فرماتے ہیں۔

⃟ اچھا! میرا خیال تھا کہ رزقِ حلال کما لیا اور بس۔ لیکن  کیا وجہ ہے کہ یہ اللہ کے احکام کے مطابق حصہ نکالنے تک پاک نہیں  ہوتا؟

⃤  مجھے اس کا استدلال اس آیت سے مِلا ، کہ 
اے محبوب ﷺ  ان کے مالوں میں سے صدقہ (زکوۃ) وصول کیجیئے ، جس سے آپ انہیں ستھرا اور پاکیزہ کر دیں گے اور ان کے حق میں دعائے خیر کیجیئے، بے شک آپکی دعا ان کے دلوں کا چین ہے۔ (التوبہ –  103)
اور كنز العمال ، کتاب الزکوٰة کی وہ حدیث۔۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمايا۔۔
اپنے مال کی زکوٰة نکالتےرہو، کیونکہ زکوٰةادا کرنا مال کو پاک کردیتاہے،اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں  پاک کردےگا۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر رزق پہلے سے ہی پاک ہوتا ، تو اُس میں سے ایک مخصوص حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ضروری کیوں قرار دیا جاتا؟؟

⃟ درست۔

⃤  دوسرا کام یہ کریں ، کہ اپنا بجٹ بنائیں۔ باقاعدہ پلان کریں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے ، کہ اگر انسان معاشی بے فکری چاہتا ہے تو اُسے چاہیئے کہ اپنا خرچ ، اپنی کُل کمائی کے نصف کے برابر  رکھے۔

⃟ یہ تو کچھ  مشکل کام ہے ناں۔

⃤  ناممکن نہیں۔ آپ یقیناً اتفاق کریں گے کہ ہم منصوبہ بندی سے زندگی نہیں گُزارتے ، اور خصوصاً بجٹ کے حوالے سے فضول خرچی کی جانب مائل رہتے ہیں۔

⃟ یہ تو ہے۔

⃤  تیسری بات۔ جب خریداری کریں ، تو قائدِ اعظم محمد علی جناح  کی طرح خود سے تین سوالات پوچھیں۔ پہلا ، کیا اِس چیز کی مُجھے ضرورت ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہو ، تو دوسرا سوال پوچھیں ، کہ کیا میں اِس چیز کو افورڈ کر سکتا ہوں؟ اور اگر اس کا جواب بھی ہاں میں ہو تو خود سے تیسرا سوال پوچھیں ، کہ کیا میرا اِس چیز کے بغیر گُزارا ہو سکتا ہے؟ اگر اِس کا جواب بھی ہاں میں ہو ، تو وہ چیز نہ خریدیں۔

⃟ دِلچسپ۔

⃤  یقین کیجیئے آپ اس حکمتِ عملی کی وجہ سے بہت سی غیر ضروری خریداری سے بچ جائیں گے۔

⃟ بالکل ٹھیک۔ ویسے مُجھے ایک بات آت تک سمجھ نہیں آئی۔

⃤  کیا؟

⃟ خُدا کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں۔ پھر بھی رِزق کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں ، کہ خُدا کے سب سے محبوب بندے ہمیشہ عُسرت میں رہے۔ وہ جان بوجھ کر فقر کی راہ چلے۔ سب کُچھ ہوتے ہوئے بھی مال تقسیم کر دینے کی مثالیں قائم کیں۔ حالانکہ مال ، رِزق اور  متاع ِ دولت تو زندگی کا بنیادی پہلو ہیں۔ ہیں ناں؟

⃤  دیکھیئے ، سوال میں ہی جواب موجود ہے۔  دُنیا کی دولت خُدا کے نزدیک اگر اچھی چیز ہوتی تو وہ اپنے محبوب بندوں کے سر پرہر وقت دولت  سوار رکھتے۔ خُدا نے دولت کو ایک ذریعہ بنایا ، زندگی کے کچھ پہلوؤں کا ، بس اس سے زیادہ نہیں۔  خُدا نے اپنے ان بندوں کے ذریعے ہمیں یہ بتایا کہ دولت  استعمال کی چیز ہے ، رکھنے کی نہیں۔ بانٹنے کی چیز ہے، جمع کرنے کی نہیں، اور دور کرنے کی چیز ہے ، دِل سے لگانے کی نہیں۔

⃟ دلچسپ بات۔

⃤  ایک اور بھی دلچسپ بات ہے۔

⃟ وہ کیا؟

⃤  خُدا کے برگزیدہ  بندے جو خود کو دولت سے دور رکھتے تھے ۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اس کے فائدوں سے لاعلم تھے۔ بلکہ ، وہ اسباب کی بجائے مسبب الاسباب کو پہچانتے تھے۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں