شیطان کی دشمنی اور بچاؤ کے سلیقے - خطبہ جمعہ مسجد نبوی
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ
تاریخ: 13-04-2018 ۔۔۔27-رجب-1439
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
بشکریہ: دلیل ویب
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے27-رجب-1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں" شیطان کی دشمنی اور بچاؤ کے سلیقے" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ دنیا میں شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے، اللہ تعالی نے اس کی دشمنی کے حوالے سے تمام تر تفصیلات واضح طور پر بتلا دیں ہیں، اس کی دشمنی کی ابتدا آدم علیہ السلام سے حسد کی بنا پر ہوئی اور اب تک یہ دشمنی جاری ہے۔
منتخب اقتباس:
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!
دنیا مصیبتوں اور امتحان کا گھر ہے، جو مصیبت خلقت کو رب سے جدا کر دے وہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔ انسان دوست اور دشمن میں تفریق کرنا سمجھ جائے یہ دانش اور عقل مندی کی علامت ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں واضح ترین دشمن کے بارے میں بتلا دیا ہے، اس سے بڑا فتنے میں ڈالنے والا کوئی نہیں، وہ اولین اور سب سے بڑا دشمن ہے، ہر قسم کی برائی اور خرابی کا تعلق اسی سے ہے، برائیاں وہیں پیدا ہوتی ہیں، اولاد آدم سے اس کی عداوت شدید ترین اور بالکل واضح ہے، اس جیسا دشمن نہ پہلے کبھی کوئی تھا اور نہ ہی بعد میں کوئی آئے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ}
بیشک شیطان انسان کا واضح دشمن ہے۔[يوسف: 5]
شیطان ایسا دشمن ہے جو تھکتا نہیں اور ہار بھی نہیں مانتا، شیطان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی یا مروت کام نہیں آتی، شیطان نے تمام بنی نوع آدم کو کسی بھی ذریعے سے گمراہ کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے: فرمانِ باری تعالی ہے:
{قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ}
اس نے کہا پھر اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرور ان کی وجہ سے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔[16] پھر انسانوں کو آگے، پیچھے ، دائیں، بائیں الغرض ہر طرف سے گھیروں گا، اور توں ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ [الأعراف: 16، 17]
اس دشمنی کی اصل بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو شرف اور فضیلت سے نوازا، آدم کو اپنے ہاتھوں سے پیدا فرمایا، انہیں جنت میں ٹھہرایا، انہیں تمام نام خود سکھائے اور مسجود ملائکہ بنایا، پھر ان کی نسل کو بھی معزز اور مکرم بنایا، اس پر ابلیس نے ان سے حسد کرنا شروع کر دیا اور تکبر سے بھر گیا، جو کہ ہر بیماری اور شر کی جڑ ہے پھر اسی تکبر کی بنا پر اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا:
{ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ}
میں اس سے بہتر ہوں، توں نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ۔[ص: 76]
اس کے بعد آدم اور حوا کے خلاف سازشیں کرنے لگا اور انہیں جنت سے نکلوا دینے تک معصیت خوبصورت بنا کر دکھانے لگا، اور وہ اب تک اپنی انہی ریشہ دوانیوں پر قائم ہے، شیطان آج بھی لوگوں کو جسمانی اور روحانی ایذا پہنچاتا رہتا ہے، لوگوں کے عقائد و عبادات، جسم و روح، مال و اولاد، کھانے پینے، سونے جاگنے اور صحت و بیماری سمیت ہر حال میں تکلیف پہنچانے کی کوشش میں رہتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک شیطان تمہارے ہر معاملے میں دخل اندازی دیتا ہے) مسلم
اللہ تعالی کی طرف سے ملا ہوا فطری عقیدہ توحید سب سے قیمتی متاعِ دنیا ہے، شیطان اسے تباہ کرنے کے در پے رہتا ہے، اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے: (میں نے اپنے تمام بندوں کو یکسو پیدا کیا، پھر ان کے پاس شیاطین آئے اور انہیں دین سے پھیر دیا، جو چیزیں میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں انہیں حرام ٹھہرا دیا، نیز انہیں میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیا جس کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی)مسلم
کوئی بھی غیر اللہ کی بندگی کرنے والا شخص در حقیقت شیطان کو پکارتا ہے اور اسی کی بندگی کرتا ہے۔
شیطان عقائد خراب کرنے کے لیے جادو سکھاتا ہے، تا کہ جادو کرنے والا اور جادو گر سے جادو کا مطالبہ کرنے والا دونوں کافر ہو جائیں۔
عبادات کے متعلق اس کی سازش یہ ہے کہ عبادت گزار کی جب تک عبادت تباہ نہ کر دے وہ اس کے پیچھے پڑا رہتا ہے، پہلے بندے کو طہارت کے متعلق شک میں ڈالتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب کسی کے پاس شیطان آ کر [اس کے دل میں] کہے: تمہارا وضو تو ٹوٹ گیا ہے! تو وہ کہے: تو جھوٹا ہے) احمد
نماز میں خشوع اللہ کے ساتھ ہم کلامی کی لذت کا باعث ہے، چنانچہ جب مسلمان نماز کے لیے کھڑا ہو تو وسوسے پیدا کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آ کر اسے بھلانے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ اسے یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعات پڑھ لی ہیں!؟) متفق علیہ
اگر شیطان کو صفوں میں خلل نظر آئے تو صف میں بھی گھس جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (خالی جگہ پر کر دو، ؛کیونکہ شیطان تمہارے درمیان [خالی جگہ میں]گھس جاتا ہے) احمد
شیطان کی انسان دشمنی کی کوئی حد بندی نہیں، لہذا شیطان لوگوں کے کھانے، پینے اور ہمبستری تک میں شراکت بنا لیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کسی کا لقمہ گرے تو اس پر لگی ہوئی مٹی وغیرہ صاف کر لے اور پھر اسے کھا لے، شیطان کے لیے مت چھوڑے ) مسلم
اسی طرح اگر گھر میں اللہ کا ذکر نہ کیا جائے تو شیطان گھر میں بھی شریک بن جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کر لے تو شیطان [اپنے چیلوں سے]کہتا ہے: تمہارے لیے یہاں نہ سونے کی جگہ ہے نہ رات کا کھانا۔ اور جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے: تمہارے لیے یہاں سونے کی جگہ ہے، اور پھر کھانا کھاتے وقت بھی اللہ کا ذکر نہ کرے تو کہتا ہے: تمہارے لیے سونے کی جگہ اور رات کے کھانے کا انتظام ہو گیا ہے۔) مسلم
رات کی نیند آرام اور سکون حاصل کرنے کے لیے ہے تا کہ انسان صبح سویرے چست اور چاق و چوبند بیدار ہو، لیکن شیطان سوئے ہوئے شخص کو بھی اذیت دینے سے باز نہیں آتا لہذا: (تم میں سے کوئی جب سویا ہوا ہو تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگاتا ہے، ہر گرہ پر کہتا ہے: ابھی رات بہت لمبی ہے، اس لیے ابھی نیند کر، تا کہ جب وہ بیدار ہو تو بہت تنگ ہو اور کاہلی سے بھر پور ہو، لیکن اگر بندہ بیدار ہونے کے بعد اللہ کا ذکر کر لے اور وضو بنا کر نماز پڑھ لے تو اللہ اس کی یہ گرہیں کھول دیتا ہے ) متفق علیہ
نیند سے انسان ذہنی اور جسمانی آرام حاصل کرتا ہے، لیکن شیطان انسان کو نیند میں بھی تنگ کرتا ہے اور خواب میں اسے ڈراتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (رؤیا [اچھا خواب]: اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور حُلم[برا خواب]: شیطان کی جانب سے)متفق علیہ
لوگوں کے درمیان باہمی الفت اور محبت افراد اور معاشرے سب کے لیے مفید ہے، لیکن شیطان لوگوں میں جدائی اور ان کے تعلقات خراب کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (شیطان جزیرۃ العرب میں اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی اس کی بندگی کریں گے، لیکن ان کی آپسی چپقلش رہے گی) مسلم
شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے، چنانچہ (شیطان انسان کے جسم میں خون کی مانند دوڑتا ہے، اور تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جنوں میں سے ایک قرین مقرر ہے) مسلم
اولادِ آدم کے خلاف اس کی مکاریوں اور چالبازیوں کے کئی طریقے ہیں، وہ کبھی باطل کو اچھا بنا کر دکھاتا ہے اور یہ شبہ ڈالتا ہے کہ یہی حق ہے، اسی لیے بدر کے موقع پر مشرکوں کو ان کی منصوبہ بندی خوبصورت بنا کر دکھائی، اسی کا ذکر اللہ تعالی نے یوں فرمایا:
{وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَكُمْ}
اور جب شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوشنما بنا دیے اور کہا آج تم پر لوگوں میں سے کوئی غالب آنے والا نہیں اور یقیناً میں تمہارا حمایتی ہوں۔[الأنفال: 48]
شیطان گناہ کا نام بدل کر بھی پیش کرتا ہے، جیسے کہ شیطان نے آدم علیہ السلام کو کہا تھا:
{هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَا يَبْلَى}
کیا میں تجھے دائمی زندگی اور نہ کمزور ہونے والی بادشاہت کا درخت بتلاؤں ؟[طہ: 120]
لوگوں کو جھوٹی امیدوں سے دھوکے میں ڈالتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ}
بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے، تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز [شیطان] تمہیں دھوکا دے۔[لقمان: 33]
اسی طرح نیک لوگوں کو اپنے کمزور لشکروں سے بھی ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ انہیں رضائے الہی کے لیے خرچ کرنے سے بھی روکتا ہے، ان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ خرچ کرنے پر وہ خود کنگال ہو جائیں گے۔
تمام تر چالبازیوں کے لیے شیطان کے معاونین بھی موجود ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ }
اور یقیناً شیاطین اپنے چیلوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔ [الأنعام: 121]
شیطان کا انتہائی مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کی رحمت سے دور کر دے اور نہیں جہنم میں دھکیل دے۔
شیطان کی پیروی کا انجام آخر کار بدبختی اور وبال ہو گا، دنیا یا آخرت میں کسی بھی قسم کی بدبختی کا سبب شیطان کی پیروی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى}
بیشک یہ تیرا اور تیری اہلیہ کا دشمن ہے، مبادا تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے، تو تم مصیبت میں پڑ جاؤ گے۔[طہ: 117]
شیطان نے تو رسولوں کی اولاد اور ان کے والدین تک کو گمراہ کر دیا تھا، جیسے کہ نوح علیہ السلام کا بیٹا اور ابراہیم علیہ السلام کا والد شیطان کے شکنجے میں آ گیا، بلکہ شیطان پوری کی پوری قوم کی تباہی کا باعث بھی بنا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ}
اور ہم نے قوم عاد اور ثمود کو بھی غارت کیا جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں اور شیطان نے انہیں انکی بد اعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انہیں راہ سے روک دیا تھا باوجودیکہ وہ سمجھدار تھے۔ [العنكبوت: 38]
شیطانی تباہ کاریوں سے اللہ پر توکل کرنے والے مومن کے علاوہ کوئی نہیں بچ سکتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ}
اس[شیطان] کا ان لوگوں پر کوئی بس نہیں چلتا جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسا کرتے ہیں [النحل: 99]
اللہ سے تعلق بنانے والا شیطان سے دشمنی رکھتا ہے، اور جو اللہ سے رو گردانی کر لے تو وہ شیطان کا یار بن جاتا ہے، اللہ تعالی اپنے دوستوں کا والی وارث ہے، جبکہ شیطان اپنے تعلق داروں کو ذلیل و رسوا کرے گا؛ اس لیے ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اللہ تعالی کی طرف رجوع کریں، احکامات الہیہ کی تعمیل کریں، اس کی نافرمانی سے بچیں؛ کیونکہ عزت و شرف اللہ کی اطاعت، احکامات الہیہ کی عملی صورت پیش کرنے سے ملے گا۔ جبکہ رسوائی شیطانی جال میں پھنسنے پر ہمارا مقدر بن جائے گی، اگر کوئی شیطانی جال میں پھنس گیا تو اللہ تعالی اس پر ایسا عذاب مسلط کر دے گا جس کا مقابلہ کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ہے۔
أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ}
بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے، تم اس کو اپنا دشمن سمجھو، بیشک وہ اپنی جماعت کو دعوت دیتا ہے کہ وہ جہنمیوں میں شامل ہو جائیں۔ [فاطر: 6]
مسلمانو!
شیطان سے بچنے کا رستہ صرف تقوی ہے، شیطان کے لیے سب سے سخت گیر وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کے چنیدہ ہوں اور اپنی عبادت صرف ایک اللہ کے لیے کریں، اس چیز کا اقرار شیطان نے خود کیا اور کہا:
{قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (82) إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ}
کہنے لگا تو پھر تیری عزت کی قسم ! میں ان سب کو یقیناً بہکا دونگا۔ [82] سوائے ان لوگوں کے جو تیرے چنیدہ ہیں۔[ص: 82، 83]
شیطان کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ حاصل کرنا بہترین ذریعہ ہے، اللہ کا ذکر رحمتِ الہی کو کھینچتا ہے اور شیطان کو دھتکارتا ہے (بیشک شیطان اس گھر سے فرار ہوتا ہے جہاں سورت بقرہ پڑھی جاتی ہے) بخاری
بستر پر لیٹتے وقت آیت الکرسی پڑھنے سے ساری رات کے لیے اللہ تعالی کی جانب سے ایک محافظ مقرر ہو جاتا ہے اور شیطان صبح تک اس کے قریب نہیں پھٹکتا۔
جو شخص ایک دن میں سو بار "لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ" پڑھے تو یہ ورد اس کے لیے شام تک شیطان سے تحفظ کا باعث بن جاتا ہے۔ جس وقت انسان اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرے تو شیطان کہتا ہے کہ : تمہارے لیے یہاں نہ رات کا پڑاؤ ہے اور نہ ہی رات کا کھانا۔
اللہ کی مدد جماعت کے ساتھ ہوتی ہے، اور شیطان بھی جماعت سے دور رہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص جنت کی بہاریں چاہتا ہے تو وہ ملت کے ساتھ رہے؛ کیونکہ شیطان تنہا شخص کے ساتھ ہوتا ہے اور دو سے دور رہتا ہے) احمد
اچھی بات بھی شیطانی وسوسوں کو دور بھگانے کا باعث بنتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ}
آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے : کہ وہی بات زبان سے نکالیں جو بہتر ہو کیونکہ شیطان لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ [الإسراء: 53]
اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں وعظ کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ [النحل: 90]
تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں