آج کی بات - 485


~!~ آج کی بات ~!~

قطار اور انتظار؛ تہذیب یافتہ اور با شعور اقوام کی نشانیاں ہیں۔
نہ قطار نہ انتظار؛ بدتہذیب اور شعور سے عاری اقوام کی علامات ہیں۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

~!~ آج کی بات ~!~ قطار اور انتظار ؛ تہذیب یافتہ اور با شعور اقوام کی نشانیاں ہیں۔ نہ قطار نہ انتظار ؛ بدتہذیب اور شعور سے عاری ا...

آج کی بات - 484


》آج کی بات《

زندگی کی جنگ خود لڑیے ۔ 
لوگ صرف مبارکباد دینے اور افسوس کے لیے آتے ہیں


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

》آج کی بات《 زندگی کی جنگ خود لڑیے ۔  لوگ صرف مبارکباد دینے اور افسوس کے لیے آتے ہیں تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ ش...

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف


ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
 گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

علامہ اقبال

رازی = تفسیر مفاتیح الغیب کے مفسر علامہ فخرالدین رازی تھے
صاحبِ کشاف = تفسیر الکشاف کے مفسر علامہ زمخشری تھے

علامہ اقبال نے ایک موقع پر فرمایا
جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو صبح اُٹھ کر روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا۔ والد مرحوم درود شریف اور وظائف سے فرصت پا کر آتے اور مجھے دیکھ کر گذر جاتے۔ ایک روز صبح کو میرے پاس سے گذرے تو مسکرا کر فرمایا کہ
کبھی فرصت ملی تو میں تم کو ایک بات بتاؤں گا۔
میں نے دو چار دفعہ بتانے کا تقاضا کیا تو فرمایا کہ
جب امتحان دے لو گے تب۔
جب امتحان دے چکا اور لاہور سے واپس آیا تو والد صاحب نے فرمایا ،جب پاس ہو جاؤگے تب ۔
جب پاس ہو گیا اور پوچھا تو فرمایا کہ : بتاؤں گا ۔
ایک دن صبح کو جب حسبِ دستور قرآن کی تلاوت کر رہا تھا تو وہ میرے پاس آ گئے اور فرمایا
"بیٹا ! کہنا یہ تھا کہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھو کہ قرآن تم ہی پر اُترا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے۔"

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ والدِ محترم کا یہ فقرہ میرے دل میں اُتر گیا اور اس کی لذت دل میں اب تک محسوس کرتا ہوں۔ اور ۔آپ نے اپنے مشفق باپ کی فاضلانہ اور حکیمانہ بات کو اس ایک شعر میں بڑی خوبصورتی سے موزوں کیا ہے

منقول


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب  گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف علامہ اقبال رازی = تفسیر مفاتیح الغیب کے مفسر علامہ فخرا...

آج کی بات - 483


↬ آج کی بات ↫

اگر آپ زندہ ہیں تو "غلط" باتوں کی "مخالفت" کرنا سیکھیں،
 لہروں کے ساتھ "لاشیں" بہا کرتی ہیں "تیراک" نہیں!



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

↬ آج کی بات ↫ اگر آپ زندہ ہیں تو " غلط " باتوں کی " مخالفت " کرنا سیکھیں،  لہروں کے ساتھ " لاشیں "...

قرآن کہانی: حضرت موسیٰ ۔۔۔ حصہ پنجم


قرآن کہانی ۔۔۔۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام
(حصہ پنجم)
مصنفہ: عمیرہ علیم
بشکریہ: الف کتاب

جادوگروں کا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آنا فرعون کے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ فرعون اور اس کے حواریوں نے جادو گروں کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زیر بار کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ خاک میں مل گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہ صرف ان پرغالب آگئے بلکہ جادوگر جو صبح رب تعالیٰ کے وجود سے انکاری تھے شام تک اہل ایمان کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ فرعون نے انہیں قتل کروانے کی صرف دھمکی نہ دی بلکہ اُنہیں اذیتیں دے کر شہید کروادیا تھا۔

حضرت موسیٰ ؑ کو غالب آتا دیکھ کر فرعون کے حواری پریشان ہوجاتے ہیں کیوں کہ ا نہیں اپنا عیش و عشرت کا زمانہ ہاتھوں سے نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ فرعون کو مشورہ دیتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ اور ا ن کی قوم کا کچھ بندوبست کرے۔ فرعون برا فروختہ ہوکر کہتا ہے: 
’’(ہرگز نہیں بلکہ) ہم تہ تیغ کردیں گے ان کے لڑکوں کو اور زندہ چھوڑدیں گے ان کی عورتوں کو ۔ اور ہم بے شک ان پر غالب ہیں۔‘‘ (سورۂ الاعراف، آیت نمبر ۱۲۷)

قبطیوں کا فرعون کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دعوت حق دینا اور ایک خدائے بزرگ و برتر کی طرف بلانا فتنہ و فساد برپا کردے گا۔ فرعون اس ساری صورت حال سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور پکار اٹھتا ہے:
’’مجھے چھوڑ دو میں موسیٰ ؑ کو قتل کروں اور وہ بلائے اپنے رب کو (اپنی مدد کے لیے) مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تمہارا دین بدل نہ دے یا فساد نہ پھیلا دے ملک میں۔‘‘ (سورۂ المؤمن، آیت نمبر ۲۶)

اس وقت ایک مومن شخص فرعون کے خاندان میں اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا۔ وہ جب حضرت موسیٰ ؑعلیہ السلام کے قتل کی بابت گفتگو سنتا ہے تو بے چین ہوجاتا ہے اور فرعون کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ تم اس وجہ سے ایک آدمی کا قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ اپنا رب کسی اور کو مانتا ہے اور وہ واضح دلیلیں (معجزات) لے کر آیا ہے لیکن اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے تو یقیناً اس کے جھوٹ کو اس پر پلٹ کر آنا ہوگا۔ اور اگر وہ سچا ثابت ہوگیا تو کہیں ہم پر عذاب نہ آجائے اور جھوٹ بولنے والے کے لیے تو ہدایت ممکن ہی نہیں۔ میری قوم کے لوگو! یہ سچ ہے کہ آج ہمیں غلبہ حاصل ہے لیکن اگر قہر الٰہی نازل ہوگیا تو ہمارا کوئی شامل حال نہ ہوگا۔ میں تو یہ مشورہ نہیں دوں گ اکہ حضرت موسیٰ ؑ کو قتل کیا جائے۔ کیوں کہ بنی اسرائیل کی بغاوت کا بھی خدشہ ہے۔

قبطیوں میں ایمان والے تین لوگ تھے ایک تو یہی آدمی تھا جس نے فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل سے منع کیا۔ دوسرا وہ شخص جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اقدام قتل کے بعد مصر چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا اور تیسری خوش نصیب فرعون کی بیوی حضرت آسیہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں تھیں۔

جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی جہاد ہے جو اس قبطی نے کیا۔ اس نے واضح کردیا کہ اگر یہ حکومت وطاقت جس کے بل بوتے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دھمکایا جارہا ہے نہ رہی تو ہم پر کہیں ذلت کا عذاب نہ مسلط کردیا جائے۔
دوسری طرف بنی اسرائیل اس ساری صورت حال سے سخت پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں وہ تو سمجھ رہے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی ان کے درمیان موجودگی اب ان کی ہر پریشانی کو دور کرنے کا باعث ہوگی لیکن فرعون دوبارہ سے ان کی نسل کشی کرنا چاہتا ہے تاکہ اُنہیں ذہنی و جسمانی ہر طرح کی تکالیف سے دوچار کرے۔ تبھی حضرت موسیٰ ؑ اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’(اس آزمائش میں) مدد طلب کرو اللہ سے اور صبر و استقامت سے کام لو۔ بلاشبہ زمین اللہ ہی کی ہے۔ وہ وارث بناتا ہے اس کا جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اور اچھا انجام پرہیز گاروں ہی کے لیے مخصوص ہے۔‘‘ 
(سورۂ الاعراف، آیت نمبر۱۲۸)

اللہ تعالیٰ کے مومن بندے ہر دور میں صبر اور نماز ہی سے قوت حاصل کرتے ہیں اور یہی تلقین حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی پریشان حال قوم کو کی۔ لیکن بنی اسرائیل ہمیشہ ہی سے جلد باز رہے ہیں۔ تبھی وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تسلی کے جواب میں کہتے ہیں:
’’ہم تو ستائے گئے اس سے پہلے بھی کہ آپ آئے ہمارے پاس اور اس کے بعد بھی کہ آپ آئے ہمارے پاس۔‘‘ (سورۂ الاعراف، آیت نمبر ۱۲۹)
تبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام خدائے بزرگ و برتر کی بڑائی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
’’عنقریب تمہارا رب ہلاک کردے گا تمہارے دشمن کو اور (ان کا) جانشین بنادے گا تمہیں زمین میں۔ پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ (سورۂ الاعراف، آیت نمبر ۱۲۹)

فرعون نے دو مرتبہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کے قتل کا ارادہ کیا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل اور دوسری اپنے جادوگروں کی شکست کے بعد۔ فرعون اپنی قوم کو کہتا ہے کہ میں ہی بس سیدھے راستے پر ہوں حالاں کہ یہ سراسر جھوٹ تھا۔ بلکہ وہ تو جہالت ، گمراہی اور جھوٹ و بہتان کی تمام حدوں کو پار کر گیا تھا۔ وہ نعوذ باللہ بار بار اپنی بڑائی اور اپنے رب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور اپنی قوم سے کہتا ہے:
’’اے میری قوم! کیا میں مصر کا فرماں روا نہیں؟ اور یہ نہریں جو میرے نیچے بہ رہی ہیں کیا تم(انہیں) دیکھ نہیں رہے؟ کیا میں بہتر نہیں ہوں اس شخص سے جو ذلیل ہے اور بات بھی صاف نہیں کرسکتا۔ (اگر یہ سچا نبی ہے) تو کیوں نہ اتارے گئے اس پر سونے کے کنگن یا کیوں نہ آئے اس کے ساتھ فرشتے قطار در قطار ۔‘‘(سورۂ الزخرف ، آیت نمبر ۵۳۔۵۱)

وہ نیک شخص جس نے فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل سے منع کیا تھا اس نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! ایسا نہ ہو کہ ہمارا انجام بھی دوسری قوموں جیسا ہوجس طرح کہ قوم نوح، قوم عاد اور قوم ثمود کا ہوا۔ اس سے پہلے حضرت یوسف علیہ السلام بھی روشن دلائل کے ساتھ آئے تھے لیکن ہم لوگ شک میں گرفتار رہے۔ شک کرنے والوں اور جھگڑنے والوں کا انجام بدیقینی ہے۔ لیکن فرعون نبوت کو سونے کے کنگنوں پر تولتا ہے اس کے خیال میں اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کوئی اعلیٰ مرتبہ ہوتے تو ان کے پاس محل اور سونے کے کنگن ہوتے۔ اور اُن کے لیے فرشتے زمین پر اترتے تاکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرتے۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کرتا ہے اور اپنی قوم کو بھی اس گمان میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنی وزیر ہامان سے کہتا ہے:
’’میں تو نہیں جانتا کہ تمہارے لیے میرے سوا کوئی اور خدا ہے ۔ پس آگ جلا میرے لیے اے ہامان! اور اس پر اینٹیں پکوا۔ میرے لئے ایک اونچا محل تعمیر کر۔ شاید (اس پر چڑھ کر ) میں سراغ لگا سکوں موسیٰ ؑ کے خدا کا اور میں تو اس کے بارے میں یہ خیال کرتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے۔‘‘
(سورۂ القصص، آیت نمبر ۳۸)

جب بنی اسرائیل پر فرعون نے حالات کی سختی طاری کردی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ کوئی ایک جگہ یا مکان مخصوص کرکے اللہ کی یاد میں نماز ادا کریں اور اس میں پابندی کریں کیوں کہ نماز ہی روحانی اور جسمانی سکون دیتی ہے۔ اور اس طرح بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ سے لو لگائیں گے۔ اس سے پہلے بنی اسرائیل اپنے دین کی تعلیمات کو مکمل طور پر فراموش کرچکے تھے اور ان کا واحد مقصد فرعون اور اس کے حواریوں کے احکامات کی تکمیل رہ گیا تھا۔

حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہی ہے۔ اسی لیے بنی اسرائیل کو نماز کی پابندی کی تلقین کی گئی تاکہ وہ اپنے رب کو راضی کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرعونیوں کو ہر طرح سے مہلت دی تاکہ وہ سنبھل سکیں لیکن انہوں نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ ان پر اچانک عذاب الٰہی نہیں آیا۔ بلکہ گاہ بہ گاہ تنبیہات آئیں اور اُنہیں مختلف معجزات دکھائے گئے اور ان کے دل کی سیاہی کو صاف کرنے کا اہتمام کیا۔ لیکن ان کے دلوں کا غبار نہ چھٹا۔ تب اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کو مختلف آفات میں ڈالنا شروع کردیا۔ سب سے پہلے ان پر قحط کا عذاب نازل ہوا۔ کہ شاید اس کے بعد وہ راہ راست پر آجائیں۔ لیکن جب مسلسل پیداوار میں کمی آنے لگی تو فرعونی گھبرا گئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کرنے لگے کہ اپنے رب سے اس قحط کے خاتمے کی درخواست کرو۔ اس کے خاتمے پر ہم یقیناً ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ جانے دیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں درخواست فرمائی جوکہ قبول ہوئی اور قحط سالی کا خاتمہ ہو گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی قبطی وعدے سے پھرگئے اور کفر و شرک میں مزید مبتلا ہوگئے۔ اور دعویٰ کرنے لگے کہ ہم تو اسی کے مستحق ہیں۔ قحط سالی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فالِ بد تھا۔ جب کہ وہ نادان بے خبر تھے کہ ان کی فالِ بد یقیناً ان کے رب کے پاس ہی تھی۔ اللہ تعالیٰ سورۂ الاعراف میں فرماتے ہیں: 
’’آخر کار ہم نے ا ن پر طوفان بھیجا۔ ٹِڈی دل چھوڑے، سُرسُریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کرکے دکھائیں، مگر وہ سرکشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔‘‘ (آیت نمبر ۱۳۳)

طوفان سے مراد بارش یا پانی کا طوفان تھا۔ جس نے فرعونیوں کے ناک میں دم کردیا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ نہ وہ بیٹھ سکتے، نہ لیٹ سکتے، اندر بھی پانی باہر بھی پانی جب کہ دوسری طرف بنی اسرائیل اس سے مکمل طور پر محفوظ تھے۔ انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ سے منت سماجت کی کہ اس عذاب کے خاتمہ کے لیے دعا کریں۔ جب رب تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی دعا قبو ل کرلی اور عذاب کاخاتمہ ہوا تو فرعونی پھر اپنے وعدے سے مکر گئے۔
پھر ان پر ٹڈیوں کا ریلا آیا۔ جوکہ ان کی کھیتیاں، سبزہ ، پھل چٹ کرگیا۔ یہ ٹڈیاں قبطیوں کے گھروں اور بستروں میں گھس گئیں۔ جس کی وجہ سے اُنہیں ایک لمحہ بھی چین نصیب نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر ان پر سرسریاں چھوڑ دی گئیں۔ جو اُن کے کھانے پینے کی چیزوں میں گھس گئیں۔ ان کی بھی بہتات تھی۔ قبطیوں کا کھانا پینا حرام ہوچکا تھا۔ پھر مصر میں مینڈکوں کی اس قدر بہتات ہوگئی کہ فرعونیوں کے کپڑوں میں مینڈک گھس جاتے، ان کے برتنوں میں، ان کے کھانے پینے کی چیزوں میں مینڈک ہی مینڈک نظر آتے۔ جب بھی کوئی قبطی کچھ کھانے کے لیے منہ کھولتا، اس کے منہ میں مینڈک گھس جاتا۔ پھر مصریوں پر خون کا عذاب نازل ہوا۔ پانی میں خون مائل سرخی نظر آنے لگی۔ مصر کا ہر کنواں، تالاب، نہر اور حتیٰ کہ دریائے نیل کا پانی بھی سرخی مائل بہنے لگا اور ان میں بدبو کی بہتات تھی۔

قبطیوں پر تو عذاب الٰہی کی یہ صورتیں وقفے وقفے سے نازل ہوتی گئیں لیکن بنی اسرائیل ان سے محفوظ و مطمئن رہے۔ یہ خدائی طاقت کا ظہور تھا اور معجزات خداوندی جن کا مقصد اللہ تعالیٰ کے وجود کو کفارِ مصر کے سامنا ظاہر کرنا تھا۔ یہ سب نشانیاں علیحدہ علیحدہ ظاہر ہوئیں لیکن وہ سرکش اورباغی اپنا ٹھکانا جہنم بناچکے تھے۔ ہر عذاب کے نزول کے بعد انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی ابتدا کی تاکہ ان سے یہ بلا ٹل جائے لیکن جب عذاب کی مدت مقررہ ختم ہوجاتی تو وہ اپنے عہد سے پھر جاتے۔ اور مصریوں کے رویوں میں کوئی مثبت تبدیلی ظاہر نہ ہوئی۔ اور وہ اسی طرح آنکھیں بند کیے رہے اور ان میں سے کوئی ایک بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر نہ ہوا تاکہ ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوتا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے جب یہ دیکھا کہ فرعون اپنے باطل پر ڈٹا ہوا ہے اور تکبر میں مبتلا ہے تو آپ اپنے پروردگار کے دربار میں عرض گزار ہوئے:
’’اے پروردگار! تو نے بخشا ہے فرعون اور ا س کے سرداروں کو سامان آرائش اور مال و دولت دنیوی زندگی میں۔ اے ہمارے مولا! کیا اس لیے کہ وہ گمراہ کرتے پھریں(لوگوں کو) تیری راہ سے۔ اے ہمارے رب ! برباد کردے ان کے مالوں کو اور سخت کردے ان کے دلوں کو تاکہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ جب تک نہ دیکھ لیں درد ناک عذاب کو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قبول کرلی گئی تمہاری دعا پس تم ثابت قدم رہو اور ہر گز نہ چلنا اس طریقہ پر جو جاہلوں کا (طریقہ ) ہے۔‘‘ 
(سورۂ یونس، آیت نمبر ۸۹۔۸۸)
یہ بد دعا عظیم تھی۔ جو آپ نے اس وقت کی جب فرعون اور اس کے ساتھیوں نے تمام نشانیاں دیکھ لیں لیکن وہ ایمان کی روش پر آنے کو تیار نہ ہوئے۔ یہ بات قیام مصر کے بالکل آخری زمانے کی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے کفر کرنے والوں کو جس ٹھاٹ باٹ اور تمدن و تہذیب سے نوازا ہے۔ وہ اس قدر خوش نما ہے کہ ہر کسی کا دل چاہتا ہے کہ وہ ویسا بن جائے۔ ذرائع و وسائل کی فراوانی کی بدولت وہ لوگ اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں رکھتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف راہِ حق پر چلنے والے وسائل میں کمی کی بدولت اپنی تدبیروں پر عمل پیرا ہونے سے عاجز ہوتے ہیں۔

اللہ رب العزت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرماتے ہیں کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی ہے اور ایسا ہی ہوکر رہے گا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں کو وہ نہیں سمجھتے جو باطل کے مقابلہ میں حق کو کمزور سمجھتے ہیں اور مخالفین کے ٹھاٹ اور دنیوی شان و شوکت دیکھ کر گمان کرتے ہیں کہ اُنہیں جو مسلسل ناکامیاں مل رہی ہیں وہ اس لیے ہیں تاکہ باغی ہی دنیا پر حکومت کریں۔ اس طرح وہ دنیاداری کو ہی سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس روش پر جانے سے منع فرمایا اور حق پر ثابت قدمی کی تلقین فرمائی اور کفر و فسق اور جاہلوں کے راستے کو غلط قرار دیا۔ اور فرمایا صبر کے ساتھ حق کے راستے پر چلو۔ جیت حق کی ہی ہوگی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بد دعا کسی ذاتی عناد کی وجہ سے نہ تھی۔ بلکہ یہ حق تعالیٰ کے لیے تھی۔ کیوں کہ وہ مسلسل اللہ رب العز ت کی نافرمانی میں بڑھے جاتے تھے ۔ جیسے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام بددعا کرتے جاتے ویسے ویسے حضرت ہارون علیہ السلام آمین کہتے جاتے۔ پھر اللہ رب العزت نے آپ کو اس کی قبولیت کی خوشخبری سنادی۔

بنی اسرائیل نے فرعون سے عہد مصر سے باہر جاکر منانے کی درخواست کی ۔ پہلے تو اس نے انکار کیا پھر اس نے اُنہیں جانے کی اجازت دے دی۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کردی کہ بنی اسرائیل کو لے کر ہجرت کرجائیں۔ اور یقیناً فرعون اپنے لشکر سمیت آپ کا تعاقب کرے گا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ہم تمہارے ساتھ ہوں گے۔ فرعون کو جب بنی اسرائیل کے خاموشی سے چلے جانے کا علم ہوا تو وہ سخت برا فروختہ ہوا۔ ہر شہر میں ہر کارے بھیجے گئے تاکہ لوگ اکٹھے ہوں اور بنی اسرائیل کا تعاقب کیا جائے۔اور اُنہیں بتایا گیا کہ وہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے جسے فرعونی بآسانی قابو کرلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ان کے شاندار محلات سے باہر نکال دیا۔ اس طرح کہ وہ اپنے پیچھے سرسبز و شاداب باغات، بہتے چشموں اور خزانوں سے بھری تجوریوں کو چھوڑے جاتے تھے اور اس بات سے قطعی لاعلم تھے کہ وہ دوبارہ واپس آنے والے نہیں۔ اور پھر رب کریم نے بنی اسرائیل کو ہر چیز کا وارث بنادیا۔

فرعونیوں کے لشکر اشراق کے وقت بنی اسرائیل کے تعاقب کے لیے بڑے ٹھاٹ سے نکلے۔ وہ تیزی سے بنی اسرائیل کے قدموں کے نشانوں پر بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ بنی اسرائیل نے جب فرعونیوں کو دیکھا تو وہ لرز اٹھے اور خیال کرنے لگے کہ اب اِن کی گردنیں اڑائیں گی اور زمین خون آلودہ ہوکر رہے گی۔ کیوں کہ سامنے سمندر کی بپھری موجیں تھیں اور پیچھے دشمن کی فوج جو اس وقت ان کے خون کی پیاسی ہورہی تھی۔ صرف ایک صورت تھی کہ بنی اسرائیل خود کو سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے کردیں لیکن یہ حوصلہ کس میں تھا؟ خوف کے مارے ان کا خون خشک ہورہا تھا۔ کیوں کہ فرعون کا لشکر بے پناہ اسلحہ سے لیس تھا۔ بنی اسرائیل کو خدشہ تھا کہ اگر پکڑے گئے تو اُنہیں بے پناہ اذیتیں دی جائیں گی۔ وہ شکوہ شکایت کرنے لگے اور حضرت موسیٰ ؑ سے کہنے لگے کہ آپ نے ہمیں پھنسوا دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ فرماتے ہیں:
’’ہر گز نہیں، بلاشبہ میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ ضرور میری راہنمائی فرمائے گا۔‘‘ 
(سورۂ الشعراء، آیت نمبر ۶۲)

حضرت موسیٰ ؑ کا اپنے رب پر یقین رائیگاں نہ گیا۔ تبھی ان کے رب کی طرف سے ان پر وحی نازل ہوئی کہ آپ اپنے عصا سے سمندر میں ضرب لگائیں۔ اور جب آپ نے ضرب لگائی۔ تو پانی ٹھہر گیا اور ایسے ہوگیا جیسے کوئی پہاڑ اپنی جگہ پر ساکن۔ کہا جاتا ہے کہ چوں کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل تھے اسی لیے سمندر میں بارہ راستے بن گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت تھی۔ ہر آنکھ حیران تھی۔ موجوں میں ٹھہراؤ آگیا۔ پھر آپ کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو لے کر سمندر عبور کرجائیں۔ آپ کے اشارے سے وہ لوگ پانی میں اتر گئے۔ وہ اس طرح تیزی سے سمندر کے خشک راستوں پر چل رہے تھے جیسے یہ خشکی کا ہی کوئی راستہ ہو۔ فرعون کا لشکر بنی اسرائیل کے پاس پہنچ چکا تھا۔ انہوں نے جب یہ منظر اپنی آنکھ سے دیکھا تو وہ ششدر رہ گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ خدائے باری تعالیٰ پر فوراً ایمان لے آتے لیکن فرعون نے اُسے رب ذوالجلال کی قدر ت نہ جانا بلکہ اپنے لشکر سے کہنے لگا کہ دیکھو یہ سمندر میرے لیے پھٹ گیا ہے۔ اس کی فاجر طبیعت اور کافر نفس نے قبطیوں کو الو بنایا۔ وہ اُنہیں فریب دینے کے لیے جھوٹ بولنے لگا کہ کہیں یہ لوگ میری اطاعت کا جوأ نہ اُتار پھینکیں ۔
بنی اسرائیل نے رب کریم کی مدد سے بآسانی سمندر پارکرلیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ماننے والوں کو بچالیا۔ فرعونیوں نے بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے اپنا لشکر پانی میں اتار لیا۔ جب وہ سب پانی میں اتر گئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اپنا عصا ماریں اور سمندر کو رواں ہوجانے کا حکم صادر فرمائیں۔ آپ نے حکم کی تکمیل کی اور جیسے ہی سمندر پر عصا مارا گیا ۔ ٹھہرا ہوا پانی بپھر گیا۔ فرعون کا پورا لشکر غرق ہوگیا اور جب وہ ڈوبنے لگا تو بولا:
’’میں ایمان لایا کہ کوئی سچا خدا نہیں بجز اس کے جس پر ایمان لائے تھے بنی اسرائیل اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘ (سورۂ یونس، آیت نمبر ۹۰) 
یہ تھا نبی کی بددعا کا نتیجہ جو انہوں نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے لیے کی تھی کہ ان کے مال و اسباب برباد ہوں اور ان کے دل سخت ہوجائیں، ان کو ایمان نصیب نہ ہو جب کہ وہ عذاب کا مزہ نہ چکھ لیں۔ 
سورۂ المومن میں فرمان الٰہی ہے:
’’پھر جب انہوں نے دیکھ لیا ہمارا عذاب تو کہنے لگے ہم ایمان لائے ایک اللہ پر اور ہم ان معبودوں کا انکار کرتے ہیں جنہیں ہم اس کا شریک ٹھہرایا کرتے تھے۔ پس کوئی فائدہ نہ دیا انہیں ان کے ایمان نے جب دیکھ لیا انہوں نے ہمارا عذاب۔ یہی دستور ہے اللہ تعالیٰ کا جو اس کے بندوں میں جاری ہے اور سراسر خسارہ میں رہے اس وقت حق کا انکار کرنے والے۔ (آیت نمبر ۸۵۔۸۴)
حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب فرعون نے کہا:(میں ایمان لایا کہ کوئی سچا خدا نہیں بجز ا س کے جس پر ایمان لائے ہیں بنی اسرائیل)۔ مجھ سے جبرئیل نے کہا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے میں فرعون کے منہ میں کیچڑ ٹھونس رہا تھا کہ کہیں اسے رحمت خداوندی نہ آلے۔‘‘(ترمذی)

یہ ہے فرعون ملعون کا انجامِ بد جو کمایا اس نے اپنے ان اعمال کے بدلے جو کہ اس نے حق باری تعالیٰ کی مخالفت میں کیے۔ سورۂ الدخان میں فرمان خداوندی ہے:
’’پس نہ رویا ان (کی بربادی) پر آسمان اور نہ زمین اور نہ انہیں مزید مہلت دی گئی۔ اور بے شک نجات دی بنی اسرائیل کو رسوا کن عذاب سے۔ یعنی فرعون(کی غلامی) سے ۔ بلاشبہ وہ بڑا متکبر (اور) حد سے بڑھنے والوں میں سے تھا۔‘‘ (آیت نمبر ۳۱۔۳۰)

فرعون کی مہلت ختم ہوئی اور وہ اپنے اعمال کے سبب جہنم واصل ہوا۔ وہ اپنے آخری وقت اگر ایمان کا اقرار کررہا تھا تو صرف اس وجہ سے کہ موت اس کے سامنے تھی۔ لیکن اگر وہ پھر سے دنیا کی طرف لوٹایا جاتا تو اسی طرح کفر کی روش پر قائم رہتا جیسے پہلے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے جہان والوں کے لیے نشانِ عبرت بنا ڈالا تاکہ لوگ سبق حاصل کریں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں سورۂ یونس میں ارشاد ہوتا ہے:
’’سو آج ہم بچالیں گے تیرے جسم کو تاکہ تو ہوجائے اپنے پچھلوں کے لیے (عبرت کی) نشانی۔‘‘ (آیت نمبر ۹۲)

جس مقام پر فرعون کی لاش سمندر میں تیرتی ہوئی پائی گئی اس کو جبلِ فرعون کہتے ہیں۔ اس کے قریب ایک گرم پانی کا چشمہ ہے جسے مقامی آبادی ’’حمام فرعون‘‘ کہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آج تک اس کی لاش قاہرہ کے عجائب خانے میں موجود ہے۔
حضرت ابن عباسؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری ہوئی تو ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ یہودی کہنے لگے کہ یہ بڑی عظمت والا دن ہے اس روز اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بچایا اور آ لِ فرعون کو غر ق کیا۔ تو شکر گزاری کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس روز کا روزہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم یہودیوں کی نسبت موسیٰ  کے زیادہ قریب ہیں۔ چناں چہ آپ نے خود روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی رکھنے کا حکم دیا۔(بخاری)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام نے ایک طویل مدت مصر میں گزاری تاکہ اہلِ مصر کو ایمان کی روشنی سے منور کریں۔ لیکن وہ کفر میں مبتلا رہے۔ اور جب اہلِ ایمان اور اہل کفر کے لشکر آمنے سامنے آئے تو فتح بے شک حق کی ہوئی۔ اور کفارہ جس مال و دولت پر اتراتے تھے۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو ہر اُس چیز کا وارث بنادیا۔ یہ واقعات قرآن میں بیان فرما کر اللہ تعالیٰ نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کو بشارت دی کہ آپ مشرکین مکہ کی گستاخیوں سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ فتح آپ کا مقدر ہے۔ بس صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔ اور ان تمام معجزات کا ذکر کرکے کفار مکہ پر واضح کردیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں بھی معجزات آئے لیکن کفار نے انکار کیا۔ اور اُن پر صحبت تمام کردی گئی۔ تبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے حق میں بددعا فرمائی جو ٹھیک ٹھیک پوری ہوئی پھر اُنہیں ایمان نصیب نہ ہوا۔ اللہ رب العزت مسلمانوں کے دلوں کو ایمان کی شمع سے منور کردے۔ تاکہ مہلت کے خاتمہ سے پہلے وہ سنبھل جائیں اور آخرت کے ساتھ اپنی دنیا بھی سنوار لیں۔ (آمین)

*۔۔۔*۔۔۔*



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

قرآن کہانی ۔۔۔۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام (حصہ پنجم) مصنفہ: عمیرہ علیم بشکریہ:  الف کتاب جادوگروں کا حضرت موسیٰ علیہ السلا...

وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک


وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک
شاعر:مظفر وارثی

تیری خوشبو، میری چادر
تیرے تیور، میرا زیور
تیرا شیوہ، میرا مسلک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

میری منزل، تیری آہٹ
میرا سدرہ، تیری چوکھٹ
تیری گاگر، میرا ساگر
تیرا صحرا ، میرا پنگھٹ
میں ازل سے ترا پیاسا
نہ ہو خالی میرا کاسہ
تیرے واری ترا بالک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

تیری مدحت، میری بولی
تُو خزانہ، میں ہوں جھولی
تیرا سایہ، میری کایا
تیرا جھونکا، میری ڈولی
تیرا رستہ، میرا ہادی
تیری یادیں، میری وادی
تیرے ذرّے، میرے دیپک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

تیرے دم سے دلِ بینا
کبھی فاراں، کبھی سینا
نہ ہو کیوں پھر تیری خاطر
میرا مرنا میرا جینا
یہ زمیں بھی ہو فلک سی
نظر آئے جو دھنک سی
تیرے در سے میری جاں تک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

میں ادھورا، تو مکمل
میں شکستہ، تو مسلسل
میں سخن ور، تو پیمبر
میرا مکتب، ترا ایک پل
تیری جُنبش، میرا خامہ
تیرا نُقطہ، میرا نامہ
کیا تُو نے مجھے زِیرک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک

میری سوچیں ہیں سوالی
میرا لہجہ ہو بلالی
شبِ تیرہ، کرے خیرہ
میرے دن بھی ہوں مثالی
تیرا مَظہر ہو میرا فن
رہے اُجلا میرا دامن
نہ ہو مجھ میں کوئی کالک
وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک ​



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک شاعر:مظفر وارثی تیری خوشبو، میری چادر تیرے تیور، میرا زیور تیرا شیوہ، میرا مسلک وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَ...

مِری خاک بھی اُڑے گی با ادب تِری گَلی میں


مِری خاک بھی اُڑے گی با ادب تِری گَلی میں
تِرے آستاں سے اونچا نہ مِرا غُبار ہوگا

لوگ تاج محل کو محبت کی علامت قرار دیتے ہیں مگر یقین کریں کہ عثمانی دور میں مسجد نبوی کی تعمیر دنیائے تعمیرات میں محبت اور عقیدت کی معراج ہے۔ ذرا پڑھیے اور اپنے دلوں کو حبِّ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منور کریں:

ترکوں نے جب مسجد نبوی کی تعمیر کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع و عریض ریاست میں اعلان کروایا کہ انہیں عمارت سازی سے متعلق فنون کے ماہرین درکار ہیں۔ اعلان کرنے کی دیر تھی کہ ہر علم کے مانے ہوئے لوگوں نے اپنی خدمات پیش کردیں۔ سلطان کے حکم سے استنبول سے باہر ایک شہر بسایا گیا جس میں اطرافِ عالم سے آنے والے ان ماہرین کو الگ الگ محلوں میں بسایا گیا۔

اس کے بعد عقیدت اور حیرت کے ایسے باب کا آغاز ہوا جس کی نظیر مشکل ہے۔ خلیفہ وقت کو دنیا کا سب سے بڑا فرماں روا تھا، خود شہر میں آیا اور ہر شعبے کے ماہر کو تاکید کی کہ اپنی ذہین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھائے کہ وہ اسے اس میں یکتا اور بے مثال کردے۔ اسی اثناء میں ترک حکومت اس بچے کو حافظ قرآن اور شہسوار بنائے گی۔

دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب و غریب منصوبہ کئی سال جاری رہا، پچیس سال بعد نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت تیار ہوئی جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتائے روزگار تھی بلکہ ہر شخص حافظِ قرآن اور با عمل مسلمان بھی تھا۔ یہ لگ بھگ پانچ سو لوگ تھے۔ اسی دوران ترکوں نے پتھروں کی نئی کانیں دریافت کیں، جنگلوں سے لکڑیاں کٹوائیں، تختے حاصل کیے گئے اور شیشے کا سامان بہم پہنچایا گیا۔

یہ سارا سامان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر پہنچایا گیا تو ادب کا یہ عالم تھا کہ اسے رکھنے کے لئے مدینہ منورہ سے دور ایک بستی بسائی گئی تاکہ شور سے مدینہ کا ماحول خراب نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کی وجہ سے اگرکسی کٹے ہوئے پتھر میں ترمیم کی ضرورت پڑتی تو اسے واپس اس بستی بھیجا جاتا۔ ماہرین کو حکم تھا ہر شخص کام کے دوران باوضو رہے اور درود شریف اور تلاوت کلامِ پاک میں مشغول رہے۔ حجرہ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا گیا کہ گَرد و غُبار اندر روضہ پاک میں نہ جائے۔ ستون لگائے گئے کہ ریاض الجنۃ اور روضہ پاک پر مٹی نہ گرے۔ یہ کام پندرہ سال تک جاری رہا اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسی محبت، ایسی عقیدت سے کوئی تعمیر نہ کبھی پہلے ہوئی ہے نہ کبھی بعد میں ہوگی۔


اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ،
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

مِری خاک بھی اُڑے گی با ادب تِری گَلی میں تِرے آستاں سے اونچا نہ مِرا غُبار ہوگا لوگ تاج محل کو محبت کی علامت قرار دیتے ہیں مگر ...

آج کی بات ۔ 482


〰 آج کی بات 〰

سمجھنا جاننے سے زیادہ گہرائی رکھتا ہے؛
بہت سے لوگ ہیں جو ہمیں جانتے ہیں،
لیکن بہت کم لوگ ہیں جو ہمیں سمجھتے ہیں۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

〰 آج کی بات 〰 سمجھنا جاننے سے زیادہ گہرائی رکھتا ہے؛ بہت سے لوگ ہیں جو ہمیں جانتے ہیں، لیکن بہت کم لوگ ہیں جو ہمیں سمجھتے ہیں...

انسان کی اصلیت ۔۔۔۔ ایک مکالمہ


انسان کی اصلیت ۔۔۔ ایک مکالمہ


▪ کیا طاقت خراب چیز ہے؟
جیسے کہتے ہیں کہ "طاقت خرابی پیدا کرتی ہے، اور مکمل طاقت مکمل خرابی ہے"۔

▫ نہیں۔۔۔ طاقت صرف ہمارے اندر جو ہے اس کو باہر لاتی ہے.

▪ صرف طاقت کیوں؟

▫ یہ صرف طاقت کے ساتھ نہیں ہے۔۔۔ یہ ہر ایک چیز کے ساتھ ہے.

▪ جیسے؟

▫ جیسے کھیل، کام کی جگہ، خاندان ۔۔۔ ہر جگہ فیصلوں کا معیار اہمیت رکھتا ہے باقی سب بس حلات کے پیمانے اور وسعت ہیں ۔۔۔ اور اس کا اثر متناسب ہے ۔۔۔۔ دو دوستوں کے درمیان ایک خودغرضانہ فیصلہ اور دو ملکوں کے بیچ ایک خودغرضانہ فیصلہ اپنی روح اور جوہر میں ایک جیسے ہیں۔۔ پر حالات کے پیمانے اور وسعت میں فرق کی وجہ سے ان کے اثرات مختلف ہیں…. تاہم ، طاقت میں کچھ انوکھی چیز ہے…. ”

▪ اور وہ کیا ہے؟

▫ طاقت کے ساتھ اختیار آتا ہے ۔۔۔۔ اختیار جب عمل میں آتا ہے تو اصل شخصیت بہت جلدی ظاہر کردیتا ہے۔

▪ اور یہ کیسے پتا چلتا ہے؟

▫ اگر آپ کسی شخص کی حقیقت دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کو طاقت اور اختیار دے دیں ۔۔۔ وہ ذرا سا بھی وقت ضائع نہیں کرے گا اپنی اصلیت دکھانے میں۔

▪ تو پھر ہمیں ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہئیے۔

▫ اس سے بھی زیادہ، ہمیں اپنے آپ سے ہوشیار رہنا چاہئیے ۔۔ ہم سب کسی نہ کسی طرح با اختیار ہوتے ہیں ۔۔ ہمیں جائزہ لیتے رہنا چاہئیے کہ ہم اپنی طاقت اور اختیار کے ساتھ کتنے اچھے اورکتنے  برے ہیں۔

▪ اس کا مطلب کہ طاقت اور اختیار ایک آزمائش ہیں۔۔ !!

▫ آپ بہت شاندار ہیں ۔۔۔۔ آپ یہ اس گفتگو کی دس سطروں میں سمجھ گئے ۔۔۔ لوگ اس بات کو اپنی پوری زندگی نہیں سمجھ پاتے۔ 


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

انسان کی اصلیت ۔۔۔ ایک مکالمہ از عمر الیاس ▪ کیا طاقت خراب چیز ہے؟ جیسے کہتے ہیں کہ "طاقت خرابی پیدا کرتی ہے، اور مکمل ...

خیالات کا انتخاب


🗭 خیالات کا انتخاب 🗬
منقول

“اپنے خیالات کا انتخاب کرنا سیکھئے، بالکل ویسے ہی جیسے آپ روزانہ پہننے کے لئے صاف ستھرے کپڑوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ وہ طاقت ہے جسے آپ کاشت کر سکتے ہیں۔ اگر آپ شدت کے ساتھ اپنی زندگی میں چیزوں پر قابو پانا چاہتے ہیں، تو اپنے دماغ پر کام کریں۔
 درحقیقت بس یہی ایک چیز ہے جس پر آپ کو قابو پانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اس کے علاوہ ہر چیز (پر قابو پانے) کی فکر چھوڑ دیں۔ کیونکہ اگر آپ نے اپنے سوچنے کے انداز پر کمال حاصل نہیں کیا، تو آپ ہمیشہ مشکلات کا شکار رہیں گے”۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

🗭 خیالات کا انتخاب 🗬 منقول “اپنے خیالات کا انتخاب کرنا سیکھئے، بالکل ویسے ہی جیسے آپ روزانہ پہننے کے لئے صاف ستھرے کپڑوں کا ...

ادب سے عروج کی داستان


ادب سے عروج کی داستان
بشکریہ: دلیل ویب

ترکوں کی ایک بہت ہی خوبصورت عادت ہے ۔ جب بھی محمد ﷺ کا ذکر ان کے سامنے کیا جاتا ہے یا وہ خود ذکر کرتے ہیں تو احتراماً اپنا ہاتھ اپنے دلوں پر رکھ لیتے ہیں یا سلام کرتے ہیں۔ ترک جب نبی علیہ السلام کا نام مبارک سنتے ہی چھوٹے بڑے مرد و عورت سب محبت و عشق کی وجہ سے دل پہ ہاتھ رکھ لیتے ہیں اسوقت دل کی عجیب سی کیفیت ہو جاتی ہے۔ الھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم

صدیوں سے عثمانی ترکوں کا ایک طریقہ رہا ہے کہ جب حدیث میں یا خطبے میں یا گھر میں یا اور کوئی بات چیت میں جب آقائے دوجہاں "جنابِ محمدﷺ" کا مبارک نام زبانوں پر آتا تو عثمانی ترک اپنے ہاتھ دلوں پر رکھ دیتے ہیں اور اپنا سر جھکا لیتے ہیں اور آقائے دوجہاں پر درودِ پاک پڑھ لیتے ہیں،
پھر وہ لوگ جو کہتے تھے کہ کیوں؟ رسول اللہﷺ تو مدینے میں ہیں اور مدینہ بہت دور ہے،
 عثمانی ترکوں کا خوبصورت سا جواب : جنابِ رسول اللہﷺ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور ایسا کرنے سے ہمارے دلوں کو سکون ملتا ہے،
 عثمانی ترکوں نے مثالی ادب سے اپنے گردنوں کو جھکایا اور اپنے اعلیٰ درجے سے قبل خود کو کم کیا تو اللہ نے ان کو عروج پر اٹھایا.اور ساری دنیا کا حاکم و سردار بنا کر ان کو ہمیشہ کی عزت دی ۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ادب سے عروج کی داستان بشکریہ: دلیل ویب ترکوں کی ایک بہت ہی خوبصورت عادت ہے ۔ جب بھی محمد ﷺ کا ذکر ان کے سامنے کیا جاتا ہے یا وہ...

آج کی بات - 481


~!~ آج کی بات ~!~

رات کو ذکر والا بناؤ اور دن کو شکر والا .. غم کو صبر والا بناؤ .. حال کو حمد والا...
 احساس کو فکر والا بناؤ اور دل کو محبت والا..
 ہاں سب رب کی عطا سے ہے.. تو خود کو رب اور رب کی عطا مانگنے والا بناؤ..!


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

~!~ آج کی بات ~!~ رات کو ذکر والا بناؤ اور دن کو شکر والا .. غم کو صبر والا بناؤ .. حال کو حمد والا...  احساس کو فکر والا بناؤ ا...

رخ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم)


رخِ مصطفیٰﷺ ہے وہ آئینہ کہ اب اور ایسا آئینہ
نہ کسی کے بزمِ خیال میں، نہ دکانِ آئینہ ساز میں

شاعر: لطف بدایونی

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

رخِ مصطفیٰﷺ ہے وہ آئینہ کہ اب اور ایسا آئینہ نہ کسی کے بزمِ خیال میں، نہ دکانِ آئینہ ساز میں شاعر: لطف بدایونی تبصرہ کرک...

کہاں ہے وہ دنیا کہاں ہیں وہ باسی


کہاں ہے وہ دنیا کہاں ہیں وہ باسی
 سیما آفتاب
ماخوز از The Lost World 

کہاں کھو گئی ہے وہ دنیا جہاں پر
بھلائی کا شیوہ تھا بس بے وجہ ہی
مدد کی روش عام تھی اس جہاں میں
تھی انسانیت ہر جگہ پر مقدم
نہ بدلے کی پرواہ، نہ چاہ فائدے کی
جہاں صرف اخلاص تھا دوستی میں
نہ مطلب پرستی، نہ قبضے کی خواہش
کہاں کھو گئی ہے وہ دنیا جہاں پر
سمجھتے تھے انساں کو بس ایک انساں
نہ کوئی کھلونا سمجھتے تھے ان کو
نہ کٹھ پتلی جیسا رویہ تھا ان سے
مزاح تھا تو ایسا کہ خوش اس سے ہوں سب
نہ مقصد تھا رسوائی اس سے کسی کی
بناوٹ کا کوئی تصور نہیں تھا
نہ مادہ پرستی تھی تب پائی جاتی
سب ہی خوش وہاں دوسروں کی خوشی میں
اگر غم پڑے تو سبھی بانٹتے تھے
ترقی کے چرچے جہاں تھے زیادہ
جہاں زندگی خالص اور مطمئن تھی
ذہانت کا مطلب نہ تھا جلد بازی
نہ تھی عقلمندی کی جا پر چالاکی
گنوادی وہ دنیا، اپنے طرزِ عمل سے
رویوں کی منفیت اور بے حسی سے
کہاں پر ملے گی ہمیں اب وہ دنیا؟
جہاں لوگ انساں تھے،اور مخلصی تھی
یہ ممکن ہے گَر اپنے اندر تلاشیں
وہ کھویا جہاں ہم دوبارہ سے پا لیں
بس نقطہ نظر، سوچ اپنی بدل کر
طبیعت میں مثبت سی تبدیلی لا کر
یہ باور کریں خود کو، مثبت بنا کر
نہیں ہے یہ کمزوری، ہر گز ذرا بھی
یہی ہے اصل اپنی، یہ ہی ہے طاقت
یہی ہے جو انساں کو انساں بنائے
جو مُمتاز اس کو کرے جانور سے۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

◑ کہاں ہے وہ دنیا کہاں ہیں وہ باسی ◐  سیما آفتاب ماخوز از  The Lost World   کہاں کھو گئی ہے وہ دنیا جہاں پر بھلائی کا شیوہ ...

دعا ۔۔۔ سمیرا حمید




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں ۔۔۔۔ 

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں ۔۔۔۔ 

بیلنس ۔۔۔۔ انشورنس


بھلے وقت میں کر لی گئی تسبیح کڑے وقت پر کام آتی ہے۔

فرمایا: فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ (143) لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (144) ( سورۃ الصافات)
 "پس اگر وہ (یونسؑ) تسبیح کرنے والا نہ ہوتا تو ضرور قیامت تک اسی (مچھلی) کے پیٹ میں رہتا

اپنا تسبیح کا "بیلنس" بھرا رکھو؛ مشکل وقت کےلیے بہترین "انشورنس"!





تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

بھلے وقت میں کر لی گئی تسبیح کڑے وقت پر کام آتی ہے۔ فرمایا: فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ (143) لَلَبِثَ فِي بَطْن...

آج کی بات-480


~!~ آج کی بات ~!~

تعلیم مکمل ہو تو سند ملتی ہے، انگریزی میں جسے ڈگری کہتے ہیں۔
 تربیّت مکمل ہو تو دوسرے آپ کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہتے ہیں۔

استاد جعفر


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

~!~ آج کی بات ~!~ تعلیم مکمل ہو تو سند ملتی ہے، انگریزی میں جسے ڈگری کہتے ہیں۔   تربیّت مکمل ہو تو دوسرے آپ کی زبان اور ہاتھ سے ...

دعا اور سلام (ایک مکالمہ)


دعا اور سلام (ایک مکالمہ) 

◈ ہیلو۔

◉ السلام علیکم جناب۔ کیا آپ گھر پر ہی ہیں۔

◈ جی ہاں۔ آپ کون؟

◉ میری آپ سے کل بات ہوئی تھی۔

◈ ہاں ہاں۔ یاد آیا۔ تو آپ کِس سلسلے میں ملنا چاہ رہے ہیں۔

◉ بس یونہی ۔ سلام کرنے۔ دُعا دینے۔

◈ آپ شہر کے دوسرے حصے سے صرف سلام ، دُعا کے لئے آئیں گے!؟

◉ جی۔

◈ عجیب سی بات ہے۔

◉ کیسے؟

◈ یہاں لوگ بغیر وجہ کے نظر بھی نہیں ڈالتے ، توجہ بھی نہیں دیتے۔ اور آپ خود آنا چاہتے ہیں۔

◉ دو انسانوں میں سلام اور دعا سے بڑی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔

◈ بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں۔

◉ مثلاً۔

◈ مثلاً کوئی کام ، کوئی سفارش ، کوئی فیور ، کوئی آسانی کی بات ، کوئی لِنک ، کوئی نیٹ ورکِنگ ، کوئی اپروچ۔

◉ میں بھی اسی لئے حاضر ہو رہا ہوں۔ اُمید ہے اب آپ سمجھ گئے ہوں گے۔

◈ سمجھ گیا۔

◉ بہت اچھے جناب۔

◈ معافی چاہتا ہوں۔ میں نے آج تک دعا اور سلام کو ان معنوں میں سمجھا ہی نہیں۔

◉ الفاظ کو معنی ہماری نیت اور عمل پہناتے ہیں ۔ اور ملاقات کو ، ہماری دُعا اور سلام۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

دعا اور سلام (ایک مکالمہ)  از عمر الیاس   ◈ ہیلو۔ ◉ السلام علیکم جناب۔ کیا آپ گھر پر ہی ہیں۔ ◈ جی ہاں۔ آپ کون؟ ◉ م...

حُبِّ رسول ﷺ کا معیار اور تقاضے


حُبِّ رسول ﷺ کا معیار اور تقاضے



رسول اللہ ﷺ کی محبت جوہرِایمان اور حقیقت ِایمان ہے ۔ آپﷺ کا ارشاد ہے :''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد ‘ والد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں (اور دوسری حدیث میں ) آپ ﷺ نے خاندان اور مال کا بھی ذکر فرمایا‘ (صحیح مسلم : 69-70)‘‘۔

ان احادیثِ مبارکہ میں مومن ہونے کے لیے رسول اللہ ﷺ کو کائنات میں سب سے زیادہ محبوب ہونے کولازمی قرار دیا گیا ہے ۔ اس کی شرح میں علما نے فرما یا : جس شخص کے دل میں نفسِ محبتِ رسول نہیں وہ نفسِ ایمان سے محروم ہے اور جس کے دل میں کمالِ محبتِ رسول نہیں ہے وہ کمالِ ایمان کی سعادت سے محروم ہے ‘بلکہ کمالِ ایمان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کے رسولِ مکرمﷺ کو اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب جانے اور مانے ۔

عبداللہ بن ہشامؓ بیان کرتے ہیں: ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ عمر بن خطابؓ کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے تھے ‘عمرؓ نے آپﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یارسول اللہؐ! آپ مجھے اپنی جان کے سواہرچیز سے زیادہ محبوب ہیں‘ نبی ﷺ نے فرمایا: (عمر!) ابھی (کامل) ایمان کا تقاضا پورا نہیں ہوا‘ اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ‘ (ایمان تب مکمل ہوگا) جب میں تمہاری جان سے بھی زیادہ تمہیں محبوب ہوجائوں‘ حضرت عمر ؓنے عرض کیا: (یارسول اللہؐ!) اب یہی کیفیت ہے ‘واللہ!آپ ضرور مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں‘ نبی ﷺ نے فرمایا: عمر! اب تم نے ایمان کے مرتبۂ کمال کو پا لیا‘ (صحیح البخاری: 6632)‘‘۔

محبتِ رسول ﷺ کا دعویٰ تو ہر ایک بڑھ چڑھ کر کرتا ہے ‘ لیکن قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی کسوٹی بھی بیان فرمائی ہے‘ جیسے : دنیا میں چیزوں کے لیے کوالٹی کنٹرول اور معیارات ہوتے ہیں‘ اسی طرح ایمان کو جانچنے کے معیارات بھی قرآن و حدیث میں بیان فرمائے گئے ہیں ‘

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

''(اے رسول ﷺ !)آپ فرما دیں: اگر تمہارے آبا (و اجداد) ‘ تمہارے بیٹے (بیٹیاں) ‘ تمہارے بھائی (بہنیں) ‘ تمہاری بیویاں (یا شوہر)تمہارا خاندان‘ تمہارا کمایا ہوا مال ‘ (تمہاری ) تجارت جس کے خسارے میں جانے کا تمہیں کھٹکالگا رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات (اگر یہ سب چیزیں جداجدا اور مل کر بھی ) تمہیں اللہ تعالیٰ ‘ اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہوجائیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے (عذاب کا ) فیصلہ صادر فرماد ے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت (سے فیض یاب) نہیں فرماتا ‘ (التوبہ : 24)‘‘۔

اس آیتِ مبارکہ میں تقابل کے طور پر جن چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے ‘ وہ سب انسان کے محبوب رشتے اور پسندیدہ چیزیں ہیں ۔ اگر ان تمام متعلقات سے محبت کی مطلقاً نفی کو ایمان کے لیے لازم قرار دیا گیا ہو تا تو خلافِ فطرت ہوتا اور اسلام دینِ فطرت ہے ۔ پس درجہ بدرجہ ان چیزوں کی محبت کو ایمان کی ضد قرار نہیں دیا گیا‘ بلکہ اللہ تعالیٰ ‘ اس کے رسول مکرمؐ اور اس کی راہ میں جہاد کے مقابلے میں ان چیزوں کے محبوب ترین ہونے کو ایمان کے منافی فرمایا گیا ہے ۔ گویا یہ بتلادیا کہ تمہارا محبوب کوئی بھی ہو سکتا ہے ‘ لیکن محبوب ترین صرف یہی تین چیزیں ہونی چاہیں ۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ کیسے جانا جائے کہ فلاں شخص کو اللہ اور اس کے رسول ؐاور اس کی راہ میں جہاد سب سے زیادہ محبوب ہیں یا کوئی اور چیز ؟

پس جب نفس کی خواہشات ‘ مرغوبات اور پسندیدہ چیزیں اللہ کے حکم سے متصادم ہو جائیں تو پھر پتا چلے گا کہ انسان رب کے حکم کو ترجیح دیتا ہے یا اپنے اور اپنے پیاروں کے نفسانی مطالبات کو‘ مثلاً ایک شخص کے بیوی بچوں کی فرمائشیں اس کی آمدنی کے حلال ذرائع سے پوری نہیں ہوتیں ‘ تو وہ ان کو پورا کرنے کے لیے رشوت یا حرام ذرائع کا سہارا لیتا ہے ‘ پس عملاً اس نے اللہ اور اس کے رسول ؐکے حکم کو پسِ پشت ڈال دیا اوراس پر اپنے پیاروں کی فرمائشوں کی تکمیل کو ترجیح دی ‘ تو پھر عمل کی دنیا میں یہی چیزیں محبوب ترین قرار پائیں ۔ درحقیقت ایمان کی حقیقی آزمائش یہی ہے اور اس مرحلۂ امتحان سے ہمیں دن میں کئی بار دو چار ہونا پڑتا ہے ؛

چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرمایا:

''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا‘ جس نے اپنی خواہشِ نفس کو معبود بنا رکھا ہے ‘ (الفرقان:43)‘‘۔

گویا باری تعالیٰ کے حکم کے مقابل اپنے نفس کی خواہشات کو ترجیح دینا عملاً اسے خدا ہی تو بنا نا ہے ‘ یہ بھی کوئی بندگی ہے کہ سجدہ تو اللہ کے حضور کرے اور حکم نفس کا یا غیر اللہ کا مانے ‘ یہ معبود بنانا نہیں تو اورکیا ہے‘ حالانکہ ہم ہر روز دعائے قنوت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ اقرار کرتے ہیں :''اور جو تیرا نافرمان ہے ‘ہم اُس سے قطعِ تعلق کرتے ہیں اور اس کو چھوڑتے ہیں ‘‘۔

پھر سیاقِ کلام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کی کمال محبوبیت کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر فرما کر یہ واضح فرمادیا کہ محبت رسولؐ اور محبت الٰہی کی منزل اتنی آسان نہیں کہ نعت خوانوں اور قوالوں پر نوٹ نچھاور کر کے لوگ بزعم خویش عاشق رسو ل بن جائیں ‘ عشقِ مصطفی ﷺ کی معراج عزیمت و استقامت کے جادۂ مستقیم پر گامزن رہنے والوں کو نصیب ہوتی ہے‘ علامہ اقبال نے کہا ہے:

یہ شہادت گہِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لاالٰہ را

یعنی جب میں زبان سے اقرار کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں ‘ کیونکہ کلمۂ لاالٰہ الا اللہ کی راہ میں استقامت کے ساتھ کھڑے رہنے کی صورت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں ‘ میں ان سے بخوبی آگاہ ہوں ۔ 
اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا :
''کیا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم (کسی آزمائش کے بغیر ) یوں ہی چھوڑ دیے جاؤ گے ‘ حالانکہ اللہ نے ابھی تک تم میں سے ان لوگوں کوممتاز نہیں کیا جنہوں نے تم میں سے جہاد کیااورانہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنوں کے سوا کسی کو اپنا محرمِ راز نہیں بنایا اور اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے ‘ (توبہ : 16)‘‘۔

پس رسول اللہ ﷺ کی محبت کے معیار پر پورا اترنے کے لیے آپ ﷺ کی تعظیم‘ اطاعت اور اتباع لازم ہے ۔ کسی شخص کے دل میں محبتِ رسول ہے یا نہیں ‘ اسے اطاعت و اتباعِ رسول کی میزان اور کسوٹی پر پرکھا جائے گا ۔ صرف محبتِ رسول کا دعویٰ کا فی نہیں ہے ‘ ہر دعویٰ دلیل چاہتا ہے اور حُبِ الٰہی وحُبِ رسولﷺ کی دلیل اطاعت واتباعِ رسول ہے ۔
 اللہ تعالیٰ نے سورۂ اعراف میں رسول اللہ ﷺ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد فرمایا:

 ''سو جو لوگ اُن پرایمان لائے اور آپ کی تعظیم کی اور آپ کی نصرت کی اور اس نور (قرآنِ مجید ) کی پیروی کی جو ان کے ساتھ اُتارا گیا ‘ بس یہ لوگ فلاح پانے والے ہیں ‘ (الاعراف : 157)‘‘

 یعنی رسول اللہ ﷺ کی حیثیت محض ایک حاکمِ مُجاز کی نہیں ہے کہ قانوناً اس کا حکم مان لیا ‘ خواہ دل میں اس کے بارے میں ملال ہی کیوں نہ ہو‘بلکہ آپ کی تعظیم و توقیر بھی لازم ہے اور آپ کے فرامین کو نہ صرف ظاہری طور پر ماننا ضروری ہے بلکہ لازم ہے کہ آپ کے کسی بھی حکم کے بارے میں دل میں کوئی ملال پیدا نہ ہو اور آئینۂ دل میں بال نہ آئے۔

یعنی ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرمﷺ کی اطاعت لازم ہے اور پھر یہ قولِ فیصل جاری فرما دیا کہ حقیقت کے اعتبار سے اطاعتِ الٰہی اور اطاعتِ رسول ایک ہی ہے ؛

چنانچہ فرمایا:
''اور جس نے رسول کی اطاعت کی ‘ سو اس نے اللہ کی اطاعت کی ‘ (النسآء : 80)‘‘
 اور فرمایا :
 ''اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو اس نے بڑی کامیابی کوپا لیا ‘ (الاحزاب: 71)‘‘۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں ۔۔

حُبِّ رسول ﷺ کا معیار اور تقاضے از مفتی منیب الرحمن  رسول اللہ ﷺ کی محبت جوہرِایمان اور حقیقت ِایمان ہے ۔ آپﷺ کا ارشاد ہے :...

آج کی بات ۔۔۔ 479


〖 آج کی بات 〗


ہم نے یہ نہیں پوچھنا کہ اُس نے ایسے کیوں کیا ۔۔۔؟
 بلکہ ہمیں تیاری کرنا ہے کہ ۔۔۔۔
 ہم سے پوچھا جانے والا ہے کہ ہم نے ایسا کیوں کیا ۔۔۔؟

واصف علی واصف


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

〖 آج کی بات 〗 ہم نے یہ نہیں پوچھنا کہ اُس نے ایسے کیوں کیا ۔۔۔؟  بلکہ ہمیں تیاری کرنا ہے کہ ۔۔۔۔  ہم سے پوچھا جانے والا ہے ...

برتن ۔۔۔ ایک مکالمہ


برتن ۔۔۔ ایک مکالمہ

◂بیٹا، ملازمہ سے کہو کہ اپنے والے برتن لے آئے۔ میں کھانا ڈال دوں۔

◃جی۔ میں یہ کام مکمل کر لوں، پھر انہیں بتاتا ہوں۔

◂کون سا کام ہے ، جو اتنا اہم ہے بیٹا؟

◃اسائنمنٹ ہے۔

◂کِس سبجیکٹ کی؟

◃معاشرتی علوم کی ہے۔ کل جمع کروانی ہے۔

◂تو کیا لکھ رہے ہو؟

◃ہمیں ٹاپک ملا تھا ، پاکستان بننے کی وجوہات بتائیں۔ اور یہ کہ کہ متحدہ ہندوستان میں سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں کو کیا درپیش تھا؟

◂تو کیا پتا چلا؟ کونسا مسئلہ تھا اہم ترین؟

◃میرے خیال سے تو ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اور مستقبل کا ڈر ہماری عزّت ، برابری اور حقوق سے متعلق تھا۔

◂وہ کیسے؟

◃جیسے ہندو ہمیں ناپاک اور حقیر سمجھتے تھے

◂یہ تو ہے۔

◃ یہی نہیں ، وہ ہمارے کھانے پینے کے برتن تک الگ رکھتے تھے۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

برتن ۔۔۔ ایک مکالمہ از عمر الیاس ◂بیٹا، ملازمہ سے کہو کہ اپنے والے برتن لے آئے۔ میں کھانا ڈال دوں۔ ◃جی۔ میں یہ کام مکمل کر ل...

حَرفِ مُشَدَّد


~!~ حَرفِ مُشَدَّد ~!~

میں پہلی بار کبھی منکشف نہیں ہوتا
مثالِ حَرفِ مُشدّد ہوں، پھر پڑھو مجھ کو

منقول از: عمر الیاس


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

~!~ حَرفِ مُشَدَّد ~!~ میں پہلی بار کبھی منکشف نہیں ہوتا مثالِ حَرفِ مُشدّد ہوں، پھر پڑھو مجھ کو منقول از: عمر الیاس ت...

بھولنا ۔۔۔ ایک مکالمہ


بھولنا ۔۔۔ ایک مکالمہ


〉مجھے ایک بات بتائیں۔۔

》جی!

〉بھول جانا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟

》اس کی دو وجوہات ہیں
1- ہم اصل میں بھولنا نہیں چاہتے
2- ہمارے پاس آگے بڑھ جانے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔۔ سو ہم ماضی سے جڑے رہتے ہیں۔

〉ہم بھولنا کیوں نہیں چاہتے؟

》کیونکہ، شاید ہم حقیقت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔

〉اور آگے بڑھ جانے کی کیا وجہ ہوتی ہے؟

》ایک نئی زندگی، مقصد، دوست، خواہش، سمت ۔۔۔ ایک تبدیلی،۔۔۔۔۔۔ ویسے اس کی ایک بنیادی وجہ ہے ۔۔ ان وجوہات کے پس پردہ

〉اور وہ کیا ہے؟

》ہماری انا ہماری یادداشت سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہے ۔۔

〉اس کا حل کیا ہے؟

》کسی چیز کو بھولنے کے لئے، خود کو اہم سمجھیں۔

〉وہ کیسے؟

》وہ کریں جو آپ کو پسند ہو ۔۔۔۔ یہ آپ کوبیک وقت مصروت، خوش اور پُر عزم رکھے گا۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

بھولنا ۔۔۔ ایک مکالمہ از عمر الیاس 〉مجھے ایک بات بتائیں۔۔ 》جی! 〉بھول جانا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟ 》اس کی دو وجوہات...

آج کی بات-478


↰ آج کی بات ↱

بڑا پتھر کسی کو ٹھوکر نہیں لگاتا، 
ٹھوکر لگانے کے لئے اسے راہ کا چھوٹا پتھر بننا پڑتا ہے
 اور چبھنے کے لئے کنکر


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

↰ آج کی بات ↱ بڑا پتھر کسی کو ٹھوکر نہیں لگاتا،  ٹھوکر لگانے کے لئے اسے راہ کا چھوٹا پتھر بننا پڑتا ہے  اور چبھنے کے لئے ک...

آج کی بات-477


↶آج کی بات ↷‏


جب تک آپ “سہتے” رہیں گے تو پستے رہیں گے ۔۔۔۔
تھوڑا سا "کہنا" سیکھیے حالات خود بخود سدھار کی طرف چلنا شروع ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

↶آج کی بات ↷‏ جب تک آپ “ سہتے ” رہیں گے تو پستے رہیں گے ۔۔۔۔ تھوڑا سا " کہنا " سیکھیے حالات خود بخود سدھار کی طرف چل...

ان الانسان لفی خسر


إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ
بے شک انسان نقصان میں ہے ( سوره العصر آیات ٢ )

مجھے بچپن سے ہی سوره العصر کی اس آیت میں عجیب سی کشش ملتی تھی اور ذہن میں سوال آتے تھے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اسے بھلا خسارے میں کیوں کہا گیا ؟؟

جب سپارہ پڑھنے والے استاد جی سے پوچھتا تو شاید وہ صرف قرآن پاک پڑھانے کے پیسے لیتے تھے پر سمجھانے کے نہیں اس لئے کبھی کسی بات کا جواب نہیں دیا ، پر کل ایسا لگا جیسے مجھے سارے سوالوں کے جواب مل گئے ہوں ..

کل کچھ سامان لینے کے لئے بازار جانا ہوا ، ایک دکان پر سگریٹ کے ڈبے کا بڑا سا بورڈ دیکھ کر قدم اپنے آپ رک گئے اور کافی دیر اس پر لکھی عبارت کو پڑھتا رہا ، اس ڈبے پر واضح لکھا تھا
" تمباکو نوشی کا انجام - منہ کا کینسر"

یعنی کہ اس میں موجود مواد آپکی زندگی کے لئے خطرناک ہے ، ایک واضح درد ناک اور تکلیف دہ انجام کے بعد سسکتی ہوئی موت آپکی منتظر ہوگی اگر آپ نے اسے استعمال کیا .

جب کہ آپکو معلوم پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا آئٹم یہی " سگریٹ" ہے . کتنی عجیب بات کہ ایک پکار آتی ہے واضح اعلان کے ساتھ حی الفلاح " آؤ فلاح کی طرف " پر لوگ توجہ نہیں دیتے ، قران پاک واضح الفاظ میں کہتا ہے اے ابن آدم مجھ میں ہی تیری کامیابی پوشیدہ ہے پر کتنے لوگ کان دھرتے ہیں ؟

جب کہ ایک ایسی شے جس پر واضح لکھا ہے میں تمہاری موت ہوں پر اسے رقم دے کر اپنے لئے پسند کرتے ہیں ، اور یہاں بات صرف سگریٹ کی نہیں بلکہ اس سوچ کی ہے جو خود سے بھلائی کرنے والے کو اپنی ذات سے دور کرے اور ہر اس شے کو محض وقتی فائدے کے لئے قریب کرے جس میں اسکے کردار ، شخصیت ، اور سوچ کی دردناک موت پوشیدہ ہے ...

آج سمجھ آیا قرآن برحق میں بالکل ٹھیک نشاندہی کی گئی ہے

بے شک انسان خسارے میں ہیں کیوں کہ یہ اپنے نقصان کی شے کو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے .



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ بے شک انسان نقصان میں ہے ( سوره العصر آیات ٢ ) مجھے بچپن سے ہی سوره العصر کی اس آیت میں عجیب سی ک...