(ملاقاتِ خداوندی اور دورِ نبوت کا آغاز)
مصنفہ: عمیرہ علیم
بشکریہ: الف کتاب
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین میں وعدہ کے مطابق اتم اور اکمل مدت پوری کی اور مصر واپسی کا قصد کیا۔ اس سفر میں آپ علیہ السلام کے اہلِ خانہ بھی ساتھ تھے۔ تاریک رات اور فضا میں خنکی تھی۔ آپ علیہ السلام کا رُخ کوہِ طور کی جانب تھا۔ طور اسی راستے میں واقع ہے جو مدین سے مصر کی طرف جاتا ہے۔ یہی وہ مبارک سفر ہے جس میں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اللہ رب العزت کی مخاطبت اور منصب نبوت پر فائز ہونے کے معاملات پیش آئے۔ مفسرین خیال کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام ایک لمبا عرصہ گزر جانے کی وجہ سے اپنے گھر والوں سے ملاقات کا اشتیاق رکھتے تھے۔ تب ہی آپ علیہ السلام نے مصر کی طرف سفر کا آغا ز کیا۔
دورانِ سفر جب آپ علیہ السلام طور کے پہاڑ کے پاس پہنچے تو راستے سے بھٹک گئے۔ آگ کا کوئی انتظام نہ تھا اور گھر والوں کی موجودگی کے سبب زیاد ہ پریشانی کا سامنا تھا۔ آگ کے ہونے سے ہی روشنی اور حرارت کا سبب بن سکتا تھا۔ اچانک موسیٰ علیہ السلام کیا دیکھتے ہیں کہ دور کہیں آگ جل رہی ہے تو آپ علیہ السلام اپنے اہل خانہ سے فرماتے ہیں:
’’ٹھہرو! میں نے آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارہ ہی اُٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو۔‘‘ (سورۂ القصص، آیت نمبر ۲۹)
حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ کے حصول کے لیے چل دیتے ہیں اور جب آگ کے قریب پہنچتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ ایک سرسبز جھاڑی آگ کی لپیٹ میں ہے۔ آگ اپنے جوبن پر بھڑک رہی ہے، لیکن وہ درخت کو راکھ کرنے کی بجائے اس کی شادابی میں اضافہ کررہی ہے۔ آپ علیہ السلام حیران رہ جاتے ہیں جس جگہ وہ کھڑے تھے وہ درخت آپ علیہ السلام سے مغرب میں دائیں سمت تھا۔ اچانک ایک صدا بلند ہوتی ہے: ’’اے موسیٰ ! میں ہی تیرا رب ہوں، جوتیاں اتار دے۔ تو وادی مقدسِ طُویٰ میں ہے اور میں نے تجھے چُن لیا ہے۔ سُن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر متنفس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ پس کوئی ایسا شخص جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہشِ نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اُس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے، ورنہ تو ہلاکت میں پڑجائے گا۔‘‘ سورۂ طہٰ، آیت ۱۱۔۱۶)
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس تاریک رات میں جس جگہ سے آگ لینے پہنچے، وہ ایک بابرکت وادی ’’طویٰ‘‘ تھی۔ آپ علیہ السلام کا منہ قبلہ کی طرف تھا اور وہ درخت مغرب کی سمت آپ علیہ السلام کے دائیں جانب تھا۔ رب تعالیٰ نے خود آپ کو مخاطب فرمایا اور اپنے بندے کو حکم دیا کہ یہ جگہ پاک اور مقدس ہے پس اس کے احترام میں جوتے اتار دیں۔ خصوصاً اس وقت جب ربِ کائنات آپ علیہ السلام سے مخاطب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام سے ہم کلام ہوتے ہوئے اپنی بڑائی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’انی انا اللہ رب العالمین۔‘‘ (بلاشبہ میں ہوں اللہ جو رب العالمین ہے۔)
اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور آپ علیہ السلام کی نبوت و رسالت کا پیغام دیا اور موسیٰ علیہ السلام کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ جس مقصد کے لیے اب تک موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت فرمائی گئی، قدرت اعلیٰ اس کا اعلان کرتی ہے اور بس اس کی عبادت کی جائے اور اس کو یاد کرنے کے لیے نماز ادا کی جائے ۔ کیوں کہ عبادت، نماز اور بندگی کا اصل مستحق ربِ کریم ہے۔ صرف اس کی عبادت کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ جب کہ دنیا کی زندگی دھوکے کی جگہ ہے۔ اصل ٹھکانہ بے شک آخرت کا گھر ہے اور وہ آنے والی ہے۔ بس اس کا وقت لوگوں سے مخفی رکھا گیا ہے اور جان لو کہ قیامت کی گھڑی ضرور برپا ہوگی اور وہ فیصلے کا وقت ہوگا اور اس وقت ہر کسی کو اس کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک بدلہ ملے گا۔ اور جس کو عاقبت کا اندیشہ ہوگا اور ہر وقت اس کے آنے کا کھٹکا لگا رہے گا وہ بے راہ روی سے نجات حاصل کرپائے گا اور جو دنیا کی زندگی میں مگن رہا وہی خسارے میں رہا۔ کیوں کہ اس کے لیے قیامت کبھی آنے کی نہیں۔
چوں کہ ربِ کریم نے موسیٰ علیہ السلام کو جوتے اتارنے کا حکم صادر فرمایا تھا، تو یہودیوں نے اُسے شرعی مسئلہ بنالیا کہ جوتے پہن کر عبادت ممکن نہیں۔ جب کہ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلط فہمی کو رفع کرتے ہوئے فرمایا:
’’یہودیوں کے خلاف عمل کرو، کیوں کہ وہ جوتے اور چمڑے کے موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے۔‘‘ (ابو داؤد) اس کا بالکل یہ مطلب نہیں کہ عبادت کے وقت جوتے لازمی پہنے جائیں بلکہ دونوں طرح عمل کو جائز قرار دیا گیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں بنی اسرائیل قبطیوں کے اس قدر غلام ہوچکے تھے کہ وہ عبادت کے درست طریقۂ کار کو مکمل طور پر فراموش کر بیٹھے تھے اور نماز جو کہ عبادت کا اصل مغز ہے اس سے بھی کنارہ کشی اختیار کرچکے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نماز کی یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ : ’’میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔‘‘ کیوں کہ اگر ہم مالکِ حقیقی کو یاد کریں گے، تو ہی وہ ہمیں یاد رکھے گا۔ جس شخص کو نماز کے متعلق بھول لاحق ہوجائے اور جس وقت یاد آئے وہ نماز قائم کرے۔ اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص کسی وقت کی نماز بھول گیا ہو، اسے چاہیے کہ جب یاد آئے ادا کرلے، اس کے سوا اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔‘‘ (بخاری ، مسلم)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اپنا قرب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ طور کی دائیں جانب سے پکارا اور سرگوشی کرنے کو اسے اپنے قریب کیا۔‘‘ (سورۂ مریم، آیت نمبر ۵۲)
قرب کا حق دار وہی ہوتا ہے جو زیادہ برگزیدہ اور بزرگ ہستی کا مالک ہوتا ہے، اس سے تعلق بھی قربت کا ہوتا ہے اور رازو نیا ز بھی اسی سے کیے جاتے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پوری زندگی کائنات کے خالق و مالک سے قربت کا عظیم الشان مظہر ہے۔ آپ علیہ السلام پر بے شمار انعاماتِ خداوندی کی برسات ہوئی۔ پیدائش سے فرعون کے محل تک رسائی ، پرورش، شاہانہ زندگی، قبطی کے قتل پر ایک ہمدرد کی غیبی مدد اور مدین روانگی، رہائش اور ازدواجی زندگی کا آغاز اور پھر خدا سے ہم کلامی کا انعام۔ نبوت خدا وندی کی سعادت، عظیم معجزات۔ یہ تمام انعامات اس با ت کا مظہر ہیں کہ آپ علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کی کس قدر پسندیدہ ہستی ہیں اور یقیناًآپ علیہ السلام کسی خاص کام کے لیے دنیا میں بھیجے گئے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا:
’’آپ وہی حضرت آدم تو ہیں جن کی لغزش نے انہیں جنت سے نکالا۔‘‘ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا:
’’آپ وہی موسیٰ علیہ السلام تو ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور کلام کے لیے چن لیا۔ پھر بھی آپ مجھے ایسی بات پر ملامت کررہے ہیں جو میری پیدائش سے بھی پہلے مقدر فرمادی گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا:
’’اس بحث میں حضرت آدم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب رہے۔‘‘ (بخاری شریف)
اس حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ سے ہم کلامی کے شرف سے فیض یاب ہوئے۔
پھر اللہ رب العزت اپنے برگزیدہ بندے سے فرماتے ہیں۔
’’اے موسیٰ ! یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘ (سورۃ الطٰہٰ، آیت نمبر ۱۷)
کیا ربِ کریم نہیں جانتے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں موجود کیا چیز ہوسکتی ہے، لیکن کائنات کا مالک اپنے بندے سے گفتگو کرنا پسند فرماتا ہے اور یہ بھی مقصود تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ذہن میں واضح ہوجائے کہ وہ کیا پکڑے ہوئے ہیں تاکہ بعد میں قدرت کا کرشمہ دیکھیں۔
دوسری طرف موسیٰ علیہ السلام جو اس تمام واقعہ پر حیران و پریشان ہوتے ہیں، لیکن فوراً جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یہ میری لاٹھی ہے، اس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں، اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتّے جھاڑتا ہوں اور بھی بہت سے کام ہیں جو اس سے لیتا ہوں۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ، آیت نمبر ۱۸)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا صرف اتنا جواب دینا بھی کافی تھا کہ یہ لاٹھی ہے، لیکن آپ، کا جواب آپؑ کی قلبی کیفیت کو بیان کرتا ہے جو کہ کسی بھی بڑی شخصیت سے بات کرتے ہوئے پید اہوتی ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ بات کی جائے۔
اس سوال جواب کے بعد حقِ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں:
’’پھینک دے اس کو موسیٰ۔‘‘ (سورۂ الطٰہٰ، آیت نمبر ۱۹)
حضرت موسیٰ علیہ السلام فوراً حکم کی تکمیل کرتے ہیں اور اپنا عصا پھینک دیتے ہیں۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں عصا نہ تھا بلکہ وہاں ایک سانپ تھا جو اِدھر اُدھر دوڑ رہا تھا۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام ڈر گئے اور پیٹھ پھیر کر بھاگے اور نہ ہی آپ علیہ السلام نے مڑ کر بھی دیکھا۔ فوراً ارشادِ باری تعالیٰ ہوا: ’’موسیٰ ، پلٹ آ اور خوف نہ کر، تو بالکل محفوظ ہے۔‘‘ (سورۃ القصص، آیت نمبر ۳۱)
یہ وہ عظیم معجزہ تھا اور یہ بات اس سے ثابت ہوتی ہے کہ جب رب تعالیٰ ’’ہوجا‘‘ کہتا ہے تو ہر چیز ہوجاتی ہے۔ تبھی تو موسیٰ علیہ السلام کا عصا مہیب اژدھا بن جاتا ہے۔ جسے دیکھ کر ہی وہشت طاری ہو جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت خوف زدہ دکھائی دیتے تھے، لیکن حکم اللہ سے سرتابی ممکن نہ تھی تبھی واپس پلٹتے ہیں تو حکم ملتا ہے۔ ’’پکڑ لے اس کو اور ڈر نہیں۔ ہم اسے پھر ویسا ہی کردیں گے جیسی یہ تھی۔‘‘ (سورۂ الطٰہٰ، آیت نمبر ۲۱)
اور جب آپ علیہ السلام نے ڈرتے ڈرتے اس سانپ کو پکڑا، تو وہ پھر سے آپ کے عصا میں تبدیل ہوگیا۔ پاک ہے وہ ذات ، جو عظیم ہے اور کسی بھی نقص سے پاک ہے۔ سبحان اللہ!
پھر مالک نے حکم دیا کہ:
’’ڈالو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں، وہ نکلے گا سفید (چمکتا ہوا) بغیر کسی تکلیف کے اور رکھ لے اپنا ہاتھ اپنے سینے پر خوف دور کرنے کے لیے۔‘‘ (سورۂ القصص، آیت نمبر ۳۲)
موسیٰ علیہ السلام نے حکم کی تکمیل فرمائی اور وہ چمک اور روشنی لاجواب تھی۔ وہ روشنی ایسی تھی جو آنکھو ں کو خیرہ کردیتی تھی۔ نہ کہیں برص اور نہ ہی کوئی داغ۔ کہا جاتا ہے کہ جب بھی زندگی میں خوف یا ڈر کا لمحہ آئے تو ہاتھ کو سینے پر رکھ لینے سے خوف دور ہوگا اور سکون نصیب ہوگا۔
یہ دو معجزات اور دو واضح اور روشن نشانیاں تھیں جو آپ کو عطا کی گئیں۔ ان کے پیچھے کوئی اہم وجہ کارفرما تھی۔ تبھی تو حکم ہوا:
’’فرعون کے پاس جاکہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔‘‘ (سورۂ الطٰہٰ، آیت نمبر ۲۴) جب کہ سورۃ الشعراء میں ارشاد ہوا:
’’جب کہ پکارا تیرے رب نے موسیٰ علیہ السلام کو جا ظالم قوم کے پاس، فرعون کی قوم کے پاس۔‘‘ آیت نمبر ۱۰۔۱۱)
تبھی تو آپ کو دو تدبیر یں بتائی گئیں کہ آپ علیہ السلام جس مشن پر بھیجے جارہے تھے اس میں آپ علیہ السلام کے پاس کوئی دنیاوی سازو سامان نہ تھا۔ بلکہ آپ علیہ السلام کو جو معجزات عطا ہوئے فرعون اپنی پوری طاقت لگا کر بھی اس کا مقابلہ کرنے کا اہل نہیں بن سکتا تھا۔
اسلامی اصطلاح کے مطابق معجزہ سے مراد اللہ تبارک تعالیٰ کا اپنے نبی کے ہاتھ پر اس کی صداقت وسچائی کو عام لوگوں پر ظاہر کرنے کے لیے عام عادت کے خلاف ایسی بات کا ظہور ہے جس کو کرنے میں عام آدمی عاجز ہو۔ معجزہ نبی کے ہاتھ پر ظاہر کیا جاتا ہے، لیکن ہر نبی کے لیے معجزہ لازمی نہیں اور نہ ہی یہ نبی کے ضابطہ اختیار میں ہے۔ درحقیقت یہ خدائی فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کردہ معجزات کے متعلق فرماتے ہیں:
’’ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں عطا کی تھیں جو صریح طور پر دکھائی دے رہی تھیں۔‘‘(سورۂ بنی اسرائیل، آیت نمبر ۱۰۱)
وہ نو نشانیاں جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے ان میں شامل ہے وہ عصا جو اژدھا بن سکتا تھا، وہ بیضا جو بغل سے نکل کر سورج جیسی چمک اور روشنی دکھاتا تھا، جادوگروں کے جادو کو سب کے سامنے شکست دینا، سارے مصر میں قحط کا برپا ہونا، پھر یکے بعد دیگرے طوفان، ٹڈی دل ، سُرسریوں ، مینڈکوں اور خون کی بلاؤں کا نزول ہونا۔
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ طور پر دو معجزات سے نوازا تھا تاکہ ان کا بندہ سراٹھا کر اپنے پروردگار کی پاکیزگی بیان کرسکے۔ جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے مالک کے حضور عرض گزار ہوتے ہیں کہ:
’’میرے آقا! میں تو ان کا ایک آدمی قتل کرچکا ہوں، ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے اور میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہے، اسے میرے مددگار کے طور پر بھیج تاکہ وہ میری تائید کرے، مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے۔‘‘ (سورۂ القصص، آیت نمبر ۳۴۔۳۳)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرمانِ الٰہی وہاں پہنچانے کا خوف نہ تھا بلکہ یہ اندیشہ تھا کہ ان سے ایک قبطی کا خون ہوا تھا۔ یہ معاملہ نہ ہو کہ میں پیغامِ الٰہی کے ساتھ وہاں پہنچوں اور قتل کردیا جاؤں۔ وہ مقصد ہی فوت ہوجائے جس کے لیے میرا انتخاب ہوا ہے۔ تبھی وہ ربِ تعالیٰ سے اپنا مدعا پیش کرتے ہیں کہ میرا بھائی ہارون زیادہ فصیح بیان ہے اس کو میرا مددگار بنادیں تاکہ وہ میری تصدیق کرے۔ اور میں جھٹلایا نہ جاؤں۔ ربِ تعالیٰ اپنے صالح بندے کی دعا کو قبول فرماتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے:
’’ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیروں کا ہی ہوگا۔‘‘ (سورۂ القصص، آیت نمبر ۳۵)
پھر ساتھ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے مالک سے عرض گزار ہوتے ہیں۔
’’پروردگار! میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لئے آسان کردے اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔‘‘ (سورۂ طہٰ، آیات نمبر ۲۸۔۲۵)
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان مبارک میں لکنت تھی۔ ایک دفعہ فرعون آپ علیہ السلام کو پیار کررہا تھا ۔ آپ علیہ السلام کافی چھوٹے تھے۔ انجانے میں آپ علیہ السلام نے فرعون کی، داڑھی کو کھینچا، فرعون آپ علیہ السلام کی اس جرأت پر مشکوک ہوگیا کہ کہیں موسیٰ علیہ السلام ہی تو وہ بچہ نہیں جو اس کی سلطنت کے خاتمے کا سبب بنیں گے۔ وہ آپ علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے۔ حضرت آسیہؓ اس کے اس فیصلے پر احتجاج کرتی ہیں کہ بچہ معصوم ہے۔ وہ فرعون کے رتبے سے بے خبر ہے اس کی جان بخشی کردیں۔ نہیں تو اس کا امتحان لے لیں یہ تو پھل اور انگارے میں تمیز نہیں رکھتا۔ فرعون کے حکم پر ایک پلیٹ میں پھل اور ایک میں انگارے رکھے جاتے ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہاتھ بڑھاتے ہیں اور انگارہ منہ میں رکھ لیتے ہیں اور آپؑ کی زبان جل جاتی ہے۔ اس طرح آپ قدرت کی خاص مہربانی سے فرعون کے ظلم سے بچ جاتے ہیں۔(واللہ اعلم)
درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اندر خطابت کی خوبی نہ پاتے تھے۔ تب ہی اُنہیں اندیشہ لاحق ہوا کہ نبوت کے فرائض کی ادائیگی میں اگر تقریر کی ضرورت پیش آئی تو کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو۔ تبھی فرماتے ہیں کہ میری زبان کی گرہ کھول دے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون نے اس بات کا طعنہ بھی دیا تھا کہ ’’اور بات بھی صاف نہیں کرسکتا۔‘‘ (سورۃ الزخرف ، آیت نمبر ۵۲)۔
یہی کم زوری محسوس کرتے ہوئے آپ علیہ السلام نے حضرت ہارون کو مددگار بنانے کی درخواست کی تھی۔ مفسرین کے مطابق بعد میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ کمزوری دور ہوگئی تھی اور آپ علیہ السلام فصاحت و بلاغت سے تقریریں کرنے لگے۔ اور یہ بات عقل کے منافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی تو تلے یا ہکلے آدمی کو اپنا رسول و نبی بنائے۔ پیغمبر و رسول ہمیشہ شکل و صورت، عادات، شخصیت اور صلاحیتوں پر دوسروں سے ارفع گزرے ہیں اور رب تعالیٰ کبھی ایسا نہیں چاہے گا کہ اس کے مقرب بندوں میں ایسی خامیاں ہوں کہ نبوت کے پیغام کی تبلیغ میں کوئی مسئلہ درپیش ہو۔
ایک دفعہ یہ سوال اٹھا کہ وہ نبی کون ہے جو اپنے ہی بھائی پر ایمان لایا اور وہ یقیناً حضرت موسیٰ علیہ السلام بن عمران ہیں جنہوں نے اپنے بھائی کے حق میں سفارش فرمائی اور اس کو قبولیت کا درجہ ملا اور انہوں نے پھر اپنے بھائی کی تصدیق کی۔
پھر سورۂ طہٰ میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان تمام احسانات کی یاد دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’دیا گیا جو کچھ تو نے مانگا اے موسیٰ ! ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا۔ یاد کر و وہ وقت جب کہ ہم نے تیری ماں کو اشارہ کیا، ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعے سے ہی کیا جاتا ہے کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسے میرا دشمن اور اس بچے کا دشمن اٹھا لے گا۔ میں نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کردی اور ایسا انتظام کیا کہ تو میری نگرانی میں پالا جائے۔ یاد کر جب کہ تیری بہن چل رہی تھی ، پھر جاکر کہتی ہے۔ ’’میں تمہیں اس کا پتا دوں جو اس بچے کی پرورش اچھی طرح کرے؟‘‘ اس طرح ہم نے تجھے تیری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ اس کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہو اور (یہ بھی یاد کر کہ) تو نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا۔ ہم نے تجھے اس پھندے سے نکالا اور تجھے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور تو مدین کے لوگوں میں کئی سال ٹھہرا رہا۔ پھر اب تو ٹھیک اپنے وقت پر آگیا ہے۔
اے موسیٰ! میں نے تجھ کو اپنے کام کا بنالیا ہے۔ جا، تو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ اور دیکھو تم میری یاد میں تقصیر نہ کرنا۔‘‘ (سورۂ طہٰ ، آیات نمبر ۳۶،۴۲)
ان تمام احسانات و نوازشات کا ذکر کرنا اس لیے مقصود تھا تاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر واضح ہوجائے جس وجہ سے تمہاری اس قدر نگرانی و لیے رہنمائی کی گئی اب تم کو اس کام پر مامور کیا جاتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگارِ اعلیٰ کے حکم پر لبیک کہا۔ پھر انہوں نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ تبلیغ کا عظیم کام شروع کیا اور وہ بھی فرعون کے دربار سے اور اس کو جاکر کہا کہ ’’ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں۔ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامی ہے اُس کے لیے جو راہ راست کی پیروی کرے۔ہم کو وحی کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے۔‘‘ (سورۂ طہٰ، آیات نمبر ۴۷۔۴۸)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کائنات کے رب سے کلام کرنے کی سعادت پر کلیمُ اللہ کہا جاتا ہے۔ تمام واقعات اس بات کا مظہر ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام کس قدر معتبر ہستی ہیں اور رب کریم کے پسندیدہ بھی۔ قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات و معجزات بیان فرما کر اللہ تعالیٰ نے کُفّار مکہ پر واضح کیا کہ انبیاء کرام کو معجزات موقع محل کے حساب سے عطا کیے جاتے ہیں کیوں کہ کفار مکہ اپنے نبی کو دل سے سچا مانتے ہوئے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اگر تو سچا ہے، تو کوئی معجزہ لاکے دکھا۔ وہ بے خبر نہیں جانتے تھے کہ اگر ایسا ہوجائے تو ایمان لانا ضروری امر ہوجاتا ہے۔ آج کا مسلمان بھی اللہ کی تعلیمات اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی موجودگی کے باوجود ایسے معجزات کا منتظر ہے جس کے سبب وہ فوری ایمان لے آئے۔ اللہ تعالیٰ سب کے دلوں کو ایمان کی شمع سے منّور فرمائے۔ (آمین)
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں