آج کی بات ۔۔۔ 26 اپریل 2018

~!~ آج کی بات ~!~

یقین خالی دل کو بھر دیتا ہے اور بے یقینی بھرے دل کو خالی کر دیتی ہے.

~!~ آج کی بات ~!~ یقین خالی دل کو بھر دیتا ہے اور بے یقینی بھرے دل کو خالی کر دیتی ہے.

آج کی بات ۔۔۔ 25 اپریل 2018

~!~ آج کی بات ~!~

حماقت کی ایک قسم یہ بھی ہے (اور خاصی عام ہے!) کہ

* آدمی کے ایک چیز کو مسترد کرنے کی کوئی وجہ نہ ہو سوائے اس ایک بات کے کہ وہ پرانے دور کی ہے!

* اور ایک چیز پر مر مٹنے کی کوئی وجہ نہ ہو سوائے اس ایک بات کے کہ وہ جدید دور کی ہے!

یعنی چیز کی اپنی فائدہ مندی یا ضرر رسانی نہیں دیکھنی بلکہ ’زمانہ‘ دیکھنا ہے!

~!~ آج کی بات ~!~ حماقت کی ایک قسم یہ بھی ہے (اور خاصی عام ہے!) کہ * آدمی کے ایک چیز کو مسترد کرنے کی کوئی وجہ نہ ہو سوائے اس ای...

مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کا نقصان ۔۔۔ خطبہ مسجد الحرام (اقتباس)

مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کا نقصان
مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم
جمعۃ المبارک 4 شعبان 1439 ھ بمطابق 19 اپریل 2018
ترجمہ: محمد عاطف الیاس

منتخب اقتباس:

یقیناً! تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ ہم اللہ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اپنے نفس کے شر سے اور اپنے برے اعمال سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

 اللہ کا فرمان ہے: 
’’اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو (70) اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘ (الاحزاب: 70۔ 71)

بعد ازاں!

بہترین بات اللہ کا کلام ہے، بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ ایجاد کردہ عبادتیں بدترین کام ہیں۔ ہر نئی عبادت بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ لوگو! مسلمانوں کی جماعت سے جڑے رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اُس روزسخت سزا پائیں گے۔‘‘ (آل عمران: 105)

اے لوگو!

وہ معاشرہ کہ جو ترقی کی راہ پر گامزن ہو، جس کے باشندے آپس میں پیار اور محبت سے رہتے ہوں اور جس میں اتحاد اور اتفاق بھی موجود ہو، ایسے معاشرے کے لوگوں میں لازمی طور پر پاکیزہ دل اور نیک نیتی ہو گی اور یہی ان کی ترقی اصل وجہ ہو گی۔ اچھے اخلاق دلوں میں جگہ بناتے ہیں اور دوسروں کو متاثر کرتے ہیں۔

معاشرے دنیاوی اعتبار سے، علم، صنعت، تجارت اور تہذیبی لحاظ سے جتنی بھی ترقی کر لیں، ہہرحال اگر ان میں اخلاق نہ ہو تو ان کی ترقی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کی مثال ایسے پہیے کی ہے جو گھومتا تو رہتا ہے مگر اس کے گھومنے کا فائدہ کسی کو نہیں پہنچتا۔

معاشرے جب تک اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت پر قائم رہتے ہیں، یعنی اچھے اخلاق اور بھلے طریقوں پر عمل پیرا رہتے ہیں، تب تک ان میں خیر موجود رہتی ہے، بشرطیکہ ان پر ایسی چیزیں اثر انداز نہ ہو جائیں جو ان کی پاکیزگی کو ختم کر دیں، زندگی کو بے مزہ بنا دیں، اتحادواتفاق کو پاش پاش کر دیں اور معاشرے کو بکھیر دیں۔

جی ہاں! اللہ کے بندوں! جس معاشرے میں فساد بازی پھیل جائے اس کے اندر اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں، جس گھرانے میں آ جائے وہ گھرانہ تباہ ہو جاتا ہے اور جس دوستی میں آ جائے وہ دشمنی میں بدل جاتا ہے۔

یہ فساد بازی ہی ہے، جو نقصان دیتی ہے نفع نہیں دیتی، معاشرے کو بکھیرتی ہے، اسے قریب نہیں کرتی، زخم لگاتی ہے، زخم پر مرہم نہیں رکھتی، فساد برپا کرتی ہے، اصلاح نہیں کرتی، پریشان کرتی ہے، خوش نہیں کرتی، رلاتی ہے، ہنساتی نہیں ہے۔

اللہ کے بندو! فساد بازی جھگڑوں کو ہوا دینے کا نام ہے، لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا کر دشمنی اور دل کی کدورتوں کو بڑھانے کا نام ہے۔

فساد بازی کے لفظ میں کسی قسم کی خیر نہیں ہے۔ یہ سراسر برائی ہی ہے۔ فساد بازی کی تعریف شریعت نے نہیں کی، نہ صحیح عقل کر سکتی ہے اور نہ سلیم الفطرت انسان ہی کر سکتا ہے۔ فساد بازی ہر طرح سے بری ہے، بہت بڑی بیماری ہے اور شدید ندامت کا باعث بنتی ہے۔

اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! فساد بازی ایک شیطانی عمل ہے۔ جو بھی اس میں ملوث ہوتا ہے وہ زمین میں بہت فساد پھیلاتا ہے اور لوگوں میں بہت جھگڑے کرواتا ہے۔ فساد بازی کرنے والے سے لوگ دور بھاگتے ہیں۔ جس راستے میں فساد کرنے والا جائے، لوگ اس راستے کو چھوڑ کر کسی دوسرے راستے سے جانا پسند کرتے ہیں۔ جس مجلس میں وہ ہو، لوگ اس مجلس میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر اتفاقًا کسی مجلس میں وہ مل جائے تو لوگ اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے شخص سے سمجھ دار لوگ اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

اللہ کے بندو! فساد بازی کرنے والا انتہائی برا انسان ہوتا ہے، جو حسد کو اپنا قائد بنا لیتا ہے اور پھر ہر اچھی چیز کو خراب، ہر سیدھی چیز کو ٹیڑھی اور ہر مستحکم چیز کو غیر مستحکم کرنے لگتا ہے۔

جب بھی وہ نظر آئے گا، قسمیں کھاتا، طعنے دیتا اور چغل خوری کرتا نظر آئے گا۔ اگر وہ حسد کے پیچھے نہیں چلے گا تو کینہ پرور ہوگا۔ اگر کینہ پرور بھی نہ ہوگا تو دوسروں کی بدخواہی ہی اسکا قائد بن جائے گی۔

عربی شاعر نے خوب کہا (جس کا ترجمہ ہے):

یہ لوگ، جنہیں تم اپنا دوست سمجھتے ہو، تمہاری ہلاکت کی تمنا کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو رات کے اندھیرے میں چغل خوری کے قبیح تیر چلاتے ہیں اور دن میں بڑے بیٹے بنتے ہیں۔

اللہ کے بندو!

فساد بازی کے خطرے کا اندازہ لگانا ہے تو یہ جان لیجئے کہ شیطان اس چیز سے تو مایوس گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر اس کی عبادت کریں، اس لیے وہ لوگوں میں فساد پیدا کرنے کے لئے اپنا پورا زور لگا رہا ہے۔

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

شیطان اس چیز سے تو مایوس ہو گیا ہے کہ جزیرہ عرب میں لوگ اس کی عبادت کرنے لگے۔ اب اس کی پوری کوشش ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان فساد پیدا کردے۔

اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

شیطان نے اپنے گروہ کے ساتھ مل کر خوب زور لگایا اور اپنے تمام تر حربے استعمال کئے۔ لوگوں کے ساتھ وعدے کیے اور ان کو سبز باغ دکھائے۔ حقیقت میں وہ ہے دھوکا دیا تھا مگر کچھ مریض النفس لوگ اسکی چالوں میں آگئے اور انہوں نے برے اخلاق کو اپنا لیا اور رضاکارانہ طور پر ابلیس کے لشکر میں شامل ہوگئے۔ پھر انہوں نے شیطان کے ساتھ ایک وعدہ کیا کہ وہ تین چیزوں پر قائم رہیں گے۔ ایک غیبت، دوسری چغل خوری اور تیسری بہتان بازی۔ ان تینوں چیزوں سے انہوں نے اللہ کے بندوں کو نشانہ بنایا اور ان کے درمیان بغض اور عداوت پیدا کردی۔ اس طرح انہوں نے دوست کو دشمن بنا دیا اور میاں بیوی کو الگ کر دیا۔ بھلا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظلم اور جھوٹ ہو سکتا ہے؟

دین اسلام نے فساد بازی کی راہ بند کی ہے۔ اس سے منع کیا گیا ہے اور اسے خیانت کی ایک قسم شمار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کی بیویوں کے متعلق فرمایا:

’وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں، مگر انہوں نے اپنے ان شوہروں سے خیانت کی۔‘‘ (التحریم: 10)

اس آیت میں جس خیانت کا ذکر ہے اس سے مراد زنا نہیں ہے۔ انبیاء کرام کی بیویاں ایسی چیز میں ملوث نہیں ہوسکتیں۔ اس آیت میں آنے والی خیانت سے مراد، جیسا کہ ابن عباس، عکرمہ، مجاہد اور دیگر علماء نے بیان فرمایا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نوح علیہ السلام کی بیوی نوح علیہ السلام کے راز جانتی تھی۔ وہ دشمنان حق کو آپ کے راز پر مطلع کر دیتی تھی۔ جب بھی کوئی شخص ایمان قبول کرتا تو وہ قوم کے سر کشوں کو اس کے متعلق بتا دیتی۔

اسی طرح لوط علیہ السلام کی بیوی اپنی قوم کے برے لوگوں کو ان مہمانوں کی خبر دے دی تھی جو لوط علیہ السلام کے پاس آتے تھے۔

اللہ کے بندو! یہی تو وہ فساد بازی ہے جسے اللہ تعالی نے خیانت کا نام دیا ہے۔ خیانت منافقوں کی صفت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کی صفات بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ:

اور جب اسے امانت دی جاتی ہے تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے۔

اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

اسلام نے اجتماعیت کا تصور دیا ہے اور اسے اپنانے کی خوب ترغیب دلائی ہے۔ اسلام نے ہر اس راستے سے روکا ہے جو لوگوں کی اجتماعیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ چنانچہ میاں اور بیوی اور خادم اور مالک کے درمیان فساد برپا کرنے کوشش کرنے سے منع کیا ہے۔ جو ایسے کام میں پڑتا ہے اس کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے ہٹا ہوا ہے۔

امام ابو داؤد نے اپنی کتاب سنن ابی داؤد میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو کسی عورت کو اپنے خاوند کے خلاف کرتا ہے یا کسی غلام کو اپنے مالک کے خلاف کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

انسان کے دین اور ایمان پر اتنا تباہ کن اثر اور کوئی چیز نہیں ڈالتی جتنا تباہ کن اثر فساد بازی کا ہوتا ہے۔ اس میں ملوث ہونے والا گویا کہ رضا مندی اور اپنی خوشی کے ساتھ اپنے دین کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کررہا ہوتا ہے۔

لا الٰہ الا اللہ! اللہ کے بندو! دل کی پاکیزگی کتنی اہم ہے!
 لا الٰہ الا اللہ! اللہ کے ہاں کینہ اور حسد سے پاکیزہ دل کی کتنی اہمیت ہے۔ ایسے دل والا جب دو دوستوں کو دیکھتا ہے تو ان کی دوستی سے اسے خوشی ملتی ہے، جب میاں بیوی کو دیکھتا ہے تو ان کے لئے برکت کی دعا کرتا ہے۔ ایسے دل والا دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لئے کرتا ہے۔

اللہ کے بندو! اس چیز میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اگر چھوٹے گناہ سے منع کر دیا جائے تو بڑا گناہ تو زیادہ سختی سے منع ہو گا۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے درمیان فساد پیدا کرنے اور انہیں آپس میں لڑانے سے منع کیا ہے۔ اسے امام ابو داؤد اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

تو اگر بے عقل اور غیر مُکَلَّف جانوروں کے متعلق یہ حکم ہے تو بھلا انسانوں کے متعلق کیا حکم ہوگا کہ جنہیں اللہ تعالی نے اپنی بہت سی مخلوقات پر تفضیل بخشی ہے۔

اللہ کے بندو! اتحاد و کو بکھیرنے والے، گھروں کو توڑنے والے، گھرانوں کو ختم کرنے والے، دوستیوں کو پاش پاش کرنے والے، شریکوں کا ساتھ چھڑوانے والے، آقا اور غلام کے درمیان فساد برپا کرنے والے سے بچ کر رہیے۔ یہ شیطان کا وہ حملہ ہے جس سے کوئی نہیں بچ پاتا۔ اسی کی وجہ سے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد کی گستاخی کی، اپنے بھائی کو کنویں میں پھینکا اور ان کا والد نابینا ہوا۔ ان نقصانات کی وجہ کو یوسف علیہ السلام نے مختصر انداز میں یوں بیان کیا:

’’آپ لوگوں کو صحرا سے لا کر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا۔‘‘ (یوسف: 100)

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! خوب جان رکھو کہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو فساد بازی کی تمام شکلوں سے پاک رکھے۔ مسلمان کو فساد بازی کا ایندھن نہیں بننا چاہیے، فساد بازی پر زبان یا دل سے راضی بھی نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ راضی ہونے والا برائی کرنے والے جیسا ہی ہوتا ہے۔ سمجھدار وہ ہے جو فساد بازی سے اس طرح دور رہتا ہے جیسے صحت مند انسان منتقل ہونے والی بیماری کے شکار لوگوں سے بھاگتا ہے، جو اپنے دین کی حفاظت کرتا ہے اور جو دین کے فساد سے اور اخلاق کی تباہی سے دور رہتا ہے۔

تاریخ میں یہ بیماری تقریبا ہر معاشرے میں پائی گئی ہے۔ لیکن مختلف معاشرے اس حوالے سے مختلف ہیں۔ کسی میں یہ بیماری بہت زیادہ رہی اور کسی میں بہت کم۔ فساد بازی کی بیماری ایسی بیماری ہے جو اپنے حملوں میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک اسے زرخیز زمین نہ مل جائے۔ اس بیماری کے لیے زرخیز ترین زمین وہ معاشرہ ہے کہ جس میں لوگ ہر بات پر کان دھرتے ہوں۔ ہر سنی سنائی بات پر تحقیق کیے یا سوچے سمجھے بغیر ہی کان دھر لیتے ہوں۔

ہر سننے والے کو چاہئے کہ وہ سنی سنائی بات پر اعتبار کرنے سے پہلے تحقیق کر لے۔ کسی خبر کی حقیقت جاننے سے پہلے اس کی بناء پر کوئی فیصلہ نہ کرے۔ ہر سنی سنائی بات پر یقین کرنا بیوقوفی کی علامت ہے اور پہلی مرتبہ سنی ہوئی چیز کو بغیر غور کے مان لینا بھی غفلت کی علامت ہے۔

کسی چیز کو دیکھتے یا سنتے ہی فورًا اس پر یقین نہ کرلیا کرو کیونکہ جب صبح نکلتی ہے تو پہلے صبح کاذب آتی ہے۔

مسلمان افراد اور جماعتوں کی سلامتی کا طریقہ بھی یہی ہے کہ وہ فساد برپا ہونے سے پہلے ہی اس کا راستہ روک دیں، اس کا رستہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اسے بند کردیں۔ اس معاملے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اختیار کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

کوئی شخص مجھے میرے صحابہ کے بارے میں کوئی بات نہ بتائے، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جب میں آپ کے پاس آؤں تو میرا دل سب کے لیے صاف ہو۔

اسے امام احمد اور امام ابو داؤد اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

وہ شخص جو آپ کو دوسروں کے متعلق ایسی چیزیں بتاتا ہے جو آپ کو اچھی نہیں لگتیں وہ شخص آپ کا خیر خواہ نہیں ہے۔ عربوں کی کہاوت کا ترجمہ ہے: جو چغل خور کو اپنا مُخبر بنا لیتا ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ جو آپ کو بری چیز کی خبر دیتا ہے وہ آپ کا برا چاہتا ہے۔

اے اللہ! ہمارے نفس کو پاکیزہ کردے۔ اسے پرہیز گار بنا دے۔ تو ہی اسے پاکیزہ کرنے والا ہے اور ہمارے نفس کا پروردگار ہے۔

آمین یا رب العالمین

مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کا نقصان مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم جمعۃ المبارک 4 شعبان 1439 ...

خود کھانا گرم کرلو ۔۔۔ ایک مکالمہ


خود کھانا گرم کرلو ۔۔۔ ایک مکالمہ

کمال ہے بھئی۔ کیا کیا نعرے لگ رہے ہیں۔

ہاہاہاہا۔ کچھ نہیں ، بس ایک مصروفیت ہے نام نہاد فیمینسٹوں اور ان کے بیکار مباش مخالفین کی۔

اچھا ! بس ایک اور مصروفیت؟

جی۔

کیسے؟

معاملہ حقوق و فرائض سے آگے کا نہیں ، بہت پیچھے کا ہے۔ انگریزی لُغت میں بھی ریسپانسبلٹی کا آر ، رائٹس کے آر سے پہلے آتا ہے۔

تو کیا یہ مطالبہ غلط ہے خواتین کا؟

چلیں ، بنیادی باتوں سے شروع کرتے ہیں ۔ خواتین کون ہوتی ہیں؟

لیڈیز۔ ہماری اس دنیا کی صنفِ محترم۔ ہماری تخلیق کا ایک اہم ترین عنصر۔ ہماری مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں ، گھر والیاں۔ 

اور۔ اسکے علاوہ؟

اسکے علاوہ ، ہماری عزّت و حُرمت کے استعارے۔ ایک حدیث کے مطابق “آبگینے”۔ ہمارے سب سے اچھے رشتوں کی پہچان۔ ہمارے معاشرتی نظام کا سب سے اہم ستون۔

بات یہ ہے ، کہ آپ کی یہ ڈیفینیشن ہی مختلف ہے ان فیمینسٹوں سے۔ وہ تو “یکساں” سے ہٹ کر کوئی اصطلاح ماننے کو تیّار ہی نہیں۔ اور اُن کا مخالف کیمپ ، اس کے بالکل اُلٹ سوچتا ہے۔ دو انتہاؤں کی دوری پر ہیں یہ لوگ۔

پر ، یکساں تو ایک عجیب و غریب لفظ ہے۔ اصل لفظ تو ہونا چاہیئے: “مِلتا جُلتا”۔ یکسانیّت ، برابری جیسے الفاظ تو اس معاملے میں سمجھ سے ہی باہر ہیں۔

ہماری اصطلاحیں ، ہماری ذہنی سمجھ بوجھ کا پتہ دیتی ہیں۔ ہمارے مطالبات ، حقوق و فرائض کی سمجھ کا پتہ دیتے ہیں۔  آپ خود ہی بتائیں ، جس مائنڈ سیٹ کی ، خاتون کی ڈیفینیشن ہی متعصب ہو ، وہ ‘خود کھانا گرم کر لو’ اور ‘میرا جسم میری مرضی’ سے آگے کیا سوچے گا۔

پر بات یہ ہے کہ معاشرے اور دُنیا میں بنتِ حوا کا سٹیٹس متعیّن کرنے میں یہی مائنڈ سیٹ کار فرما ہیں۔

یہ مائنڈ سیٹ کار کُچھ عرصہ ہی ہوا ، وجود میں آئے۔ ورنہ دس ہزار سالہ تہذیبی تاریخ میں  بنتِ حوا کو حقوق و فرائض کے لئے کوئی بیانیہ نہیں گھڑنا پڑا۔ 

تو کیا کرنا پڑا؟

بنتِ حوا کا مقام ، عزّت اور حرمت  بنتِ حوا بننے میں ہی ہے۔ اور ، اِسی سے ابنِ آدم ، ابنِ آدم بنتے ہیں۔ 

خود کھانا گرم کرلو ۔۔۔ ایک مکالمہ از  عمر الیاس کمال ہے بھئی۔ کیا کیا نعرے لگ رہے ہیں۔ ہاہاہاہا۔ کچھ نہیں ، بس ایک مصروفیت...

آج کی بات ۔۔۔ 22 اپریل 2018

~!~ آج کی بات ~!~

جب تم پر کوئی سختی آجائے تو اپنے مخلص دوستوں سے ذکر کیا کرو کیونکہ اس کے چار نتائج نکلیں گے۔

1۔ یا اپنے ذمہ لے گا۔
2۔ یا مدد دے گا۔
3۔ یا مشورے سے رہنمائی کرے گا۔
4۔ یا پھر دعا کرے گا۔​

~!~ آج کی بات ~!~ جب تم پر کوئی سختی آجائے تو اپنے مخلص دوستوں سے ذکر کیا کرو کیونکہ اس کے چار نتائج نکلیں گے۔ 1۔ یا اپنے ذمہ لے...

شعبان، رمضان کی تیاری کا مہینہ۔۔۔ خطبہ مسجد نبوی (اقتباس)

شعبان، رمضان کی تیاری کا مہینہ۔۔۔ خطبہ مسجد نبوی
امام و خطیب: ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان حفظہ اللہ نے 04 شعبان 1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں "شعبان، رمضان کی تیاری کا مہینہ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے اپنی رحمتوں اور فضل کے موسم بنائے ہیں ایسے اوقات کو غنیمت سمجھ کر ان میں اللہ کی بندگی کر کے اپنی آخرت سنوارنی چاہیے، انہی ایام میں ماہ شعبان بھی شامل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے بعد سب سے زیادہ روزے شعبان میں رکھتے تھے کیونکہ شعبان میں لوگ غافل رہتے ہیں اور اسی ماہ میں لوگوں کے اعمال اللہ تعالی کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، ماہ شعبان در حقیقت رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے، اس میں روزوں کی وہی اہمیت ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کی ہے، روزہ بذات خود ایک بہت عظیم عبادت ہے لیکن اگر یہی عبادت رمضان کے روزوں کی تربیت کے طور پر رکھیں جائیں تو ان کی اہمیت مزید دوچند ہو جاتی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ شیطان لوگوں کو اس طرح قیمتی اوقات میں غافل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے، اس لیے شیطان کی ہر چال سے بچو ، پورے ماہ شعبان میں کوئی خاص عبادت نہیں ہے جو صرف شعبان کے مہینے کے ساتھ مختص ہو، آخر میں انہوں نے کہا کہ اگر کسی کے سابقہ رمضان کے روزے رہتے ہیں تو جلد از جلد ان کی قضا دے دے، تاخیر مت کرے۔

منتخب اقتباس:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے شب و روز کو ایک دوسرے کے پیچھے اس  لیے بنایا جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے یا شکر گزار بننا چاہتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے سورج کو روشن اور چاند کو چمکدار بنایا، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی نے آپ کو دین و ہدایت دے کر خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا، نیز اللہ کے حکم سے اسی کی جانب دعوت دینے والا روشن چراغ بنا یا، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر روزِ قیامت تک ڈھیروں سلامتی اور رحمت نازل فرمائے۔

سچا ترین کلام اللہ کی کتاب ہے، اور بہترین رہنمائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے، بد ترین امور نت نئے کام ہیں، اور دین میں ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔

مسلم اقوام!

اللہ تعالی کی رحمتیں تلاش کرو، اللہ سے خیر و بھلائی کے بہاریں مانگو، کچھ اوقات فضیلت والے بھی ہیں ان کا خصوصی خیال کرو، یہ اوقات قریب آ گئے ہیں ان کا استقبال کرو، اور انہیں غنیمت سمجھو، یہ رحمت بھرے لمحات آنکھ جھپکنے کی طرح تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ ان لمحات کو ضائع کر دینے والے کی زندگی پر افسوس ! اور انہیں حاصل کر کے ان کی قدر کرنے والا سعادت مند ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا}
 اور اسی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا اس شخص کی نصیحت کے لئے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر گزاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو [الفرقان: 62]

اللہ کے بندو!

ماہ شعبان شروع ہو چکا ہے، یہ بھی نیکیوں کی بہار اور فضیلت والا مہینہ ہے، اس ماہ میں بھی رحمتوں کی جستجو جاری رہتی ہے ، اس مہینے میں اعمال اور نیکیاں اللہ تعالی کی جانب بھیجی جاتی ہیں ، چنانچہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو اتنے روزے کسی اور مہینے میں رکھتے ہوئے نہیں دیکھتا جتنے آپ ماہ شعبان میں رکھتے ہیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ رجب اور رمضان کے درمیان ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غافل رہتے ہیں، اس ماہ میں اعمال رب العالمین کی جانب بھیجے جاتے ہیں، اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے عمل بھیجے جائیں تو میں روزے کی حالت میں ہوں)

اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے [نفل] روزے رکھتے کہ ہم سمجھتے اب روزے نہیں چھوڑیں گے، پھر آپ اتنے دن تک روزے نہ رکھتے کہ ہم سمجھتے کہ اب [نفل] روزے نہیں رکھیں گے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، اور نہ ہی میں نے انہیں شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے دیکھا)

اللہ کے بندو!

شعبان استقبال رمضان کی تیاری کا مہینہ اور عملی میدان ہے؛ کیونکہ انسان کو کسی بھی کام میں عملی مشق، تدریج اور تمہید کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے بلندی اور اونچائی پر جانے کے لیے سیڑھی اور معاون وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، تو ممکن ہے کہ تدریجی اقدامات نہ کرنے کے باعث نفس بے قابو ہو جائے، جسم کمزور ہو جائے اور انسان عبادت میں سستی کا شکار ہو جائے، اس طرح انسان عبادت کی لذت سے محروم ہو جائے گا، اور عبادت کی وجہ سے پیش آنے والی تنگی برداشت نہیں کر پائے گا، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ تسلسل کے ساتھ عبادت نہ کر پائے اور اس طرح وہ بہت زیادہ خیر و بھلائی سے محروم ہو جائے۔

چونکہ شعبان کا مہینہ رمضان سے پہلے آتا ہے، اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ رمضان کی کچھ عبادات شعبان میں بھی کرے، چنانچہ شعبان میں روزے رکھنے کا مقام و مرتبہ وہی ہے جو فرض نمازوں کے ساتھ سنت مؤکدہ کا ہے ، اس طرح شعبان میں روزے رکھنے سے رمضان کے روزے رکھنے کی تربیت ملے گی جو کہ اسلام کے ارکان میں سے ایک ہے۔

روزہ افضل ترین عبادات اور نیکیوں میں شامل ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی فرماتا ہے کہ: [ابن آدم کا ہر عمل اسی کے لیے ہے سوائے روزے کے؛ کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا]، روزہ ڈھال ہے، جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو بیہودہ گفتگو مت کرے، نہ ہی شور مچائے، اگر اسے کوئی گالی دے یا اس سے جھگڑے تو اسے کہہ دے: میرا روزہ ہے)

مسلم اقوام!

خیر کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، اللہ تعالی کسی بھی ایسے شخص کا اجر ضائع نہیں کرتا جو اچھے انداز سے عمل کرے، نیکیوں کے لیے کسی وقت اور جگہ کی قید نہیں ہے، اسی طرح مختلف اوقات کے اعتبار سے عبادات کی اقسام بھی الگ الگ ہیں، البتہ ماہ شعبان میں کوئی ایسی عبادت نہیں ہے جس کا تعلق خاص شعبان سے ہو، لیکن اس مہینے میں اعمال اللہ تعالی کی جانب بھیجے جاتے ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان کے روزے دلچسپی سے رکھتے تھے۔

مسلم اقوام!

غفلت بہت بری بیماری ہے، یہ اللہ کی ناراضی اور وبال ہے؛ اس کی وجہ سے انسان کا اپنے رب سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے، اور گناہ کی وجہ سے انسان کو تعلق ٹوٹنے کا احساس تک نہیں ہوتا، بلکہ اپنے گناہ سے بھی باز نہیں آتا، پھر گناہ کرنے کے بعد توبہ بھی نہیں کرتا، نیکی کو نیکی نہیں سمجھتا اور گناہ کو گناہ نہیں کہتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان میں روزے رکھنے ترغیب دلائی کہ بہت سے لوگ اس مہینے میں غافل رہتے ہیں، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ رجب اور رمضان کے درمیان ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غافل رہتے ہیں)

اپنی خیر خواہی چاہنے والے! امیدوں کو کم کر، غفلت سے بیدار ہو کر موت آنے سے پہلے پہلے حساب کی تیاری کر۔

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کر کے اسے لمبی عمر صرف اسی لیے عطا کی ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کے لیے خوب محنت کرے، اور اللہ کی نافرمانی سے بچے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ}
 میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔[الذاريات: 56]

شیطان تمہارا دشمن ہے، تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو، اسی لیے شیطان خیر و برکت والے مہینے میں لوگوں کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے کہ انہیں راہ ہدایت سے ہٹا دے، انہیں اللہ تعالی کی رحمت اور مغفرت کے قریب بھی نہ جانے دے، شیطان انہیں اللہ کی بندگی سے روکتا ہے اور انہیں بہت سی خیر بھلائی سے محروم کر دیتا ہے۔

شیطان کچھ لوگوں کو شبہات کے ذریعے گمراہ کرتا ہے تو کچھ کو شہوت کے ذریعے، جبکہ کچھ لوگوں کو بدعات اور نت نئے طریقوں میں ملوث کر کے فتنے میں ڈبو دیتا ہے، اور اس طرح خیر و برکت کا موسم بدعات اور شبہات کی نظر ہو جاتا ہے۔

مسلم اقوام!

{لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ}
 بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو ۔[الأحزاب: 21]

(کوئی بھی کام جس کے بارے میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)

اس لیے سنتوں پر عمل پیرا رہو؛ کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔

نیکیوں کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، نیکی کرنے میں تاخیر مت کریں اور
 {وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ}
اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی جانب دوڑو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ [آل عمران: 133]

مسلم اقوام!

بیشک اللہ تعالی نے تمہاری جانب افضل ترین کتاب نازل فرمائی، تمہاری جانب اپنا افضل ترین رسول مبعوث فرمایا، دین کو مکمل فرما کر اسے تمہارے لیے پسندیدہ بھی بنایا، بلکہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کر کے اپنی نعمت کو بھی مکمل کر دیا اور اعلان فرمایا:
 {اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا}
 آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت کامل کر دی اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کر لیا ہے۔[المائدة: 3]

ہم بھی اللہ تعالی کو اپنا رب مان کر ، اسلام کو دین مان کر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی اور رسول مان کر راضی ہیں، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں دنیا اور آخرت میں کلمے پر ثابت قدم رکھے، ہمیں ظاہری اور باطنی تمام فتنوں سے محفوظ فرمائے، ہمیں سنت پر عمل پیرا رہنے کی توفیق دے، غفلت اور رسوائی ہم سے موڑ دے، اور ہمیں شعبان میں نیکی کی توفیق دے کر رمضان بھی نصیب فرمائے۔

آمین یا رب العالمین!!

شعبان، رمضان کی تیاری کا مہینہ۔۔۔ خطبہ مسجد نبوی امام و خطیب: ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان ترجمہ: شفقت الرحمان مغل بشکریہ: ...

آج کی بات ۔۔۔۔ 21اپریل 2018

~!~ آج کی بات ~!~

 پانی دریا میں ہو یا آنکھوں میں، گہرائی اور راز دونوں میں ہوتے ہیں..

~!~ آج کی بات ~!~  پانی دریا میں ہو یا آنکھوں میں، گہرائی اور راز دونوں میں ہوتے ہیں..

اجنبی

Image result for stranger
اجنبی
منقول از (حافظ محمد شارق)

آج ہم بات کریں گے اجنبی لوگوں کی۔ یہ نہ پوچھیے کہ کون اجنبی، کیونکہ ہم سبھی کسی نہ کسی کے لیے اجنبی ہیں۔ ہم سفر میں، کلینک میں ، مختلف پروگرامز میں یا کہیں انتظار میں بیٹھے ہوں تو ہمارے برابر میں اکثر کوئی فرد ہوتا ہے جسے ہم نہیں جانتے، لیکن ’’اجنبی‘‘ قرار دے کر اس سے فاصلہ برت لیتے ہیں۔

 ہمارے ذہن میں یہ لفظ بڑا عجیب اور منفی تاثر لیے ہوئے ہے۔ ہمیں بچپن ہی سے بتایا ہے کہ اجنبی لوگوں سے دور رہنا چاہیے کیونکہ ہمیں نقصان پہنچ سکتا ہے، بات بھی بالکل صحیح ہے لیکن اب ہم بڑے ہوچکے ہیں اس لیے ہمیں اجنبی لوگوں سے بچنا نہیں بلکہ ان سے جڑنا ہے۔

 ذرا غور کیجیے کہ ہر اجنبی محض ایک وجود نہیں بلکہ ایک انسان ہوتا ہے جو اپنے اندر خیالات و احساسات کی پوری کائنات رکھتا ہے۔ اس کے ذہن میں بہت سی آراء ہوں گی، بہت سی تجاویز وہ دوسروں کو بتانا چاہتا ہوگا، بہت سے احساسات وہ کسی سے شئیر کرنا کا متمنی ہوگا ۔ وہ محض اجنبی نہیں بلکہ ہمارے لیے بہت کچھ نیا سیکھنے کا موقع ہے، اس پہلو سے بھی سوچیے کہ ہر ایک اجنبی سے گفتگو درحقیقت ایک ایسا تجربہ ہے جو آپ کو پہلے کبھی نہ ہوا ہوگا۔ اس لیے آئندہ آپ جب کبھی آپ کے ساتھ کوئی ’’اجنبی‘‘ ہو تو ان سے گفتگو کیجیے۔ 

البتہ آپ مرد ہوں اور ساتھ میں خاتون ہوں تو احتیاط کریں :)
(ماخوذ)

اجنبی منقول از ( حافظ محمد شارق ) آج ہم بات کریں گے اجنبی لوگوں کی۔ یہ نہ پوچھیے کہ کون اجنبی، کیونکہ ہم سبھی کسی نہ کسی کے لیے اج...

آج کی بات ۔۔۔ 20 اپریل 2018

~!~ آج کی بات~!~  

دو برے دو اچهے

دوسروں کے لیے برے اور اپنوں کے لیے اچهے
اپنوں کے لیے برے اور دوسروں کے لیے اچهے

 ان کی برائی ان کی اچهائی کو کها جاتی ہے

~!~ آج کی بات~!~   دو برے دو اچهے دوسروں کے لیے برے اور اپنوں کے لیے اچهے اپنوں کے لیے برے اور دوسروں کے لیے اچهے  ان کی ب...

آج کی بات ۔۔۔ 19 اپریل 2018

~!~ آج کی بات ~!~

کیا آپ کو لگتا ہے کہ 60 سال کی عمر کے بعد آپ کو کوئی اچھی ملازمت دے گا؟
نہیں؟؟
کیا آپ 40 سال کے بعد فوج میں جا سکتے ہیں؟؟
نہیں؟؟
کیونکہ 
ہر ملازمت کو نوجوانوں کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے
اسی طرح اللہ کو بھی جوانی میں کی گئی عبادت بہت زیادہ محبوب ہے
کیونکہ جب ہم جوان ہوتے ہیں تو بہت سی چیزوں میں مشغول و مصروف ہوتے ہیں، اور جب ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں، اس کی عبادت کے لیے اپنی مصروفیات چھوڑتے ہیں تو یقیناً اللہ بہت خوش ہوتا ہے اور ہمیں بہت ذیادہ اجر سے نوازتا ہے۔

تو اپنی جوانی کو اللہ کے لیے استعمال کریں۔ 

~!~ آج کی بات ~!~ کیا آپ کو لگتا ہے کہ 60 سال کی عمر کے بعد آپ کو کوئی اچھی ملازمت دے گا؟ نہیں؟؟ کیا آپ 40 سال کے بعد فوج میں جا...

میں افورڈ کرسکتا ہوں

Image result for i can afford

میں افورڈ کرسکتا ہوں۔۔۔


اگر میں گھر میں پانی کا بل 5000 روپے ماہانہ افورڈ کر سکتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اپنے گھر کی ساری ٹونٹیاں کھول کر پانی ضائع کرتا رہوں۔ اپنےہی ملک میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں روزمرہ استعمال اور پینے کے لئے دور دراز سے مٹکے بھر کر پانی لانا پڑتا ہے۔

اگر میں گھر اور دفتر کا بجلی کا بل 50000 روپے ماہانہ ادا کر سکتا ہوں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں ساری لائٹس ، پنکھے اورائرکنڈیشنر چلا کر بلا مقصد بجلی فضول ضائع کرنے لگ جاؤں۔ ہمارے اردگرد بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو گھر میں ایک لائٹ کا بل دینا بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔

اگر میں گیس کا بل 20000 روپے ماہانہ ادا کر سکتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ گھر میں ماچس کی تیلی دوبارہ جلانے کی مشقت سے بچنے کے لیے چولہا جلتا ہی رہنے دیا جائے۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو روز مرہ استعمال کے ایندھن کے لئے کتنی مشقت جھیلتے ہیں۔

اگر میں گاڑی کا پٹرول 50000 روپے ماہانہ افورڈ کرسکتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں دوران سفر آرام کے لئے رکنے پر بھی گاڑی بند نہ کروں۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو کسی ٹوٹی پھوٹی بس کا سفر کرنا بھی عیاشی خیال کرتے ہیں۔

اگر میں ایک وقت کا کھانہ کسی بڑے ہوٹل میں فی کس 10000 روپے افورڈ کرسکتا ہوں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ برتنوں میں کھانا چھوڑنے لگ جاؤں۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو ہوٹلوں میں لوگوں کا بچا کھچا کھانا اکٹھا کر کے گھر والوں کو کھلاتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو ہمارے اردگرد ایسی بہت سی مثالیں مختلف شعبوں میں نظر آ جائیں گی۔ اگر اللہ نے مال و دولت میں وسعت عطا فرمائی ہے تو یہ فضول ضائع کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ آزمائش ہے کہ ہم حق داروں، مسکینوں، غریبوں اور سوالی کو ان کا حق جو اللہ نے ہمارے اموال میں رکھ کر ہمیں عطا کیا ہے وہ ادا کرتے ہیں یا نہیں۔

وقتی شوبازی کے لئے اپنے پیسے فضول ضائع کرنا اسراف ہے۔ جہاں کم میں گزارا ہوسکتا ہو وہاں بلامقصد پیسے ضائع کرنا اچھا عمل نہیں اور آخرت میں محاسبے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کیجیے

میں افورڈ کرسکتا ہوں۔۔۔ تحریر بشارت حمید اگر میں گھر میں پانی کا بل 5000 روپے ماہانہ افورڈ کر سکتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ...

شیطان کی دشمنی اور بچاؤ کے سلیقے - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

شیطان کی دشمنی اور بچاؤ کے سلیقے - خطبہ جمعہ مسجد نبوی
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ
تاریخ: 13-04-2018 ۔۔۔27-رجب-1439
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے27-رجب-1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں" شیطان کی دشمنی اور بچاؤ کے سلیقے" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ دنیا میں شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے، اللہ تعالی نے اس کی دشمنی کے حوالے سے تمام تر تفصیلات واضح طور پر بتلا دیں ہیں، اس کی دشمنی کی ابتدا آدم علیہ السلام سے حسد کی بنا پر ہوئی اور اب تک یہ دشمنی جاری ہے۔

منتخب اقتباس:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!

دنیا مصیبتوں اور امتحان کا گھر ہے، جو مصیبت خلقت کو رب سے جدا کر دے وہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔ انسان دوست اور دشمن میں تفریق کرنا سمجھ جائے یہ دانش اور عقل مندی کی علامت ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں واضح ترین دشمن کے بارے میں بتلا دیا ہے، اس سے بڑا فتنے میں ڈالنے والا کوئی نہیں، وہ اولین اور سب سے بڑا دشمن ہے، ہر قسم کی برائی اور خرابی کا تعلق اسی سے ہے، برائیاں وہیں پیدا ہوتی ہیں، اولاد آدم سے اس کی عداوت شدید ترین اور بالکل واضح ہے، اس جیسا دشمن نہ پہلے کبھی کوئی تھا اور نہ ہی بعد میں کوئی آئے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ}
بیشک شیطان انسان کا واضح دشمن ہے۔[يوسف: 5]

 شیطان ایسا دشمن ہے جو تھکتا نہیں اور ہار بھی نہیں مانتا، شیطان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی یا مروت کام نہیں آتی، شیطان نے تمام بنی نوع آدم کو کسی بھی ذریعے سے گمراہ کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے: فرمانِ باری تعالی ہے: 
{قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ}
 اس نے کہا پھر اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرور ان کی وجہ سے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔[16] پھر انسانوں کو آگے، پیچھے ، دائیں، بائیں الغرض ہر طرف سے گھیروں گا، اور توں ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ [الأعراف: 16، 17]

اس دشمنی کی اصل بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو شرف اور فضیلت سے نوازا، آدم کو اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا، انہیں جنت میں ٹھہرایا، انہیں تمام نام خود سکھائے اور مسجود ملائکہ بنایا، پھر ان کی نسل کو بھی معزز اور مکرم بنایا، اس پر ابلیس نے ان سے حسد کرنا شروع کر دیا اور تکبر سے بھر گیا، جو کہ ہر بیماری اور شر کی جڑ ہے پھر اسی تکبر کی بنا پر اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا: 
{ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ}
 میں اس سے بہتر ہوں، توں نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ۔[ص: 76]

اس کے بعد آدم اور حوا کے خلاف سازشیں کرنے لگا اور انہیں جنت سے نکلوا دینے تک معصیت خوبصورت بنا کر دکھانے لگا، اور وہ اب تک اپنی انہی ریشہ دوانیوں پر قائم ہے، شیطان آج بھی لوگوں کو جسمانی اور روحانی ایذا پہنچاتا رہتا ہے، لوگوں کے عقائد و عبادات، جسم و روح، مال و اولاد، کھانے پینے، سونے جاگنے اور صحت و بیماری سمیت ہر حال میں تکلیف پہنچانے کی کوشش میں رہتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک شیطان تمہارے ہر معاملے میں دخل اندازی دیتا ہے) مسلم

اللہ تعالی کی طرف سے ملا ہوا فطری عقیدہ توحید سب سے قیمتی متاعِ دنیا ہے، شیطان اسے تباہ کرنے کے در پے رہتا ہے، اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے: (میں نے اپنے تمام بندوں کو یکسو پیدا کیا، پھر ان کے پاس شیاطین آئے اور انہیں دین سے پھیر دیا، جو چیزیں میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں انہیں حرام ٹھہرا دیا، نیز انہیں میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیا جس کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی)مسلم

کوئی بھی غیر اللہ کی بندگی کرنے والا شخص در حقیقت شیطان کو پکارتا ہے اور اسی کی بندگی کرتا ہے۔

شیطان عقائد خراب کرنے کے لیے جادو سکھاتا ہے، تا کہ جادو کرنے والا اور جادو گر سے جادو کا مطالبہ کرنے والا دونوں کافر ہو جائیں۔

عبادات کے متعلق اس کی سازش یہ ہے کہ عبادت گزار کی جب تک عبادت تباہ نہ کر دے وہ اس کے پیچھے پڑا رہتا ہے، پہلے بندے کو طہارت کے متعلق شک میں ڈالتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب کسی کے پاس شیطان آ کر [اس کے دل میں] کہے: تمہارا وضو تو ٹوٹ گیا ہے! تو وہ کہے: تو جھوٹا ہے) احمد

نماز میں خشوع اللہ کے ساتھ ہم کلامی کی لذت کا باعث ہے، چنانچہ جب مسلمان نماز کے لیے کھڑا ہو تو وسوسے پیدا کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آ کر اسے بھلانے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ اسے یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعات پڑھ لی ہیں!؟) متفق علیہ

اگر شیطان کو صفوں میں خلل نظر آئے تو صف میں بھی گھس جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (خالی جگہ پر کر دو، ؛کیونکہ شیطان تمہارے درمیان [خالی جگہ میں]گھس جاتا ہے) احمد

شیطان کی انسان دشمنی کی کوئی حد بندی نہیں، لہذا شیطان لوگوں کے کھانے، پینے اور ہمبستری تک میں شراکت بنا لیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کسی کا لقمہ گرے تو اس پر لگی ہوئی مٹی وغیرہ صاف کر لے اور پھر اسے کھا لے، شیطان کے لیے مت چھوڑے ) مسلم

اسی طرح اگر گھر میں اللہ کا ذکر نہ کیا جائے تو شیطان گھر میں بھی شریک بن جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کر لے تو شیطان [اپنے چیلوں سے]کہتا ہے: تمہارے لیے یہاں نہ سونے کی جگہ ہے نہ رات کا کھانا۔ اور جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے: تمہارے لیے یہاں سونے کی جگہ ہے، اور پھر کھانا کھاتے وقت بھی اللہ کا ذکر نہ کرے تو کہتا ہے: تمہارے لیے سونے کی جگہ اور رات کے کھانے کا انتظام ہو گیا ہے۔) مسلم

رات کی نیند آرام اور سکون حاصل کرنے کے لیے ہے تا کہ انسان صبح سویرے چست اور چاق و چوبند بیدار ہو، لیکن شیطان سوئے ہوئے شخص کو بھی اذیت دینے سے باز نہیں آتا لہذا: (تم میں سے کوئی جب سویا ہوا ہو تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے، ہر گرہ پر کہتا ہے: ابھی رات بہت لمبی ہے، اس لیے ابھی نیند کر، تا کہ جب وہ بیدار ہو تو بہت تنگ ہو اور کاہلی سے بھر پور ہو، لیکن اگر بندہ بیدار ہونے کے بعد اللہ کا ذکر کر لے اور وضو بنا کر نماز پڑھ لے تو اللہ اس کی یہ گرہیں کھول دیتا ہے ) متفق علیہ

نیند سے انسان ذہنی اور جسمانی آرام حاصل کرتا ہے، لیکن شیطان انسان کو نیند میں بھی تنگ کرتا ہے اور خواب میں اسے ڈراتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (رؤیا [اچھا خواب]: اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور حُلم[برا خواب]: شیطان کی جانب سے)متفق علیہ

لوگوں کے درمیان باہمی الفت اور محبت افراد اور معاشرے سب کے لیے مفید ہے، لیکن شیطان لوگوں میں جدائی اور ان کے تعلقات خراب کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (شیطان جزیرۃ العرب میں اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی اس کی بندگی کریں گے، لیکن ان کی آپسی چپقلش رہے گی) مسلم

شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے، چنانچہ (شیطان انسان کے جسم میں خون کی مانند دوڑتا ہے، اور تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جنوں میں سے ایک قرین مقرر ہے) مسلم

اولادِ آدم کے خلاف اس کی مکاریوں اور چالبازیوں کے کئی طریقے ہیں، وہ کبھی باطل کو اچھا بنا کر دکھاتا ہے اور یہ شبہ ڈالتا ہے کہ یہی حق ہے، اسی لیے بدر کے موقع پر مشرکوں کو ان کی منصوبہ بندی خوبصورت بنا کر دکھائی، اسی کا ذکر اللہ تعالی نے یوں فرمایا: 
{وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَكُمْ}
 اور جب شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوشنما بنا دیے اور کہا آج تم پر لوگوں میں سے کوئی غالب آنے والا نہیں اور یقیناً میں تمہارا حمایتی ہوں۔[الأنفال: 48]

شیطان گناہ کا نام بدل کر بھی پیش کرتا ہے، جیسے کہ شیطان نے آدم علیہ السلام کو کہا تھا:
 {هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَا يَبْلَى}
 کیا میں تجھے دائمی زندگی اور نہ کمزور ہونے والی بادشاہت کا درخت بتلاؤں ؟[طہ: 120]

لوگوں کو جھوٹی امیدوں سے دھوکے میں ڈالتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے: 
{إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ}
 بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے، تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز [شیطان] تمہیں دھوکا دے۔[لقمان: 33]

اسی طرح نیک لوگوں کو اپنے کمزور لشکروں سے بھی ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ انہیں رضائے الہی کے لیے خرچ کرنے سے بھی روکتا ہے، ان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ خرچ کرنے پر وہ خود کنگال ہو جائیں گے۔

تمام تر چالبازیوں کے لیے شیطان کے معاونین بھی موجود ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ }
 اور یقیناً شیاطین اپنے چیلوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔ [الأنعام: 121]

شیطان کا انتہائی مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کی رحمت سے دور کر دے اور نہیں جہنم میں دھکیل دے۔ 

شیطان کی پیروی کا انجام آخر کار بدبختی اور وبال ہو گا، دنیا یا آخرت میں کسی بھی قسم کی بدبختی کا سبب شیطان کی پیروی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى}
 بیشک یہ تیرا اور تیری اہلیہ کا دشمن ہے، مبادا تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے، تو تم مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔[طہ: 117]


شیطان نے تو رسولوں کی اولاد اور ان کے والدین تک کو گمراہ کر دیا تھا، جیسے کہ نوح علیہ السلام کا بیٹا اور ابراہیم علیہ السلام کا والد شیطان کے شکنجے میں آ گیا، بلکہ شیطان پوری کی پوری قوم کی تباہی کا باعث بھی بنا، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ}
 اور ہم نے قوم عاد اور ثمود کو بھی غارت کیا جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں اور شیطان نے انہیں انکی بد اعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انہیں راہ سے روک دیا تھا باوجودیکہ وہ سمجھدار تھے۔ [العنكبوت: 38]

شیطانی تباہ کاریوں سے اللہ پر توکل کرنے والے مومن کے علاوہ کوئی نہیں بچ سکتا، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ}
 اس[شیطان] کا ان لوگوں پر کوئی بس نہیں چلتا جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسا کرتے ہیں [النحل: 99]

اللہ سے تعلق بنانے والا شیطان سے دشمنی رکھتا ہے، اور جو اللہ سے رو گردانی کر لے تو وہ شیطان کا یار بن جاتا ہے، اللہ تعالی اپنے دوستوں کا والی وارث ہے، جبکہ شیطان اپنے تعلق داروں کو ذلیل و رسوا کرے گا؛ اس لیے ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اللہ تعالی کی طرف رجوع کریں، احکامات الہیہ کی تعمیل کریں، اس کی نافرمانی سے بچیں؛ کیونکہ عزت و شرف اللہ کی اطاعت، احکامات الہیہ کی عملی صورت پیش کرنے سے ملے گا۔ جبکہ رسوائی شیطانی جال میں پھنسنے پر ہمارا مقدر بن جائے گی، اگر کوئی شیطانی جال میں پھنس گیا تو اللہ تعالی اس پر ایسا عذاب مسلط کر دے گا جس کا مقابلہ کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ہے۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ}
بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے، تم اس کو اپنا دشمن سمجھو، بیشک وہ اپنی جماعت کو دعوت دیتا ہے کہ وہ جہنمیوں میں شامل ہو جائیں۔ [فاطر: 6]

مسلمانو!

شیطان سے بچنے کا رستہ صرف تقوی ہے، شیطان کے لیے سب سے سخت گیر وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کے چنیدہ ہوں اور اپنی عبادت صرف ایک اللہ کے لیے کریں، اس چیز کا اقرار شیطان نے خود کیا اور کہا:
 {قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (82) إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ}
 کہنے لگا تو پھر تیری عزت کی قسم ! میں ان سب کو یقیناً بہکا دونگا۔ [82] سوائے ان لوگوں کے جو تیرے چنیدہ ہیں۔[ص: 82، 83]

شیطان کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ حاصل کرنا بہترین ذریعہ ہے، اللہ کا ذکر رحمتِ الہی کو کھینچتا ہے اور شیطان کو دھتکارتا ہے (بیشک شیطان اس گھر سے فرار ہوتا ہے جہاں سورت بقرہ پڑھی جاتی ہے) بخاری

بستر پر لیٹتے وقت آیت الکرسی پڑھنے سے ساری رات کے لیے اللہ تعالی کی جانب سے ایک محافظ مقرر ہو جاتا ہے اور شیطان صبح تک اس کے قریب نہیں پھٹکتا۔

جو شخص ایک دن میں سو بار "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ" پڑھے تو یہ ورد اس کے لیے شام تک شیطان سے تحفظ کا باعث بن جاتا ہے۔ جس وقت انسان اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرے تو شیطان کہتا ہے کہ : تمہارے لیے یہاں نہ رات کا پڑاؤ ہے اور نہ ہی رات کا کھانا۔

اللہ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوتی ہے، اور شیطان بھی جماعت سے دور رہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص جنت کی بہاریں چاہتا ہے تو وہ ملت کے ساتھ رہے؛ کیونکہ شیطان تنہا شخص کے ساتھ ہوتا ہے اور دو سے دور رہتا ہے) احمد

اچھی بات بھی شیطانی وسوسوں کو دور بھگانے کا باعث بنتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ} 
آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے : کہ وہی بات زبان سے نکالیں جو بہتر ہو کیونکہ شیطان لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ [الإسراء: 53]

اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ [النحل: 90]

تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

شیطان کی دشمنی اور بچاؤ کے سلیقے - خطبہ جمعہ مسجد نبوی امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ تاریخ: 13-04-2018...

اللہ کی طرف آئیے! ۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)


خطبہ حرم مکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن بن عبد العزیز السدیس
جمۃ المبارک 27 رجب 1439 ھ بمطابق 13 اپریل 2018
عنوان: اللہ کی طرف آئیے!
ترجمہ: عاطف الیاس
بشکریہ: کتاب حکمت

منتخب اقتباس:

یقیناً ہر طرح کی تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ اے ہمارے پروردگار! ہم تیری ثنا بیان کرتے ہیں، تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، تجھ ہی سے معافی مانگتے ہیں اور تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں، کیونکہ ساری مخلوقات اسی کی ربوبیت کا اقرار کرتی ہیں اور ساری ایجادات اسی کی الوہیت کی قائل ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی کے حکم سے زمین و آسمان بنے ہیں اور اس کی توحید کے لئے ساری مخلوقات بنائی گئی ہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کی شریعت کو تمام شریعتوں پر غالب کیا ہے اور آپ کی سیرت اور طور طریقے سے اخلاق کو کامل کیا ہے۔

اے مسلمانو!
جو دنیا کے احوال پر غور وفکر کرتا اور سوچ بچار کرتا ہے اور جو زندگی کے حالات اور واقعات پر نظر دوڑاتا ہے، اسے حیرت اور پریشانی آ لیتی ہے۔ اسے ایسی ایسی چیزیں نظر آتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ دنیا آج جنگوں، اضطراب اور بے چینی کی حالت میں ہے۔ روحانیت ختم ہو چکی ہے اور مال ودولت کی فکر لوگوں کی سوچ پر غالب آ گئی ہے۔ مادیت پرستی سے دین کے اصولوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، آئے روز مال ودولت کی محبت کی وجہ سے اسلام کے بنیادی افکار کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، دلوں میں وسوسے آتے جا رہے ہیں اور دنیا پرست لوگوں کے ہر نعرے کے پیچھے کوئی نہ کوئی پوشیدہ مقصد ضرور ہوتا ہے۔

کیا کوئی سوچ سکتا تھا کیا کہ یہ بلا اتنی عام ہو جائے گی کہ اسلامی ممالک میں سے بھی توحید اور وحدانیت کو چھوڑ کر بے دینی اور دہریت پسندی کی طرف بلانے والوں کی آوازیں آنے لگیں گی؟!
یہ سب اس دور میں ہو رہا ہے کہ جب حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور لڑائیاں جنم لے رہی ہیں، لوگ اپنے دین کو بیچنے کا کاروبار کر رہے ہیں اور اس کاروبار کو فروغ دینے کے لیے سیاسی اور جماعتی نعروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو اور اہل اسلام کی عقلوں کو مبالغہ آرائی اور آزادی کا شکار کر دیا جائے، اعتدال سے ہٹا دیا جائے اور انتہا پسندی اور بے دینی کی طرف دھکیل دیا جائے۔

اس دور میں کہ جب علم نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے وجود کے مزید دلائل فراہم کرسکتا ہے، ہم ان چیخوں کو اور درد کی داستانوں کو سننے میں مصروف ہیں کہ جو مت اسلامیہ کے جسم کو چیر پھاڑ رہی ہیں اور اس کی وحدت کو پاش پاش کر رہی ہیں۔
اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! ان ساری چیزوں کو دیکھ کر ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف لوٹنا بہت لازمی اور انتہائی ضروری ہے۔

فرمان الہی ہے:
’’تو دوڑو اللہ کی طرف، میں تمہارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں‘‘(الذاریات 50)

اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
یہ بات تو طے ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ تو کیا اللہ تبارک و تعالیٰ کو جانے بغیر اس کی عبادت کی جاسکتی ہے؟! یا عبادت سے پہلے یہ لازمی ہے کہ اللہ کو پہچانا جائے، تاکہ وہ عظیم حکمت پوری ہو سکے جس کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو وجود بخشا ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتیں انسان پر بے شمار ہیں اور اس کی کرم نوازیاں اَن ِگنت ہیں، اگر پھر بھی انسان اپنے پروردگار سے نا آشنا رہے اور اس کے اسماء و صفات سے بے علم رہے تو اس سے بڑھ کر اس کی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے؟ جتنا انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کو پہچانے گا، اتنا ہی اس کا ایمان پختہ اور یقین مضبوط ہو جائے گا-

علامہ ابن قیم علیہ رحمۃ اللہ بیان کرتے ہیں: ہر علم کو جاننے کا دروازہ االلہ تبارک وتعالیٰ کو جاننا ہے۔

اے مسلمانو!
اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کی مخلوقات میں نظر آتی ہے! ہر شاندار مخلوق اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظمت بیان کر رہی ہے۔ آسمان اور اسکی کنجیاں اللہ کے لیے تسبیح کرتی ہیں۔ ستارے اور ستاروں کے راستے، زمین اور زمین میں رہنے والے، سمندر اور سمندر میں رہنے والے جانور، پہاڑ، درخت، تمام جاندار، صحرا اور اس کی ریت، ہر گیلی اور سوکھی چیز اور ہر زندہ اور مردہ چیز اللہ تعالیٰ کے لیے تسبیح کر رہی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’اُس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے۔‘‘(الاسراء: 44)

یہی ہے اللہ! جلالت اور عظمت والا۔ اسی کے نام پاکیزہ ہیں! اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور اس کے علاوہ کوئی مستحق عبادت نہیں ہے۔
وہی قابل تعریف ہے کہ جسکی تسبیح ہر وقت کی جاتی ہے اور اس طرح کسی اور کی تسبیح نہیں کی جاتی۔
وہی قابل تعریف ہے کہ جس کے علم کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہر راز اس کے ہاں بالکل کھلا ہے۔

اے مومنو!
اللہ تعالیٰ کی مخلوقات پر غور کرو! ان میں اپنی نظر دوڑاؤ۔ ہم اللہ کے وجود کے دلائل کو شمار بھی نہیں کر سکتے۔ آسمانوں اور ان کی ہیبت کی طرف دیکھیے۔ ستاروں کے دل کش منظر کی طرف دیکھئے۔ سورج اور اس کی خوبصورتی کو دیکھیے، تاروں اور ان کے حسن وجمال کو دیکھیے ، بدر اور اس کے نور کو دیکھیے فضا اور اس کی وسعت کو دیکھیے۔
ادھر بادل، بارش کا پانی اٹھائے چلے آرہے ہیں، ادھر سمندر موجوں سے بھرے ہیں، بارشوں پر بارشیں آ رہی ہیں، بارشوں کا پاکیزہ پانی پانی نہروں کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں کو دیکھیے، یہ فلک شگاف چوٹیاں کتنی بلند ہیں، کتنی مضبوط ہیں جو نسل در نسل ویسے ہی قائم رہتی ہیں۔ وہی قابل تعریف ہے، ہمارا پروردگار جو انتہائی بلند ہے۔ ستارے اور سیارے اللہ کی تسبیح بیان کر رہے ہیں، فضا میں اپنے مدار میں گھوم ہیں، ہر سیارے کا ایک راستہ مقرر ہے جس میں وہ بڑے نظام کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

’’یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے۔‘‘(النمل: 88)

وہ بہترین خالق ہے جس نے ہر چیز کو بہترین شکل دی ہے اور ہر شے کو خوب بنایا ہے۔ سارا جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کے وجود کے دلائل پیش کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت دکھا رہا ہے-
اللہ کی نعمتوں کے شکر سے مصروف رہنے والے سے ایک نہ ایک دن یہ نعمتیں چھن جائیں گی اور پھر وہ انہیں روئے گا۔ اور اللہ کی نعمتوں کا ہمیشہ شکر ادا کرنے والے کا شکر اللہ تعالیٰ بھی ادا کرے گا اور نعمتیں اس پر باقی رکھے گا۔

بہترین علم اللہ تبارک وتعالیٰ کے متعلق بتانے والا علم ہے! جو اللہ کے اسماء و صفات او جلالت وکمال والی صفات پر مشتمل ہے۔ علم کی فضیلت اتنی ہی ہوتی ہے جتنی فضیلت اس چیز کی ہوتی ہے کہ جس کے متعلق وہ علم بتاتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے متعلق بتانے والا علم تمام علوم سے زیادہ افضل ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے (اس کی قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔‘‘(الزمر: 67)

کائنات کی کہانی پر غور کیجئے، کیوںکہ یہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا پیغام سناتی ہے۔ اگر آپ کائنات کہانی پر غور کریں تو آپ ان میں ضرور یہ لکھا پائیں کہ جس چیز میں اللہ کا ذکر شامل نہ ہو وہ چیز باطل ہے۔

ایمانی بھائیو!
یہ بات طے شدہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے اور تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کی بہترین عبادت گزار اور تعظیم کرنے والے تھے۔ آپ کی زندگی بہترین اور پاکیزہ ترین زندگی تھی۔ وہ سچائی، پاکیزگی اور عزت سے بھری تھی۔ اس میں نفس کی عظمت، روح کی بلندی اور تمام فضائل نظر آتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہہ وسلم شکل وصورت اور اخلاق، دونوں لحاظ سے کامل تھے۔ آپ کے فضائل گننا ممکن نہیں ہے۔ خدا کی قسم! آج تک ان نہ آپ جیسی کسی شخصیت نے زمین پر قدم نہیں رکھا اور نہ قیامت تک ان جیسا کوئی آئے گا۔

اسلام کی کمزوری کے زمانے میں کہ جب بڑے بڑے فتنے برپا ہو رہے ہیں اور لوگ خرافات میں پڑ گئے ہیں اور ایجاد کرد عبادات کا دور دورہ ہے اور دین میں ایسی چیزیں شامل کردی گئی ہیں کہ جو سلف صالحین کے زمانے میں نہیں تھیں، بہت سے شعار اور علم بلند ہوگئے ہیں، مختلف فرقے اور جماعتیں وجود میں آ گئی ہیں اور ہم بد ترین الیکٹرانک حملوں کا شکار ہیں، اس دور میں ہمیں چاہیے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہہ وسلم کی ہدایات پر عمل کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ اُن سے کہو کہ “اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو” پھر تم اگر وہ تمہاری دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔‘‘(آل عمران: 31۔ 32)

اے نجات کے طالب! نصیحت کرنے والے کی بات سن لے! اپنے سارے معاملات میں ادھر ادھر کی باتیں چھوڑ کر وحی پر قائم ہو جا۔ کتاب اللہ پر اور ان سنتوں پر قائم رہ کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہہ وسلم سے ثابت ہیں۔

خطبہ حرم مکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن بن عبد العزیز السدیس جمۃ المبارک 27 رجب 1439 ھ بمطابق 13 اپریل 2018 عنوان: اللہ کی طرف آ...

سکینت اور اطمینان ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)

عنوان: سکینت اور اطمینان
 امام و خطیب:  فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب 
جمعۃ المبارک 20 رجب 1439 ھ بمطابق 6 اپریل 2018
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: کتاب حکمت

الحمد للہ ہر طرح کی حمد و ثناء اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ وہی حقیقی بادشاہ ہے اور وہی عزت اور طاقت والا ہے۔ دنیا اور آخرت میں اسی کے لیے ساری تعریف ہے اور ہم سب نے اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں وہی فتنوں کے طوفانوں میں اپنے اولیاء کو ثابت قدمی نصیب فرما تا ہے اور وہی انہیں ہلاک کر دینے والی مصیبتوں سے نجات دیتا ہے۔ وہی بہترین ناموں اور اعلی صفات کا مالک ہے۔ کوئی اس کی صحیح تعریف بیان نہیں کر سکتا۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور منتخب رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کے پاکیزہ گھر والوں پر، نیک اور قابل احترام صحابہ کرام پر تابعین پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔

اے مسلمانو!
ہر قوم میں ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں کہ جن پر انکی قوم فخر کرتی ہے اور جن کی سیرت اور حالات زندگی کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہے۔ وہ انہیں اخلاق عالیہ، فضائل اور بہترین خصائل کا مالک اور اعلی ترین انسانی اقدارکا شاندار نمونہ سمجھتی ہے۔ لوگوں میں بھی جواہرات کی طرح کم اور زیادہ قیمتی جوہر ہوتے ہیں۔ کہیں تو ایک ہزار آدمی ایک شخص برابر ہوتا ہے اور کہیں ایک شخص ایک ہزار کے برابر ہو جاتا ہے۔
کچھ لوگ تو اپنے ایمان، سچائی اور اخلاق کی بدولت پوری ایک قوم کے برابر ہوجاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حقیقی معنوں میں مسلمانوں کے امام اور اہل ایمان کے قائد تھے۔ غار ثور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکیلے ساتھی تھے۔ وفات کے بعد انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب دفنایا گیا۔ آپ کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور مسلمانوں کے دل آپ کی محبت سے بھرے ہیں۔ امت اسلامیہ میں آپ کا مرتبہ انتہائی بلند ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین ساتھی تھے اور سب سے بڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والے تھے۔ آپ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی:
’’اور اُس سے دور رکھا جائیگا وہ نہایت پرہیزگار۔ جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے۔ اُس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اُسے دینا ہو۔ وہ تو صرف اپنے رب برتر کی رضا جوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے۔ اور ضرور وہ (اُس سے) خوش ہوگا۔‘‘ (اللیل: 17۔ 21)

عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: اگر سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان کو ساری دنیا والوں کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ ہو تعال عنہ کا ایمان زیادہ ثابت ہو۔

انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ پر یقین کر لیا تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ان کے دل پر سکینت نازل ہوگی، وہ سکینت ان کے چہرے پر نظر آنے لگی اور وہ اپنے کی قابل تعریف مواقف اور قابل رشک دنوں سے پہچانے جاتے ہیں۔

واقعہ اسراء اور معراج کے حوالے سے امام احمد رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
شب معراج کے بعد جب میں صبح اٹھا تو میں اپنے معاملے سے خاصا پریشان ہوگیا اور مجھے یقین ہوگیا کہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے۔ اسی سوچ میں پریشان بیٹھے تھے کہ اللہ کا دشمن ابوجہل وہاں سے گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اور مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا: کیا کوئی نیا معاملہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ اس نے پوچھا وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رات مجھے لے جایا گیا تھا۔ اس نے پوچھا، کہاں؟ آپ نے فرمایا: بیت المقدس لے جایا گیا تھا۔ اس نے کہا: اچھا اور صبح تک آپ واپس ہمارے درمیان پہنچ گئے تھے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ یہ سن کر ابو جہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا نہ کہا تاکہ وہ لوگوں کو اکٹھا کرے اور ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کروائے- چنانچہ اس نے پوچھا: اگر میں ساری قوم کو بلا لوں تو کیا آپ انہیں بھی یہی بات کہیں گے جو آپ نے مجھے کہی ہے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ پھر اس نے لوگوں کو بلایا اور کہا اے بنی کعب بن لوی کے لوگو! ادھر آ جاؤ! تو لوگ اپنی مجلسوں سے اٹھ گئی ان دونوں کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ جب لوگ اکٹھے ہو گئے ابو جہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ ساری قوم کو وہ بات بتائیے جو آپ نے مجھے بتائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گزشتہ رات مجھے بڑی تیزی سے ایک سفر کرایا گیا تھا۔ لوگوں نے پوچھا: کہاں کا؟ آپ نے فرمایا: بیت المقدس کا۔ ان لوگوں نے کہا: اور صبح ہونے سے پہلے آپ ہمارے درمیان پہنچ گئے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ یہ بات سن کر لوگوں نے آپ کو جھٹلایا اور کوئی مذاق میں تالیاں مارنے لگا اور کسی نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا۔
پھر لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ مسجد اقصیٰ کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں؟ حاضرین میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو پہلے مسجد اقصیٰ کو دیکھ چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے مسجد کا نقشہ کھینچنا شروع کیا اور بیان کرتا گیا یہاں تک کہ اس کی کچھ چیزیں مجھے بھولنے لگیں۔ جب ایسا ہوا تو میرے لئے مسجد اقصیٰ کو قریب کر دیا گیا یہاں تک کہ اسے دار عقیل سے بھی قریب رکھ دیا گیا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کا نقشہ بیان کرتا گیا۔ لوگوں نے کہا: جہاں تک نقشہ کھینچنے کی بات ہے تو یہ تو آپ نے بالکل صحیح بیان کردیا ہے۔
مشرکین اور جھٹلانے والوں کا تو یہ حال تھا اور ان کے ساتھ بعض سچے مسلمانوں کے دل بھی ڈگمگانے لگے تھے۔
مگر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہے تو انہوں نے سچ کہا ہے۔ آپ کو اس میں کیا عجیب لگتا ہے؟ وہ تو بتاتے ہیں کہ دن یا رات کے کسی بھی حصے میں آسمان سے زمین تک وحی نازل ہو جاتی ہے۔ تو اللہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی ہوجائے اور انہیں راضی کر دے۔

اسی طرح ہجرت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار میں پناہ لیتے ہیں۔ مشرکین مکہ انہیں تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور ان کا پتا بتانے پر بڑے بڑے انعام تجویز کر رہے ہوتے ہیں، تاکہ انہیں پکڑ کر قتل کر دیا جائے۔ وہ ڈھونڈتے ہوئے جبل ثور پر پہنچ جاتے ہیں یہاں تک کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہنے لگتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول! اس وقت اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف دیکھے تو ہم اسے صاف نظر آ جائیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو بکر! تمہارا ایسے دو لوگوں کے متعلق کیا گمان ہے کہ جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ خود ہو؟ اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کو قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے:
’’تم نے اگر نبیؐ کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اُس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنی ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ “غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے” اُس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے۔‘‘ (التوبۃ: 40)

سکینت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جسے وہ شدید مشکلات اور دل دہلا دینے والی پریشانیوں کے وقت اپنے بندوں پر نازل فرما دیتا ہے۔ سکینت انسان کے دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی پہچان، اس کے سچے وعدے پر یقین، ایمان اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے قرب کے مطابق ہی نازل ہوتی ہے۔

صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سکینت، یقین اور ثابت قدمی کی ایک شاندار مثال صلح حدیبیہ کی بھی ہے۔ 

اس بابرکت شخص کے دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتنی سکیت رکھی تھی کہ اس کا اثر اس کی زبان پر بھی نظر آتا تھا اور اس کے دوسرے اعضاء پر بھی واضح دکھائی دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی ہوجائے اور انہیں راضی کر دے۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ثابت قدمی ایک شاندار مثال ہے۔

ابن رجب علیہ رحمۃ اللہ بیان کرتے کے صحابہ میں کچھ لوگ تو ایسے تھے کہ جو صدمہ برداشت نہ کرسکے اور ان کے دماغ پر اثر ہو گیا، کچھ بیٹھے اٹھ نہ سکے، کچھ کی زبان رک گئی اور وہ کوئی لفظ نہ بول سکے۔ کچھ صحابہ کرام نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا سرے سے انکار ہی کر دیا۔
مگر ایک شخص تھا جس کے اوپر سکینت طاری تھی، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے غار کا ساتھی تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سنح کے مقام سے اپنے گھوڑے پر آائے۔ گھوڑے سے اترے، مسجد میں داخل ہوئے، کسی سے کوئی بات نہ کی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس چلے گئے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، ان پر چادر پڑی تھی۔ اپ نے چادر ہٹائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چومنے لگے اور آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! زندگی اور موت میں آپ کو پاکیزگی نصیب ہو۔ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو دو مرتبہ موت نہیں دے گا۔ جو موت آپ پر لکھی گئی تھی وہ آپ نے دیکھ لی ہے۔
پھر آپ باہر آئے تو دیکھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ خدا کی قسم! اللہ کے رسول فوت نہیں ہوئے۔ عنقریب اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں زندہ کردے گا اور وہ اکر ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں خاموش ہونے کو کہا مگر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیٹھنے سے انکار کردیا۔ لوگ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو گئے تو آپ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر کہا:
بعد ازاں! تم میں سے جو محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں اور جو اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ زندہ ہے اور وہ کبھی نہ مرے گا، پھر آپ نے قرآن کریم کی ان آیات کی تلاوت کی:

’’(اے نبیؐ) تمہیں بھی مرنا ہے اور اِن لوگوں کو بھی مرنا ہے۔‘‘ (الزمر: 30)

’’محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا۔‘‘ (آل عمران: 144)

جب ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی تو لوگوں کو یوں لگا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے۔ جو جو اسے سنتا، وہ وہ اس کی تلاوت کرنے لگتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب میں نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ منہ سے یہ آیت سنی تو میری ٹانگوں میں جان نہ رہی اور میں زمین پر بیٹھ گیا، کیونکہ اس آیت کو سننے کے بعد مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں نہیں رہے۔۔

اللہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی ہو جائے اور انہیں راضی کر دے۔

بعد ازاں! اے مسلمانو!
سکینت اور اطمینان دو نعمتیں ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر نازل فرماتا ہے۔ ان کی بدولت اللہ کے بندے مصیبتوں اور آزمائشوں سے پریشان نہیں ہوتے، کیونکہ ان کے دلوں میں سچا ایمان اور پختہ یقین ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے پیروکار ہوتے ہیں- ان کے ایمان اور اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں مزید ثابت قدمی عطا فرما دیتا ہے۔

ابن قیم علیہ رحمۃ اللہ بیان کرتے ہیں: جب دل پر سکینت نازل ہوتی ہے تو دل کو اور دیگر اعضاء کو سکون نصیب ہو جاتا ہے۔ ان کے اندر خشوع وخضوع اور وقار پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر زبان بھی بڑی حکمت اور وقار سے بولتی ہے اور ہر باطل سے رک جاتی ہے۔

اطمینان کی بدولت انسان کا ایمان، ثابت قدمی، یقین، قناعت، رضامندی، بصیرت، ہدایت، تقوی اور اخلاق بہتر ہو جاتے ہیں۔ پھر انسان کے اندر خشوع و خضوع اور احکام الٰہی کی پیروی آ جاتی ہے۔ اسی طرح انسان اضطراب، انحراف، اور جھکاؤ سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ 

دنیا میں بیماریوں، فقر و فاقہ، مشکلات اور مختلف مصیبتوں کے شکار لوگ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کے وعدے اور ثواب پر یقین کر لیں اور صبر وتحمل سے آزمائشوں کا مقابلہ کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ انہیں سکینت اور اطمینان عطا فرما دیتا ہے۔ سکینت اور اطمینان کی بدولت ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ گویا کہ وہ جزا اور سزا کو خود دیکھ رہے ہیں۔ پھر ان کا دل مطمئن ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ کی تقدیر پر راضی ہو جاتے ہیں۔ مصیبت اس وقت بڑی لگتی ہے جب انسان اس کی وجہ سے ملنے والے اجر کو سامنے نہ رکھے۔

 اطمینان پانے کے لئے سب سے لازمی چیز اللہ تبارک و تعالیٰ پر ایمان ہے۔ اگر یہ دل میں ہو تو انسان کو سکینت مل ہی جاتی ہے۔ اہل ایمان اپنے ایمان کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ کسی کا ایمان بہت بلند ہوتا ہے اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت میں بہت آگے ہوتا ہے اور اپنے ہر معاملے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:
’’ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی۔‘‘ (الفتح: 18)

اللہ تعالی کے ساتھ اچھا تعلق رکھنا، اس کے سامنے جھک جانا اور ہمیشہ اس کے سامنے خشوع اور خضوع اپنانا سکون اور اطمینان حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئی پریشانی آتی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق بحال کرتے۔ فرمان الہی ہے:
’صبر اور نماز سے مدد لو۔‘‘ (البقرہ: 45)
اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف رجوع کیجئے۔ اللہ کا فرمان ہے:
’تو دوڑو اللہ کی طرف۔‘‘ (الذاریات: 50)
اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’(اے نبیؐ) کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟‘‘ (الزمر: 36)

اللہ تبارک وتعالی کی حمایت اور حفاظت بھی انسان کی عبادت کے مطابق ہوتی ہے۔ جتنا انسان عبادت گزار ہو گا، اللہ کی حمایت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔

ذکر اور قرآن کریم کی تلاوت سکینت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔‘‘ (الرعد: 28)

دعا، دعا اور دعا! ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر غار میں، جنگ بدر میں، صلح حدیبیہ کے وقت اور بہت سے دیگر موقعوں پر سکینت نازل ہوئی۔ پھر بھی وہ کثرت سے اپنی نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے کہ
’’پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو۔‘‘(آل عمران: 8)

سکینت اپنانے کوشش کرو! سکینت والے لوگ مختلف خبروں کی وجہ سے طیش میں نہیں آتے، جلد بازی نہیں کرتے، پریشان نہیں ہوتے اور دشمن انہیں کمزور نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نصرت پر یقین رکھتے ہیں چاہے کفر کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو جائے۔ کیونکہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ آیت پڑھتے ہیں۔ فرمایا:
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اِس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔‘‘ (الفتح 28)

جب جاھل گمراہ ہوجاتے ہیں، اور وہ اپنے جھوٹے خداؤں کی حمایت کرنے لگتے ہیں یا وہ دیگر جاہلیت کے کام کرنے لگتے ہیں تو سکینت والے تقوی پر قائم رہتے ہیں۔ تحمل مزاجی سے گفتگو کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں سکینت ہمیشہ موجود رہتی ہے۔

سکینت والے لوگ ہمیشہ عافیت اور سکون واطمینان میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کو بھی مطمئن کرتے رہتے ہیں۔

اے اہل ایمان!
سکینت اور اطمینان اللہ کی عطا اور تحفہ ہیں۔ اللہ کے سوا انہیں کوئی نازل نہیں کر سکتا۔ فرمان الٰہی ہے:
’’وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے۔‘‘ (الفتح: 4)

فتنوں اور آزمائشوں کے دور میں سکینت کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے اسباب اپنائیے اور عزت اور حکمت والے سے سکینت اور اطمینان کا سوال کرتے رہیے۔

’’اے ہمارے رب! ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو کچھ تجاوز ہو گیا ہو اُسے معاف کر دے، ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر۔‘‘ (آل عمران: 147)

عنوان: سکینت اور اطمینان  امام و خطیب:  فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب  جمعۃ المبارک 20 رجب 1439 ھ بمطابق 6 اپریل 2018 ترج...