خطبہ مسجد الحرام : سلف صالحین کا منہج و عقیدہ ۔۔۔۔ 13 ستمبر 2019

Image

خطبہ مسجد الحرام : سلف صالحین کا منہج و عقیدہ (اقتباس)
14 محرم الحرام 1441ھ بمطابق 13 ستمبر 2019
امام و خطیب: معالی الشیخ عبدالرحمن السدیس (حفظہ اللہ تعالی)
مترجم: فرہاد احمد سالم


تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں جو اپنی ذات و صفات اور جمال میں پاک نیز عظمت اور جلال میں بلند ہے ، اللہ تعالی ہی کے لئے کثرت سے پاکیزہ اور بابرکت حمد ہے ، اے ہمارے مولی تیرے لئے ہی حمد اور تجھ ہی پر بھروسہ ہے ،نیز تیرے لئے ہی سب سے بلند ، پاک اور افضل حمد ہے اور تیرے لئے ہی شکر و ثناء ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، یہ ایسی گواہی ہے کہ جس کو دل فرمانبرداری سے قبول کرتے ہیں۔

اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی تعظیم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہیں، اللہ تعالی آپ پر ،آپ کی دائمی فضل والی آل اور بہادری سے دین کا دفاع کرنے والے طاقتور صحابہ پر درود و سلام نازل فرمائے، نیز تابعین اور درست طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں پر بھی کثرت سے برکت اور سلامتی نازل ہو جب تک کہ سورج اور چاند کی گردش جاری رہے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو تقوی الہی اختیار کرو! جان لو تقوی اللہ کی خشیت کے لئے دلوں کا نور اور روشنی ہے ،نیز اس کی محبت کا راستہ اور زینہ ، اور اس کے خوف کی دلیل ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ} [الحشر: 18]
 اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کر رہے ہو۔

مسلم اقوام!

میڈیا کی حیران کن عالمی ترقی جو مختلف چینلز، ٹیکنالوجیز، اور ایجادات و مخترعات کی بدولت رونما ہوئی ہے ،تو ایسے وقت میں ہر عقلمند و زیرک اور ماہر و سمجھدار انسان کے لیے صاف اور روشن منہج کا ہونا بہت ضروری ہے کہ جس کے ذریعے وہ سیدھے راستے کی رہنمائ حاصل کرے اور تاکہ وہ غلط منہج سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہوئے درست راستے کا انتخاب کر سکے اور اللہ رب العالمین کی طرف جانے والے راستوں کا راہ رو بن سکے۔

اور یہ سب کچھ صرف اور صرف پختہ ایمان اور سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عقیدہ کی طرح صحیح سند سے ثابت و منقول عقیدہ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

صحیحین میں عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میر ی امت میں سے بہترین اس دور کے لوگ ہیں جو میرے ساتھ ہیں(صحابہ)،پھر وہ ہیں جو ان کےساتھ(کے دور میں) ہوں گے(تابعین) ،پھر وہ جوان کے ساتھ(کے دور میں)ہوں گے(تبع تابعین)

عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں : جس کو کسی کی سنت اختیار کرنی ہو تو وہ فوت شدہ لوگوں کی سنت اختیار کرے اس لئے کہ زندہ لوگ فتنوں سے مخفوظ نہیں ہوتے ،وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں جو سب سے زیادہ پاکیزہ دل ، سب سے زیادہ نیک، علم میں سب سے گہرے اور سب سے کم تکلف برتنے والے تھے ، وہ ایسی قوم تھے جن کو اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت دی اور دین کو قائم کرنے کے لئے چنا تھا ۔

امام مالک سے صحیح سند سے ثابت ہے انہوں نے فرمایا: اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح بھی اسی سے ہو گی جس سے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی تھی ۔

مسلمانو! سلف صالحین کے پاک عقیدے کے نشانات میں سب سے پہلا نشان اللہ کے لئے توحید خالص کا اہتمام ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ } [الزمر: 3] 
خبردار! خالص دین صرف اللہ ہی کا حق ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
 إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى،
اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملے گا۔

اللہ تعالی کی توحید میں ، توحید ربوبیت ، توحید الوہیت، اور توحید اسماء و صفات شامل ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
 { وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ } [الأعراف: 180] 
اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں، انھیں جلد ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔

باوجود اس کے کہ توحید کا روشن مقام ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی بطور خاص حفاظت ، اس پر عمل ، اس کی شرائط اور تقاضوں کو پورا کرنا پوری زندگی کا عظیم ترین مقصد شمار کیا جاتا ہے ، اس لئے کہ وجود و عدم کے اعتبار سے روشن شریعت کا عظیم ترین مقصد دین کی حفاظت ، امن کا قیام اور ہر قسم کی مخالفت اور شرک و بدعات سے عقیدے کی حفاظت ہے ۔

بندوں پر سب سے پہلی ذمہ داری رحمن کی اس کی توحید کے ساتھ معرفت ہے ۔ اور وہ یہ کہ وہ خلق و ارادہ میں منفرد ہے نیز وہ حاکم ہے اور اپنے ارادے میں جلالت و شان والا ہے ۔

سلف کے عقیدے کے ارکان میں اللہ پر ، اس کے فرشتوں ، اس کے رسولوں ، اس کی کتابوں ، آخرت کے دن پر اور تقدیر کے اچھے اور برے ہونے پر ایمان لانا شامل ہے ۔

اور ایمان باللہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر اس چیز پر ایمان رکھا جائے جس کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب(قرآن مجید )میں خود بیان فرمایا ،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث مبارکہ میں واضح فرمایا بغیر تحریف(تبدیلی کرنے )،تعطیل(فضول قرار دینے )،تکییف(کیفیت بیان کرنے)اور تمثیل(مثال دینے ) کے، بلکہ سلف صالحین اس بات پر پختہ ایمان رکھتے تھے }لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ} اللہ سبحانہ جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔

وہ اللہ جل جلالہ بابرکت ہے ، وہ بڑا سخی، کریم اور کامل ہے ، اس کی مثال نہیں بیان کی جا سکتی ، اس کی ذات کی شوکت اوصاف سے بالاتر ہے ، وہ بلند اور کامل ترین ہے ۔

یقینا ً سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاں ایمان قول اور عمل دونوں کا نام ہے۔ زبان سے اقرار، ارکان پہ عمل اور دل سے تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے ۔ جو اطاعت کرنے کی وجہ سے بڑھتا اور نافرمانیوں کی وجہ سے کم ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرما ن ہے :
 { وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ } [البينة: 5]

اور انہیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

ایمان کے ستر سے اوپر شعبے (اجزاء) ہیں ۔ سب سے افضل جز لااله الا الله کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا کسی اذیت (دینے والی چیز) کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک ہے ۔

اس حدیث میں قول و فعل دونوں کو ایمان شمار کیا گیا ہے۔

مسلمانوں صحیح سلف کا عقیدہ افراط و تفریط اور غلو سے ہٹ کر میانہ روی پر قائم ہے۔
{وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا} [البقرة: 143] 
اور اسی طرح ہم نے تمھیں سب سے بہتر امت بنایا۔

سلف صالحین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عقیدہ افراط و تفریط (حد سے زیادہ کمی وبیشی )جیسی خرابی سے پاک اور متوسط تھا۔ وہ اللہ تعالی کی صفات اور وعید و عذاب، ایمان و دین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں متوسط عقیدہ کے حامل تھے۔

اے وہ آدمی جو حساب کے دن ،جہنم اور بھڑکتی آگ سے اپنی نجات چاہتا ہے
اقوال و اعمال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر اور قرآن سے باہر نہ نکل اور صحیحین کو پکڑ لے جو کہ دین و ایمان کے قیمتی ہار کا جوڑ ہیں۔

اور اللہ تعالی نے متشا بہ آیات کی تاویل کرنے والے لوگوں کی مذمت میں فرمایا:
{فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ} [آل عمران: 7] 
پھر جن لوگوں کے دلوں میں تو کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں، فتنے کی تلاش کے لیے اور ان کی اصل مراد کی تلاش کے لیے، حالانکہ ان کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ۔

چنانچہ اللہ تعالی نے تاویل کی جستجو کو کج روی کی علامت قرار دیا اور اس کی مذمت میں اسے فتنہ کی تلاش سے جوڑا ، پھر ان تاویل کرنے والوں کو ان کی امید سے روک دیا اور ان کی چاہت کو ان سے الگ کر دیا ۔

امت مسلمہ !

امامت اور جماعت کے بارے میں سلف صالحین کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ جماعت اور امامت کو لازم پکڑتے ہیں ۔ اور دین سے نکل جانے والے خوارج کے بر خلاف سمع و اطاعت کے ساتھ ان کی فرمانبرداری کو قبول کرتے ہیں۔


امام طحاوی (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں :کہ ہم جماعت کو حق اور درست سمجھتے ہیں اور اس سے علیحدگی کو گمراہی اور عذاب۔ آپ (رحمہ اللہ تعالی) یہ بھی فرماتے ہیں: ہم اپنے سربراہوں اور حکمرانوں پر خروج کو جائز نہیں سمجھتے اگرچہ کہ وہ ظلم کریں، نہ ہم ان کے لیے بد دعا کرتے ہیں اور نہ ان کی فرمانبرداری سے ہاتھ کھینچتے ہیں۔ اس لیے کے ان کی اطاعت بطور فریضہ اللہ کی اطاعت میں سے ہے۔ جب تک ہمیں معصیت کا حکم نہ دیں نیز ہم ان کے لیے درستگی اور عافیت کی دعا کرتے ہیں ۔

آج کل سوشل میڈیا پر علماء پر طعن زنی کا بڑا فتنہ کس قدر بڑھ گیا ہے ، جس میں بڑے معتبر اور قدوۃ علماء کے خلاف باتیں کی جاتیں ہیں تاکہ ان کی شان کم کی جا سکے ، اس موقع پر مسلمانوں کو اس خطرناک راہ کی سنگینی کو سمجھنا اور اس سے بچنا ضروری ہے ۔

سلف صالحین (رحمہم اللہ تعالی) کے روشن عقیدے میں سے عقیدہ و منہج کی بنیاد پر اخوت بھی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ } [الحجرات: 10]
 مومن تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

دلوں اور جذبات کا جڑنا اور اہداف و مناہج کا متحد ہونا اسلام کی مؤثر ترین تعلیمات اور مخلص مسلمانوں کی لازم ترین صفات میں سے ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً} [الأنبياء: 92]
 بے شک یہ ہے تمھاری امت جو ایک ہی امت ہے۔

 اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا} [آل عمران: 103] 
اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہوجاؤ۔

مسلمانوں کے دل مسلمانوں کے لیے پاک اور صاف ہوتے ہیں ۔

{وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} [الحشر: 10] 
اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے، اے ہمارے رب ! یقینا تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

پس دین میں نہ گروہ بندی ہے اور نہ مسلک پرستی ، نہ فرقہ بندی، نہ عصبیت اور نہ نسل پرستی، بلکہ اتفاق سے دین کو مضبوطی سے پکڑنے ،تفرقہ کو چھوڑنے رحمت ، نرمی کے اظہار، تشدد اور باہمی لڑائی کو ترک کرنے کی دعوت ہے۔ اسی طرح گفتگو اور ہم آہنگی کو مضبوط کرنے، جھگڑے اور تصادم سے دور ہونے کی دعوت ہے۔

یہ ہمارے سلف صالح کا اجمالی عقیدہ ہے، اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت کرے اور ان سے راضی ہو۔

اے آدمی! جو اپنی نجات چاہتا ہے ،اس خیر خواہ کی بات کو غور سے سن۔

اپنے تمام امور میں وحی کو مضبوطی سے تھام نہ کہ لوگوں کی الٹی سیدھی باتوں کو ۔

اللہ کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کر۔

حقیقی مسلمان کا شعار حقیقی شریعت ہی ہے اور میرے لئے ہی یہ حقیقی مذہب ہے ۔

اور جب تم عزم کر لیا اور جان لیا تو سلف صالحین کے اس منہج کو مضبوط پکڑ لو۔

اور یاد رکھو ہر بھلائی سلف کی پیروی میں اور ہر برائی نئی چیزوں کی ایجاد میں ہے ۔

ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں صحیح عقیدے پر زندہ رکھے واضح ترین منہج پر موت دے، بلاشبہ وہ جواد اور کریم ہے۔





تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

خطبہ مسجد الحرام : سلف صالحین کا منہج و عقیدہ (اقتباس) 14 محرم الحرام 1441ھ بمطابق 13 ستمبر 2019 امام و خطیب: معالی الشیخ عبدال...

خطبہ مسجد الحرام: امن کی نعمت اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری ۔۔۔۔۔۔ 20 ستمبر 2019

Image

خطبہ مسجد الحرام: امن کی نعمت اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری (اقتباس)
 جمعۃ المبارک 20 محرم 1441ھ بمطابق 20 ستمبر 2019ء​
 امام وخطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی
ترجمہ: محمد عاطف الیاس


ہر طرح کی حمد وثنا اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے۔ ہم اللہ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں، اسی پر بھروسہ اور اعتماد کرتے ہیں اور اسی سے معافی مانگتے ہیں۔ اپنے نفس کے شر سے اور اپنے برے اعمال سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرما دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، اہل بیت پر اور صحابہ کرام پر، اے اللہ! ان سب پر سلامتی بھی نازل فرما!
﴿اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو﴾ [آل عمران: 102]


(لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے) [النساء: 1]

(اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو (70) اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی) [الاحزاب: 71]۔

بعدازاں!
اللہ کے جو حسین نام قرآن کریم میں آئے ہیں، ان میں سے ایک نام: المومن بھی ہے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے:
(وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، (حقیقی) بادشاہ ہے، ہر عیب سے پاک ہے، ہر نقص سے سالم (اور سلامتی دینے والا) ہے، امن و امان دینے والا (اور معجزات کے ذریعے رسولوں کی تصدیق فرمانے والا) ہے، محافظ و نگہبان ہے، غلبہ و عزّت والا ہے، زبردست عظمت والا ہے، سلطنت و کبریائی والا ہے، اللہ ہر اُس چیز سے پاک ہے جسے وہ اُس کا شریک ٹھہراتے ہیں) [الحشر: 23]۔

لفظ مومن کے معانی میں امن وامان کا معنیٰ بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا میں امن واطمینان فراہم کرتا ہے اور انہیں مانوس رکھنے والا سامان مہیا کرتا ہے، اسے اہل ایمان اس وقت محسوس کرتے ہیں جب وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی توحید کا اقرار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے بندوں کے لیے ان تمام چیزوں کا بندوبست کرتا ہے جو موت کے وقت تک ان کی زندگی کی ضامن ہوتی ہیں۔ ان کا رزق مہیا کرتا ہے اور انہیں ہلاکت سے محفوظ رکھتا ہے۔

اللہ کے بندو!
اچھی زندگی کی بنیادی ضروریات میں امن وامان کی ضرورت شامل ہے۔ بھلا انسان ایسی صورت میں کس طرح جی سکتا ہے کہ امن وسلامتی ہی سے محروم ہو؟ اگر امن وامان ہی نہ ہو تو اس کی زندگی بھلا اچھی گزر سکتی ہے؟ امن ہر معاشرے کی ضرورت ہے، کیونکہ اسی سے فتنوں، برائیوں اور آفتوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ اسی سے اطمینان، سکون، عیش اور ترقی نصیب ہوتی ہے۔ یہ موجود ہو تو ہی لوگوں کے کام ہوتے ہیں، ان کی جانیں محفوظ رہتی ہیں، عزتیں اور مال بے خطر رہتے ہیں، راستے پر امن ہو جاتے ہیں، اور سزائیں قائم ہوتی ہیں۔ جبکہ اس کی غیر موجودگی میں حقوق ضائع ہو جاتے ہیں، کام رہ جاتے ہیں، انارکی پھیل جاتی ہے، طاقتور ضعیفوں پر مسلط ہو جاتے ہیں، لوٹ مار عام ہو جاتی ہے، خون ریزی اور عزتوں کی بے حرمتی ہر جگہ نظر آنے لگتی ہے او ر اس کے ساتھ بد امنی کے تمام اثرات نظر آنے لگتے ہیں۔

امن ایک عظیم نعمت ہے، ایک شان دار عطا ہے۔ اس کی قیمت وہی جانتا ہے جس نے اس سے محرومی کا مزہ چکھا ہو، اس سے محرومی کی آگ میں جلا ہو۔ جس نے خوف اور پریشانی کا عالم دیکھا ہو، بد حواسی اور شدید بدنظمی کا سما‎ں دیکھا ہو، انارکی، بے گھری اور ناکامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ ایسے حالات میں کتنے کمزور اپنے گھروں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، کتنے بے گھر اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں، کتنے مصیبت زدوں کو کوئی ٹھکانا بھی نہیں مل پاتا، اطمینان اور سکون کا سانس ملنا تو دور کی بات ہے۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! آج کی دنیا میں بد امنی کی مثالوں پر غور کرو، دیکھو کہ کتنے لوگوں کو شدید فتنوں، کچل دینے والی جنگوں، خوف وہراس، بھوک پیاس، لوٹ مار، انارکی اور ظالمانہ تشدد کا سامنا ہے۔

اللہ کے بندو!
انسان کی زندگی میں امن انتہائی ضروری چیز ہے۔ انسان خود بھی فطری طور پر امن کا طالب ہوتا ہے اور خطروں اور ڈر کے اسباب سے دور رہنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ چونکہ اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اور اس کا مقام بہت بلند ہے، تو خلیل اللہ ابراہیم نے اہل مکہ کے لیے اسی کی دعا فرمائی۔ فرمایا:
(اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے) [البقرۃ: 126]۔

یہاں ابراہیم نے رزق سے بھی پہلے امن کی دعا کی، کیونکہ امن انتہائی ضروری چیز ہے، اور اگر لوگ خوف میں مبتلا ہوں تو رزق کا کوئی مزا نہیں رہتا۔ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ایک طرف امن اور اچھی زندگی کا ایک ساتھ ذکر ہوا ہے، جبکہ دوسری طرف خوف اور بھوک کا ایک ساتھ ذکر ہوا ہے۔ جب قریش نے نبی کی بات نہ ماننے پر عذر پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے تعجب کرتے ہوئے فرمایا:
(کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پرامن حرم کو ان کے لیے جائے قیام بنا دیا جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھنچے چلے آتے ہیں، ہماری طرف سے رزق کے طور پر؟ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں) [القصص: 57]۔

چونکہ امن انتہائی اہم چیز ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کے حالیہ خوف کی جگہ انہیں امن اور اطمینان عطا کرے گا، ذہنی سکون فراہم کرے گا، ہر حالت میں سکون نازل فرمائے گا۔ لیکن یہ سب اس شرط پر کہ وہ اس کی اطاعت پر قائم رہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں ﴾ [النور: 55]۔

امن کی ضرورت انتہائی شدید ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا وہ بھی تھی جس کا ذکر ابن عمر کرتے ہیں۔ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مہینے کا پہلا ہلال دیکھتے تو یہ دعا کرتے: اے اللہ! امن اور ایمان کے ساتھ، سلامتی اور اسلام، ان کاموں کی توفیق کے ساتھ اس ماہ کی ابتدا فرما جو تجھے خوش اور راضی کرتے ہیں۔ ہمارا اور آپ کا پروردگار اللہ ہی ہے۔ (اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)۔

بھائیو!
امن وہ ہدف ہے جسے معاشرے تلاش کرتے ہیں: جسے پانے کے لیے قومیں مقابلہ کرتی ہیں۔ قوم سبأ کو اللہ تعالیٰ نے دن رات امن کے ساتھ چلنے پھرنے کی نعمت یاد دلاتے ہوئے فرمایا:
(چلو پھرو اِن راستوں میں رات دن پورے امن کے ساتھ) [سبا: 18]۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مشرکین قریش پر بھی امن کی نعمت جتلاتے ہوئے فرمایا:

(کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پر امن حرم بنا دیا ہے حالانکہ اِن کے گرد و پیش لوگ اُچک لیے جاتے ہیں؟) [العنکبوت: 67]۔

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس کی صبح اس حال میں ہو کہ دل گھر اور بال بچوں کے حوالے سے مطمئن ہو، جسم تندرست ہو، پاس ایک دن کا کھانا ہو، تو گویا کہ اسے دنیا کی ساری نعمتیں مل گئیں) (اسے امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)

اے مسلمانو!
جب بدنظمی پھیل جائے، امن وامان کے ستون ہل جائیں اور اس کی چادر پھٹنے لگے، تو پھر مت پوچھیے کہ اس کے نتیجے میں کیسے کیسے اثرات سامنے آ سکتے ہیں، فتنوں کی کیسی آندھیاں چل سکتی ہیں، شر کی کتنی اونچی لہریں آ سکتی ہیں، کیونکہ امن تب ہی تباہ ہوتا ہے جب اندھے فتنے میدان میں آ جاتے ہیں، بد ترین جرائم جنم لے لیتے ہیں، برے برے اعمال عام ہو جاتے ہیں۔ اس لیے امن کا قیام اسلام کا ایک عظیم قصد ہے۔ اسلام نے ایسے احکام دیے ہیں جس سے امن کی حفاظت ہوتی ہے اور اس کی عمارت قائم رہتی ہیں۔ کتاب وسنت میں بڑی کثرت سے پانچ ضرورتوں کو یقینی بنانے کی یاد دھانی کرائی گئی ہے۔ جو کہ : دین، نفس، عقل، عزت آبرو اور مال ہیں۔ شریعت نے ان کی حفاظت واجب قرار دی ہے۔ انہیں انتہائی اہم اور قابل نگہداشت ٹھہرایا ہے۔ ایسی سزائیں مقرر کی ہیں جن سے ان کی حفاظت یقینی بن سکے۔ بلکہ اسلام نے تو ایسے ہر کام کو حرام قرار دیا ہے جو امن وامان پر اثر انداز ہوتا ہو، ایسے ہر کام کو حرام قرار دیا ہے جو امن وامان اور سکون وچین پر اثر انداز ہوتا ہو، اس عظیم نعمت کا خیال کرتے ہوئے ایسے ہر عمل سے خبردار کیا ہے جس سے معاشرے میں خوف، بد امنی اور انارکی پھیلنے کا امکان ہو۔

اللہ کے بندو!
سچا مسلمان کبھی بھی اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ اسلامی ممالک کو نقصان پہنچے، کجا یہ کہ نقصان بلاد حرمین کا ہو۔ بلکہ سچا مسلمان ایسے ہر شخص کے راستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے جو معاشرے کی اقدار پر حملہ کرنا چاہتا ہو، یا انارکی پھیلانا چاہتا ہو۔ وہ کبھی ان لوگوں کا ساتھ نہیں دے سکتا جو امن و امان اور سکون وچین کو ختم کرنا چاہتے ہوں۔ وہ کبھی ان لوگوں کا ساتھ نہیں دے سکتا جو امن و امان اور سکون و چین کو ختم کرنا چاہتے ہوں۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ کیونکہ ہم اپنے معاشرے کے امن وامان کی حفاظت کو ایک عبادت سمجھتے ہیں جس سے ہم قرب الٰہی کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اس کی حفاظت تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ چانچہ امن قائم کرنے کے لیے تمام کاوشیں یکجا ہو جانی چاہیں۔ تاکہ ان لوگوں کا راستہ روکا جا سکے جو اس ملک کی سرزمین اور عوام میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں۔ تاکہ ایسی تمام دعوتوں کا قلعہ قمع کیا جا سکے جو امن کے لیے خطرہ ہیں یا سلامتی کو ختم کرتی ہیں۔ ایسی زندگی کا کوئی مزا نہیں ہے جس میں امن نہ ہو اور ایسی حیات میں کوئی لطف نہیں ہے جس میں سکون نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بہت سی نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ اسی طرح ان کے سر پر بہت سی ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں۔ ان نعمتوں میں سردست امن کی نعمت ہے جس کی حفاظت انتہائی ضروری ہے، اس کی بقاء اور دوام کے لیے کام کرنا انتہائی اہم ہے۔ ایسے تمام کاموں سے بچنا ضروری ہے جو امن کے قابل تعریف اثرات ختم کرتے ہیں۔

(انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے، جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار اللہ کو گواہ ٹھہرا تا ہے، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے (204) جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے، تو زمین میں اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے حالاں کہ اللہ (جسے وہ گواہ بنا رہا تھا) فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا (205) اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اُس کو گناہ پر جما دیتا ہے ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے) [البقرۃ: 206]

اللہ آپ پر رحم فرمائے! درود وسلام بھیجو نبی رحمت بنا کر بھیجے جانے والے بشیر ونذیر، سراج منیر پر، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے۔ فرمایا:
﴿اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو﴾ [الاحزاب: 56]

اے اللہ! رحمتیں نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کی آ‎ل، آپ کی بیویوں اور آپ کی اولاد پر، جس طرح تو نے آل ابراہیم پر رحمتیں نازل فرمائی تھیں۔ اسی طرح برکتیں نازل فرما، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل پر، جس طرح تو نے آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائی تھیں۔ یقینًا! تو بڑا قابل تعریف اور پاکیزگی والا ہے۔

اے اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کو امن وامان اور عافیت نصیب فرما! اے اللہ! اسے امن وامان اور سکون وچین نصیب فرما! اور سارے مسلمان ملکوں کو امن وسکون نصیب فرما!۔

اے اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں اور ہمارے گھروں میں امن نصیب فرما! ہمارے حکمرانوں اور اماموں کی اصلاح فرما! ہماری حکمرانی ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے جو تجھ سے ڈرنے والے، پرہیز گار ہوں اور تیری رضا کے طالب ہوں۔ اے پروردگار عالم!




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

خطبہ مسجد الحرام: امن کی نعمت اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری (اقتباس)  جمعۃ المبارک 20 محرم 1441ھ بمطابق 20 ستمبر 2019ء​  امام وخطیب:...

راز زندگی


✔ رازِ زندگی ✔

 چھوٹی چھوٹی چیزیں سکون بھی بہت دیتی ہیں اور تکلیف بھی. 
آدمی چٹان پر بیٹھ سکتا ہے خواہ کتنی ناہموار ہو لیکن سوئی پر نہیں خواہ کتنی ملائم ہو،
چنانچہ چھوٹی چھوٹی سہولیات اور خوشیاں سمیٹ لینا چاہیئے اور چھوٹی چھوٹی چبھن کسی کو نہیں دینا چاہئیں۔


✔ رازِ زندگی ✔  چھوٹی چھوٹی چیزیں سکون بھی بہت دیتی ہیں اور تکلیف بھی.  آدمی چٹان پر بیٹھ سکتا ہے خواہ کتنی ناہموار ہو لیکن سو...

خطبہ مسجد الحرام: عاشوراء كے احكام وآداب (اقتباس) ۔۔۔ 06 ستمبر 2019



خطبہ جمعہ مسجد الحرام
عاشوراء كے احكام وآداب (اقتباس)
امام و خطیب:  فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اسامہ بن عبد اللہ خیاط
بتاریخ:  7 محرم 1441ھ بمطابق 6 ستمبر 2019ء
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: عمر وزیر ویب


خطبے کے اہم نکات
1- نیکی کی کوشش اور تمنا ہر نیک آدمی عادت ہے۔
2- اللہ کی نعمت ہے کہ اس نے نیکی کے راستے متعدد بنائے ہیں۔
3- عاشوراء کے روزے کی فضیلتیں۔
4- نیکی کے کاموں پر ہمیشہ قائم رہنا چاہیے۔

منتخب اقتباس:

ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، وہی سب بے شمار عطاؤں اور احسانات والا ہے۔ میں اللہ پاک کی ایسی حمد وثنا بیان کرتا ہوں جو ہمیں اس کے قریب لے جائے اور سعادت مندوں کا مقام دلا دے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وه جسے چاہتا ہے، اپنی رحمت کا سے نواز دیتا ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ خاتم الانبیاء اور پرہیزگاروں کے سربراہ ہیں۔ اے اللہ! رحمتیں اور سلامتیاں نازل فرما، اپنے بندے اور رسول، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر اور صحابہ کرام پر، جب تک زمین وآسمان اپنی جگہ موجود ہیں، ہمیشہ رہنے والی رحمتیں اور سلامتی نازل فرما! تابعین پر اور قیامت تک ان نقش قدم پر استقامت کے ساتھ چلنے والوں پر بھی نازل فرما۔

بعدازاں!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور یاد رکھو کہ آپ نے اس کے سامنے پیش ہونا ہے۔ (جس روز آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے، اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں خاک ہوتا) [النبأ: 40]۔

اے مسلمانو!
نیکی کی چاہت، بھلائی کی تلاش، خیر کے دروازوں پر دستک دیتے رہنا، اس کی راہ میں کامیابی کی دعا کرنا اور اللہ سے نیکی کی چوٹی تک پہنچنے میں مدد کا سوال کرنا اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں اور خود کی نگہداشت کرنے والوں کا شیوہ ہے۔ غیب کے علم کو دیکھے بغیر اللہ سے ڈرنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والے راستوں کی تلاش کرنے والوں کا طرز عمل ہے۔ ایسے لوگ اللہ کے دارِ اکرام تک پہنچے اور اس کے وعدوں سے سرخرو ہونے اور زمین وآسمان جتنی کشادگی رکھنے والی متقین کے لیے تیار کی جانے والی جنت میں اس کے چہرہ اقدس کے دیدار کی امید رکھتے ہوئے ایسے کاموں میں سے کسی کام کو نظر انداز نہیں کرتے جس میں اللہ کی خوشی ہو، جس کی ہدایت اور رہمائی اللہ تعالیٰ دی ہو، جس پر عمل کرنے یا اللہ کے راستے میں اسے زاد راہ کے طور پر حاصل کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ۔

اللہ کی رحمت کی کشادگی، اپنے بندوں پر اس کی خصوصی مہربانیوں اور اس کی مخلوق کے لیے بھلائی کی چاہت کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ نیکی کے وہ راستے بہت زیادہ ہیں جن کی طرف اللہ نے اپنی نازل کردہ اور واضح کتاب میں رہنمائی کی ہے، جو رسول مصطفیٰ اور نبی مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اسناد کے ساتھ ثابت احادیث میں آئے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رویے اور منہج کا ذکر ہے، جن پر چلنے اور عمل کرنے اور ان کی چوٹی تک پہنچنے کا حکم اس نے انہیں دیا ہے۔

نیکی کے یہ راستے بھلائی کے وہ دروازے ہیں جو تمام لوگوں کے لیے ہر وقت یکساں کھلے ہیں، یہ سال کے ہر دن میں کھلے رہتے ہیں۔ یہ کسی وقت بھی بند نہیں ہوتے۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں ہے، جس کے دنوں اور راتوں میں کوئی ایسی عبادت نہ رکھی گئی ہو کے ذریعے انسان اپنے رب کے قریب ہونے کے لیے بہت سی نیکیاں اور کثیر تعداد کی بھلائیاں کما سکتا ہے اور ان کا عظیم ثواب پا کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر سکتا ہے۔

اگر کوئی مسلمان اپنے سال کو ذو الحجہ کی عظیم عبادات پر حج، عمرہ، ایام تشریق میں اللہ کے ذکر اور قرب الٰہی کے حصول کے لیے قربانی اور غیر حاجی ہونے کی صورت میں عرفات کے دن کے روزے جیسی ایک عظیم عبادات پر ختم کرے، تو اس کا نیا سال بھی ایک عظیم عبادت سے شروع ہوتا ہے۔ سال کے پہلے مہینے، محرم میں روزوں کی عظیم عبادت آ جاتی ہے۔ جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اس کے روزے رمضان کے روزوں کے بعد افضل ترین روزے ہیں۔ جیسا کہ امام مسلم اور اصحاب سنن کی روایت کردہ حدیث میں ہے۔ یہ عبادات انسان کو یاد دلاتی ہیں کہ اس کی تخلیق کا اصل مقصد کیا تھا؟ زمین میں بھیجے جانی کی اصل غایت کیا تھی؟ وہ عظیم مقصد اور بہترین غایت کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں واضح فرمایا ہے۔ فرمایا: (میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں (56) میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں (57) اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست) [الذاریات: 56 -58]۔

اگر انسان اپنی تخلیق کی غرض وغایت کو یاد رکھے تو وہ حقیقت اسے ہمیشہ یاد رہتی ہے جو بطور بخود انتہائی واضح، بڑے واضح دلائل رکھنے والی اور بڑی اہمیت کی حامل ہے، مگر جسے بہت سے لوگ بھول جاتے ہیں کہ مسلمان کی زندگی اجمالی طور پر اور اس کے تمام اعمال خالق کائنات، رب العالمین کے لیے ہی ہیں، جو اسے پیدا کرنے والا، اسے رزق دینے والا اور اس کا مالک ہے۔ جو اپنی مرضی کے مطابق اس کے تمام معاملات سنبھالتا ہے۔ اس لیے اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اسی کی رضا کو اپنا مقصد اور ہدف بنائے۔ اسی کی طرف متوجہ ہو اور اپنی محنت کا مقصد اسی کی رضا بنائے۔

اللہ کے بندو!
محرم کے مہینے میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا روزہ عاشورء کا روزہ ہے۔ عاشوراء کا روزہ رکھنے والے کو بہت اجر اور ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیح کتابوں میں روایت کیا ہے، ابن عباس سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دن اور کسی مہینے کے روزے دوسرے دنوں سے افضل سمجھتے ہوئے اور اتنے اہتمام کے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا جتنے اہتمام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن یعنی عاشوراء کے دن اور اس مہینے یعنی ماہ رمضان کے روزے رکھتے تھے‘‘ ۔

اسی طرح امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کیا ہے کہ ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عاشوراء کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ پچھلے سال کے گناہ معاف فرما دے گا‘‘، اسی طرح صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو روزہ رکھتے دیکھا، ان سے پوچھا: اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی۔ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا۔ موسیٰ نے بھی شکرانے کے طور پر اس کا روزہ رکھا تھا اور ہم بھی اس کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ کی نجات کا شکرانہ ادا کرنے کے ہم زیادہ حق دار ہیں۔ ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی یہ روزہ رکھا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔

اس عظیم اجر انسان کو اس دن کے روزے کی ترغیب دلاتا ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھانے، اسے ضائع نہ ہونے دینے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے، اللہ کے نبی پر بہت رحمتیں اور سلامتیاں نازل ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور سلف صالحین کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اس دن کا روزہ رکھنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ سلف صالحین بھی اس بے مثال اور عظیم دن کا روزہ پورے اہتمام کے ساتھ رکھتے تھے۔ (صحیح بخاری اور صحیح مسلم) میں ہے رُبیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن مدینہ کے گرد بسنے والی بستیوں کو پیغام بھیجا: جس نے صبح سے روزہ رکھا ہے، وہ اپنا روزہ پورا کرے، اور جس نے صبح سے روزہ نہیں رکھا وہ بقیہ دن کا روزہ رکھے‘‘، فرماتی ہیں: ’’پھر اس دن کا روزہ ہم خود بھی رکھتے تھے اور اپنے بچوں کو بھی رکھواتے تھے، انہیں بھی مسجد لے جاتے اور اون کا کھلونا بنا کر دے دیتے، جب کوئی کھانے کے لیے روتا تو اسے کھلونا دے دیتے تاکہ افطار کے وقت تک اس کا دھیان ادھر لگ جائے۔ ایک روایت میں ہے: تاکہ اس کا روزہ پورا ہو جائے‘‘امام مسلم کی روایت میں ہے: ’’جب ہم سے وہ کھانا مانگتے تو ہم انہیں کھلونا دے دیتے تاکہ روزے کے آخر ان کا دھیان ادھر لگا رہے‘‘، اسی لیے امام ابو حنیفہ ﷫ فرماتے ہیں: ’’اس وقت یہ روزہ واجب تھا: پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور اسے استحباب کا درجہ دے دیا کیا‘‘امام احمد ﷫ کا موقف بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔

جہاں تک بچوں کی بات ہے تو روزہ ان پر تو فرض نہیں تھا، کیونکہ دین اسلام کے تمام احکام سے وہ مستثنیٰ ہیں۔ مگر صحابہ کرام ایسا انہیں مشق کرانے کے لیے کیا۔ حافظ قرطبی ﷫ فرماتے ہیں: ’’صحابہ نے احکام کی پابندی میں آگے بڑھتے ہوئے اپنے بچوں کو عادت ڈالنے کے لیے یہ روزہ رکھوایا۔‘‘یہاں ان کی بات ختم ہوئی۔ بھر حال یہ تربیت کا ایک عظیم طریقہ ہے۔ اس انداز کے اثرات انتہائی شاندار ہیں۔ اس کی عاقبت بھی بڑی بہترین ہے۔

بعدازاں! اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا، موسیٰ نے بھی اسی دن کا روزہ رکھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو نصرت عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کر دیا تھا۔ اس روزے میں نعمتوں کے شکر کی تلقین ہے، یہ پیغام ہے کہ فرمان برداری سے نعمتیں ہمیشہ قائم رہتی ہیں۔ مزید نعمتوں کا امید بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہی وعدہ اللہ تعالیٰ نے اہل شکر کے ساتھ کیا ہے۔ فرمایا: (اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا) ابراہیم: 7] 
تو اللہ کے بندو!
 نعمتیں حاصل کرنے کے لیے اللہ کو خوش کرنے والے کام کرو۔ اسے ناراض کرنے اور اس کی سزا نازل کرنے والےاعمال سے بچو۔ عاشوراء سے کے ساتھ ایک دن کا اضافی روزہ رکھو، یا اس سے پہلے یا اس کے بعد۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اگر میں اگلے سال تک رہا تو نویں دن کا روزہ رکھوں گا‘‘ (اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کیا ہے)

، اسی طرح امام طبرانی کی راویت میں صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر مجھے اگلے سال تک زندگی ملی تو میں نویں دن کا روزہ رکھوں گا، ایسا نہ ہو کہ عاشوراء کا روزہ رہ جائے۔‘‘، امام شافعی ﷫ اور امام احمد ﷫ کا یہی موقف ہے کہ عاشوراء کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھا جائے۔ امام ابو حنیفہ ﷫ نویں یا گیارہویں دن کے روزے کے بغیر عاشوراء کا روزہ مکروہ سمجھتے ہیں۔

مخلوق میں سے افضل ترین ہستی پر درود وسلام بھیجو! محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی کتاب میں یہی حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو﴾ [الاحزاب: 56]۔

اے اللہ! اپنے بندے اور رسول، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں اور سلامتیاں نازل فرما! اے اللہ! اے اللہ! چاروں خلفائے راشدین سے راضی ہو جا! ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے، اور تمام صحابہ کرام سے اور تابعین عظام سے بھی راضی ہو جا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں، امہات المؤمنین سے ، تابعین سے اور قیامت تک ان نقش قدم پر استقامت کے ساتھ چلنے والوں پر۔ اے سب سے بڑھ کر کرم نوازی فرمانے والے! اپنی رحمت اور کرم سے ہم سے بھی راضی ہو جا۔ اے سب سے پڑھ کر درگزر اور معاف کرنے والے!

اے اللہ! ہر معاملے میں ہمارا انجام بھلا بنا۔ دنیا کی رسوائی اور عذاب آخرت سے ہمیں محفوظ فرما!
اے اللہ! ہم تجھ سے نیکیاں کرنے کا اور برائیاں چھوڑنے کا سوال کرتے ہیں۔ مسکینوں سے محبت کا سوال کرتے ہیں۔ تیری مغفرت اور رحمت کے خواہشمند ہیں۔ جب تو کسی قوم کو فتنے میں مبتلا کرنے چاہے تو ہمیں فتنے سے بچا کر اپنا پاس بلا لینا۔
اے اللہ! ہمارے بیماروں کو شفا عطا فرما! ہمارے فوت شدگان پر رحم فرما! ہماری نیک خواہشات پوری فرما! ہمارے اعمال کا خاتمہ نیک اور ہمیشہ باقی رہنے والے کاموں پر فرما!
﴿اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا، تو یقیناً! ہم تباہ ہو جائیں گے﴾ [الاعراف: 23]،
(اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی! اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا!) [البقرۃ: 201]۔
اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر اور تمام صحابہ کرام پر۔ ہر طرح کی تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہی ہے۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ



خطبہ جمعہ مسجد الحرام عاشوراء كے احكام وآداب (اقتباس) امام و خطیب:  فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اسامہ بن عبد اللہ خیاط بتاریخ:  7 محرم 1...

آج کی بات - 469


↭ آج کی بات ↭


‏آپ خود اپنے بارے میں کہنے کے لئے الفاظ کا انتخاب خوب سمجھ بوجھ کے ساتھ کیجیے؛
 کہ یہی الفاظ آپ کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔

↭ آج کی بات ↭ ‏آپ خود اپنے بارے میں کہنے کے لئے الفاظ کا انتخاب خوب سمجھ بوجھ کے ساتھ کیجیے؛  کہ یہی الفاظ آپ کی شخصیت کی تعمی...

آج کی بات -468


~!~ آج کی بات ~!~

ایک کا احساس برتری دوسرے کے احساس کمتری سے غذا پاتا ہے۔
 اپنے احساس برتری کو توانا مت کیجیے یہ احساس کمتری کی سب سے کمتر شکل ہے۔۔

رابعہ خرم درانی

~!~ آج کی بات ~!~ ایک کا احساس برتری دوسرے کے احساس کمتری سے غذا پاتا ہے۔  اپنے احساس برتری کو توانا مت کیجیے یہ احساس کمتر...

آج کی بات ۔۔۔ 14 ستمبر 2019


🔹🔷🔹 آج کی بات 🔹🔷🔹

مسئلہ دکھوں کا نہیں ہے بلکہ انفرادی سوچ کا ہے ۔
 سوچ اچھی چیز کو بھی دکھ بنا کر پیش کرتی ہے یا بُری چیز کو بھی اچھا دکھلاتی ہے۔

افتخار اجمل بھوپال


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

🔹🔷🔹 آج کی بات 🔹🔷🔹 مسئلہ دکھوں کا نہیں ہے بلکہ انفرادی سوچ کا ہے ۔  سوچ اچھی چیز کو بھی دکھ بنا کر پیش کرتی ہے یا بُری چی...

شہداء کے نام


شہداء کے نام
شاعر: جنید آزر

ابھی تمہارے لہو کی خوشبو
اسی طرح سے مہک رہی ہے
ابھی تمہاری وفا کے سارے چراغ ویسے ہی جل رہے ہیں
جنہیں تم اپنے لہو سے اک دن جلا گئے تھے
جہاں بھی کھلتا ہے پھول کوئی
تو ہم سمجھتے ہیں۔۔ یہ تسلسل ہے اس دعا کا
تمہارے ہونٹوں سے جو ہمارے لبوں پہ آکر ٹھیر گئی ہے
"میرے خدایا!
مری زمیں کو۔۔۔ مرے وطن کو
عذاب رُت سے امان دینا"
کہا جو تم نے۔۔۔ سنا وہ ہم نے
اسی کو لوحِ یقیں پہ لکھنا
تمہی سے سیکھا وفا کے رستے میں جان دینا
ہمیں خبر ہے
زمیں تو ماں ہے
ہم اس کی آغوش میں پلے ہیں
ہم اس کے آنچل کے سائے سائے جواں ہوئے ہیں!
ہم اس کے بیٹے یہ جانتے ہیں
اب اس کی حُرمت کو۔۔۔ اس کی عزت کو
ہم نے کیسے سنبھالنا ہے
سو غم نہ کرنا!
جب ہم تمہاری وراثتوں کے امین ٹھہرے
تو سب تمہاری روایتیں سرخرو کریں گے
جو وقت آیا تو اس کی خاطر بدن کو اپنے لہو کریں گے
ہمیں خبر ہے کہ یہ تمہاری مہکتی خوشبو
لہو کی نسبت کا یہ چراغاں ۔۔۔۔ وفا کی انمٹ کہانیاں سب
کبھی زوال آشنا نہ ہوں گی
ہمیں خبر ہے کہ ہم نہ ہوں گے
مگر وطن کی فضائیں ساری ۔۔۔ ہوائیں ساری
تمام بہنیں اور مائیں ساری
یہ کھیت، کھلیان، پھول، فصلیں
سب آنے والی ہماری نسلیں
سلام کہتی رہیں گی تم کو
سلام کہتی رہیں گی تم کو!!



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

شہداء کے نام شاعر: جنید آزر ابھی تمہارے لہو کی خوشبو اسی طرح سے مہک رہی ہے ابھی تمہاری وفا کے سارے چراغ ویسے ہی جل رہے ہیں...

کبھی پرچم میں لپٹے ہیں ہیں، کبھی ہم غازی ہوتے ہیں


کبھی پرچم میں لپٹے ہیں، کبھی ہم غازی ہوتے ہیں


ہل جاتی ہے ہر دستک پر، ماں کو لگتا ہے میں آیا
کوئی پیارا ہے مجھے آپ سے بھی، میں بابا کو بھی یہ کہہ آیا

گھر بار ہے میرا بھی پیچھے،  پر آگے بھی گھر میرا ہے
میں جی لوں گا اندھیروں میں،  پر میرے بعد سویرا ہے

اس گھر کی ساری خوشیوں کو اک بار نہ گھبرانے دیں گے
اِک سوچ بُری بھی سرحد سے اِس پار نہیں آنے دیں گے

کبھی پرچم میں لپٹے ہیں ہیں، کبھی ہم غازی ہوتے ہیں
جو ہو جاتی ہے ماں راضی تو بیٹے راضی ہوتے ہیں

کیا ڈر، کیا وہم، کیا خوف اُسے، جس پشت پہ لاکھ دعائیں ہوں
ہو جن کے لہو میں بہتی وفا، پھر سامنے لاکھ بلائیں ہوں

جاتے جاتے بھی محفل سے، رُخ گلشن کا مہکاتے ہیں
ثابت قدموں پہ جو اپنے، وہ سچ ثابت ہو جاتے ہیں

آئے ہو جدھر سے بھی دشمن، ہم تیز ہوا اُڑ جائیں گے
یہ ظلمت کے بادل سن لے، خالی واپس مُڑ جائیں گے

کبھی پرچم میں لپٹے ہیں ہیں، کبھی ہم غازی ہوتے ہیں
جو ہو جاتی ہے ماں راضی تو بیٹے راضی ہوتے ہیں

 واپس ماں کی آغوش میں ہے، الحمد کہا اور رو دی ماں
ماں کے اک شکر کے آنسو سے، صدیوں تک غم نہ ہوں گے یہاں

دل جن کے بڑے ہوں ہستی سے، یہ بیٹے ہیں ان ماؤں کے
خود دھوپ گزار کے چھوڑ گئے، یہ رستے سارے چھاؤں کے

اک ذرہ بھی اے پاک زمیں، تیرا نہ اٹھانے ہم دیں گے
یہ ظلمت کے بادل سن لے، خالی واپس مُڑ جائیں گے

کبھی پرچم میں لپٹے ہیں ہیں، کبھی ہم غازی ہوتے ہیں
جو ہو جاتی ہے ماں راضی تو بیٹے راضی ہوتے ہیں




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کبھی پرچم میں لپٹے ہیں، کبھی ہم غازی ہوتے ہیں ISPR Official ہل جاتی ہے ہر دستک پر، ماں کو لگتا ہے میں آیا کوئی پیارا ہے مج...

بندوں کو سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت ​

Image result for ‫لا تقنطوا من رحمة الله‬‎

بندوں کو سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت ​
تحریر:مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)


اللہ کی مکمل کتاب قرآن حکیم بندوں کے لئے سکون کا باعث ہے، ہدایت کا سامان ہے اور زندگی کے ہرموڑ پر انہیں امید دلاتی ہے ۔اس لئے اسے سینے سے چمٹائے رکھنے، حرزجان بنائے رکھنے، پڑھنے ، پڑھانے اور زندگی میں اتارے رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں جب بھی بے چینی محسوس ہو اللہ کا کلام پڑھیں، پریشانی کا سامنا ہو کلام الہی کی تلاوت کریں ، خوف وہراس کا منظر ہو ذکر خالق سے دل وزبان تروتازہ کریں یعنی ہمیں کبھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے خواہ حالات کچھ بھی ہوں ۔ آخر ہمارا کوئی خالق ہے وہ سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہے ، سب کی نگرانی کرنے والا ہے ، سب کی حاجتیں پوری کرنے والا ہے ، روزی روٹی سے لیکر زندگی کا ہر سامان مہیا کرنے والا ہے ۔ ہم کیوں مایوس ہوتے ہیں جبکہ اللہ نے ہمیں ہر قسم کی پریشانی سے نکلنے کا راستہ بتلایا ہے ، خیر وشر کی تمیز دی ہے ، ایمان وکفر کا فرق دیا ہے ، ایک روشن دین اور کھلی کتاب دی ہے جس کے ہر کلمہ میں روشنی ، امید اور ہدایت ہے ۔

ممکن ہے دیگر مذاہب میں مایوسی کی تعلیم دی گئی ہو مگر اسلام میں اس کو کوئی جگہ نہیں دی گئی ہے بلکہ مایوسی ایسا گناہ ہے جو کفر تک لے جاتا ہے اور بسا اوقات آدمی کافر بھی ہوجاتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : 
وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (يوسف:87)
ترجمہ:اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقینا رب کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ۔

دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے :
 قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ(الحجر:56).
ترجمہ: کہا اپنے رب تعالی کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراہ اور بہکے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں ۔
اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : 
الكبائرُ : الشِّركُ باللهِ ، والإْياسُ من رَوْحِ اللهِ ، و القُنوطُ من رَحمةِ اللهِ(صحيح الجامع:4603)
ترجمہ:اللہ کے ساتھ شریک کرنا اور اس کی رحمت سے ناامید ہونا کبیرہ گناہ ہے ۔

یعنی اللہ کی رحمت سے مایوسی صریح گمراہی ہے ، یہ راستہ گمراہ اور کافر ہی اختیار کرتا ہے ، اگر کوئی مسلم مایوسی کا شکار ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اسے توبہ کرنا لازم ہے۔

قرآن حکیم کا ورق ورق اور سطر سطر بندوں کے لئے راحت کا سامان ہے ، ہے کوئی جو قرآن پڑھ کر اور سمجھ کر دیکھے ؟ ہے کوئی جو اپنی بیماریوں کا علاج اس کتاب میں تلاش کرے ؟ تاریخ گواہ ہے جس نے بھی قرآن کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا اس کے حصے میں کامیابی ہی کامیابی آئی ۔ آپ بھی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو کتاب اللہ کو اپنا ساتھی بنائیں، اسے غوروفکر سے پڑھیں ، اس پر عمل کریں اور اس کی طرف قوم مسلم وغیرمسلم کو بلائیں ۔

علماء نے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کی وہ کون سی آیت ہے جو بندوں کو سب سے زیادہ امید دلاتی ہے ، مایوسی سے بچاتی ہے اور گنہگار ہوکر بھی اپنے خالق ومالک سے عفو ودرگزر کی امید جگاتی ہے ۔ اس سلسلے میں کئی قرآنی آیا ت ذکر کی جاتی ہیں تاہم اکثر وبیشتر اہل علم نے سورہ زمر کی آیت نمبر ترپن کو سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت قرار دیا ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الزمر:53)
ترجمہ: (میری جانب سے کہہ دو) کہ اے میرے بندو!جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ جاو، بالیقین اللہ تعالی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے ، واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے۔

جب ہم مذکورہ آیت کی شان نزول تلاش کرتے ہیں تو صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی یہ روایت ملتی ہے کہ :
ترجمہ: مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے بہت خون ناحق بہائے تھے اور بکثرت زنا کرتے رہے تھے، وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں وہ یقینا اچھی چیز ہے لیکن اگر آپ ہمیں اس بات سے آگاہ کر دیں کہ اب تک ہم نے جو گناہ کیے ہیں کیا وہ معانی کے قابل ہیں، تو اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: "وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی جان کو ناحق قتل بھی نہیں کرتے، جس کا قتل اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں۔" اور یہ آیت بھی نازل ہوئی: "کہہ دیجیے! اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔" (صحيح البخاري:4810)


گوکہ شان نزول میں خطاب مشرکین مکہ کو ہے مگر اس آیت کا حکم عام ہے ، اس میں مشرکین وکفار اور ہرقسم کے گنہگار شامل ہیں جنہوں نے خوب خوب گناہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کئے ہوں ۔حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کے متعلق لکھا ہے کہ یہ آیت تمام نافرمانوں خواہ کافر ہوں یا دوسرے توبہ اور انابت کی طرف دعوت دینے والی ہے ،اور خبر دینے والی ہے کہ اللہ توبہ کرنے والے اور اس کی طرف رجوع کرنے والوں کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے ۔ گناہ کتنے بھی ہوں اور سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوجائیں ۔اور اس آیت کو توبہ پرمحمول نہ کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ شرک توبہ کے بغیر معاف نہیں کیا جاتا ہے۔ {تفسیر ابن کثیر}

اس آیت کو توبہ پر محمول کرنا ضرور ی ہے جیساکہ حافظ رحمہ اللہ نے کہا ہے تاکہ قرآن کی اس آیت سے ٹکراو نہ ہوجس میں کہا گیا ہے کہ اللہ سارے گناہ معاف کرسکتا ہے سوائے شرک کے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
 ﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشاءُ﴾ (النساء: 48).
ترجمہ: یقینا اللہ تعالی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔

آیت کی شان نزول اور اس کے معانی ومفاہیم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بندوں کے حق میں سب سے زیادہ امید والی آیت یہی ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں ، اللہ تعالی گنہگار بندوں کو کس طرح امید دلاتا ہے ؟

سب سے پہلے اللہ اپنے پیغمبر کو خطاب کرتا ہے کہ وہ اپنی امتی کو خبر کرے پھر یا عبادی کے ذریعہ بندوں کو شفقت ومحبت بھرے نرالے انداز میں یاد کرتا ہے ۔ تمہیں ڈرنے اور خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے ، تم نے گناہ کرلئے تو کیا ہوا؟ بندے تو میرے ہی ہو۔میں ہی تمہارا خالق ومالک ہوں ۔ اور تو کوئی نہیں جس سے تمہیں گھبرانے کی ضرورت ہے۔

 جب اللہ اپنے بندوں کو پیار بھرے لہجے میں پکار کر ان کا احترام واکرام کرتا ہے پھر معصیت ونافرمانی کی کثرت یاد دلاتا ہے کہ تم نے حد سے زیادہ معصیت کرلی ، گناہوں کی حد پار کردی، نافرمانی پہ نافرمانی کرتے رہے۔

 معاصی کی کثرت یاد دلانے کے بعد اب گنہگاروں کی ڈھارس بندھاتا ہے ، ناامیدی سے روکتا ہے اور صاف لفظوں میں گنہگاروں سے کہتا ہے کہ گناہوں کی کثرت ہوجانے کی باوجود بھی تمہیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا ہے ۔ اوپر آپ نے قرآن کی چند آیات بھی پڑھیں جن میں مایوسی گمراہ وکافر کی صفت قرار دی گئی ہے۔ مومن کو کسی بھی طور اور کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔ ایسے موقع پر اللہ پر توکل بہت کام آتا ہے اور ایمان ویقین میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔

 اب سبحانہ وتعالی تاکید ی جملے کے ساتھ وہ کلام کرتا ہے جس سے گنہگاروں کی امید بلاشبہ جاگ جاتی ہے اور رحمت الہی سے دامن بھر جاتا ہے ۔اللہ فرماتا ہے کہ تمہیں تمہارا گناہ یاد ہے ، مجھے میری رحمت ومغفرت یاد ہے ،جاؤ تمہارے سارے گناہ معاف کردیے۔ سن لو!ایک دو گناہ نہیں ، سارے گناہ بخش دیے ۔ رب تعالی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آگے تاکید کے ساتھ یہ بھی خبردے دی کہ بے شک میں ہی تو سب سے زیادہ معاف کرنے والا اور سب سے زیادہ مہربانی کرنے والا ہوں ، تم میرے علاو ہ کس کو اس قدر معاف کرنے والا پاتے ہو؟ سبحان اللہ ، اللہ واقعی بڑا معاف کرنے والا ہے ۔

جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور بڑا مہربان ہے اور گنہگاروں کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے تو اس کے ساتھ مزید دوباتوں کو جاننے اور عمل میں لانے کی بھی ضرورت ہے ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کی رحمت کی امید میں عمداً گناہ کرتے رہیں ، گناہوں پر اصرار کرتے رہیں ، اللہ کی حدود کی پامالی اور فرائض وواجبات میں کوتاہی برتیں ۔یاد رہے کہ اللہ بہت معاف کرتا ہے تو بہت سخت سزا بھی دیتا ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ چھوٹے گناہ نیکیوں سے خود بخود مٹ جاتے ہیں مگر بڑے گناہوں کے لئے توبہ ضروری ہے جیسا کہ مذکورہ آیت بھی توبہ کو مستلزم ہے ۔ بغیر توبہ کے کبیرہ گناہ معاف نہیں ہوتے اور توبہ کی قبولیت کی شرائط یہ ہیں کہ اولاً گناہ پہ ندامت کا اظہار کیا جائے ، ثانیاً: اللہ کی طاعت میں گناہ ترک کردیا جائےاور ثالثاً آئندہ اس گناہ سے بچنے کا اللہ جل شانہ سے وعدہ کیا جائے ۔ گناہ حقوق العباد سے متعلق ہو تو حق کی واپسی بھی توبہ کی شرط ہے۔

اللہ تعالی ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور اپنی رحمت سے نوازکر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ آمین


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

بندوں کو سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت ​ تحریر:مقبول احمد سلفی اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ) بشکریہ: اردو مجلس فورم ...

طلبہ کے لیے راہ نما ہدایات


بل گیٹس کی ہائی سکول کے طلبہ کو نصیحت آموز تقریر


۔•۔ پہلا اصول:
 زندگی منصفانہ بالکل نہیں ہوتی، اس بات کی عادت ڈال لو۔

۔•۔ دوسرا اصول:
دنیا میں کسی کو تمہاری خود اعتمادی سے کوئی مثبت لینا دینا نہیں ہوتا۔ کسی سے توقع نہ رکھو کہ وہ تمہیں اعتماد دے گا۔ یہ تمہارا اپنا کام ہے۔ اس سے پہلے کہ تم میں خود اعتمادی ذرا سی بھی پیدا ہوئی ہو، دنیا تم سے توقع کرے گی کہ تم ہر کام پرفیکشن کے ساتھ کرو

۔•۔ تیسرا اصول:
ہائی سکول سے نکلتے ہی تم ہر سال چالیس ہزار ڈالر نہیں کمانے لگو گے۔ اس حقیقت کو یاد رکھو کہ اس میں بہت وقت لگے گا۔ 

۔•۔ چوتھا اصول:
اگر تمہیں شکایت ہے کہ تمہارے ہائی سکول کے ٹیچر بہت سخت ہیں تو انتظار کرو کہ کب جاب ملے، تمہیں اندازہ ہو گا کہ باس کیا بلا ہوتی ہے؟ ٹیچر کا تو پھر بھی ٹنیور ختم ہو جاتا ہے، باس تو زندگی بھر باس ہی رہتا ہے۔ شکایت کرنا بند کرو۔

۔•۔ پانچواں اصول:
 اگر تمہیں بیچ میں گزارہ کرنے کے لیے برگر بھی تلنے پڑ جائیں تو اس میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے۔ ہمارے بزرگ اس طرح برگر کے سٹال لگانے کو اچھا موقع قرار دیتے تھے، پیسے کمانے کا۔ کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ دنیا کے لیے وقت ضائع مت کرو۔

۔•۔ چھٹا اصول:
 اگر تم ناکام ہو جاؤ تو خبر دار اپنے والدین کو کسی طرح سے قصور وار مت ٹھہراؤ۔ ہر بات کو اپنی غلطی سمجھو اور اپنی اصلاح کرنا شروع کرو۔ خبردار جو اپنی ناکامی پر آنسو بہائے، اپنی غلطیوں سے سیکھو، اور آگے بڑھ جاؤ۔

۔•۔ ساتواں اصول:
 اپنے والدین کو اتنا بورنگ سمجھتے ہو، جانتے ہو وہ تمہارے پیدا ہونے سے پہلے بہت دلچسپ لوگ تھے۔ جب سے تم پیدا ہوئے انہیں بل ادا کرنے پڑے، تمہارے کپڑے دھونے پڑے اور یہ سننا پڑا کہ تم کتنے کول (cool) ہو، اس لیے وہ آج اتنے بورنگ ہیں اس لیے ان کے بارے میں ایک کڑوا لفظ بھی منہ سے نکالنے سے پہلے سوچو کہ اپنی الماری صاف کی ہے کہ نہیں؟

۔•۔ آٹھواں اصول:
امریکہ کے بہت سے سکولوں نے بچوں کو کھلی چھٹی دے دی ہے کہ ایک سوال کا دس بار جواب دے سکتے ہیں جب تک کہ وہ درست جواب پر نہ پہنچ جائیں۔ بیٹا جی اصل زندگی آپ کو ایک موقع بھی مشکل سے دے گی کہ آپ جواب دیں تو صحیح جواب دینے کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہیں ہوتی

۔•۔ نواں اصول:
حقیقی زندگی میں کوئی سیمیسٹرز نہیں ہوتے۔ آپ کو چھٹی کبھی نہیں ملے گی۔ مطلب کام کام۔ اور اپنی ہوبیز کے لیے وقت نکالنا آپ کا مسئلہ ہے آپ کے باس کا نہیں۔

۔•۔ دسواں اصول: 
جو کچھ تم ٹی وی پر دیکھتے ہو اس کا حقیقی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ نہ ہی وڈیو گیمز تمہیں کہیں پہنچا سکتی ہیں۔ اصل زندگی میں کافی شاپ سے اٹھنا پڑتا ہے اور آفس جانا پڑتا ہے۔

۔•۔ گیارہواں اصول:
Nerd (بے وقوف) کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔  میری بات یاد رکھنا تم انہی میں سے کسی بے وقوف کے آفس سے اپنی روٹی کماؤ گے۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

بل گیٹس کی ہائی سکول کے طلبہ کو نصیحت آموز تقریر منقول ۔•۔ پہلا اصول:  زندگی منصفانہ بالکل نہیں ہوتی، اس بات کی عادت ڈال ل...

بدلو سوچ بدلو زندگی

Image result for ‫مثبت سوچ‬‎

بدلو سوچ بدلو زندگی 
تحریر: ناصر محمود بیگ
بشکریہ: دلیل ویب

سقراط کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: ”بتائیں میرا مستقبل کیسا ہوگا؟“ سقراط نے ایک کاغذ منگوایا اور کہا اس پر اپنے خیالات لکھو۔ اس نے جو جو سوچا تھا سب لکھ ڈالا۔ سقراط نے بتا دیا کہ جیسے تمہارے خیالات ہیں، اس کے مطابق تمھارا مستقبل ایسا ہوگا۔ 
معروف مصنف نپولین ہل کہتا ہے: ”دنیا میں اتنا خزانہ زمین میں سے نہیں نکالا گیا، جتنا کہ انسان نے اپنے ذہن، خیالات، تصورات اور سوچ کے سمندر سے حاصل کیا“۔
 اچھی سوچ ایک ایسا خزانہ ہے جس سے مٹی کو بھی سونا بنایا جاسکتا ہے، جبکہ منفی اور گھٹیا سوچ رکھنے والا شخص سونے کو ہاتھ ڈالے تو وہ بھی مٹی بن جائے۔ اچھا سوچنے والے لوگ مسائل کو حل کرنے کی بہتر اہلیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے کہ ایسے ان سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھائے اور ان کو دھوکا دے۔ جن کی اپنی آزاد سوچ ہوتی ہے، ان کو غلام نہیں رکھا جا سکتا۔ اور قوموں کی غلامی اصل میں سوچ کی غلامی ہوتی ہے۔ 
 تاریخ کے مشہور آمر حکمران اڈولف ہٹلر نے کہا تھا: ”ہم جیسے حکمرانوں کو لوگوں پر حکومت کرنے کا موقع آسانی سے مل جاتا ہے کیونکہ اکثر لوگوں کے پاس سوچ اور فکر نہیں ہوتی“۔ 
جان میکسویل نے چالیس سال دنیا کے کامیاب لوگوں پر تحقیق کی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ ایک وصف ان سب میں مشترک ہے، اور وہ یہ کہ ان سب کا سوچنے کا انداز ایک جیسا ہوتا ہے۔ یہ اندازفکر ہی ہے جو کامیاب اور ناکام شخص میں تفریق پیدا کرتا ہے۔ میکسویل نے یہ بھی بتایا کہ اچھا سوچنا بھی ایک فن ہے جو سیکھنا پڑتا ہے، اچھے خیالات کوئی ایسی چیز نہیں جو آپ کو ڈھونڈتے پھریں یا پھر آپ کے ذہن میں خود بخود آ جائیں، بلکہ آپ کو انھیں تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی سوچ بہتر ہوجائے اور اچھے اچھے خیالات آپ کے ذہن میں آئیں تو جان میکسویل کے بتائے ہوئے چند طریقوں پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔


(1) برتن میں جو ڈالو گے، وہی باہر آئے گا

ایک آفاقی اصول ہے کہ برتن میں سے وہی چیز باہر آئے گی جو اس میں ڈالی گئی ہوگی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس میں ڈالیں پانی اور نکلے شہد آپ اپنے روز مرہ معمولات میں جو کچھ دیکھیں گے، پڑھیں گے، سنیں گے، یا جس قسم کے ماحول میں آپ رہیں گے، اسی قسم کے خیالات آپ کے ذہن میں پیدا ہونے لگیں گے۔ دنیا کے کامیاب مفکرین اور فلاسفروں نے ہمیشہ اپنے ماحول سے متاثر ہو کر ہی اتنے زبردست نظریات پیش کیے۔ نیوٹن کے سر پر اچانک درخت سے سیب گر کر لگتا ہے، پھر وہ اس کی وجہ پر غور و فکر کرتا ہے اور آخر کار کشش ثقل کا قانون پیش کر دیتا ہے۔ مشہور انگریزی نظم ”ڈیفوڈلز“ کا شاعر ”ورڈزورتھ“ فطرت کے دلفریب نظاروں کا دلدادہ نہ ہوتا تو ایسی شاندار نظم تخلیق کبھی نہ ہوتی۔ اس لیے اچھی اچھی کتابیں پڑھنا، بڑے لوگوں کی باتیں سننا اور فطرت کے قریب رہنا، سوچ کے بند دروازے کھول دیتا ہے۔

(2) جیسی صحبت ویسی سوچ

مشہور انگریزی مقولہ ہے کہ اگر کسی انسان کے کردار کو پرکھنا ہو تو اس کے دوستوں کو دیکھ لیں۔ آپ کا اٹھنا بیٹھنا جس قسم کے لوگوں میں ہوگا، ان کا رنگ آپ کی سوچ پر ضرور چڑھ کر رہے گا۔ خوشبو کی دکان پر جائیں گے تو کچھ نہ بھی خریدیں، پھر بھی کپڑوں میں خوشبو رچ بس جائے گی۔ کوئلے کی دکان پر جائیں گے تو کوئلہ نہیں خریدیں گے، تب بھی کپڑوں پر کالک لگ جائے گی۔ اگر آپ کے اردگرد تیز طرار اور کاروباری سوچ رکھنے والے لوگ ہوں گے تو آپ کی سوچ میں بھی تیزی آ جائے گی۔ آپ اپنی سوچ کو جس سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں، اسی شعبے کے لوگوں سے میل جول بڑ ھا دیں۔ لہذا اچھا سوچنے والوں کی دوستی بھی انسان کو اچھی سوچ کا مالک بنا دیتی ہے۔

(3) اچھے خیالات کا انتخاب کریں

انسان کے ذہن میں ہر وقت خیالات آتے اور جاتے رہتے ہیں، ان میں کچھ اس کے لیے مفید اور مثبت ہوتے ہیں، اور بعض اس کو غلط راستے پر چلا دیتے ہیں۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ خیالات کو اچھی طرح چھان پھٹک کر اپنی عادات اور کردار کا حصہ بنائیں۔ ذہن میں کسی خیال کا آنا ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا، مگر ان میں سے اچھے خیالات کا انتخاب کرکے انھیں عملی جامہ پہنانا ہمارا کام ہے۔ کسی دانشور کا قول ہے: ”دل کے دروازے پر دربان بن کر بیٹھ جاؤ اور دیکھو کہ کون سا خیال آتا ہے اور کون سا خیال جاتا ہے“۔ جس طرح ہم گھر کا دروازہ کھلا نہیں چھوڑتے تاکہ کوئی آوارہ کتا یا چور وغیرہ گھر میں داخل نہ ہو جائے، اسی طرح ہمیں یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ذہن میں آنے والا خیال مثبت ہے یا منفی؟ کیا یہ میرے کام کا ہے یا نہیں؟

(4) اپنے اچھے خیالات پر خود بھی عمل کریں

خیالات اور نظریات کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے، یہ بہت جلد اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ یہ انسان کا کردار اور عمل ہی ہے جو اس کی سوچ کو زندہ رکھتا ہے۔ دنیا میں بہت سے مفکر اور دانشور گزرے جنھوں نے کامیابی کے موضوع پر درجنوں کتابیں لکھ ڈالیں، مگر ان میں سے بعض اپنی ذاتی زندگی میں بری طرح ناکام رہے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اوروں کو تو کامیابی کے فارمولے بتائے مگر اپنی زندگی میں ان پر عمل نہ کر سکے۔ اس لیے بہت سا اچھا سوچ کر اس پر عمل نہ کرنے سے بہتر ہے کہ تھوڑا سا اچھا سوچ کر اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔

(5) سوچ کو جذبات سے آزاد رکھیں

اچھی سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جو محسوس کریں، اس پر فوری کوئی رائے یا خیال پختہ نہ کر لیں۔ کسی واقعہ پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے اس کا اچھی طرح تجزیہ کر لیں۔ ہمیشہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ کبھی بھی جذبات کی رو میں بہہ کر کوئی منصوبہ نہ بنائیں۔ یاد رکھیں، محسوس کرنے اور سوچنے میں فرق ہوتا ہے۔ جذبات دریا کی موجوں کی طرح عارضی ہوتے ہیں جبکہ سوچ دریا کا نہ رکنے والا بہاؤ کا نام ہے۔ اپنی سوچ کی ناؤ کو جذبات کی لہروں کے رحم و کرم پر مت چھوڑیں بلکہ اپنے محسوسات اور جذبات کو اپنے اچھے خیالات کے تابع کریں۔

(6) اچھے خیالات کا تسلسل جاری رکھیں

زندگی میں کامیابی کے لیے صرف ایک اچھا خیال کافی نہیں ہوتا، جیسے اگر ایک شاندار کھیل پیش کرنے والا کھلاڑی، صرف ایک کتاب کا مصنف، ایک تقریر کرنے والا مقرر اور ایک ایجاد کا موجد اپنی پہلی کامیابی پر تکیہ کر کے بیٹھ جائیں، مزید آگے نہ بڑھیں، خوب سے خوب تر کی تلاش نہ کریں تو یہ ان کی خام خیالی ہوگی۔ اسی طرح اچھے خیالات کو ذہن میں جگہ دیں اور نئے نئے خیالات کو ہمیشہ خوش آمدید کہیں۔

سوچ انسانی زندگی کے اہم ترین عوامل میں سے ہے جو اس کے اعمال، عادات، اخلاق، کردار اور مستقبل پر اثرانداز ہوتی ہے۔ تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے کہ انسان کے مستقبل پر اثر انداز ہونے والی سب اہم شے اس کی سوچ ہی ہے۔ سوچ دو طرح کی ہوتی ہے، مثبت اور منفی۔ سوچ منفی اس لیے ہوتی ہے کہ آدمی کو سوچنا نہیں آتا، اس کے ذہن میں پہلے سے منفی یادداشتوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ وہ ہر واقعہ اور تجربہ کو ایک ہی عینک سے دیکھنے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کے پاس منفی سوچ کے مقابلے میں مثبت سوچ کی متبادل آپشن ہی نہیں ہوتی۔ اگر سوچنے کا فن آجائے تو اس کو مثبت اور منفی میں سے انتخاب کرنا آجاتا ہے۔ منفی سوچ کو مثبت بنانے کا فن سیکھنا کچھ مشکل نہیں۔ جان میکسویل نے اپنی کتاب ”کامیاب لوگ کیسے سوچتے ہیں؟“ میں بتایا کہ ان اقدامات سے ہم بھی اپنی زندگی سے منفی سو چ کو کم کر سکتے ہیں۔ مثبت سوچ کے محرکات کو اپنا کر، اچھی سوچ کے مالک افراد سے دوستی کر کے، مثبت خیالات کا انتخاب کر کے، اپنی اچھی سوچ پر خود عمل کر کے، سوچ کو جذبات سے آزاد کر کے اور اچھے خیالات پر مسلسل کام کر کے سوچ بدلنا ممکن ہے۔ بس رکاوٹ صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی سوچ کو خود نہیں بدلنا چاہتا۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

بدلو سوچ بدلو زندگی  تحریر: ناصر محمود بیگ بشکریہ: دلیل ویب سقراط کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: ” بتائیں میرا مستقبل کیسا ہ...

حج 2019 کے خاص لمحات تصاویر کے آئینے میں

حج بلا شبہ ایک عظیم عبادت ہے، اور جس کو حج کی سعادت نصیب ہوئی ہو اس کے لیے حرمین و مشاعر میں گزارا ہوا ایک ایک لمحہ تا زندگی یادگار ہوتا ہے۔ اور جو فی الحال اس سعادت سے محروم ہیں ان کے لیے آج کے دور میں سوشل میڈیا نے یہ آسانی مہیا کر رکھی ہے کہ وہ وہاں کی تصاویر دیکھ کر اپنے بے تاب دل کی تسکین کا کچھ سامان کرسکیں۔

ہر سال بے شمار لوگ (فوٹو گرافرز) حرمین و مشاعر کی  یادگار تصاویر پوسٹ کرتے ہیں (سیلفی کی بات نہیں کی جا رہی) اور کبھی کبھی ان میں کچھ تصاویر میں جذبہ ہمدردی، انسان دوستی اور احساس ذمہ داری کا بہت واضح عکس دکھائی دیتا ہے ، جو ان کو ایک الگ اہمیت دے دیتا ہے۔ 

اس سال ایک تصویر نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور وہ بے انتہا مشہور ہوئی (لنک) ۔۔ اس کے علاوہ بہت سی ایسی تصاویر نظر سے گزریں جن کو دیکھ کر ان سب کو یکجا کرنے کا خیال ذہن میں بیدار ہوا۔ 

ذیل میں ان تصاویر کو ایک ویڈیو کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔


حج 2019 کے خاص لمحات تصاویر کے آئینے میں

اللہ ہم سب کو اپنے دربار میں حاضری اور اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور سلام عرض کرنے کے لیے بار بار طلب فرمائے آمین۔ 

جزاک اللہ خیرا
سیما افتاب


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

حج بلا شبہ ایک عظیم عبادت ہے، اور جس کو حج کی سعادت نصیب ہوئی ہو اس کے لیے حرمین و مشاعر میں گزارا ہوا ایک ایک لمحہ تا زندگی یادگار ہوتا ...

فاصلہ رکھیں (At arm's length)


 فاصلہ رکھیں
(At Arm's Length) 
تحریر: آفاق احمد


ایک انگریزی محاورہ ہے At Arm's Length

ہمیشہ یہ محاورہ عجیب تاثر عطا کرتا ہے، بازو سیدھا کیجیے سامنے کی طرف تو دو سوا دو فٹ کی لمبائی بن جایا کرتی ہے۔۔۔
بظاہر یہ زیادہ فاصلہ نہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک رکاوٹ، ایک Barrier کا باعث بن رہا ہے۔۔۔

ہمارے زمانہ طالب علمی میں بعض اوقات ایسے کلاس فیلوز ہوتے ہیں جن سے بے تکلفی بھی اچھی ہوتی ہے، گپ شپ بھی کبھی کبھی ہوجایا کرتی ہے لیکن اُن سے دوستی ایک مخصوص فاصلے سے آگے نہیں بڑھا کرتی یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اُن سے دوستی ہونے میں ایک مخصوص فاصلہ دوسرے کی طرف سے برقرار رکھا جاتا ہے اور یہ وہ فاصلہ ہے جسے Arm's Length قرار دیا جاسکتا ہے۔۔۔

سالہا سال کے یا بارہا تجربات کے بعد انسان کو خود ہی سمجھ جانا چاہیے کہ دوسرا فریق آپ کو Stop Sign دکھا رہا ہے۔۔۔
سلام بھی ہوگا، کچھ بے تکلفی بھی، کچھ گپ شپ بھی اور بس۔۔۔

یہ معاملہ ملازمت میں بھی پیش آسکتا ہے اور سوشل میڈیا میں ورکنگ ریلیشن میں بھی۔۔۔

محاورے At Arm's Length کا یہ فاصلہ یا Stop Sign کا بورڈ اگر ہمیں بار بار نظر آئے تو خود ہی پیچھے ہٹ جانا چاہیے کیونکہ جتنی دفعہ یہ آزمائیں گے، اُتنا دکھی دل کے ساتھ پیچھے ہٹنا پڑے گا۔۔۔

یہ ایک دو ملاقاتوں پر چسپاں نہیں کررہا بلکہ سالہا سال کے یا بارہا تجربات کی روشنی میں کہہ رہا ہوں۔۔۔

ہرگز ہرگز قطع تعلقی کی ہدایت بھی نہیں، جب ملیں سلام کریں، اگلے کو کوئی جائز کام پڑے تو ضرور کردیں، ایسے بندے کی غیبت نہ کریں لیکن ایسے یکطرفہ تعلق پر اصرار بھی نہ کریں۔۔۔

جتنی جلدی یہ حقیقت سمجھیں گے، اُتنا دل کم چھلنی ہوگا۔۔۔

روکھا پن، بے نیازی، بے پروائی، سپاٹ تاثرات جو بھی اردو کا لفظ چسپاں کرلیں لیکن ایک بازو کی لمبائی کا یہ متعین فاصلہ سمجھنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

 فاصلہ رکھیں (At Arm's Length)   تحریر:  آفاق احمد ایک انگریزی محاورہ ہے At Arm's Length ہمیشہ یہ محاورہ عجیب ت...

آج کی بات ۔۔۔ 03 ستمبر 2019


~!~ آج کی بات ~!~


اللہ نے اپنے پسندیدہ انسان کو نہیں آزمانا تو کس کو آزمانا ہے؟



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

~!~ آج کی بات ~!~ اللہ نے اپنے پسندیدہ انسان کو نہیں آزمانا تو کس کو آزمانا ہے؟ تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ ش...

آج کی بات ۔۔۔۔ 02 ستمبر 2019

ً!~ آج کی بات ~!~

جنگ اگر لازم و ملزوم ہو جائے تو مد مقابل کی حیثیت نہیں دیکھتے۔


منقول از طارق عزیز



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ً!~ آج کی بات ~!~ جنگ اگر لازم و ملزوم ہو جائے تو مد مقابل کی حیثیت نہیں دیکھتے۔ منقول از طارق عزیز تبصرہ کرکے اپنی را...

قلبِ سلیم-۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔۔ 22 اگست 2019




قلبِ سلیم
 خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)
 22 ذو الحجہ، 1440ھ بمطابق 23 اگست 2019ء
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن عبد الله بن حمید
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
نظر ثانی : محمد اجمل بھٹی
بشکریہ: عمر وزیر ویب



خطبے کے اہم نکات:
1. پرہیزگاری اصل مقصود اور حقیقی ہدف ہے۔
2. دل اللہ تعالیٰ کی عظیم مخلوق ہے۔
3. کچھ اعمال صرف دل سے وابستہ ہیں۔
4. ہر عبادت میں نیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
5. قلب سلیم سے مراد اور اس کی علامات۔
6. اللہ کی فرمان برداری اور اس کی پہچان دلوں کی اصلاح کا راستہ ہے۔
7. ایسی بیماریاں کہ جن سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔

منتخب اقتباس: 

ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے۔ ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے۔ وہی حمد وثنا کے لائق ہے۔ جو حکم چاہتا ہے، صادر کر دیتا ہے اور جو چاہتا ہے، کر گزرتا ہے۔ میں ہر نعمت پر اس کی حمد وثنا بیان کرتا ہوں۔ بدبخت لوگوں کے حال سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہی عظمت وکبریائی والا ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اگلوں کے سردار اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک، پرہیز گار اور بلند مقام ومرتبے والے اہل بیت پر، نیک وکار اور وفادار صحابہ کرام پر، تابعین پر اور استقامت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔ ان کا راستہ اپنا کر ہدایت پانے والوں پر۔ اے اللہ! ان سب پر مزید سلامتی نازل فرما! ایسی سلامتی کہ جس کی کوئی انتہا نہ ہو۔

بعدازاں!
 میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرو۔ کیونکہ پرہیز گاری ہی بہترین سامان ہے جو دنیا میں بھی کام آتا ہے اور آخرت میں بھی ساتھ ہوتا ہے۔ یاد رکھو کہ انسان کے لیے ایمان کے بعد سب سے اچھی نعمت اچھے اخلاق ہیں۔ اچھے اخلاق کم پڑھے لکھے آدمی کے پاس بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بڑی بڑی ڈگریوں والا اس خزانے سے محروم ہو۔ مبارکباد کے لائق تو وہ شخص ہے جو دوسروں کی زیادتی کو بھول جاتا ہے، جو سنگ دل نہیں ہوتا، جو دشمنی کا راستہ بھی نہیں جانتا۔ جس کی ملاقات سے خوشی ملتی ہے اور جس سے بات کر کے سعادت محسوس ہوتی ہے۔

اے اللہ کے بندے!
 معافی وہی مانگتا ہے جس میں بہادری ہو، معاف وہی کرتا ہے جو زیادہ طاقتور ہو۔ ویسے بھی لوگوں کی خوشنودی کمانا تو خود کو مشقت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ لیکن بردبار انسان کے غصے سے بچنا چاہیے۔ 
(اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے (34) یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں) [فصلت: 34 -35]۔

اے مسلمانو!
 اے بیت اللہ کے حاجیو! اللہ آپ کا حج قبول فرمائے۔ آپ کے حج کو حج مبرور بنائے، آپ کو محنت کا صلہ عطا فرما! آپ کے گناہ معاف فرما! اور آپ کو آپ کے گھروں تک سلامتی اور اجر کے ساتھ لوٹائے۔

اے بیت اللہ کے حاجیو!
 اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے) [الحج: 32]
جی ہاں! اللہ کے بندو! نیکی کا دار ومدار دلوں کی پرہیزگاری پر ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں: ’’تقویٰ ایمان سے بھی زیادہ قابل تعریف ہے، کیونکہ ایمان میں کچھ اور چیزیں بھی شامل ہو سکتی ہیں، جبکہ تقویٰ میں کوئی دوسری چیز شامل نہیں ہوسکتی‘‘
کیوں، اللہ کے بندو؟
 کیونکہ دل سب سے خطرناک حصہ ہے۔ جس کی تاثیر سب سے زیادہ ہے۔ جس کا معاملہ سب سے زیادہ نازک ہے۔ جس کی اصلاح سب سے زیادہ مشکل ہے۔
 حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اپنے دل کا علاج کرو، کیونکہ اللہ یہی چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے دل نیک ہوں۔ اللہ آپ کے جسموں اور شکلوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ آپ کے دلوں اور کاموں کو دیکھتا ہے‘‘۔

اے بھائیو! 
عربی میں قلب ہر چیز کے خالص اور سب سے زیادہ اہم حصے کو کہتے ہیں۔ دل کو قلب اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے اعضاء میں سب سے زیادہ خالص اور اہم ہے۔ دوسری طرف سے قلب اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو اپنی حالت بدلتی رہتی ہو یا جس میں تبدیلی آتی رہتی ہو۔ اسی طرح قلب کے معانی میں سے ایک ہر چیز کے نتیجے پر غور کرنا بھی ہے۔

اے مسلمانو! 
دل اپنے کام کے اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کی انتہائی اہم مخلوقات میں سے ہے۔ جس کا کام محسوس نہیں ہوتا، بلکہ وہ روح، نفس، ذہن، عقل اور احساس کی طرح یہ بھی علم الغیب کا حصہ ہے۔ یہ ساری اللہ ہی کی غیر محسوس نعمتیں ہیں جو محسوسات کی دنیا میں آ کر انہیں غذا، نور اور مدد فراہم کرتی ہیں۔ ان ہی کے نور سے سے انسان حق اور باطل میں فرق کرنے کے قابل بنتا ہے، درستی اور خرابی میں، نفع اور نقصان میں، حقیقت اور توہمات میں فرق کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔ سیدنا نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’سنو! جسم میں گوشت کا ایسا ٹکڑا ہے، جو درست ہو جائے تو سارا جسم سدھر جاتا ہے، اور اگر بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، یہ ٹکڑا دل ہے‘‘ (اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔

پیارے بھائیو!
 دل کی درستی ایمان، حقیقت سے آگاہی اور احوال سے واقفیت میں ہے۔ جبکہ جسم کی درستی اللہ کی فرمان برداری اور اس کے سامنے عاجزی میں ہے۔
جب دل بگڑتا ہے تو شرک، کفر، تکبر، خود پسندی، ریا کاری، حسد اور دیگر امراض قلب سے بگڑتا ہے۔ اور جب یہ بگڑتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ جسم بگڑتا ہے تو گناہوں اور نافرمانیوں سے بگڑتا ہے، مخلوق خدا پر ظلم سے اور زمین میں فساد سے بگڑتا ہے۔

اے مسلمانو!
 دل ہی وہ حصہ ہے جس میں باہر سے آنے والی معلومات براہ راست پہنچتی ہیں۔ یہ وہ رابطہ ہے جو انسان کو اپنے رویے اور ظاہری اعمال سے جوڑے رکھتا ہے۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ: ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت قدمی نصیب فرما!‘‘ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم تو آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی چیزوں پر ایمان قبول کر چکے ہیں، کیا پھر بھی آپ ہمارے معاملے میں فکر مند ہیں، فرمایا: ’’دل اللہ کی دو انگلیوں میں ہیں۔ وہ جیسے چاہتا ہے، انہیں پھیر دیتا ہے‘‘ (اسے امام احمد نے ’’مسند‘‘ میں روایت کیا ہے، اس کی سند امام مسلم کی شرط پر پوری اترتی ہے)۔

اے میرے بھائیو!
 دل ہی ہر خیر کا شہر ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خیر کو دل کے ساتھ جوڑا ہے۔ فرمایا:
 (اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میں کچھ خیر ہے تو وہ تمہیں اُس سے بڑھ چڑھ کر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے اور تمہاری خطائیں معاف کرے گا، اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے) [الانفال: 70]،
 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس دل میں خیر ہوتی ہے، چاہے وہ ذرہ برابر ہی کیوں نہ ہو، وہ ایمان کے لیے کھل ہی جاتا ہے۔

اسی طرح بلند شان والے کا فرمان ہے: 
(یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے) [الحجرات: 7]
منافقین کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر بھی غور کیجیے:
 (اے پیغمبرؐ! تمہارے لیے باعث رنج نہ ہوں وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی تیز گامی دکھا رہے ہیں خواہ وہ اُن میں سے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے مگر دل اُن کے ایمان نہیں لائے) [المائدہ: 41]

اے مسلمانو!
 کچھ اعمال صرف دل سے وابستہ ہوتے ہیں۔ جن کا اثر انسان کے برتاؤ میں، اس کے احساسات میں اور اس کے احوال میں نظر آتا ہے۔ پیار اور خوشی کی شکل میں، فکر اور غم کی شکل میں، پریشانی اور غصے کی شکل میں، کینہ اور حسد کی شکل میں، چال بازی، موقع پرستی، غصے، سمجھ، آگاہی اور معرفت کی شکل میں۔ بلند شان والے نے چند قوموں کے متعلق فرمایا:
 (ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں) [الاعراف: 179]۔

دل کے اہم ترین اور عظیم کاموں میں ارادہ اور نیت بھی شامل ہیں۔ نیت دل کے عزم اور پختہ ارادے کو کہتے ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے:
 ’’اعمال کا دار ومداد نیتوں پر ہے، ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق جزا دی جائے گی‘‘، (اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے)

ہرعبادت میں نیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی سے عادت اور عبادت الگ الگ ہو جاتی ہیں۔ اسی سے عبادات ایک دوسرے سے الگ ہو جاتی ہیں۔ بلکہ نیت سے عادت بھی عبادت بن جاتی ہے۔ بری نیت ہو تو عبادت بھی بے قیمت ہو جاتی ہے۔ اخلاص بھی تو سچی نیت اور دل کی پاکیزگی ہی کو کہتے ہیں۔

دل کے کاموں میں ثابت قدمی بھی شامل ہے۔ جس سے وقار اور سکینت حاصل ہوتی ہے۔ جب انسان کو ثابت قدمی نصیب ہو جاتی ہے تو وہ پریشانی اور اضطراب سے بچ جاتا ہے۔ وہ اپنے حال کو صحیح انداز میں سمجھ لیتا ہے اور مستقبل کی فکر کرتا ہے۔

اے مسلمانو!
 دل کی کچھ صفات انتہائی عظیم ہیں، جن سے ایمان کی حقیقت جھلکتی ہے اور جن میں دلوں کی زندگی اور چین ہے۔ جن پر قائم رہنے میں بندے کی استقامت اور کامیابی ہوتی ہے۔ ان صفات میں: دل کی سلامتی شامل ہے۔ جیسا کہ بلند شان والا فرماتا ہے:
 ﴿اس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد (88) الا یہ کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو﴾ [الشعراء: 88 -89]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے یہ دعا کیا کرتے تھے: 
’’اے اللہ! میں تجھ سے قلبِ سلیم کا سوال کرتا ہوں‘
 (اسے امام احمد، امام ترمذی اور امام نسائی نے سیدنا شداد بن اوس سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)

قلبِ سلیم والا شخص وہ ہے جو ہر قسم کے عیب، شک، شرک، برائی اور گمراہی سے بچ گیا ہو۔ جس کا ظاہر اور باطن ایک جیسے ہوں۔ جس کے راز کا پیغام اس کے اعضاء سناتے ہوں۔ قلب سلیم وہ ہے جس میں معبود کے لیے اخلاص بھی ہے، اس کی طرف مکمل ذلت اور عاجزی کے ساتھ رجوع بھی ہو اور اخلاص کے ساتھ شریعت کی پیروی بھی ہو۔

پیارے بھائیو!
 دل کے عظیم کاموں میں عاجزی بھی شامل ہے۔ یعنی اللہ کی بات کو تسلیم کر لینا اور اسی کی جانب متوجہ رہنا۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یاد رکھو کہ جب عاجزی میں انسان کا قدم راسخ ہو جاتا ہے اور وہ اس کی راہ میں آگے نکل جاتا ہے تو اس کی ہمت بلند ہو جاتی ہے اور نفس بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ پھر وہ کسی کی تعریف پر خوش نہیں ہوتا۔ کسی کی تنقید پر پریشان نہیں ہوتا۔ وہ خواہشات نفس سے چھٹکارا حاصل کر چکا ہوتا ہے اور ایمان اور یقین کی لذت اس دل میں گھر کر چکی ہوتی ہے۔ اگر کوئی دلیل چاہو تو اللہ کے اس فرمان کو پڑھ لو: 
(اور علم سے بہرہ مند لوگ جان لیں کہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے اور وہ اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دل اس کے آگے جھک جائیں) [الحج: 54]۔

دل کی صفات میں خوف بھی شامل ہے۔ رب العزت کا فرمان ہے: 
(سچّے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں) [الانفال: 2]

اہل ایمان کے دل اس خوف سے لرزتے رہتے ہیں کہ جو عبادات اور نیک اعمال انہوں نے کیے ہیں وہ اللہ کے یہاں رد نہ ہو جائیں۔ ان کے خوف کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اجلال ہوتا ہے، اس کی ہیبت اور اس کی بادشاہت سے رعب ہوتا ہے۔

دل کی وہ صفت، جس کو حاصل کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے، خشوع کی صفت ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
 (کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں) [الحدید: 16]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے دل سے پناہ مانگی ہے کہ جس میں خشوع ہی نہ ہو۔ (امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں سیدنا زید بن ارقم سے روایت کیا ہے)

خشوع میں عاجزی، انکساری، گریہ زاری اور خوف آ جاتے ہیں۔ ان سب میں بنیادی چیز ہر چھوٹی اور بڑی چیز میں غیر اللہ سے ناامیدی ہے۔

اللہ کے بندو!
 دل تب ہی درست ہو سکتا ہے جب وہ اللہ کو پہچان لے، اس کی اطاعت کرنے لگے، اس سے ڈرے، اس کی حدود کے اندر رہے، اپنے کھانے پینے اور لباس کی اصلاح کرے۔ جسے اپنے دین کی فکر ہوتی ہے، غفلت کی نیند سے بیدار ہو جاتا ہے، آخرت میں نجات کا طالب ہوتا ہے، وہ اپنے دل کی اصلاح کا سب سے زیادہ فکر مند ہوتا ہے، دل کی خرابی اور ہلاکت کے اسباب سے سب سے زیادہ دور رہتا ہے۔

بعدازاں!
 اللہ کے بندو! دل کو زندگی نصیب ہوتی ہے نفس کے ساتھ جہاد کرنے سے، نیک اور پرہیز گار لوگوں کی صحبت سے اور اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنے سے۔ دل میں اللہ کی محبت جتنی زیادہ ہو جائے گی، بندہ اتنا ہی فرمان بردار بن جائے گا اور جتنا وہ فرمان بردارہو گا، اس کی محبت اتنی ہی زیادہ ہو جائے گی۔ تمام نیک اعمال کا مقام ومرتبہ محبت کے بعد ہی آتا ہے جن کی توفیق اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ خوش نصیب وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ خوش نصیب بنائے۔ بدبخت بھی وہی ہے جسے اللہ گمراہ کر دے۔ دل اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جیسے چاہتا ہے، انہیں پھر دیتا ہے۔

 اے مسلمانو!
 انسان کے سب سے چھوٹے اعضاء جسم پر سب سے بڑا اثر ڈالتے ہیں۔ ، یعنی اس کے دل اور اس کی زبان پر۔ گناہ اور نافرمانی، خوف اور ڈر کا سبب ہیں۔ فرمان برداری حفاظت کا ضامن قلعہ ہے۔ دلوں کو صرف اللہ کی نگہبانی میں ہی سکون اور چین ملتا ہے۔ انہیں تب ہی سکون ملتا ہے جب وہ شریعت کی حدود میں رہیں۔ ان کی بصیرت پر تب ہی پردہ پڑتا ہے اور ان کا نور حق، علم اور ہدایت کو پہنچاننے کے لیے تب ہی ناکافی ہوتا ہے جب وہ شیطان کے قبضے میں آ جائیں اور گمراہی کی کھائی میں گر جائیں۔ دو دل ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک وہ جو اللہ کے ساتھ رہتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں اس کا ساتھ دے اور دوسرا وہ کہ جسے شیطان گناہوں اور نافرمانیوں سے ذلیل اور رسوا کر چھوڑتا ہے۔

پیارے بھائیو!
 دل بیمار بھی ہوتا ہے، مر بھی جاتا ہے اور اندھا بھی ہو جاتا ہے۔
 (کیا وہ شخص جو پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو؟) [الانعام: 122]، 
دل کی بیماریوں میں سب سے پہلے شرک اور غیر اللہ پر بھروسہ ہے۔ اللہ کی پناہ ایسے شخص سے جو جان بوجھ کر کفر کی طرف جائے یا جس کا دل کفر پر مطمئن ہو جائے۔

دل کی بڑی بیماریوں میں بدعت پرستی اور سنت کی خلاف وزری ہے۔ کیونکہ بہترین طریقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور ایجاد کردہ عبادتیں بد ترین کام ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کی سلامتی کے اسباب بیان کرتے ہوئے کینہ اور خواہشات پرستی سے دوری کا ذکر کیا اور ساتھ مسلمان جماعت سے مضبوط تعلق اور حکمران کی اطاعت اور ان کے خلاف جانے سے بچنے کا ذکر کیا۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ’’تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کسی مسلمان کا دل کبھی پیچھے نہیں کرتا، اعمال کو اللہ کے لیے خالص کرنا، حکمرانوں کے ساتھ خلوص رکھنا اور مسلمان جماعت سے جڑے رہنا‘‘ (اسے اصحاب سنن نے صحیح سند کے ساتھ سیدنا عبد اللہ بن مسعود اور سیدنا زید بن ثابت سے روایت کیا ہے۔)

ابن قيم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’گناہوں کی سزا میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ معاف کرے، ان سے دل کی بصیرت ختم ہو جاتی ہے۔ اس کا نور جاتا رہتا ہے۔ علم کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور ہدایت کی راہ غیر واضح ہو جاتی ہے۔ دل کے اندھے پن سے پہلے دل بہت سی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے، جیسے تکبر، نفاق، استہزاء، حسد، فساد وغیرہ۔''

سنو! اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرو۔ سنو! اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرو۔ یاد رکھو کہ جب گناہوں سے پرہیز نہ کیا جائے تو دل اندھےپن اور پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہم اللہ کے عذاب سے اس کی پناہ میں آتے ہیں۔ اس کی دردناک سزا سے اس کی پناہ چاہتے ہیں۔ رسوائی سے اس کی پناہ میں آتے ہیں۔

اللہ کی طرف سے بھیجے جانے والی رحمت اور سراسر نعمت پر درود وسلام بھیجو۔ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجو۔ آپ کے پروردگار نے اپنی واضح کتاب میں یہی حکم دیا ہے۔ کریم اور با عزت فرمامین جاری کرنے والے نے اپنی واضح کتاب میں ارشادِ عظیم فرمایا: 
﴿اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو﴾ [الاحزاب: 56]۔

اے اللہ! رحمتیں، برکتیں اور سلامتی نازل فرما، حبیبِ مصطفیٰ، نبی مجتبیٰ، اللہ کے بندے اور رسول، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیک اور پاکیزہ اہل بیت پر، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں، امہات المؤمنین پر۔ اے اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا! اور تمام صحابہ کرام سے بھی راضی ہو جا۔ تابعین سے اور قیامت تک ان نقش قدم پر استقامت کے ساتھ چلنے والوں پر۔ اے سب سے بڑھ کر کرم فرمانے والے! اپنے خاص فضل وکرم اور احسان فرما کر ہم سب سے بھی راضی ہو جا۔

اے اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما! اے اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما! ہمارے حکمرانوں اور اماموں کی اصلاح فرما!

 اے پروردگار عالم! ہماری حکمرانی ان لوگوں کے ہاتھوں میں دے جو تجھ سے ڈرنے والے، پرہیزگاری اپنانے والے اور تیری خوشنودی کے طالب ہوں۔

اے اللہ! مسلمان حکمرانوں کو کتاب وسنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما! انہیں اپنے مؤمن بندوں پر رحم کرنےوالا بنا۔ اے پروردگار عالم! انہیں حق، ہدایت اور سنت پر اکٹھا فرما!

اے اللہ! سرکش ظالموں اور ان کے ساتھیوں اور معاونوں کو تباہ وبرباد فرما! اے اللہ! ان کی اجتماعیت ختم فرما اور انہیں بکھیر دے۔ انہیں الگ تھلگ کر دے۔ اے اللہ! اے پروردگار عالم! انہی کی چالوں میں انہیں ہلاک فرما دے۔

اے اللہ! ہمارے گناہ معاف فرما! اے اللہ! ہمارے گناہ معاف فرما! ہماری پردہ پوشی فرما! ہماری مصیبتیں آسان فرما! آزمائش میں پڑنے والوں کو عافیت نصیب فرما! ہمارے بیماروں کو شفا عطا فرما! ہمارے فوت شدگان پر رحم فرما!

﴿اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا، تو یقیناً! ہم تباہ ہو جائیں گے﴾ [الاعراف: 23]،

 (اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی! اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا!) [البقرۃ: 201]۔






تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

قلبِ سلیم  خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس)  22 ذو الحجہ، 1440ھ بمطابق 23 اگست 2019ء امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن عب...