پھر ماہ دسمبر آیا ہے-


~!~ پھر ماہِ دسمبر آیا ہے ~!~

سیما آفتاب
27-12-2011

پھر ماہ دسمبر آیا ہے
سنگ اپنے بہت کچھ لایا ہے
کچھ اوڑھ کے رنگ اداسی کے
کچھ درد بھرے پچھتاوے ہیں
کچھ ٹوٹے بکھرے وعدے ہیں
کچھ دل میں خوشی کی پیاس لیے
کچھ امیدیں، کچھ آس لیے
اس ماہ دسمبر میں یارو
چلو آو سبھی پیمان کریں
کہ دل سے بھلا کر ہر رنجش
آپس میں دل ہم جوڑیں گے
ناکامی سے منہ موڑ کے ہم
پھر ہمت اپنی جوڑیں گے
دامن کو چھڑا کر ہر غم سے
خوشیوں سے رشتہ جوڑیں گے
سب بھول کے اپنے سود و زیاں
نئے سال کا کھاتہ کھولیں گے



پھر ماہ دسمبر آیا ہے
سنگ اپنے بہت کچھ لایا ہے
کچھ اوڑھ کے رنگ اداسی کے
کچھ درد بھرے پچھتاوے ہیں
کچھ ٹوٹے بکھرے وعدے ہیں
کچھ دل میں خوشی کی پیاس لیے
کچھ امیدیں، کچھ آس لیے
اس ماہ دسمبر میں یارو
چلو آو سبھی پیمان کریں
کہ دل سے بھلا کر ہر رنجش
آپس میں دل ہم جوڑیں گے
ناکامی سے منہ موڑ کے ہم
پھر ہمت اپنی جوڑیں گے
دامن کو چھڑا کر ہر غم سے
خوشیوں سے رشتہ جوڑیں گے
سب بھول کے اپنے سود و زیاں
نئے سال کا کھاتہ کھولیں گے

سیما آفتاب
27-12-2011

2 تبصرے: