خطبہ مسجد الحرام: امن کی نعمت اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری ۔۔۔۔۔۔ 20 ستمبر 2019

Image

خطبہ مسجد الحرام: امن کی نعمت اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری (اقتباس)
 جمعۃ المبارک 20 محرم 1441ھ بمطابق 20 ستمبر 2019ء​
 امام وخطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی
ترجمہ: محمد عاطف الیاس


ہر طرح کی حمد وثنا اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے۔ ہم اللہ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں، اسی پر بھروسہ اور اعتماد کرتے ہیں اور اسی سے معافی مانگتے ہیں۔ اپنے نفس کے شر سے اور اپنے برے اعمال سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرما دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، اہل بیت پر اور صحابہ کرام پر، اے اللہ! ان سب پر سلامتی بھی نازل فرما!
﴿اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو﴾ [آل عمران: 102]


(لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے) [النساء: 1]

(اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو (70) اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی) [الاحزاب: 71]۔

بعدازاں!
اللہ کے جو حسین نام قرآن کریم میں آئے ہیں، ان میں سے ایک نام: المومن بھی ہے۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے:
(وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، (حقیقی) بادشاہ ہے، ہر عیب سے پاک ہے، ہر نقص سے سالم (اور سلامتی دینے والا) ہے، امن و امان دینے والا (اور معجزات کے ذریعے رسولوں کی تصدیق فرمانے والا) ہے، محافظ و نگہبان ہے، غلبہ و عزّت والا ہے، زبردست عظمت والا ہے، سلطنت و کبریائی والا ہے، اللہ ہر اُس چیز سے پاک ہے جسے وہ اُس کا شریک ٹھہراتے ہیں) [الحشر: 23]۔

لفظ مومن کے معانی میں امن وامان کا معنیٰ بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا میں امن واطمینان فراہم کرتا ہے اور انہیں مانوس رکھنے والا سامان مہیا کرتا ہے، اسے اہل ایمان اس وقت محسوس کرتے ہیں جب وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی توحید کا اقرار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے بندوں کے لیے ان تمام چیزوں کا بندوبست کرتا ہے جو موت کے وقت تک ان کی زندگی کی ضامن ہوتی ہیں۔ ان کا رزق مہیا کرتا ہے اور انہیں ہلاکت سے محفوظ رکھتا ہے۔

اللہ کے بندو!
اچھی زندگی کی بنیادی ضروریات میں امن وامان کی ضرورت شامل ہے۔ بھلا انسان ایسی صورت میں کس طرح جی سکتا ہے کہ امن وسلامتی ہی سے محروم ہو؟ اگر امن وامان ہی نہ ہو تو اس کی زندگی بھلا اچھی گزر سکتی ہے؟ امن ہر معاشرے کی ضرورت ہے، کیونکہ اسی سے فتنوں، برائیوں اور آفتوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ اسی سے اطمینان، سکون، عیش اور ترقی نصیب ہوتی ہے۔ یہ موجود ہو تو ہی لوگوں کے کام ہوتے ہیں، ان کی جانیں محفوظ رہتی ہیں، عزتیں اور مال بے خطر رہتے ہیں، راستے پر امن ہو جاتے ہیں، اور سزائیں قائم ہوتی ہیں۔ جبکہ اس کی غیر موجودگی میں حقوق ضائع ہو جاتے ہیں، کام رہ جاتے ہیں، انارکی پھیل جاتی ہے، طاقتور ضعیفوں پر مسلط ہو جاتے ہیں، لوٹ مار عام ہو جاتی ہے، خون ریزی اور عزتوں کی بے حرمتی ہر جگہ نظر آنے لگتی ہے او ر اس کے ساتھ بد امنی کے تمام اثرات نظر آنے لگتے ہیں۔

امن ایک عظیم نعمت ہے، ایک شان دار عطا ہے۔ اس کی قیمت وہی جانتا ہے جس نے اس سے محرومی کا مزہ چکھا ہو، اس سے محرومی کی آگ میں جلا ہو۔ جس نے خوف اور پریشانی کا عالم دیکھا ہو، بد حواسی اور شدید بدنظمی کا سما‎ں دیکھا ہو، انارکی، بے گھری اور ناکامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ ایسے حالات میں کتنے کمزور اپنے گھروں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، کتنے بے گھر اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں، کتنے مصیبت زدوں کو کوئی ٹھکانا بھی نہیں مل پاتا، اطمینان اور سکون کا سانس ملنا تو دور کی بات ہے۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! آج کی دنیا میں بد امنی کی مثالوں پر غور کرو، دیکھو کہ کتنے لوگوں کو شدید فتنوں، کچل دینے والی جنگوں، خوف وہراس، بھوک پیاس، لوٹ مار، انارکی اور ظالمانہ تشدد کا سامنا ہے۔

اللہ کے بندو!
انسان کی زندگی میں امن انتہائی ضروری چیز ہے۔ انسان خود بھی فطری طور پر امن کا طالب ہوتا ہے اور خطروں اور ڈر کے اسباب سے دور رہنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ چونکہ اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اور اس کا مقام بہت بلند ہے، تو خلیل اللہ ابراہیم نے اہل مکہ کے لیے اسی کی دعا فرمائی۔ فرمایا:
(اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے) [البقرۃ: 126]۔

یہاں ابراہیم نے رزق سے بھی پہلے امن کی دعا کی، کیونکہ امن انتہائی ضروری چیز ہے، اور اگر لوگ خوف میں مبتلا ہوں تو رزق کا کوئی مزا نہیں رہتا۔ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ایک طرف امن اور اچھی زندگی کا ایک ساتھ ذکر ہوا ہے، جبکہ دوسری طرف خوف اور بھوک کا ایک ساتھ ذکر ہوا ہے۔ جب قریش نے نبی کی بات نہ ماننے پر عذر پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے تعجب کرتے ہوئے فرمایا:
(کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پرامن حرم کو ان کے لیے جائے قیام بنا دیا جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھنچے چلے آتے ہیں، ہماری طرف سے رزق کے طور پر؟ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں) [القصص: 57]۔

چونکہ امن انتہائی اہم چیز ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کے حالیہ خوف کی جگہ انہیں امن اور اطمینان عطا کرے گا، ذہنی سکون فراہم کرے گا، ہر حالت میں سکون نازل فرمائے گا۔ لیکن یہ سب اس شرط پر کہ وہ اس کی اطاعت پر قائم رہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں ﴾ [النور: 55]۔

امن کی ضرورت انتہائی شدید ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا وہ بھی تھی جس کا ذکر ابن عمر کرتے ہیں۔ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مہینے کا پہلا ہلال دیکھتے تو یہ دعا کرتے: اے اللہ! امن اور ایمان کے ساتھ، سلامتی اور اسلام، ان کاموں کی توفیق کے ساتھ اس ماہ کی ابتدا فرما جو تجھے خوش اور راضی کرتے ہیں۔ ہمارا اور آپ کا پروردگار اللہ ہی ہے۔ (اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)۔

بھائیو!
امن وہ ہدف ہے جسے معاشرے تلاش کرتے ہیں: جسے پانے کے لیے قومیں مقابلہ کرتی ہیں۔ قوم سبأ کو اللہ تعالیٰ نے دن رات امن کے ساتھ چلنے پھرنے کی نعمت یاد دلاتے ہوئے فرمایا:
(چلو پھرو اِن راستوں میں رات دن پورے امن کے ساتھ) [سبا: 18]۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مشرکین قریش پر بھی امن کی نعمت جتلاتے ہوئے فرمایا:

(کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے ایک پر امن حرم بنا دیا ہے حالانکہ اِن کے گرد و پیش لوگ اُچک لیے جاتے ہیں؟) [العنکبوت: 67]۔

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس کی صبح اس حال میں ہو کہ دل گھر اور بال بچوں کے حوالے سے مطمئن ہو، جسم تندرست ہو، پاس ایک دن کا کھانا ہو، تو گویا کہ اسے دنیا کی ساری نعمتیں مل گئیں) (اسے امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)

اے مسلمانو!
جب بدنظمی پھیل جائے، امن وامان کے ستون ہل جائیں اور اس کی چادر پھٹنے لگے، تو پھر مت پوچھیے کہ اس کے نتیجے میں کیسے کیسے اثرات سامنے آ سکتے ہیں، فتنوں کی کیسی آندھیاں چل سکتی ہیں، شر کی کتنی اونچی لہریں آ سکتی ہیں، کیونکہ امن تب ہی تباہ ہوتا ہے جب اندھے فتنے میدان میں آ جاتے ہیں، بد ترین جرائم جنم لے لیتے ہیں، برے برے اعمال عام ہو جاتے ہیں۔ اس لیے امن کا قیام اسلام کا ایک عظیم قصد ہے۔ اسلام نے ایسے احکام دیے ہیں جس سے امن کی حفاظت ہوتی ہے اور اس کی عمارت قائم رہتی ہیں۔ کتاب وسنت میں بڑی کثرت سے پانچ ضرورتوں کو یقینی بنانے کی یاد دھانی کرائی گئی ہے۔ جو کہ : دین، نفس، عقل، عزت آبرو اور مال ہیں۔ شریعت نے ان کی حفاظت واجب قرار دی ہے۔ انہیں انتہائی اہم اور قابل نگہداشت ٹھہرایا ہے۔ ایسی سزائیں مقرر کی ہیں جن سے ان کی حفاظت یقینی بن سکے۔ بلکہ اسلام نے تو ایسے ہر کام کو حرام قرار دیا ہے جو امن وامان پر اثر انداز ہوتا ہو، ایسے ہر کام کو حرام قرار دیا ہے جو امن وامان اور سکون وچین پر اثر انداز ہوتا ہو، اس عظیم نعمت کا خیال کرتے ہوئے ایسے ہر عمل سے خبردار کیا ہے جس سے معاشرے میں خوف، بد امنی اور انارکی پھیلنے کا امکان ہو۔

اللہ کے بندو!
سچا مسلمان کبھی بھی اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ اسلامی ممالک کو نقصان پہنچے، کجا یہ کہ نقصان بلاد حرمین کا ہو۔ بلکہ سچا مسلمان ایسے ہر شخص کے راستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے جو معاشرے کی اقدار پر حملہ کرنا چاہتا ہو، یا انارکی پھیلانا چاہتا ہو۔ وہ کبھی ان لوگوں کا ساتھ نہیں دے سکتا جو امن و امان اور سکون وچین کو ختم کرنا چاہتے ہوں۔ وہ کبھی ان لوگوں کا ساتھ نہیں دے سکتا جو امن و امان اور سکون و چین کو ختم کرنا چاہتے ہوں۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ کیونکہ ہم اپنے معاشرے کے امن وامان کی حفاظت کو ایک عبادت سمجھتے ہیں جس سے ہم قرب الٰہی کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اس کی حفاظت تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ چانچہ امن قائم کرنے کے لیے تمام کاوشیں یکجا ہو جانی چاہیں۔ تاکہ ان لوگوں کا راستہ روکا جا سکے جو اس ملک کی سرزمین اور عوام میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں۔ تاکہ ایسی تمام دعوتوں کا قلعہ قمع کیا جا سکے جو امن کے لیے خطرہ ہیں یا سلامتی کو ختم کرتی ہیں۔ ایسی زندگی کا کوئی مزا نہیں ہے جس میں امن نہ ہو اور ایسی حیات میں کوئی لطف نہیں ہے جس میں سکون نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بہت سی نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ اسی طرح ان کے سر پر بہت سی ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں۔ ان نعمتوں میں سردست امن کی نعمت ہے جس کی حفاظت انتہائی ضروری ہے، اس کی بقاء اور دوام کے لیے کام کرنا انتہائی اہم ہے۔ ایسے تمام کاموں سے بچنا ضروری ہے جو امن کے قابل تعریف اثرات ختم کرتے ہیں۔

(انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے، جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار اللہ کو گواہ ٹھہرا تا ہے، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے (204) جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے، تو زمین میں اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے حالاں کہ اللہ (جسے وہ گواہ بنا رہا تھا) فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا (205) اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اُس کو گناہ پر جما دیتا ہے ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے) [البقرۃ: 206]

اللہ آپ پر رحم فرمائے! درود وسلام بھیجو نبی رحمت بنا کر بھیجے جانے والے بشیر ونذیر، سراج منیر پر، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے۔ فرمایا:
﴿اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو﴾ [الاحزاب: 56]

اے اللہ! رحمتیں نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کی آ‎ل، آپ کی بیویوں اور آپ کی اولاد پر، جس طرح تو نے آل ابراہیم پر رحمتیں نازل فرمائی تھیں۔ اسی طرح برکتیں نازل فرما، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل پر، جس طرح تو نے آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائی تھیں۔ یقینًا! تو بڑا قابل تعریف اور پاکیزگی والا ہے۔

اے اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ملک کو امن وامان اور عافیت نصیب فرما! اے اللہ! اسے امن وامان اور سکون وچین نصیب فرما! اور سارے مسلمان ملکوں کو امن وسکون نصیب فرما!۔

اے اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں اور ہمارے گھروں میں امن نصیب فرما! ہمارے حکمرانوں اور اماموں کی اصلاح فرما! ہماری حکمرانی ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے جو تجھ سے ڈرنے والے، پرہیز گار ہوں اور تیری رضا کے طالب ہوں۔ اے پروردگار عالم!




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

2 تبصرے:

  1. اگر یہ ذہن بنا لیا جائے ہر وقت کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے ظاہری بھی اور باطنی بھی تو اللہ کی محبت غالب ہوگی اور ہر برا کام کرنے سے خود کو روکے گا بلکہ اچھا کام کرنے کی بھی کوشش کرے گا۔ ہر فرد اپنی جگہ یہ کام کر لے تو امن کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔ جزاک اللہ۔ اچھی پوسٹ ہے۔

    جواب دیںحذف کریں