تعظیم مکہ معظمہ ۔۔۔۔ احادیث کی روشنی میں

Image result for kaaba

تعظیم مکہ معظمہ ۔۔۔۔ احادیث کی روشنی میں

بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد الامين و على آله وصحبه أجمعين 
أما بعد 

ڈاکٹر طلال بن محمد ابو النور (استاد ام القرٰی یونیورسٹی ۔ مکہ مکرمہ ) ایک مختصر مگر نہایت مفید رسالہ "الاربعون المکیۃ" پیش خدمت ہے۔ اس میں مکہ معظمہ کی فضیلت کے متعلق چالیس احادیث جمع کی گئی ہیں ۔ 

1- حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ "اے اللہ کے رسول! اس زمین پر سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟" تو آپ نے فرمایا "مسجد حرام۔" پھر میں نے سوال کیا کہ "اس کے بعد کون سی مسجد بنی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "مسجد اقصی" پھر میں نے سوال کیا کہ دونوں کے بنانے میں کتنی مدت کا فاصلہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "چالیس سال، اس کے بعد جہاں کہیں بھی نماز کا وقت ہوجائے وہیں نماز پڑھ لو، نماز کی فضیلت وہیں ہے۔ صحیح بخاری

2- حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی ازرق سے گزرتے ہوئے دریافت کیا کہ "یہ کون سی وادی ہے؟" لوگوں نے کہا کہ یہ وادی ازرق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں موسی علیہ السلام کو وادی ازرق کی گھاٹی سے بہ آواز بلند لبیک کہتے ہوئے اترتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرشی کی گھاٹی پر آئے اور دریافت کیا کہ "یہ کون سی گھاٹی ہے؟" لوگوں نے جواب دیا کہ ہرشی کی گھاٹی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں یونس بن متی علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں، آپ سرخ گھونگھریالے بال والی اونٹنی پر سوار اونی جبہ پہنے لبیک پکار رہے ہیں۔ آپ کی اونٹنی کی مہار کھجور کے ریشے کی بنی ہے"۔ صحیح مسلم

3-حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تین مساجد کے علاوہ کسی اور کی طرف کجاوے نہ باندھے جائیں (وہ یہ ہیں) میری مسجد اور مسجد الحرام اور مسجد اقصی۔"(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

4- حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "میری اس مسجد میں نماز کا اجر مسجد حرام کے علاوہ دوسری مسجدوں کی بہ نسبت ایک ہزار درجہ بڑھ کر ہے اور مسجد حرام کی نماز کا اجر دوسری مسجدوں کی بہ نسبت ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے"(مسند احمد، ابن ماجہ، صححہ الالبانی)

5-حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرکے کہا "تو سب سے اچھا اور میرا سب سے محبوب شہر ہے، اگر اہل مکہ نے مجھے تجھ سے نکلنے پر مجبور نہ کیا ہوتا تو میں اور کہیں قیام نہ کرتا(ترمذی، ابن حبان و حاکم)

6- حضرت عبد اللہ بن عدی بن حمراء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حزورہ نامی مقام پر کھڑا دیکھا۔ آپ یہ فرما رہے تھے "اے مکہ، تو اللہ رب العزت کی سب سے بہتر اور محبوب ترین زمین ہے، اور اگر مجھے نکلنے پر مجبور نہ کیا گیا ہوتا تو تجھ سے نہ نکلتا"(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ و حاکم)

7- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تمام لوگوں میں سب سے زیادہ مبغوض تین قسم کے لوگ ہیں۔ حرم محترم میں گناہ کرنے والے، اسلام کی حالت میں جاہلیت کی عادات پر عمل کرنے والے، ناحق قتل کرکے خون بہانے والے"(صحیح بخاری)

8- حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز فرمایا "اب فتح مکہ کے بعد یہاں سے دوسری جگہ ہجرت کی ضرورت نہ ہوگی البتہ جہاد کیلئے نکلنا اور اس کی نیت رکھنا ہمیشہ باقی رہے گا اور جہاد کی دعوت عام دی جائے تو نکل پڑو، کیونکہ یہ شہر ایسا ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کی حرمت کو زمین و آسمان کی پیدائش کے دن ہی لکھ دیا ہے۔ قیامت تک اس کی خاص حرمت رہے گی، مجھ سے پہلے کسی کیلئے کبھی بھی اس میں جنگ کو حلال نہ کیا گیا، اور میرے لئے بھی دن کی صرف مخصوص گھڑیوں میں اسے حلال کیا گیا تھا۔ اب اس کی حرمت اللہ کی طرف سے قیامت تک کیلئے رہے گی۔ اس شہر کا کانٹا تک نہ کاٹا جائے، اور نہ ہی کسی شکار کو خوف زدہ کیا جائے، اس کی گری پڑی چیز صرف جان پہچان کرانے کی نیت سے کوئی اٹھا سکتا ہے، اس کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے۔" حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت دے دیں، کیونکہ گھر بنانے اور لوہاروں کو بھٹی چلانے میں اس کی ضرورت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اذخر گھاس کے کاٹنے کی اجازت دی۔(صحیح بخاری و مسلم)

9۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی کیلئے مکہ میں ہتھیار اٹھانا جائز نہیں۔(صحیح مسلم)

10۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کے علاوہ دنیا کی تمام بستیوں میں دجال داخل ہوگا۔ مدینہ کے تمام راستوں پر فرشتے صف باندھے اس کی حفاظت کررہے ہیں۔ پھر مدینہ میں تین زلزلے آئیں گے اس کے بعد مدینہ سے اللہ تعالی ہر کافر اور منافق کو نکال دیں گے۔(بخاری و مسلم)

11۔  حارث بن مالک بن برصاء کہتے ہیں کہ میں نے فتح مکہ کے دن پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مکہ مکرمہ میں آج کے بعد کبھی جنگ ہوگی، اور نہ کبھی فتح کیا جائے گا۔(ترمذی و امام احمد، اور البانی نے اس کو صحیح کہا ہے)

12.مسور بن مخرمہ اور مروان نے بیان کیا کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے موقع پر نکلے، جب کچھ آگے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خالد بن ولید قریش کا ہراول دستہ لے کر غمیم میں ہیں، تو تم دونوں دائیں طرف کا راستہ لے کر نکلو، اچانک خالد بن ولید (مشہور صحابی رضی اللہ عنہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے مسلمانوں کی فوج سے اڑتے ہوئے گردو غبار کو دیکھ لیا تو بھاگتے ہوئے قریش کو خبر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے چلے اور جب اس گھاٹی پر پہنچے جہاں سے اتر کر قریش تک پہنچنا تھا کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی، لوگوں نے اونٹنی کو اٹھانا چاہا لیکن وہ نہ اٹھی، تو لوگوں نے کہا کہ اونٹنی اڑ گئی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اڑی نہیں اور نہ ہی یہ اس کی عادت ہے، البتہ اسے اس ذات نے روک دیا ہے جس نے اصحاب فیل (یعنی ہاتھی والوں) کو روک دیا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ لوگ کوئی بھی ایسا خیال اور رائے پیش کریں گے جس میں اللہ کی حرمتوں کی تعظیم ہوگی تو میں اسے قبول کرلوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو تیزی سے ڈانٹا تو وہ پھرتی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔بخاری

13. .حضرت عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ اس وقت تک عافیت سے رہیں گے جب تک حرم کے شایان شان اس کی تعظیم کرتے رہیں گے، اور جب اس کی حرمت کو پامال کریں گے تو پھر ہلاک ہوجائیں گے۔(مسند احمد و ابن ماجہ، حافظ ابن حجر نے اسے حسن قرار دیا ہے

14.حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا اور اہل مکہ کیلئے دعائیں کی تھیں، اور میں اسی طرح مدینہ کی حرمت کررہا ہوں۔ اور ابراہیم علیہ السلام نے مکہ والوں کیلئے برکت کی دعا کی ہے میں نے مدینہ کے صاع اور مد میں اس سے دوگنی برکت کی دعا کی ہے۔"(مسلم)

15).حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیت اللہ سے جس قدر فائدہ اٹھا سکو اٹھالو، کیونکہ وہ دو مرتبہ گرایا جاچکا ہے اب تیسری بار اللہ تعالی اسے اٹھا ہی لیں گے۔(بزار، ابن خزیمہ و ابن حبان، صححہ الالبانی)
صحیح بخاری : کتاب الحج میں حدیث ہے کہ قیامت کے نزدیک ایک حبشی کعبے کو گرانے کا سبب بنے گا ـ
باب: هدم الكعبة.

16.حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "قضائے حاجت کے وقت چہرہ یا پیٹھ قبلہ کی طرف نہ کرو (اگر جنوب یا شمال میں ہو تو) مشرق یا مغرب کی طرف چہرہ یا پیٹھ کرلو۔(بخاری و مسلم)

17. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص قضائے حاجت کے وقت چہرہ یا پیٹھ قبلہ کی طرف نہیں کرتا اس کیلئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔(طبرانی، البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)

18.حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "جو شخص قبلہ کی سمت تھوکے گا قیامت کے دن اس کا تھوک اس کی پیشانی پر دونوں آنکھوں کے درمیان رہے گا۔(ابو داود، ابن حبان، البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)

لہذا نماز یا غیر نماز کی حالت میں مسجد یا غیر مسجد میں قبلہ کی طرف منہ کرکے نہ تھوکنا چاہئے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی تاکید کی ہے۔

19. حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیت اللہ میں داخل ہوا تو آپ نے بیٹھ کر اللہ کی حمد و ثنا کی، نیز تکبیر و تہیلیل کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامنے کی دیوار بیت اللہ پر اپنا سینہ مبارک، رخسار اور ہاتھ رکھا اور تکبیر و تہلیل کی دعائیں کیں ۔ اسی طرح بیت اللہ کے چاروں گوشوں پر کیا پھر باہر نکلے، دروازہ پر پہنچ کر قبلہ کی طرف رخ کرکے فرمایا "یہی قبلہ ہے، یہی قبلہ ہے"ابو داود، و صححہ الالبانی)

یہاں پر سامنے کی دیوار سے مراد ملتزم کا حصہ ہے جو کہ حجر اسود اور کعبے کے دروازے کے درمیان کا حصہ ہے ــ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف احرام کی حالت میں کیا تھا ـ کوئی بھی مسلمان احرام کی حالت میں اس طرح کر سکتا ہے ـ کعبے کی دوسری اطراف میں چمٹنا یا بوسہ لینا صحیح نہیں ـ جیسا کہ حجر اسور کی احادیث میں گزر چکا 

20 ."اے عبد مناف کی اولاد! رات اور دن کی کسی گھڑی میں بھی کسی کو طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے نہ روکو۔(ابو داود، نسائی، ترمذی و ابن ماجہ، و صححہ الالبانی

اس لیے علماء کا کہنا ہے کہ مسجد الحرام کی خاص خصوصیت ہے اس میں کوئی ممنوع وقت نہیں دن اور رات کہ کسی حصے میں ، فجر اور عصر کی نماز کے بعد بھی کوئی بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے ۔۔

21۔ عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر حجر اسود اور رکن یمانی پر بھیڑ لگا کر استلام کرتے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ ان دونوں ارکان پر ایسی بھیڑ لگاتے ہیں کہ میں نے آپ کے علاوہ اصحاب رسول کو اس طرح بھیڑ لگاتے نہیں دیکھا ۔ تو آپ نے فرمایا "اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ان دونوں ارکان کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے۔"
میں نے یہ بھی سنا آپ ﷺ نے فرمایاکہ " کہ جو کوئی بیت اللہ کا سات چکر گن کر طواف کرے گا، اس کو ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملے گا۔"
نیز میں نے یہ بھی فرماتے سنا ہے کہ طواف کرنے والے کے ہر قدم پر ایک گناہ معاف کیا جاتا ہے اور اس کے بدلے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ 
(ترمذی، صححہ الالبانی) 

22۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا "بیت اللہ کا طواف نماز کی مانند ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ طواف میں بات چیت مباح ہے لیکن جو شخص بات کرے تو خیر ہی کی بات کرے۔ 
(ترمذی، صححہ الالبانی) 

23- حضرت عبد اللہ بن عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ آپ صرف حجر اسود اور رکن یمانی ہی کا استلام کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں نے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان دونوں ارکان کے چھونے سے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ 
مزید یہ بھی فرمایا کہ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ جس شخص نے سات چکر طواف کیا تو اس کو ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔ 
(نسائی، صححہ الالبانی) 

24۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حجر اسود جنت سے اس حالت میں اترا تھا کہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا لیکن اسے اولاد آدم کے گناہوں نے کالا کردیا۔ 
(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ و احمد، صححہ الالبانی)

25- حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "روز قیامت حجر اسود ضرور آئے گا، اس کی دو آنکھیں ہوں گی، زبان ہوگی، جس کسی نے صدق و سچائی اس کا استلام کیا یہ اس کی گواہی دے گا۔
(ابن ماجہ و احمد، صححہ الالبانی) 

26- حضرت زبیر بن عربی کہتے ہیں کہ کسی نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے حجر اسود کے استلام سے متعلق پوچھا، تو آپ نے فرمایا کہ میں نے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے استلام کرتے اور بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر سخت ازدحام ہو تو کیا کیا جائے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ سوال یمن میں چھوڑو، میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو استلام کرتے اور بوسہ دیتے دیکھا ہے۔ 
(بخاری) 

27- نافع کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ آپ ہاتھ سے حجر اسود کا استلام کرکے ہاتھ کو چوم لیتے تھے، اور آپ نے فرمایا کہ جب سے میں نے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے دیکھا ہے اسے چھوڑا نہیں ہے۔ 
(مسلم)

28- حضرت سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ 
(مسلم و ابوداود) 

29- ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں بیت اللہ شریف کے اندر نماز پڑھنا چاہتی تھی، تو پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے حطیم میں داخل کرکے فرمایا کہ اگر تم بیت اللہ میں داخل ہونا چاہتی ہو تو حطیم میں نماز پڑھ لو، کیونکہ یہ بیت اللہ ہی کا ایک حصہ ہے۔ لیکن تمہاری قوم کے لوگ جب کعبہ شریف کو بنانے لگے تو نفقہ کی کمی کے باعث اتنا حصہ نہ بناسکے اس لئے بیت اللہ سے اس کو خارج کردیا۔ 
(ابو داود، ترمذی) 

31- جعفر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن عباد بن جعفر کو دیکھا کہ انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دے کر اس پر اپنی پیشانی رکھی پھر کہا کہ میں نے تمہارے ماموں عبد اللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) کو دیکھا کہ وہ اس کا بوسہ دیتے اور اس پر پیشانی رکھتے تھے۔ ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو اسی طرح کرتے دیکھا اور انہوں نے کہا کہ میں نے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے دیکھا تو اسی طرح کیا۔ 
(ابن خزیمہ) 
علامہ ابن منذر کہتے ہیں کہ حجر اسود پر پیشانی رکھنے کے 
جواز پر علماء کا اتفاق ہے۔ 

31- حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کے تین چکروں میں حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا (تیز چل کر طواف کیا) اور دو رکعتیں پڑھیں ، پھر حجر اسود کے پاس آئے، پھر زمزم کے پاس جاکر پانی پیا اور سر مبارک پر بھی پانی ڈالا، واپس آکر حجر اسود کا استلام کیا پھر صفا کی طرف گئے اور فرمایا کہ اللہ رب العزت نے جس کا ذکر پہلے کیا ہے میں اسی سے سعی شروع کروں گا (یعنی صفا سے) 
(مسند احمد، اسناد صحیح ہیں) 

32- حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ حجر اسود اور مقام ابراہیم جنت کے قیمتی پتھروں میں سے ہیں، اللہ نے ان کی روشنی کو بجھا دیا ہے ورنہ مشرق اور مغرب کے مابین ان کی روشنی سے روشن ہوتا ۔
(ترمذی، صححہ الالبانی) 

33- حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مکہ میں میرے گھر کی چھت اچانک پھٹی، جبرائیل علیہ السلام اترے اور میرا سینہ چاک کیا، پھر اسے آب زمزم سے دھویا، پھر ایمان و حکمت سے پُر سونے کا طشت لائے اور میرے سینے میں علم و حکمت ڈال کر اسے بند کردیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر معراج پر لے گئے۔ 
(بخاری) 

34- حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے کے قصے میں ذکر کرتے ہیں کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کتنے دنوں سے تم حرم پاک میں ہو، تو میں نے کہا کہ تیس دن اور رات سے، پوچھا کہ تمہیں کھانا کون کھلاتا تھا؟، میں نے کہا کہ اس پوری مدت میں میرا کھانا اور پینا صرف زمزم کا پانی تھا، میں موٹا ہوگیا یہاں تک کہ میرے پیٹ میں بل پڑگئے اور میں نے بھوک کا اثر تک محسوس نہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمزم کا پانی برکت والا اور کھانا بھی ہے۔ 
(مسلم)

35- ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا زمزم مکہ سے اٹھا کر لے جاتیں اور بیان کرتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے اٹھا کر لے جاتے ۔
(ترمذی، صححہ الالبانی) 

36- ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین پر سب سے افضل پانی زمزم کا ہے۔ یہ کھانے کا بدیل اور امراض کیلئے شفا بھی ہے۔ 
(طبرانی، البانی نے اسے صحیح کہا ہے) 


37- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے فحش گوئی اور فسق و فجور سے اجتناب کرتے ہوئے حج کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ ابھی ماں کے پیٹ سے نکلا ہو ۔
(بخاری و مسلم) 

38. عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ حج اور عمرہ کیا کرو اس طرح وہ غربت اور گناہوں کو دور کرنے کا سبب بنتے ہیں جیسے آگ کی بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے زنگ کو دور کردیتی ہے، گناہوں سے پاک حج کا اجر جنت ہی ہے۔ 
(ترمذی، نسائی و ابن ماجہ، صححہ الالبانی) 

39- عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور حج و عمرہ کرنے والے اللہ رب العزت کے مہمان ہیں، اللہ نے ان کو بلایا اور اس پر انہوں نے حاضری دی، اللہ سے طلب کیا تو اللہ نے ان کو عطا فرمایا۔ 
(ابن ماجہ، حسنہ الالبانی) 

40. عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ "اسلام غربت اور کمزوری کی حالت میں شروع ہوا تھا اور پھر اسی طرح غربت میں لوٹ جائے اور مکہ اور مدینہ میں سمٹ کر اس طرح رہ جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں سمٹ کر بیٹھ جاتا ہے۔ 
(مسلم)

کمپوزنگ و پروف ریڈنگ :: عُکاشہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں