کبھی پرچم میں لپٹے ہیں ہیں، کبھی ہم غازی ہوتے ہیں


کبھی پرچم میں لپٹے ہیں، کبھی ہم غازی ہوتے ہیں


ہل جاتی ہے ہر دستک پر، ماں کو لگتا ہے میں آیا
کوئی پیارا ہے مجھے آپ سے بھی، میں بابا کو بھی یہ کہہ آیا

گھر بار ہے میرا بھی پیچھے،  پر آگے بھی گھر میرا ہے
میں جی لوں گا اندھیروں میں،  پر میرے بعد سویرا ہے

اس گھر کی ساری خوشیوں کو اک بار نہ گھبرانے دیں گے
اِک سوچ بُری بھی سرحد سے اِس پار نہیں آنے دیں گے

کبھی پرچم میں لپٹے ہیں ہیں، کبھی ہم غازی ہوتے ہیں
جو ہو جاتی ہے ماں راضی تو بیٹے راضی ہوتے ہیں

کیا ڈر، کیا وہم، کیا خوف اُسے، جس پشت پہ لاکھ دعائیں ہوں
ہو جن کے لہو میں بہتی وفا، پھر سامنے لاکھ بلائیں ہوں

جاتے جاتے بھی محفل سے، رُخ گلشن کا مہکاتے ہیں
ثابت قدموں پہ جو اپنے، وہ سچ ثابت ہو جاتے ہیں

آئے ہو جدھر سے بھی دشمن، ہم تیز ہوا اُڑ جائیں گے
یہ ظلمت کے بادل سن لے، خالی واپس مُڑ جائیں گے

کبھی پرچم میں لپٹے ہیں ہیں، کبھی ہم غازی ہوتے ہیں
جو ہو جاتی ہے ماں راضی تو بیٹے راضی ہوتے ہیں

 واپس ماں کی آغوش میں ہے، الحمد کہا اور رو دی ماں
ماں کے اک شکر کے آنسو سے، صدیوں تک غم نہ ہوں گے یہاں

دل جن کے بڑے ہوں ہستی سے، یہ بیٹے ہیں ان ماؤں کے
خود دھوپ گزار کے چھوڑ گئے، یہ رستے سارے چھاؤں کے

اک ذرہ بھی اے پاک زمیں، تیرا نہ اٹھانے ہم دیں گے
یہ ظلمت کے بادل سن لے، خالی واپس مُڑ جائیں گے

کبھی پرچم میں لپٹے ہیں ہیں، کبھی ہم غازی ہوتے ہیں
جو ہو جاتی ہے ماں راضی تو بیٹے راضی ہوتے ہیں




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں