خطبہ مسجد الحرام: عاشوراء كے احكام وآداب (اقتباس) ۔۔۔ 06 ستمبر 2019



خطبہ جمعہ مسجد الحرام
عاشوراء كے احكام وآداب (اقتباس)
امام و خطیب:  فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اسامہ بن عبد اللہ خیاط
بتاریخ:  7 محرم 1441ھ بمطابق 6 ستمبر 2019ء
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: عمر وزیر ویب


خطبے کے اہم نکات
1- نیکی کی کوشش اور تمنا ہر نیک آدمی عادت ہے۔
2- اللہ کی نعمت ہے کہ اس نے نیکی کے راستے متعدد بنائے ہیں۔
3- عاشوراء کے روزے کی فضیلتیں۔
4- نیکی کے کاموں پر ہمیشہ قائم رہنا چاہیے۔

منتخب اقتباس:

ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، وہی سب بے شمار عطاؤں اور احسانات والا ہے۔ میں اللہ پاک کی ایسی حمد وثنا بیان کرتا ہوں جو ہمیں اس کے قریب لے جائے اور سعادت مندوں کا مقام دلا دے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وه جسے چاہتا ہے، اپنی رحمت کا سے نواز دیتا ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ خاتم الانبیاء اور پرہیزگاروں کے سربراہ ہیں۔ اے اللہ! رحمتیں اور سلامتیاں نازل فرما، اپنے بندے اور رسول، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر اور صحابہ کرام پر، جب تک زمین وآسمان اپنی جگہ موجود ہیں، ہمیشہ رہنے والی رحمتیں اور سلامتی نازل فرما! تابعین پر اور قیامت تک ان نقش قدم پر استقامت کے ساتھ چلنے والوں پر بھی نازل فرما۔

بعدازاں!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور یاد رکھو کہ آپ نے اس کے سامنے پیش ہونا ہے۔ (جس روز آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے، اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں خاک ہوتا) [النبأ: 40]۔

اے مسلمانو!
نیکی کی چاہت، بھلائی کی تلاش، خیر کے دروازوں پر دستک دیتے رہنا، اس کی راہ میں کامیابی کی دعا کرنا اور اللہ سے نیکی کی چوٹی تک پہنچنے میں مدد کا سوال کرنا اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں اور خود کی نگہداشت کرنے والوں کا شیوہ ہے۔ غیب کے علم کو دیکھے بغیر اللہ سے ڈرنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والے راستوں کی تلاش کرنے والوں کا طرز عمل ہے۔ ایسے لوگ اللہ کے دارِ اکرام تک پہنچے اور اس کے وعدوں سے سرخرو ہونے اور زمین وآسمان جتنی کشادگی رکھنے والی متقین کے لیے تیار کی جانے والی جنت میں اس کے چہرہ اقدس کے دیدار کی امید رکھتے ہوئے ایسے کاموں میں سے کسی کام کو نظر انداز نہیں کرتے جس میں اللہ کی خوشی ہو، جس کی ہدایت اور رہمائی اللہ تعالیٰ دی ہو، جس پر عمل کرنے یا اللہ کے راستے میں اسے زاد راہ کے طور پر حاصل کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ۔

اللہ کی رحمت کی کشادگی، اپنے بندوں پر اس کی خصوصی مہربانیوں اور اس کی مخلوق کے لیے بھلائی کی چاہت کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ نیکی کے وہ راستے بہت زیادہ ہیں جن کی طرف اللہ نے اپنی نازل کردہ اور واضح کتاب میں رہنمائی کی ہے، جو رسول مصطفیٰ اور نبی مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اسناد کے ساتھ ثابت احادیث میں آئے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رویے اور منہج کا ذکر ہے، جن پر چلنے اور عمل کرنے اور ان کی چوٹی تک پہنچنے کا حکم اس نے انہیں دیا ہے۔

نیکی کے یہ راستے بھلائی کے وہ دروازے ہیں جو تمام لوگوں کے لیے ہر وقت یکساں کھلے ہیں، یہ سال کے ہر دن میں کھلے رہتے ہیں۔ یہ کسی وقت بھی بند نہیں ہوتے۔ کوئی مہینہ ایسا نہیں ہے، جس کے دنوں اور راتوں میں کوئی ایسی عبادت نہ رکھی گئی ہو کے ذریعے انسان اپنے رب کے قریب ہونے کے لیے بہت سی نیکیاں اور کثیر تعداد کی بھلائیاں کما سکتا ہے اور ان کا عظیم ثواب پا کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر سکتا ہے۔

اگر کوئی مسلمان اپنے سال کو ذو الحجہ کی عظیم عبادات پر حج، عمرہ، ایام تشریق میں اللہ کے ذکر اور قرب الٰہی کے حصول کے لیے قربانی اور غیر حاجی ہونے کی صورت میں عرفات کے دن کے روزے جیسی ایک عظیم عبادات پر ختم کرے، تو اس کا نیا سال بھی ایک عظیم عبادت سے شروع ہوتا ہے۔ سال کے پہلے مہینے، محرم میں روزوں کی عظیم عبادت آ جاتی ہے۔ جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اس کے روزے رمضان کے روزوں کے بعد افضل ترین روزے ہیں۔ جیسا کہ امام مسلم اور اصحاب سنن کی روایت کردہ حدیث میں ہے۔ یہ عبادات انسان کو یاد دلاتی ہیں کہ اس کی تخلیق کا اصل مقصد کیا تھا؟ زمین میں بھیجے جانی کی اصل غایت کیا تھی؟ وہ عظیم مقصد اور بہترین غایت کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں واضح فرمایا ہے۔ فرمایا: (میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں (56) میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں (57) اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست) [الذاریات: 56 -58]۔

اگر انسان اپنی تخلیق کی غرض وغایت کو یاد رکھے تو وہ حقیقت اسے ہمیشہ یاد رہتی ہے جو بطور بخود انتہائی واضح، بڑے واضح دلائل رکھنے والی اور بڑی اہمیت کی حامل ہے، مگر جسے بہت سے لوگ بھول جاتے ہیں کہ مسلمان کی زندگی اجمالی طور پر اور اس کے تمام اعمال خالق کائنات، رب العالمین کے لیے ہی ہیں، جو اسے پیدا کرنے والا، اسے رزق دینے والا اور اس کا مالک ہے۔ جو اپنی مرضی کے مطابق اس کے تمام معاملات سنبھالتا ہے۔ اس لیے اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اسی کی رضا کو اپنا مقصد اور ہدف بنائے۔ اسی کی طرف متوجہ ہو اور اپنی محنت کا مقصد اسی کی رضا بنائے۔

اللہ کے بندو!
محرم کے مہینے میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا روزہ عاشورء کا روزہ ہے۔ عاشوراء کا روزہ رکھنے والے کو بہت اجر اور ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیح کتابوں میں روایت کیا ہے، ابن عباس سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دن اور کسی مہینے کے روزے دوسرے دنوں سے افضل سمجھتے ہوئے اور اتنے اہتمام کے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا جتنے اہتمام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن یعنی عاشوراء کے دن اور اس مہینے یعنی ماہ رمضان کے روزے رکھتے تھے‘‘ ۔

اسی طرح امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کیا ہے کہ ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عاشوراء کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ پچھلے سال کے گناہ معاف فرما دے گا‘‘، اسی طرح صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو روزہ رکھتے دیکھا، ان سے پوچھا: اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات عطا فرمائی تھی۔ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا۔ موسیٰ نے بھی شکرانے کے طور پر اس کا روزہ رکھا تھا اور ہم بھی اس کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ کی نجات کا شکرانہ ادا کرنے کے ہم زیادہ حق دار ہیں۔ ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی یہ روزہ رکھا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔

اس عظیم اجر انسان کو اس دن کے روزے کی ترغیب دلاتا ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھانے، اسے ضائع نہ ہونے دینے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے، اللہ کے نبی پر بہت رحمتیں اور سلامتیاں نازل ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور سلف صالحین کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اس دن کا روزہ رکھنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ سلف صالحین بھی اس بے مثال اور عظیم دن کا روزہ پورے اہتمام کے ساتھ رکھتے تھے۔ (صحیح بخاری اور صحیح مسلم) میں ہے رُبیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن مدینہ کے گرد بسنے والی بستیوں کو پیغام بھیجا: جس نے صبح سے روزہ رکھا ہے، وہ اپنا روزہ پورا کرے، اور جس نے صبح سے روزہ نہیں رکھا وہ بقیہ دن کا روزہ رکھے‘‘، فرماتی ہیں: ’’پھر اس دن کا روزہ ہم خود بھی رکھتے تھے اور اپنے بچوں کو بھی رکھواتے تھے، انہیں بھی مسجد لے جاتے اور اون کا کھلونا بنا کر دے دیتے، جب کوئی کھانے کے لیے روتا تو اسے کھلونا دے دیتے تاکہ افطار کے وقت تک اس کا دھیان ادھر لگ جائے۔ ایک روایت میں ہے: تاکہ اس کا روزہ پورا ہو جائے‘‘امام مسلم کی روایت میں ہے: ’’جب ہم سے وہ کھانا مانگتے تو ہم انہیں کھلونا دے دیتے تاکہ روزے کے آخر ان کا دھیان ادھر لگا رہے‘‘، اسی لیے امام ابو حنیفہ ﷫ فرماتے ہیں: ’’اس وقت یہ روزہ واجب تھا: پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور اسے استحباب کا درجہ دے دیا کیا‘‘امام احمد ﷫ کا موقف بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔

جہاں تک بچوں کی بات ہے تو روزہ ان پر تو فرض نہیں تھا، کیونکہ دین اسلام کے تمام احکام سے وہ مستثنیٰ ہیں۔ مگر صحابہ کرام ایسا انہیں مشق کرانے کے لیے کیا۔ حافظ قرطبی ﷫ فرماتے ہیں: ’’صحابہ نے احکام کی پابندی میں آگے بڑھتے ہوئے اپنے بچوں کو عادت ڈالنے کے لیے یہ روزہ رکھوایا۔‘‘یہاں ان کی بات ختم ہوئی۔ بھر حال یہ تربیت کا ایک عظیم طریقہ ہے۔ اس انداز کے اثرات انتہائی شاندار ہیں۔ اس کی عاقبت بھی بڑی بہترین ہے۔

بعدازاں! اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا، موسیٰ نے بھی اسی دن کا روزہ رکھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو نصرت عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کر دیا تھا۔ اس روزے میں نعمتوں کے شکر کی تلقین ہے، یہ پیغام ہے کہ فرمان برداری سے نعمتیں ہمیشہ قائم رہتی ہیں۔ مزید نعمتوں کا امید بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہی وعدہ اللہ تعالیٰ نے اہل شکر کے ساتھ کیا ہے۔ فرمایا: (اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا) ابراہیم: 7] 
تو اللہ کے بندو!
 نعمتیں حاصل کرنے کے لیے اللہ کو خوش کرنے والے کام کرو۔ اسے ناراض کرنے اور اس کی سزا نازل کرنے والےاعمال سے بچو۔ عاشوراء سے کے ساتھ ایک دن کا اضافی روزہ رکھو، یا اس سے پہلے یا اس کے بعد۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اگر میں اگلے سال تک رہا تو نویں دن کا روزہ رکھوں گا‘‘ (اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کیا ہے)

، اسی طرح امام طبرانی کی راویت میں صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر مجھے اگلے سال تک زندگی ملی تو میں نویں دن کا روزہ رکھوں گا، ایسا نہ ہو کہ عاشوراء کا روزہ رہ جائے۔‘‘، امام شافعی ﷫ اور امام احمد ﷫ کا یہی موقف ہے کہ عاشوراء کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھا جائے۔ امام ابو حنیفہ ﷫ نویں یا گیارہویں دن کے روزے کے بغیر عاشوراء کا روزہ مکروہ سمجھتے ہیں۔

مخلوق میں سے افضل ترین ہستی پر درود وسلام بھیجو! محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی کتاب میں یہی حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو﴾ [الاحزاب: 56]۔

اے اللہ! اپنے بندے اور رسول، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں اور سلامتیاں نازل فرما! اے اللہ! اے اللہ! چاروں خلفائے راشدین سے راضی ہو جا! ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے، اور تمام صحابہ کرام سے اور تابعین عظام سے بھی راضی ہو جا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں، امہات المؤمنین سے ، تابعین سے اور قیامت تک ان نقش قدم پر استقامت کے ساتھ چلنے والوں پر۔ اے سب سے بڑھ کر کرم نوازی فرمانے والے! اپنی رحمت اور کرم سے ہم سے بھی راضی ہو جا۔ اے سب سے پڑھ کر درگزر اور معاف کرنے والے!

اے اللہ! ہر معاملے میں ہمارا انجام بھلا بنا۔ دنیا کی رسوائی اور عذاب آخرت سے ہمیں محفوظ فرما!
اے اللہ! ہم تجھ سے نیکیاں کرنے کا اور برائیاں چھوڑنے کا سوال کرتے ہیں۔ مسکینوں سے محبت کا سوال کرتے ہیں۔ تیری مغفرت اور رحمت کے خواہشمند ہیں۔ جب تو کسی قوم کو فتنے میں مبتلا کرنے چاہے تو ہمیں فتنے سے بچا کر اپنا پاس بلا لینا۔
اے اللہ! ہمارے بیماروں کو شفا عطا فرما! ہمارے فوت شدگان پر رحم فرما! ہماری نیک خواہشات پوری فرما! ہمارے اعمال کا خاتمہ نیک اور ہمیشہ باقی رہنے والے کاموں پر فرما!
﴿اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا، تو یقیناً! ہم تباہ ہو جائیں گے﴾ [الاعراف: 23]،
(اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی! اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا!) [البقرۃ: 201]۔
اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت پر اور تمام صحابہ کرام پر۔ ہر طرح کی تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہی ہے۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں