خطبہ حرم مکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن بن عبد العزیز السدیس
جمۃ المبارک 27 رجب 1439 ھ بمطابق 13 اپریل 2018
عنوان: اللہ کی طرف آئیے!
ترجمہ: عاطف الیاس
بشکریہ: کتاب حکمت
منتخب اقتباس:
یقیناً ہر طرح کی تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ اے ہمارے پروردگار! ہم تیری ثنا بیان کرتے ہیں، تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، تجھ ہی سے معافی مانگتے ہیں اور تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں، کیونکہ ساری مخلوقات اسی کی ربوبیت کا اقرار کرتی ہیں اور ساری ایجادات اسی کی الوہیت کی قائل ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی کے حکم سے زمین و آسمان بنے ہیں اور اس کی توحید کے لئے ساری مخلوقات بنائی گئی ہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کی شریعت کو تمام شریعتوں پر غالب کیا ہے اور آپ کی سیرت اور طور طریقے سے اخلاق کو کامل کیا ہے۔
اے مسلمانو!
جو دنیا کے احوال پر غور وفکر کرتا اور سوچ بچار کرتا ہے اور جو زندگی کے حالات اور واقعات پر نظر دوڑاتا ہے، اسے حیرت اور پریشانی آ لیتی ہے۔ اسے ایسی ایسی چیزیں نظر آتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ دنیا آج جنگوں، اضطراب اور بے چینی کی حالت میں ہے۔ روحانیت ختم ہو چکی ہے اور مال ودولت کی فکر لوگوں کی سوچ پر غالب آ گئی ہے۔ مادیت پرستی سے دین کے اصولوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، آئے روز مال ودولت کی محبت کی وجہ سے اسلام کے بنیادی افکار کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، دلوں میں وسوسے آتے جا رہے ہیں اور دنیا پرست لوگوں کے ہر نعرے کے پیچھے کوئی نہ کوئی پوشیدہ مقصد ضرور ہوتا ہے۔
کیا کوئی سوچ سکتا تھا کیا کہ یہ بلا اتنی عام ہو جائے گی کہ اسلامی ممالک میں سے بھی توحید اور وحدانیت کو چھوڑ کر بے دینی اور دہریت پسندی کی طرف بلانے والوں کی آوازیں آنے لگیں گی؟!
یہ سب اس دور میں ہو رہا ہے کہ جب حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور لڑائیاں جنم لے رہی ہیں، لوگ اپنے دین کو بیچنے کا کاروبار کر رہے ہیں اور اس کاروبار کو فروغ دینے کے لیے سیاسی اور جماعتی نعروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو اور اہل اسلام کی عقلوں کو مبالغہ آرائی اور آزادی کا شکار کر دیا جائے، اعتدال سے ہٹا دیا جائے اور انتہا پسندی اور بے دینی کی طرف دھکیل دیا جائے۔
اس دور میں کہ جب علم نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے وجود کے مزید دلائل فراہم کرسکتا ہے، ہم ان چیخوں کو اور درد کی داستانوں کو سننے میں مصروف ہیں کہ جو مت اسلامیہ کے جسم کو چیر پھاڑ رہی ہیں اور اس کی وحدت کو پاش پاش کر رہی ہیں۔
اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! ان ساری چیزوں کو دیکھ کر ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف لوٹنا بہت لازمی اور انتہائی ضروری ہے۔
فرمان الہی ہے:
’’تو دوڑو اللہ کی طرف، میں تمہارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں‘‘(الذاریات 50)
اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
یہ بات تو طے ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ تو کیا اللہ تبارک و تعالیٰ کو جانے بغیر اس کی عبادت کی جاسکتی ہے؟! یا عبادت سے پہلے یہ لازمی ہے کہ اللہ کو پہچانا جائے، تاکہ وہ عظیم حکمت پوری ہو سکے جس کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو وجود بخشا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتیں انسان پر بے شمار ہیں اور اس کی کرم نوازیاں اَن ِگنت ہیں، اگر پھر بھی انسان اپنے پروردگار سے نا آشنا رہے اور اس کے اسماء و صفات سے بے علم رہے تو اس سے بڑھ کر اس کی بد قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے؟ جتنا انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کو پہچانے گا، اتنا ہی اس کا ایمان پختہ اور یقین مضبوط ہو جائے گا-
علامہ ابن قیم علیہ رحمۃ اللہ بیان کرتے ہیں: ہر علم کو جاننے کا دروازہ االلہ تبارک وتعالیٰ کو جاننا ہے۔
اے مسلمانو!
اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کی مخلوقات میں نظر آتی ہے! ہر شاندار مخلوق اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظمت بیان کر رہی ہے۔ آسمان اور اسکی کنجیاں اللہ کے لیے تسبیح کرتی ہیں۔ ستارے اور ستاروں کے راستے، زمین اور زمین میں رہنے والے، سمندر اور سمندر میں رہنے والے جانور، پہاڑ، درخت، تمام جاندار، صحرا اور اس کی ریت، ہر گیلی اور سوکھی چیز اور ہر زندہ اور مردہ چیز اللہ تعالیٰ کے لیے تسبیح کر رہی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’اُس کی پاکی تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی بردبار اور درگزر کرنے والا ہے۔‘‘(الاسراء: 44)
یہی ہے اللہ! جلالت اور عظمت والا۔ اسی کے نام پاکیزہ ہیں! اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور اس کے علاوہ کوئی مستحق عبادت نہیں ہے۔
وہی قابل تعریف ہے کہ جسکی تسبیح ہر وقت کی جاتی ہے اور اس طرح کسی اور کی تسبیح نہیں کی جاتی۔
وہی قابل تعریف ہے کہ جس کے علم کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہر راز اس کے ہاں بالکل کھلا ہے۔
اے مومنو!
اللہ تعالیٰ کی مخلوقات پر غور کرو! ان میں اپنی نظر دوڑاؤ۔ ہم اللہ کے وجود کے دلائل کو شمار بھی نہیں کر سکتے۔ آسمانوں اور ان کی ہیبت کی طرف دیکھیے۔ ستاروں کے دل کش منظر کی طرف دیکھئے۔ سورج اور اس کی خوبصورتی کو دیکھیے، تاروں اور ان کے حسن وجمال کو دیکھیے ، بدر اور اس کے نور کو دیکھیے فضا اور اس کی وسعت کو دیکھیے۔
ادھر بادل، بارش کا پانی اٹھائے چلے آرہے ہیں، ادھر سمندر موجوں سے بھرے ہیں، بارشوں پر بارشیں آ رہی ہیں، بارشوں کا پاکیزہ پانی پانی نہروں کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں کو دیکھیے، یہ فلک شگاف چوٹیاں کتنی بلند ہیں، کتنی مضبوط ہیں جو نسل در نسل ویسے ہی قائم رہتی ہیں۔ وہی قابل تعریف ہے، ہمارا پروردگار جو انتہائی بلند ہے۔ ستارے اور سیارے اللہ کی تسبیح بیان کر رہے ہیں، فضا میں اپنے مدار میں گھوم ہیں، ہر سیارے کا ایک راستہ مقرر ہے جس میں وہ بڑے نظام کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے۔‘‘(النمل: 88)
وہ بہترین خالق ہے جس نے ہر چیز کو بہترین شکل دی ہے اور ہر شے کو خوب بنایا ہے۔ سارا جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کے وجود کے دلائل پیش کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت دکھا رہا ہے-
اللہ کی نعمتوں کے شکر سے مصروف رہنے والے سے ایک نہ ایک دن یہ نعمتیں چھن جائیں گی اور پھر وہ انہیں روئے گا۔ اور اللہ کی نعمتوں کا ہمیشہ شکر ادا کرنے والے کا شکر اللہ تعالیٰ بھی ادا کرے گا اور نعمتیں اس پر باقی رکھے گا۔
بہترین علم اللہ تبارک وتعالیٰ کے متعلق بتانے والا علم ہے! جو اللہ کے اسماء و صفات او جلالت وکمال والی صفات پر مشتمل ہے۔ علم کی فضیلت اتنی ہی ہوتی ہے جتنی فضیلت اس چیز کی ہوتی ہے کہ جس کے متعلق وہ علم بتاتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے متعلق بتانے والا علم تمام علوم سے زیادہ افضل ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے (اس کی قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔‘‘(الزمر: 67)
کائنات کی کہانی پر غور کیجئے، کیوںکہ یہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا پیغام سناتی ہے۔ اگر آپ کائنات کہانی پر غور کریں تو آپ ان میں ضرور یہ لکھا پائیں کہ جس چیز میں اللہ کا ذکر شامل نہ ہو وہ چیز باطل ہے۔
ایمانی بھائیو!
یہ بات طے شدہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے اور تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کی بہترین عبادت گزار اور تعظیم کرنے والے تھے۔ آپ کی زندگی بہترین اور پاکیزہ ترین زندگی تھی۔ وہ سچائی، پاکیزگی اور عزت سے بھری تھی۔ اس میں نفس کی عظمت، روح کی بلندی اور تمام فضائل نظر آتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہہ وسلم شکل وصورت اور اخلاق، دونوں لحاظ سے کامل تھے۔ آپ کے فضائل گننا ممکن نہیں ہے۔ خدا کی قسم! آج تک ان نہ آپ جیسی کسی شخصیت نے زمین پر قدم نہیں رکھا اور نہ قیامت تک ان جیسا کوئی آئے گا۔
اسلام کی کمزوری کے زمانے میں کہ جب بڑے بڑے فتنے برپا ہو رہے ہیں اور لوگ خرافات میں پڑ گئے ہیں اور ایجاد کرد عبادات کا دور دورہ ہے اور دین میں ایسی چیزیں شامل کردی گئی ہیں کہ جو سلف صالحین کے زمانے میں نہیں تھیں، بہت سے شعار اور علم بلند ہوگئے ہیں، مختلف فرقے اور جماعتیں وجود میں آ گئی ہیں اور ہم بد ترین الیکٹرانک حملوں کا شکار ہیں، اس دور میں ہمیں چاہیے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہہ وسلم کی ہدایات پر عمل کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ اُن سے کہو کہ “اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو” پھر تم اگر وہ تمہاری دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔‘‘(آل عمران: 31۔ 32)
اے نجات کے طالب! نصیحت کرنے والے کی بات سن لے! اپنے سارے معاملات میں ادھر ادھر کی باتیں چھوڑ کر وحی پر قائم ہو جا۔ کتاب اللہ پر اور ان سنتوں پر قائم رہ کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہہ وسلم سے ثابت ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں