سڑک


(سڑک)
 حمیرا راحت

سڑک کی کیا حقیقت ہے
اک ایسا بے حس و بے جان سا رستہ
کہ جو ہر اک مسافر کو ملا دیتا ہے منزل سے
بس اس سے بڑھ کے اس کی کیا فضیلت ہے
مگر میں جب مدینہ میں تھی
تو سونے سے پہلے رات کو
ہوٹل کی کھڑکی سے
سڑک کو دیکھتی اور سوچتی
یہ ایک سیدھی سی سڑک جو میرے آقا کے
درِ اقدس پہ جاکر ختم ہوتی ہے
یہ ہے خوش بخت کتنی!!!
……………پھر اک دن یوں ہوا
میں سوچ میں گم تھی
مجھے ایسا لگا جیسے
کہ اس سیدھی سڑک کی دونوں آنکھیں
آنسوؤں سے بھر گئی ہوں
وہ اک نادیدہ غم سے ہوکے بوجھل کہہ رہے ہو
میں کہاں خوش بخت ہوں بی بی
مرے دکھ کو کسی نے آج تک جانا نہیں
میں کیسے سمجھائوں
کہ میں تم سب کو لے جاتی ہوں ان کے در پہ
لیکن خود کبھی در تک نہیں پہنچی


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں