بندوں کو سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت ​

Image result for ‫لا تقنطوا من رحمة الله‬‎

بندوں کو سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت ​
تحریر:مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)


اللہ کی مکمل کتاب قرآن حکیم بندوں کے لئے سکون کا باعث ہے، ہدایت کا سامان ہے اور زندگی کے ہرموڑ پر انہیں امید دلاتی ہے ۔اس لئے اسے سینے سے چمٹائے رکھنے، حرزجان بنائے رکھنے، پڑھنے ، پڑھانے اور زندگی میں اتارے رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں جب بھی بے چینی محسوس ہو اللہ کا کلام پڑھیں، پریشانی کا سامنا ہو کلام الہی کی تلاوت کریں ، خوف وہراس کا منظر ہو ذکر خالق سے دل وزبان تروتازہ کریں یعنی ہمیں کبھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے خواہ حالات کچھ بھی ہوں ۔ آخر ہمارا کوئی خالق ہے وہ سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہے ، سب کی نگرانی کرنے والا ہے ، سب کی حاجتیں پوری کرنے والا ہے ، روزی روٹی سے لیکر زندگی کا ہر سامان مہیا کرنے والا ہے ۔ ہم کیوں مایوس ہوتے ہیں جبکہ اللہ نے ہمیں ہر قسم کی پریشانی سے نکلنے کا راستہ بتلایا ہے ، خیر وشر کی تمیز دی ہے ، ایمان وکفر کا فرق دیا ہے ، ایک روشن دین اور کھلی کتاب دی ہے جس کے ہر کلمہ میں روشنی ، امید اور ہدایت ہے ۔

ممکن ہے دیگر مذاہب میں مایوسی کی تعلیم دی گئی ہو مگر اسلام میں اس کو کوئی جگہ نہیں دی گئی ہے بلکہ مایوسی ایسا گناہ ہے جو کفر تک لے جاتا ہے اور بسا اوقات آدمی کافر بھی ہوجاتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : 
وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (يوسف:87)
ترجمہ:اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، یقینا رب کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ۔

دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے :
 قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ(الحجر:56).
ترجمہ: کہا اپنے رب تعالی کی رحمت سے ناامید تو صرف گمراہ اور بہکے ہوئے لوگ ہی ہوتے ہیں ۔
اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : 
الكبائرُ : الشِّركُ باللهِ ، والإْياسُ من رَوْحِ اللهِ ، و القُنوطُ من رَحمةِ اللهِ(صحيح الجامع:4603)
ترجمہ:اللہ کے ساتھ شریک کرنا اور اس کی رحمت سے ناامید ہونا کبیرہ گناہ ہے ۔

یعنی اللہ کی رحمت سے مایوسی صریح گمراہی ہے ، یہ راستہ گمراہ اور کافر ہی اختیار کرتا ہے ، اگر کوئی مسلم مایوسی کا شکار ہے تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اسے توبہ کرنا لازم ہے۔

قرآن حکیم کا ورق ورق اور سطر سطر بندوں کے لئے راحت کا سامان ہے ، ہے کوئی جو قرآن پڑھ کر اور سمجھ کر دیکھے ؟ ہے کوئی جو اپنی بیماریوں کا علاج اس کتاب میں تلاش کرے ؟ تاریخ گواہ ہے جس نے بھی قرآن کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا اس کے حصے میں کامیابی ہی کامیابی آئی ۔ آپ بھی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو کتاب اللہ کو اپنا ساتھی بنائیں، اسے غوروفکر سے پڑھیں ، اس پر عمل کریں اور اس کی طرف قوم مسلم وغیرمسلم کو بلائیں ۔

علماء نے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کی وہ کون سی آیت ہے جو بندوں کو سب سے زیادہ امید دلاتی ہے ، مایوسی سے بچاتی ہے اور گنہگار ہوکر بھی اپنے خالق ومالک سے عفو ودرگزر کی امید جگاتی ہے ۔ اس سلسلے میں کئی قرآنی آیا ت ذکر کی جاتی ہیں تاہم اکثر وبیشتر اہل علم نے سورہ زمر کی آیت نمبر ترپن کو سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت قرار دیا ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الزمر:53)
ترجمہ: (میری جانب سے کہہ دو) کہ اے میرے بندو!جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ جاو، بالیقین اللہ تعالی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے ، واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے۔

جب ہم مذکورہ آیت کی شان نزول تلاش کرتے ہیں تو صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی یہ روایت ملتی ہے کہ :
ترجمہ: مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے بہت خون ناحق بہائے تھے اور بکثرت زنا کرتے رہے تھے، وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں وہ یقینا اچھی چیز ہے لیکن اگر آپ ہمیں اس بات سے آگاہ کر دیں کہ اب تک ہم نے جو گناہ کیے ہیں کیا وہ معانی کے قابل ہیں، تو اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: "وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی جان کو ناحق قتل بھی نہیں کرتے، جس کا قتل اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں۔" اور یہ آیت بھی نازل ہوئی: "کہہ دیجیے! اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔" (صحيح البخاري:4810)


گوکہ شان نزول میں خطاب مشرکین مکہ کو ہے مگر اس آیت کا حکم عام ہے ، اس میں مشرکین وکفار اور ہرقسم کے گنہگار شامل ہیں جنہوں نے خوب خوب گناہ کرکے اپنی جانوں پر ظلم کئے ہوں ۔حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کے متعلق لکھا ہے کہ یہ آیت تمام نافرمانوں خواہ کافر ہوں یا دوسرے توبہ اور انابت کی طرف دعوت دینے والی ہے ،اور خبر دینے والی ہے کہ اللہ توبہ کرنے والے اور اس کی طرف رجوع کرنے والوں کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے ۔ گناہ کتنے بھی ہوں اور سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوجائیں ۔اور اس آیت کو توبہ پرمحمول نہ کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ شرک توبہ کے بغیر معاف نہیں کیا جاتا ہے۔ {تفسیر ابن کثیر}

اس آیت کو توبہ پر محمول کرنا ضرور ی ہے جیساکہ حافظ رحمہ اللہ نے کہا ہے تاکہ قرآن کی اس آیت سے ٹکراو نہ ہوجس میں کہا گیا ہے کہ اللہ سارے گناہ معاف کرسکتا ہے سوائے شرک کے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
 ﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ ما دُونَ ذلِكَ لِمَنْ يَشاءُ﴾ (النساء: 48).
ترجمہ: یقینا اللہ تعالی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔

آیت کی شان نزول اور اس کے معانی ومفاہیم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بندوں کے حق میں سب سے زیادہ امید والی آیت یہی ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں ، اللہ تعالی گنہگار بندوں کو کس طرح امید دلاتا ہے ؟

سب سے پہلے اللہ اپنے پیغمبر کو خطاب کرتا ہے کہ وہ اپنی امتی کو خبر کرے پھر یا عبادی کے ذریعہ بندوں کو شفقت ومحبت بھرے نرالے انداز میں یاد کرتا ہے ۔ تمہیں ڈرنے اور خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے ، تم نے گناہ کرلئے تو کیا ہوا؟ بندے تو میرے ہی ہو۔میں ہی تمہارا خالق ومالک ہوں ۔ اور تو کوئی نہیں جس سے تمہیں گھبرانے کی ضرورت ہے۔

 جب اللہ اپنے بندوں کو پیار بھرے لہجے میں پکار کر ان کا احترام واکرام کرتا ہے پھر معصیت ونافرمانی کی کثرت یاد دلاتا ہے کہ تم نے حد سے زیادہ معصیت کرلی ، گناہوں کی حد پار کردی، نافرمانی پہ نافرمانی کرتے رہے۔

 معاصی کی کثرت یاد دلانے کے بعد اب گنہگاروں کی ڈھارس بندھاتا ہے ، ناامیدی سے روکتا ہے اور صاف لفظوں میں گنہگاروں سے کہتا ہے کہ گناہوں کی کثرت ہوجانے کی باوجود بھی تمہیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا ہے ۔ اوپر آپ نے قرآن کی چند آیات بھی پڑھیں جن میں مایوسی گمراہ وکافر کی صفت قرار دی گئی ہے۔ مومن کو کسی بھی طور اور کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔ ایسے موقع پر اللہ پر توکل بہت کام آتا ہے اور ایمان ویقین میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔

 اب سبحانہ وتعالی تاکید ی جملے کے ساتھ وہ کلام کرتا ہے جس سے گنہگاروں کی امید بلاشبہ جاگ جاتی ہے اور رحمت الہی سے دامن بھر جاتا ہے ۔اللہ فرماتا ہے کہ تمہیں تمہارا گناہ یاد ہے ، مجھے میری رحمت ومغفرت یاد ہے ،جاؤ تمہارے سارے گناہ معاف کردیے۔ سن لو!ایک دو گناہ نہیں ، سارے گناہ بخش دیے ۔ رب تعالی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آگے تاکید کے ساتھ یہ بھی خبردے دی کہ بے شک میں ہی تو سب سے زیادہ معاف کرنے والا اور سب سے زیادہ مہربانی کرنے والا ہوں ، تم میرے علاو ہ کس کو اس قدر معاف کرنے والا پاتے ہو؟ سبحان اللہ ، اللہ واقعی بڑا معاف کرنے والا ہے ۔

جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور بڑا مہربان ہے اور گنہگاروں کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے تو اس کے ساتھ مزید دوباتوں کو جاننے اور عمل میں لانے کی بھی ضرورت ہے ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کی رحمت کی امید میں عمداً گناہ کرتے رہیں ، گناہوں پر اصرار کرتے رہیں ، اللہ کی حدود کی پامالی اور فرائض وواجبات میں کوتاہی برتیں ۔یاد رہے کہ اللہ بہت معاف کرتا ہے تو بہت سخت سزا بھی دیتا ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ چھوٹے گناہ نیکیوں سے خود بخود مٹ جاتے ہیں مگر بڑے گناہوں کے لئے توبہ ضروری ہے جیسا کہ مذکورہ آیت بھی توبہ کو مستلزم ہے ۔ بغیر توبہ کے کبیرہ گناہ معاف نہیں ہوتے اور توبہ کی قبولیت کی شرائط یہ ہیں کہ اولاً گناہ پہ ندامت کا اظہار کیا جائے ، ثانیاً: اللہ کی طاعت میں گناہ ترک کردیا جائےاور ثالثاً آئندہ اس گناہ سے بچنے کا اللہ جل شانہ سے وعدہ کیا جائے ۔ گناہ حقوق العباد سے متعلق ہو تو حق کی واپسی بھی توبہ کی شرط ہے۔

اللہ تعالی ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور اپنی رحمت سے نوازکر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔ آمین


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں