کہاں کھو گئی ہے وہ دنیا جہاں پر
بھلائی کا شیوہ تھا بس بے وجہ ہی
مدد کی روش عام تھی اس جہاں میں
تھی انسانیت ہر جگہ پر مقدم
نہ بدلے کی پرواہ، نہ چاہ فائدے کی
جہاں صرف اخلاص تھا دوستی میں
نہ مطلب پرستی، نہ قبضے کی خواہش
نہ مطلب پرستی، نہ قبضے کی خواہش
کہاں کھو گئی ہے وہ دنیا جہاں پر
سمجھتے تھے انساں کو بس ایک انساں
نہ کوئی کھلونا سمجھتے تھے ان کو
نہ کٹھ پتلی جیسا رویہ تھا ان سے
مزاح تھا تو ایسا کہ خوش اس سے ہوں سب
نہ مقصد تھا رسوائی اس سے کسی کی
بناوٹ کا کوئی تصور نہیں تھا
نہ مادہ پرستی تھی تب پائی جاتی
سب ہی خوش وہاں دوسروں کی خوشی میں
اگر غم پڑے تو سبھی بانٹتے تھے
ترقی کے چرچے جہاں تھے زیادہ
جہاں زندگی خالص اور مطمئن تھی
ذہانت کا مطلب نہ تھا جلد بازی
نہ تھی عقلمندی کی جا پر چالاکی
گنوادی وہ دنیا، اپنے طرزِ عمل سے
رویوں کی منفیت اور بے حسی سے
کہاں پر ملے گی ہمیں اب وہ دنیا؟
جہاں لوگ انساں تھے،اور مخلصی تھی
یہ ممکن ہے گَر اپنے اندر تلاشیں
وہ کھویا جہاں ہم دوبارہ سے پا لیں
بس نقطہ نظر، سوچ اپنی بدل کر
طبیعت میں مثبت سی تبدیلی لا کر
یہ باور کریں خود کو، مثبت بنا کر
نہیں ہے یہ کمزوری، ہر گز ذرا بھی
یہی ہے اصل اپنی، یہ ہی ہے طاقت
یہی ہے جو انساں کو انساں بنائے
جو مُمتاز اس کو کرے جانور سے۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں