مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کا نقصان ۔۔۔ خطبہ مسجد الحرام (اقتباس)

مسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کا نقصان
مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم
جمعۃ المبارک 4 شعبان 1439 ھ بمطابق 19 اپریل 2018
ترجمہ: محمد عاطف الیاس

منتخب اقتباس:

یقیناً! تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ ہم اللہ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اپنے نفس کے شر سے اور اپنے برے اعمال سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔

 اللہ کا فرمان ہے: 
’’اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو (70) اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘ (الاحزاب: 70۔ 71)

بعد ازاں!

بہترین بات اللہ کا کلام ہے، بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ ایجاد کردہ عبادتیں بدترین کام ہیں۔ ہر نئی عبادت بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ لوگو! مسلمانوں کی جماعت سے جڑے رہو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ اُس روزسخت سزا پائیں گے۔‘‘ (آل عمران: 105)

اے لوگو!

وہ معاشرہ کہ جو ترقی کی راہ پر گامزن ہو، جس کے باشندے آپس میں پیار اور محبت سے رہتے ہوں اور جس میں اتحاد اور اتفاق بھی موجود ہو، ایسے معاشرے کے لوگوں میں لازمی طور پر پاکیزہ دل اور نیک نیتی ہو گی اور یہی ان کی ترقی اصل وجہ ہو گی۔ اچھے اخلاق دلوں میں جگہ بناتے ہیں اور دوسروں کو متاثر کرتے ہیں۔

معاشرے دنیاوی اعتبار سے، علم، صنعت، تجارت اور تہذیبی لحاظ سے جتنی بھی ترقی کر لیں، ہہرحال اگر ان میں اخلاق نہ ہو تو ان کی ترقی کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کی مثال ایسے پہیے کی ہے جو گھومتا تو رہتا ہے مگر اس کے گھومنے کا فائدہ کسی کو نہیں پہنچتا۔

معاشرے جب تک اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت پر قائم رہتے ہیں، یعنی اچھے اخلاق اور بھلے طریقوں پر عمل پیرا رہتے ہیں، تب تک ان میں خیر موجود رہتی ہے، بشرطیکہ ان پر ایسی چیزیں اثر انداز نہ ہو جائیں جو ان کی پاکیزگی کو ختم کر دیں، زندگی کو بے مزہ بنا دیں، اتحادواتفاق کو پاش پاش کر دیں اور معاشرے کو بکھیر دیں۔

جی ہاں! اللہ کے بندوں! جس معاشرے میں فساد بازی پھیل جائے اس کے اندر اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں، جس گھرانے میں آ جائے وہ گھرانہ تباہ ہو جاتا ہے اور جس دوستی میں آ جائے وہ دشمنی میں بدل جاتا ہے۔

یہ فساد بازی ہی ہے، جو نقصان دیتی ہے نفع نہیں دیتی، معاشرے کو بکھیرتی ہے، اسے قریب نہیں کرتی، زخم لگاتی ہے، زخم پر مرہم نہیں رکھتی، فساد برپا کرتی ہے، اصلاح نہیں کرتی، پریشان کرتی ہے، خوش نہیں کرتی، رلاتی ہے، ہنساتی نہیں ہے۔

اللہ کے بندو! فساد بازی جھگڑوں کو ہوا دینے کا نام ہے، لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا کر دشمنی اور دل کی کدورتوں کو بڑھانے کا نام ہے۔

فساد بازی کے لفظ میں کسی قسم کی خیر نہیں ہے۔ یہ سراسر برائی ہی ہے۔ فساد بازی کی تعریف شریعت نے نہیں کی، نہ صحیح عقل کر سکتی ہے اور نہ سلیم الفطرت انسان ہی کر سکتا ہے۔ فساد بازی ہر طرح سے بری ہے، بہت بڑی بیماری ہے اور شدید ندامت کا باعث بنتی ہے۔

اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! فساد بازی ایک شیطانی عمل ہے۔ جو بھی اس میں ملوث ہوتا ہے وہ زمین میں بہت فساد پھیلاتا ہے اور لوگوں میں بہت جھگڑے کرواتا ہے۔ فساد بازی کرنے والے سے لوگ دور بھاگتے ہیں۔ جس راستے میں فساد کرنے والا جائے، لوگ اس راستے کو چھوڑ کر کسی دوسرے راستے سے جانا پسند کرتے ہیں۔ جس مجلس میں وہ ہو، لوگ اس مجلس میں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر اتفاقًا کسی مجلس میں وہ مل جائے تو لوگ اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے شخص سے سمجھ دار لوگ اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

اللہ کے بندو! فساد بازی کرنے والا انتہائی برا انسان ہوتا ہے، جو حسد کو اپنا قائد بنا لیتا ہے اور پھر ہر اچھی چیز کو خراب، ہر سیدھی چیز کو ٹیڑھی اور ہر مستحکم چیز کو غیر مستحکم کرنے لگتا ہے۔

جب بھی وہ نظر آئے گا، قسمیں کھاتا، طعنے دیتا اور چغل خوری کرتا نظر آئے گا۔ اگر وہ حسد کے پیچھے نہیں چلے گا تو کینہ پرور ہوگا۔ اگر کینہ پرور بھی نہ ہوگا تو دوسروں کی بدخواہی ہی اسکا قائد بن جائے گی۔

عربی شاعر نے خوب کہا (جس کا ترجمہ ہے):

یہ لوگ، جنہیں تم اپنا دوست سمجھتے ہو، تمہاری ہلاکت کی تمنا کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو رات کے اندھیرے میں چغل خوری کے قبیح تیر چلاتے ہیں اور دن میں بڑے بیٹے بنتے ہیں۔

اللہ کے بندو!

فساد بازی کے خطرے کا اندازہ لگانا ہے تو یہ جان لیجئے کہ شیطان اس چیز سے تو مایوس گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر اس کی عبادت کریں، اس لیے وہ لوگوں میں فساد پیدا کرنے کے لئے اپنا پورا زور لگا رہا ہے۔

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

شیطان اس چیز سے تو مایوس ہو گیا ہے کہ جزیرہ عرب میں لوگ اس کی عبادت کرنے لگے۔ اب اس کی پوری کوشش ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان فساد پیدا کردے۔

اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

شیطان نے اپنے گروہ کے ساتھ مل کر خوب زور لگایا اور اپنے تمام تر حربے استعمال کئے۔ لوگوں کے ساتھ وعدے کیے اور ان کو سبز باغ دکھائے۔ حقیقت میں وہ ہے دھوکا دیا تھا مگر کچھ مریض النفس لوگ اسکی چالوں میں آگئے اور انہوں نے برے اخلاق کو اپنا لیا اور رضاکارانہ طور پر ابلیس کے لشکر میں شامل ہوگئے۔ پھر انہوں نے شیطان کے ساتھ ایک وعدہ کیا کہ وہ تین چیزوں پر قائم رہیں گے۔ ایک غیبت، دوسری چغل خوری اور تیسری بہتان بازی۔ ان تینوں چیزوں سے انہوں نے اللہ کے بندوں کو نشانہ بنایا اور ان کے درمیان بغض اور عداوت پیدا کردی۔ اس طرح انہوں نے دوست کو دشمن بنا دیا اور میاں بیوی کو الگ کر دیا۔ بھلا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظلم اور جھوٹ ہو سکتا ہے؟

دین اسلام نے فساد بازی کی راہ بند کی ہے۔ اس سے منع کیا گیا ہے اور اسے خیانت کی ایک قسم شمار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کی بیویوں کے متعلق فرمایا:

’وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں، مگر انہوں نے اپنے ان شوہروں سے خیانت کی۔‘‘ (التحریم: 10)

اس آیت میں جس خیانت کا ذکر ہے اس سے مراد زنا نہیں ہے۔ انبیاء کرام کی بیویاں ایسی چیز میں ملوث نہیں ہوسکتیں۔ اس آیت میں آنے والی خیانت سے مراد، جیسا کہ ابن عباس، عکرمہ، مجاہد اور دیگر علماء نے بیان فرمایا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نوح علیہ السلام کی بیوی نوح علیہ السلام کے راز جانتی تھی۔ وہ دشمنان حق کو آپ کے راز پر مطلع کر دیتی تھی۔ جب بھی کوئی شخص ایمان قبول کرتا تو وہ قوم کے سر کشوں کو اس کے متعلق بتا دیتی۔

اسی طرح لوط علیہ السلام کی بیوی اپنی قوم کے برے لوگوں کو ان مہمانوں کی خبر دے دی تھی جو لوط علیہ السلام کے پاس آتے تھے۔

اللہ کے بندو! یہی تو وہ فساد بازی ہے جسے اللہ تعالی نے خیانت کا نام دیا ہے۔ خیانت منافقوں کی صفت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کی صفات بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ:

اور جب اسے امانت دی جاتی ہے تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے۔

اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

اسلام نے اجتماعیت کا تصور دیا ہے اور اسے اپنانے کی خوب ترغیب دلائی ہے۔ اسلام نے ہر اس راستے سے روکا ہے جو لوگوں کی اجتماعیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ چنانچہ میاں اور بیوی اور خادم اور مالک کے درمیان فساد برپا کرنے کوشش کرنے سے منع کیا ہے۔ جو ایسے کام میں پڑتا ہے اس کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے ہٹا ہوا ہے۔

امام ابو داؤد نے اپنی کتاب سنن ابی داؤد میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو کسی عورت کو اپنے خاوند کے خلاف کرتا ہے یا کسی غلام کو اپنے مالک کے خلاف کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

انسان کے دین اور ایمان پر اتنا تباہ کن اثر اور کوئی چیز نہیں ڈالتی جتنا تباہ کن اثر فساد بازی کا ہوتا ہے۔ اس میں ملوث ہونے والا گویا کہ رضا مندی اور اپنی خوشی کے ساتھ اپنے دین کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کررہا ہوتا ہے۔

لا الٰہ الا اللہ! اللہ کے بندو! دل کی پاکیزگی کتنی اہم ہے!
 لا الٰہ الا اللہ! اللہ کے ہاں کینہ اور حسد سے پاکیزہ دل کی کتنی اہمیت ہے۔ ایسے دل والا جب دو دوستوں کو دیکھتا ہے تو ان کی دوستی سے اسے خوشی ملتی ہے، جب میاں بیوی کو دیکھتا ہے تو ان کے لئے برکت کی دعا کرتا ہے۔ ایسے دل والا دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لئے کرتا ہے۔

اللہ کے بندو! اس چیز میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اگر چھوٹے گناہ سے منع کر دیا جائے تو بڑا گناہ تو زیادہ سختی سے منع ہو گا۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے درمیان فساد پیدا کرنے اور انہیں آپس میں لڑانے سے منع کیا ہے۔ اسے امام ابو داؤد اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

تو اگر بے عقل اور غیر مُکَلَّف جانوروں کے متعلق یہ حکم ہے تو بھلا انسانوں کے متعلق کیا حکم ہوگا کہ جنہیں اللہ تعالی نے اپنی بہت سی مخلوقات پر تفضیل بخشی ہے۔

اللہ کے بندو! اتحاد و کو بکھیرنے والے، گھروں کو توڑنے والے، گھرانوں کو ختم کرنے والے، دوستیوں کو پاش پاش کرنے والے، شریکوں کا ساتھ چھڑوانے والے، آقا اور غلام کے درمیان فساد برپا کرنے والے سے بچ کر رہیے۔ یہ شیطان کا وہ حملہ ہے جس سے کوئی نہیں بچ پاتا۔ اسی کی وجہ سے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے والد کی گستاخی کی، اپنے بھائی کو کنویں میں پھینکا اور ان کا والد نابینا ہوا۔ ان نقصانات کی وجہ کو یوسف علیہ السلام نے مختصر انداز میں یوں بیان کیا:

’’آپ لوگوں کو صحرا سے لا کر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا۔‘‘ (یوسف: 100)

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! خوب جان رکھو کہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو فساد بازی کی تمام شکلوں سے پاک رکھے۔ مسلمان کو فساد بازی کا ایندھن نہیں بننا چاہیے، فساد بازی پر زبان یا دل سے راضی بھی نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ راضی ہونے والا برائی کرنے والے جیسا ہی ہوتا ہے۔ سمجھدار وہ ہے جو فساد بازی سے اس طرح دور رہتا ہے جیسے صحت مند انسان منتقل ہونے والی بیماری کے شکار لوگوں سے بھاگتا ہے، جو اپنے دین کی حفاظت کرتا ہے اور جو دین کے فساد سے اور اخلاق کی تباہی سے دور رہتا ہے۔

تاریخ میں یہ بیماری تقریبا ہر معاشرے میں پائی گئی ہے۔ لیکن مختلف معاشرے اس حوالے سے مختلف ہیں۔ کسی میں یہ بیماری بہت زیادہ رہی اور کسی میں بہت کم۔ فساد بازی کی بیماری ایسی بیماری ہے جو اپنے حملوں میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتی جب تک اسے زرخیز زمین نہ مل جائے۔ اس بیماری کے لیے زرخیز ترین زمین وہ معاشرہ ہے کہ جس میں لوگ ہر بات پر کان دھرتے ہوں۔ ہر سنی سنائی بات پر تحقیق کیے یا سوچے سمجھے بغیر ہی کان دھر لیتے ہوں۔

ہر سننے والے کو چاہئے کہ وہ سنی سنائی بات پر اعتبار کرنے سے پہلے تحقیق کر لے۔ کسی خبر کی حقیقت جاننے سے پہلے اس کی بناء پر کوئی فیصلہ نہ کرے۔ ہر سنی سنائی بات پر یقین کرنا بیوقوفی کی علامت ہے اور پہلی مرتبہ سنی ہوئی چیز کو بغیر غور کے مان لینا بھی غفلت کی علامت ہے۔

کسی چیز کو دیکھتے یا سنتے ہی فورًا اس پر یقین نہ کرلیا کرو کیونکہ جب صبح نکلتی ہے تو پہلے صبح کاذب آتی ہے۔

مسلمان افراد اور جماعتوں کی سلامتی کا طریقہ بھی یہی ہے کہ وہ فساد برپا ہونے سے پہلے ہی اس کا راستہ روک دیں، اس کا رستہ مکمل ہونے سے پہلے ہی اسے بند کردیں۔ اس معاملے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اختیار کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

کوئی شخص مجھے میرے صحابہ کے بارے میں کوئی بات نہ بتائے، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جب میں آپ کے پاس آؤں تو میرا دل سب کے لیے صاف ہو۔

اسے امام احمد اور امام ابو داؤد اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

وہ شخص جو آپ کو دوسروں کے متعلق ایسی چیزیں بتاتا ہے جو آپ کو اچھی نہیں لگتیں وہ شخص آپ کا خیر خواہ نہیں ہے۔ عربوں کی کہاوت کا ترجمہ ہے: جو چغل خور کو اپنا مُخبر بنا لیتا ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ جو آپ کو بری چیز کی خبر دیتا ہے وہ آپ کا برا چاہتا ہے۔

اے اللہ! ہمارے نفس کو پاکیزہ کردے۔ اسے پرہیز گار بنا دے۔ تو ہی اسے پاکیزہ کرنے والا ہے اور ہمارے نفس کا پروردگار ہے۔

آمین یا رب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں