خود کھانا گرم کرلو ۔۔۔ ایک مکالمہ


خود کھانا گرم کرلو ۔۔۔ ایک مکالمہ

کمال ہے بھئی۔ کیا کیا نعرے لگ رہے ہیں۔

ہاہاہاہا۔ کچھ نہیں ، بس ایک مصروفیت ہے نام نہاد فیمینسٹوں اور ان کے بیکار مباش مخالفین کی۔

اچھا ! بس ایک اور مصروفیت؟

جی۔

کیسے؟

معاملہ حقوق و فرائض سے آگے کا نہیں ، بہت پیچھے کا ہے۔ انگریزی لُغت میں بھی ریسپانسبلٹی کا آر ، رائٹس کے آر سے پہلے آتا ہے۔

تو کیا یہ مطالبہ غلط ہے خواتین کا؟

چلیں ، بنیادی باتوں سے شروع کرتے ہیں ۔ خواتین کون ہوتی ہیں؟

لیڈیز۔ ہماری اس دنیا کی صنفِ محترم۔ ہماری تخلیق کا ایک اہم ترین عنصر۔ ہماری مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں ، گھر والیاں۔ 

اور۔ اسکے علاوہ؟

اسکے علاوہ ، ہماری عزّت و حُرمت کے استعارے۔ ایک حدیث کے مطابق “آبگینے”۔ ہمارے سب سے اچھے رشتوں کی پہچان۔ ہمارے معاشرتی نظام کا سب سے اہم ستون۔

بات یہ ہے ، کہ آپ کی یہ ڈیفینیشن ہی مختلف ہے ان فیمینسٹوں سے۔ وہ تو “یکساں” سے ہٹ کر کوئی اصطلاح ماننے کو تیّار ہی نہیں۔ اور اُن کا مخالف کیمپ ، اس کے بالکل اُلٹ سوچتا ہے۔ دو انتہاؤں کی دوری پر ہیں یہ لوگ۔

پر ، یکساں تو ایک عجیب و غریب لفظ ہے۔ اصل لفظ تو ہونا چاہیئے: “مِلتا جُلتا”۔ یکسانیّت ، برابری جیسے الفاظ تو اس معاملے میں سمجھ سے ہی باہر ہیں۔

ہماری اصطلاحیں ، ہماری ذہنی سمجھ بوجھ کا پتہ دیتی ہیں۔ ہمارے مطالبات ، حقوق و فرائض کی سمجھ کا پتہ دیتے ہیں۔  آپ خود ہی بتائیں ، جس مائنڈ سیٹ کی ، خاتون کی ڈیفینیشن ہی متعصب ہو ، وہ ‘خود کھانا گرم کر لو’ اور ‘میرا جسم میری مرضی’ سے آگے کیا سوچے گا۔

پر بات یہ ہے کہ معاشرے اور دُنیا میں بنتِ حوا کا سٹیٹس متعیّن کرنے میں یہی مائنڈ سیٹ کار فرما ہیں۔

یہ مائنڈ سیٹ کار کُچھ عرصہ ہی ہوا ، وجود میں آئے۔ ورنہ دس ہزار سالہ تہذیبی تاریخ میں  بنتِ حوا کو حقوق و فرائض کے لئے کوئی بیانیہ نہیں گھڑنا پڑا۔ 

تو کیا کرنا پڑا؟

بنتِ حوا کا مقام ، عزّت اور حرمت  بنتِ حوا بننے میں ہی ہے۔ اور ، اِسی سے ابنِ آدم ، ابنِ آدم بنتے ہیں۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں