عنوان: سکینت اور اطمینان
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب
جمعۃ المبارک 20 رجب 1439 ھ بمطابق 6 اپریل 2018
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: کتاب حکمت
الحمد للہ ہر طرح کی حمد و ثناء اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔ وہی حقیقی بادشاہ ہے اور وہی عزت اور طاقت والا ہے۔ دنیا اور آخرت میں اسی کے لیے ساری تعریف ہے اور ہم سب نے اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں وہی فتنوں کے طوفانوں میں اپنے اولیاء کو ثابت قدمی نصیب فرما تا ہے اور وہی انہیں ہلاک کر دینے والی مصیبتوں سے نجات دیتا ہے۔ وہی بہترین ناموں اور اعلی صفات کا مالک ہے۔ کوئی اس کی صحیح تعریف بیان نہیں کر سکتا۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور منتخب رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کے پاکیزہ گھر والوں پر، نیک اور قابل احترام صحابہ کرام پر تابعین پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔
اے مسلمانو!
ہر قوم میں ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں کہ جن پر انکی قوم فخر کرتی ہے اور جن کی سیرت اور حالات زندگی کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہے۔ وہ انہیں اخلاق عالیہ، فضائل اور بہترین خصائل کا مالک اور اعلی ترین انسانی اقدارکا شاندار نمونہ سمجھتی ہے۔ لوگوں میں بھی جواہرات کی طرح کم اور زیادہ قیمتی جوہر ہوتے ہیں۔ کہیں تو ایک ہزار آدمی ایک شخص برابر ہوتا ہے اور کہیں ایک شخص ایک ہزار کے برابر ہو جاتا ہے۔
کچھ لوگ تو اپنے ایمان، سچائی اور اخلاق کی بدولت پوری ایک قوم کے برابر ہوجاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حقیقی معنوں میں مسلمانوں کے امام اور اہل ایمان کے قائد تھے۔ غار ثور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکیلے ساتھی تھے۔ وفات کے بعد انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب دفنایا گیا۔ آپ کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور مسلمانوں کے دل آپ کی محبت سے بھرے ہیں۔ امت اسلامیہ میں آپ کا مرتبہ انتہائی بلند ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین ساتھی تھے اور سب سے بڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والے تھے۔ آپ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی:
’’اور اُس سے دور رکھا جائیگا وہ نہایت پرہیزگار۔ جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے۔ اُس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اُسے دینا ہو۔ وہ تو صرف اپنے رب برتر کی رضا جوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے۔ اور ضرور وہ (اُس سے) خوش ہوگا۔‘‘ (اللیل: 17۔ 21)
عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: اگر سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان کو ساری دنیا والوں کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ ہو تعال عنہ کا ایمان زیادہ ثابت ہو۔
انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ پر یقین کر لیا تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ان کے دل پر سکینت نازل ہوگی، وہ سکینت ان کے چہرے پر نظر آنے لگی اور وہ اپنے کی قابل تعریف مواقف اور قابل رشک دنوں سے پہچانے جاتے ہیں۔
واقعہ اسراء اور معراج کے حوالے سے امام احمد رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
شب معراج کے بعد جب میں صبح اٹھا تو میں اپنے معاملے سے خاصا پریشان ہوگیا اور مجھے یقین ہوگیا کہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے۔ اسی سوچ میں پریشان بیٹھے تھے کہ اللہ کا دشمن ابوجہل وہاں سے گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اور مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگا: کیا کوئی نیا معاملہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ اس نے پوچھا وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رات مجھے لے جایا گیا تھا۔ اس نے پوچھا، کہاں؟ آپ نے فرمایا: بیت المقدس لے جایا گیا تھا۔ اس نے کہا: اچھا اور صبح تک آپ واپس ہمارے درمیان پہنچ گئے تھے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ یہ سن کر ابو جہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا نہ کہا تاکہ وہ لوگوں کو اکٹھا کرے اور ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی بات کروائے- چنانچہ اس نے پوچھا: اگر میں ساری قوم کو بلا لوں تو کیا آپ انہیں بھی یہی بات کہیں گے جو آپ نے مجھے کہی ہے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ پھر اس نے لوگوں کو بلایا اور کہا اے بنی کعب بن لوی کے لوگو! ادھر آ جاؤ! تو لوگ اپنی مجلسوں سے اٹھ گئی ان دونوں کے پاس آکر بیٹھ گئے۔ جب لوگ اکٹھے ہو گئے ابو جہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ ساری قوم کو وہ بات بتائیے جو آپ نے مجھے بتائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گزشتہ رات مجھے بڑی تیزی سے ایک سفر کرایا گیا تھا۔ لوگوں نے پوچھا: کہاں کا؟ آپ نے فرمایا: بیت المقدس کا۔ ان لوگوں نے کہا: اور صبح ہونے سے پہلے آپ ہمارے درمیان پہنچ گئے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ یہ بات سن کر لوگوں نے آپ کو جھٹلایا اور کوئی مذاق میں تالیاں مارنے لگا اور کسی نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لیا۔
پھر لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ مسجد اقصیٰ کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں؟ حاضرین میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو پہلے مسجد اقصیٰ کو دیکھ چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے مسجد کا نقشہ کھینچنا شروع کیا اور بیان کرتا گیا یہاں تک کہ اس کی کچھ چیزیں مجھے بھولنے لگیں۔ جب ایسا ہوا تو میرے لئے مسجد اقصیٰ کو قریب کر دیا گیا یہاں تک کہ اسے دار عقیل سے بھی قریب رکھ دیا گیا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کا نقشہ بیان کرتا گیا۔ لوگوں نے کہا: جہاں تک نقشہ کھینچنے کی بات ہے تو یہ تو آپ نے بالکل صحیح بیان کردیا ہے۔
مشرکین اور جھٹلانے والوں کا تو یہ حال تھا اور ان کے ساتھ بعض سچے مسلمانوں کے دل بھی ڈگمگانے لگے تھے۔
مگر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی ہے تو انہوں نے سچ کہا ہے۔ آپ کو اس میں کیا عجیب لگتا ہے؟ وہ تو بتاتے ہیں کہ دن یا رات کے کسی بھی حصے میں آسمان سے زمین تک وحی نازل ہو جاتی ہے۔ تو اللہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی ہوجائے اور انہیں راضی کر دے۔
اسی طرح ہجرت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار میں پناہ لیتے ہیں۔ مشرکین مکہ انہیں تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور ان کا پتا بتانے پر بڑے بڑے انعام تجویز کر رہے ہوتے ہیں، تاکہ انہیں پکڑ کر قتل کر دیا جائے۔ وہ ڈھونڈتے ہوئے جبل ثور پر پہنچ جاتے ہیں یہاں تک کہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہنے لگتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول! اس وقت اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف دیکھے تو ہم اسے صاف نظر آ جائیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو بکر! تمہارا ایسے دو لوگوں کے متعلق کیا گمان ہے کہ جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ خود ہو؟ اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کو قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے:
’’تم نے اگر نبیؐ کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں، اللہ اُس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنی ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ “غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے” اُس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے۔‘‘ (التوبۃ: 40)
سکینت اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جسے وہ شدید مشکلات اور دل دہلا دینے والی پریشانیوں کے وقت اپنے بندوں پر نازل فرما دیتا ہے۔ سکینت انسان کے دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی پہچان، اس کے سچے وعدے پر یقین، ایمان اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے قرب کے مطابق ہی نازل ہوتی ہے۔
صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سکینت، یقین اور ثابت قدمی کی ایک شاندار مثال صلح حدیبیہ کی بھی ہے۔
اس بابرکت شخص کے دل میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتنی سکیت رکھی تھی کہ اس کا اثر اس کی زبان پر بھی نظر آتا تھا اور اس کے دوسرے اعضاء پر بھی واضح دکھائی دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی ہوجائے اور انہیں راضی کر دے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ثابت قدمی ایک شاندار مثال ہے۔
ابن رجب علیہ رحمۃ اللہ بیان کرتے کے صحابہ میں کچھ لوگ تو ایسے تھے کہ جو صدمہ برداشت نہ کرسکے اور ان کے دماغ پر اثر ہو گیا، کچھ بیٹھے اٹھ نہ سکے، کچھ کی زبان رک گئی اور وہ کوئی لفظ نہ بول سکے۔ کچھ صحابہ کرام نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا سرے سے انکار ہی کر دیا۔
مگر ایک شخص تھا جس کے اوپر سکینت طاری تھی، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غار کا ساتھی تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سنح کے مقام سے اپنے گھوڑے پر آائے۔ گھوڑے سے اترے، مسجد میں داخل ہوئے، کسی سے کوئی بات نہ کی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، ان پر چادر پڑی تھی۔ اپ نے چادر ہٹائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چومنے لگے اور آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! زندگی اور موت میں آپ کو پاکیزگی نصیب ہو۔ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو دو مرتبہ موت نہیں دے گا۔ جو موت آپ پر لکھی گئی تھی وہ آپ نے دیکھ لی ہے۔
پھر آپ باہر آئے تو دیکھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ خدا کی قسم! اللہ کے رسول فوت نہیں ہوئے۔ عنقریب اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں زندہ کردے گا اور وہ اکر ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں خاموش ہونے کو کہا مگر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیٹھنے سے انکار کردیا۔ لوگ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو گئے تو آپ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر کہا:
بعد ازاں! تم میں سے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں اور جو اللہ تعالی کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ زندہ ہے اور وہ کبھی نہ مرے گا، پھر آپ نے قرآن کریم کی ان آیات کی تلاوت کی:
’’(اے نبیؐ) تمہیں بھی مرنا ہے اور اِن لوگوں کو بھی مرنا ہے۔‘‘ (الزمر: 30)
’’محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا۔‘‘ (آل عمران: 144)
جب ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی تو لوگوں کو یوں لگا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے۔ جو جو اسے سنتا، وہ وہ اس کی تلاوت کرنے لگتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب میں نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ منہ سے یہ آیت سنی تو میری ٹانگوں میں جان نہ رہی اور میں زمین پر بیٹھ گیا، کیونکہ اس آیت کو سننے کے بعد مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں نہیں رہے۔۔
اللہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی ہو جائے اور انہیں راضی کر دے۔
بعد ازاں! اے مسلمانو!
سکینت اور اطمینان دو نعمتیں ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر نازل فرماتا ہے۔ ان کی بدولت اللہ کے بندے مصیبتوں اور آزمائشوں سے پریشان نہیں ہوتے، کیونکہ ان کے دلوں میں سچا ایمان اور پختہ یقین ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے پیروکار ہوتے ہیں- ان کے ایمان اور اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں مزید ثابت قدمی عطا فرما دیتا ہے۔
ابن قیم علیہ رحمۃ اللہ بیان کرتے ہیں: جب دل پر سکینت نازل ہوتی ہے تو دل کو اور دیگر اعضاء کو سکون نصیب ہو جاتا ہے۔ ان کے اندر خشوع وخضوع اور وقار پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر زبان بھی بڑی حکمت اور وقار سے بولتی ہے اور ہر باطل سے رک جاتی ہے۔
اطمینان کی بدولت انسان کا ایمان، ثابت قدمی، یقین، قناعت، رضامندی، بصیرت، ہدایت، تقوی اور اخلاق بہتر ہو جاتے ہیں۔ پھر انسان کے اندر خشوع و خضوع اور احکام الٰہی کی پیروی آ جاتی ہے۔ اسی طرح انسان اضطراب، انحراف، اور جھکاؤ سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
دنیا میں بیماریوں، فقر و فاقہ، مشکلات اور مختلف مصیبتوں کے شکار لوگ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کے وعدے اور ثواب پر یقین کر لیں اور صبر وتحمل سے آزمائشوں کا مقابلہ کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ انہیں سکینت اور اطمینان عطا فرما دیتا ہے۔ سکینت اور اطمینان کی بدولت ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ گویا کہ وہ جزا اور سزا کو خود دیکھ رہے ہیں۔ پھر ان کا دل مطمئن ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ کی تقدیر پر راضی ہو جاتے ہیں۔ مصیبت اس وقت بڑی لگتی ہے جب انسان اس کی وجہ سے ملنے والے اجر کو سامنے نہ رکھے۔
اطمینان پانے کے لئے سب سے لازمی چیز اللہ تبارک و تعالیٰ پر ایمان ہے۔ اگر یہ دل میں ہو تو انسان کو سکینت مل ہی جاتی ہے۔ اہل ایمان اپنے ایمان کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ کسی کا ایمان بہت بلند ہوتا ہے اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت میں بہت آگے ہوتا ہے اور اپنے ہر معاملے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:
’’ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی۔‘‘ (الفتح: 18)
اللہ تعالی کے ساتھ اچھا تعلق رکھنا، اس کے سامنے جھک جانا اور ہمیشہ اس کے سامنے خشوع اور خضوع اپنانا سکون اور اطمینان حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئی پریشانی آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق بحال کرتے۔ فرمان الہی ہے:
’’صبر اور نماز سے مدد لو۔‘‘ (البقرہ: 45)
اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف رجوع کیجئے۔ اللہ کا فرمان ہے:
’’تو دوڑو اللہ کی طرف۔‘‘ (الذاریات: 50)
اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’(اے نبیؐ) کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے؟‘‘ (الزمر: 36)
اللہ تبارک وتعالی کی حمایت اور حفاظت بھی انسان کی عبادت کے مطابق ہوتی ہے۔ جتنا انسان عبادت گزار ہو گا، اللہ کی حمایت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
ذکر اور قرآن کریم کی تلاوت سکینت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔‘‘ (الرعد: 28)
دعا، دعا اور دعا! ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر غار میں، جنگ بدر میں، صلح حدیبیہ کے وقت اور بہت سے دیگر موقعوں پر سکینت نازل ہوئی۔ پھر بھی وہ کثرت سے اپنی نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے کہ
’’پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستہ پر لگا چکا ہے، تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیو۔‘‘(آل عمران: 8)
سکینت اپنانے کوشش کرو! سکینت والے لوگ مختلف خبروں کی وجہ سے طیش میں نہیں آتے، جلد بازی نہیں کرتے، پریشان نہیں ہوتے اور دشمن انہیں کمزور نہیں کرتے۔ وہ ہمیشہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نصرت پر یقین رکھتے ہیں چاہے کفر کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو جائے۔ کیونکہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ آیت پڑھتے ہیں۔ فرمایا:
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اِس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔‘‘ (الفتح 28)
جب جاھل گمراہ ہوجاتے ہیں، اور وہ اپنے جھوٹے خداؤں کی حمایت کرنے لگتے ہیں یا وہ دیگر جاہلیت کے کام کرنے لگتے ہیں تو سکینت والے تقوی پر قائم رہتے ہیں۔ تحمل مزاجی سے گفتگو کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں سکینت ہمیشہ موجود رہتی ہے۔
سکینت والے لوگ ہمیشہ عافیت اور سکون واطمینان میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کو بھی مطمئن کرتے رہتے ہیں۔
اے اہل ایمان!
سکینت اور اطمینان اللہ کی عطا اور تحفہ ہیں۔ اللہ کے سوا انہیں کوئی نازل نہیں کر سکتا۔ فرمان الٰہی ہے:
’’وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ وہ ایک ایمان اور بڑھا لیں زمین اور آسمانوں کے سب لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم و حکیم ہے۔‘‘ (الفتح: 4)
فتنوں اور آزمائشوں کے دور میں سکینت کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے اسباب اپنائیے اور عزت اور حکمت والے سے سکینت اور اطمینان کا سوال کرتے رہیے۔
’’اے ہمارے رب! ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو کچھ تجاوز ہو گیا ہو اُسے معاف کر دے، ہمارے قدم جما دے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر۔‘‘ (آل عمران: 147)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں