قرآن کہانی: حضرت موسیٰ ۔۔۔ حصہ پنجم


قرآن کہانی ۔۔۔۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام
(حصہ پنجم)
مصنفہ: عمیرہ علیم
بشکریہ: الف کتاب

جادوگروں کا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آنا فرعون کے لیے ڈوب مرنے کا مقام تھا۔ فرعون اور اس کے حواریوں نے جادو گروں کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زیر بار کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ خاک میں مل گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہ صرف ان پرغالب آگئے بلکہ جادوگر جو صبح رب تعالیٰ کے وجود سے انکاری تھے شام تک اہل ایمان کے گروہ میں شامل ہوگئے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ فرعون نے انہیں قتل کروانے کی صرف دھمکی نہ دی بلکہ اُنہیں اذیتیں دے کر شہید کروادیا تھا۔

حضرت موسیٰ ؑ کو غالب آتا دیکھ کر فرعون کے حواری پریشان ہوجاتے ہیں کیوں کہ ا نہیں اپنا عیش و عشرت کا زمانہ ہاتھوں سے نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ فرعون کو مشورہ دیتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ اور ا ن کی قوم کا کچھ بندوبست کرے۔ فرعون برا فروختہ ہوکر کہتا ہے: 
’’(ہرگز نہیں بلکہ) ہم تہ تیغ کردیں گے ان کے لڑکوں کو اور زندہ چھوڑدیں گے ان کی عورتوں کو ۔ اور ہم بے شک ان پر غالب ہیں۔‘‘ (سورۂ الاعراف، آیت نمبر ۱۲۷)

قبطیوں کا فرعون کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دعوت حق دینا اور ایک خدائے بزرگ و برتر کی طرف بلانا فتنہ و فساد برپا کردے گا۔ فرعون اس ساری صورت حال سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور پکار اٹھتا ہے:
’’مجھے چھوڑ دو میں موسیٰ ؑ کو قتل کروں اور وہ بلائے اپنے رب کو (اپنی مدد کے لیے) مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تمہارا دین بدل نہ دے یا فساد نہ پھیلا دے ملک میں۔‘‘ (سورۂ المؤمن، آیت نمبر ۲۶)

اس وقت ایک مومن شخص فرعون کے خاندان میں اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا۔ وہ جب حضرت موسیٰ ؑعلیہ السلام کے قتل کی بابت گفتگو سنتا ہے تو بے چین ہوجاتا ہے اور فرعون کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ تم اس وجہ سے ایک آدمی کا قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ اپنا رب کسی اور کو مانتا ہے اور وہ واضح دلیلیں (معجزات) لے کر آیا ہے لیکن اگر وہ جھوٹ بول رہا ہے تو یقیناً اس کے جھوٹ کو اس پر پلٹ کر آنا ہوگا۔ اور اگر وہ سچا ثابت ہوگیا تو کہیں ہم پر عذاب نہ آجائے اور جھوٹ بولنے والے کے لیے تو ہدایت ممکن ہی نہیں۔ میری قوم کے لوگو! یہ سچ ہے کہ آج ہمیں غلبہ حاصل ہے لیکن اگر قہر الٰہی نازل ہوگیا تو ہمارا کوئی شامل حال نہ ہوگا۔ میں تو یہ مشورہ نہیں دوں گ اکہ حضرت موسیٰ ؑ کو قتل کیا جائے۔ کیوں کہ بنی اسرائیل کی بغاوت کا بھی خدشہ ہے۔

قبطیوں میں ایمان والے تین لوگ تھے ایک تو یہی آدمی تھا جس نے فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل سے منع کیا۔ دوسرا وہ شخص جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اقدام قتل کے بعد مصر چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا اور تیسری خوش نصیب فرعون کی بیوی حضرت آسیہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں تھیں۔

جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی جہاد ہے جو اس قبطی نے کیا۔ اس نے واضح کردیا کہ اگر یہ حکومت وطاقت جس کے بل بوتے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دھمکایا جارہا ہے نہ رہی تو ہم پر کہیں ذلت کا عذاب نہ مسلط کردیا جائے۔
دوسری طرف بنی اسرائیل اس ساری صورت حال سے سخت پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں وہ تو سمجھ رہے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی ان کے درمیان موجودگی اب ان کی ہر پریشانی کو دور کرنے کا باعث ہوگی لیکن فرعون دوبارہ سے ان کی نسل کشی کرنا چاہتا ہے تاکہ اُنہیں ذہنی و جسمانی ہر طرح کی تکالیف سے دوچار کرے۔ تبھی حضرت موسیٰ ؑ اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’(اس آزمائش میں) مدد طلب کرو اللہ سے اور صبر و استقامت سے کام لو۔ بلاشبہ زمین اللہ ہی کی ہے۔ وہ وارث بناتا ہے اس کا جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اور اچھا انجام پرہیز گاروں ہی کے لیے مخصوص ہے۔‘‘ 
(سورۂ الاعراف، آیت نمبر۱۲۸)

اللہ تعالیٰ کے مومن بندے ہر دور میں صبر اور نماز ہی سے قوت حاصل کرتے ہیں اور یہی تلقین حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی پریشان حال قوم کو کی۔ لیکن بنی اسرائیل ہمیشہ ہی سے جلد باز رہے ہیں۔ تبھی وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تسلی کے جواب میں کہتے ہیں:
’’ہم تو ستائے گئے اس سے پہلے بھی کہ آپ آئے ہمارے پاس اور اس کے بعد بھی کہ آپ آئے ہمارے پاس۔‘‘ (سورۂ الاعراف، آیت نمبر ۱۲۹)
تبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام خدائے بزرگ و برتر کی بڑائی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
’’عنقریب تمہارا رب ہلاک کردے گا تمہارے دشمن کو اور (ان کا) جانشین بنادے گا تمہیں زمین میں۔ پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ (سورۂ الاعراف، آیت نمبر ۱۲۹)

فرعون نے دو مرتبہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کے قتل کا ارادہ کیا۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل اور دوسری اپنے جادوگروں کی شکست کے بعد۔ فرعون اپنی قوم کو کہتا ہے کہ میں ہی بس سیدھے راستے پر ہوں حالاں کہ یہ سراسر جھوٹ تھا۔ بلکہ وہ تو جہالت ، گمراہی اور جھوٹ و بہتان کی تمام حدوں کو پار کر گیا تھا۔ وہ نعوذ باللہ بار بار اپنی بڑائی اور اپنے رب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور اپنی قوم سے کہتا ہے:
’’اے میری قوم! کیا میں مصر کا فرماں روا نہیں؟ اور یہ نہریں جو میرے نیچے بہ رہی ہیں کیا تم(انہیں) دیکھ نہیں رہے؟ کیا میں بہتر نہیں ہوں اس شخص سے جو ذلیل ہے اور بات بھی صاف نہیں کرسکتا۔ (اگر یہ سچا نبی ہے) تو کیوں نہ اتارے گئے اس پر سونے کے کنگن یا کیوں نہ آئے اس کے ساتھ فرشتے قطار در قطار ۔‘‘(سورۂ الزخرف ، آیت نمبر ۵۳۔۵۱)

وہ نیک شخص جس نے فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل سے منع کیا تھا اس نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! ایسا نہ ہو کہ ہمارا انجام بھی دوسری قوموں جیسا ہوجس طرح کہ قوم نوح، قوم عاد اور قوم ثمود کا ہوا۔ اس سے پہلے حضرت یوسف علیہ السلام بھی روشن دلائل کے ساتھ آئے تھے لیکن ہم لوگ شک میں گرفتار رہے۔ شک کرنے والوں اور جھگڑنے والوں کا انجام بدیقینی ہے۔ لیکن فرعون نبوت کو سونے کے کنگنوں پر تولتا ہے اس کے خیال میں اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کوئی اعلیٰ مرتبہ ہوتے تو ان کے پاس محل اور سونے کے کنگن ہوتے۔ اور اُن کے لیے فرشتے زمین پر اترتے تاکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کرتے۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کرتا ہے اور اپنی قوم کو بھی اس گمان میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنی وزیر ہامان سے کہتا ہے:
’’میں تو نہیں جانتا کہ تمہارے لیے میرے سوا کوئی اور خدا ہے ۔ پس آگ جلا میرے لیے اے ہامان! اور اس پر اینٹیں پکوا۔ میرے لئے ایک اونچا محل تعمیر کر۔ شاید (اس پر چڑھ کر ) میں سراغ لگا سکوں موسیٰ ؑ کے خدا کا اور میں تو اس کے بارے میں یہ خیال کرتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے۔‘‘
(سورۂ القصص، آیت نمبر ۳۸)

جب بنی اسرائیل پر فرعون نے حالات کی سختی طاری کردی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ کوئی ایک جگہ یا مکان مخصوص کرکے اللہ کی یاد میں نماز ادا کریں اور اس میں پابندی کریں کیوں کہ نماز ہی روحانی اور جسمانی سکون دیتی ہے۔ اور اس طرح بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ سے لو لگائیں گے۔ اس سے پہلے بنی اسرائیل اپنے دین کی تعلیمات کو مکمل طور پر فراموش کرچکے تھے اور ان کا واحد مقصد فرعون اور اس کے حواریوں کے احکامات کی تکمیل رہ گیا تھا۔

حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہی ہے۔ اسی لیے بنی اسرائیل کو نماز کی پابندی کی تلقین کی گئی تاکہ وہ اپنے رب کو راضی کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرعونیوں کو ہر طرح سے مہلت دی تاکہ وہ سنبھل سکیں لیکن انہوں نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ ان پر اچانک عذاب الٰہی نہیں آیا۔ بلکہ گاہ بہ گاہ تنبیہات آئیں اور اُنہیں مختلف معجزات دکھائے گئے اور ان کے دل کی سیاہی کو صاف کرنے کا اہتمام کیا۔ لیکن ان کے دلوں کا غبار نہ چھٹا۔ تب اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کو مختلف آفات میں ڈالنا شروع کردیا۔ سب سے پہلے ان پر قحط کا عذاب نازل ہوا۔ کہ شاید اس کے بعد وہ راہ راست پر آجائیں۔ لیکن جب مسلسل پیداوار میں کمی آنے لگی تو فرعونی گھبرا گئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کرنے لگے کہ اپنے رب سے اس قحط کے خاتمے کی درخواست کرو۔ اس کے خاتمے پر ہم یقیناً ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ جانے دیں گے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ الٰہی میں درخواست فرمائی جوکہ قبول ہوئی اور قحط سالی کا خاتمہ ہو گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی قبطی وعدے سے پھرگئے اور کفر و شرک میں مزید مبتلا ہوگئے۔ اور دعویٰ کرنے لگے کہ ہم تو اسی کے مستحق ہیں۔ قحط سالی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فالِ بد تھا۔ جب کہ وہ نادان بے خبر تھے کہ ان کی فالِ بد یقیناً ان کے رب کے پاس ہی تھی۔ اللہ تعالیٰ سورۂ الاعراف میں فرماتے ہیں: 
’’آخر کار ہم نے ا ن پر طوفان بھیجا۔ ٹِڈی دل چھوڑے، سُرسُریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں الگ الگ کرکے دکھائیں، مگر وہ سرکشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔‘‘ (آیت نمبر ۱۳۳)

طوفان سے مراد بارش یا پانی کا طوفان تھا۔ جس نے فرعونیوں کے ناک میں دم کردیا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ نہ وہ بیٹھ سکتے، نہ لیٹ سکتے، اندر بھی پانی باہر بھی پانی جب کہ دوسری طرف بنی اسرائیل اس سے مکمل طور پر محفوظ تھے۔ انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ سے منت سماجت کی کہ اس عذاب کے خاتمہ کے لیے دعا کریں۔ جب رب تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی دعا قبو ل کرلی اور عذاب کاخاتمہ ہوا تو فرعونی پھر اپنے وعدے سے مکر گئے۔
پھر ان پر ٹڈیوں کا ریلا آیا۔ جوکہ ان کی کھیتیاں، سبزہ ، پھل چٹ کرگیا۔ یہ ٹڈیاں قبطیوں کے گھروں اور بستروں میں گھس گئیں۔ جس کی وجہ سے اُنہیں ایک لمحہ بھی چین نصیب نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر ان پر سرسریاں چھوڑ دی گئیں۔ جو اُن کے کھانے پینے کی چیزوں میں گھس گئیں۔ ان کی بھی بہتات تھی۔ قبطیوں کا کھانا پینا حرام ہوچکا تھا۔ پھر مصر میں مینڈکوں کی اس قدر بہتات ہوگئی کہ فرعونیوں کے کپڑوں میں مینڈک گھس جاتے، ان کے برتنوں میں، ان کے کھانے پینے کی چیزوں میں مینڈک ہی مینڈک نظر آتے۔ جب بھی کوئی قبطی کچھ کھانے کے لیے منہ کھولتا، اس کے منہ میں مینڈک گھس جاتا۔ پھر مصریوں پر خون کا عذاب نازل ہوا۔ پانی میں خون مائل سرخی نظر آنے لگی۔ مصر کا ہر کنواں، تالاب، نہر اور حتیٰ کہ دریائے نیل کا پانی بھی سرخی مائل بہنے لگا اور ان میں بدبو کی بہتات تھی۔

قبطیوں پر تو عذاب الٰہی کی یہ صورتیں وقفے وقفے سے نازل ہوتی گئیں لیکن بنی اسرائیل ان سے محفوظ و مطمئن رہے۔ یہ خدائی طاقت کا ظہور تھا اور معجزات خداوندی جن کا مقصد اللہ تعالیٰ کے وجود کو کفارِ مصر کے سامنا ظاہر کرنا تھا۔ یہ سب نشانیاں علیحدہ علیحدہ ظاہر ہوئیں لیکن وہ سرکش اورباغی اپنا ٹھکانا جہنم بناچکے تھے۔ ہر عذاب کے نزول کے بعد انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی ابتدا کی تاکہ ان سے یہ بلا ٹل جائے لیکن جب عذاب کی مدت مقررہ ختم ہوجاتی تو وہ اپنے عہد سے پھر جاتے۔ اور مصریوں کے رویوں میں کوئی مثبت تبدیلی ظاہر نہ ہوئی۔ اور وہ اسی طرح آنکھیں بند کیے رہے اور ان میں سے کوئی ایک بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر نہ ہوا تاکہ ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوتا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے جب یہ دیکھا کہ فرعون اپنے باطل پر ڈٹا ہوا ہے اور تکبر میں مبتلا ہے تو آپ اپنے پروردگار کے دربار میں عرض گزار ہوئے:
’’اے پروردگار! تو نے بخشا ہے فرعون اور ا س کے سرداروں کو سامان آرائش اور مال و دولت دنیوی زندگی میں۔ اے ہمارے مولا! کیا اس لیے کہ وہ گمراہ کرتے پھریں(لوگوں کو) تیری راہ سے۔ اے ہمارے رب ! برباد کردے ان کے مالوں کو اور سخت کردے ان کے دلوں کو تاکہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ جب تک نہ دیکھ لیں درد ناک عذاب کو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قبول کرلی گئی تمہاری دعا پس تم ثابت قدم رہو اور ہر گز نہ چلنا اس طریقہ پر جو جاہلوں کا (طریقہ ) ہے۔‘‘ 
(سورۂ یونس، آیت نمبر ۸۹۔۸۸)
یہ بد دعا عظیم تھی۔ جو آپ نے اس وقت کی جب فرعون اور اس کے ساتھیوں نے تمام نشانیاں دیکھ لیں لیکن وہ ایمان کی روش پر آنے کو تیار نہ ہوئے۔ یہ بات قیام مصر کے بالکل آخری زمانے کی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے کفر کرنے والوں کو جس ٹھاٹ باٹ اور تمدن و تہذیب سے نوازا ہے۔ وہ اس قدر خوش نما ہے کہ ہر کسی کا دل چاہتا ہے کہ وہ ویسا بن جائے۔ ذرائع و وسائل کی فراوانی کی بدولت وہ لوگ اپنی تدبیروں کو عمل میں لانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں رکھتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف راہِ حق پر چلنے والے وسائل میں کمی کی بدولت اپنی تدبیروں پر عمل پیرا ہونے سے عاجز ہوتے ہیں۔

اللہ رب العزت حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرماتے ہیں کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی ہے اور ایسا ہی ہوکر رہے گا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں کو وہ نہیں سمجھتے جو باطل کے مقابلہ میں حق کو کمزور سمجھتے ہیں اور مخالفین کے ٹھاٹ اور دنیوی شان و شوکت دیکھ کر گمان کرتے ہیں کہ اُنہیں جو مسلسل ناکامیاں مل رہی ہیں وہ اس لیے ہیں تاکہ باغی ہی دنیا پر حکومت کریں۔ اس طرح وہ دنیاداری کو ہی سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس روش پر جانے سے منع فرمایا اور حق پر ثابت قدمی کی تلقین فرمائی اور کفر و فسق اور جاہلوں کے راستے کو غلط قرار دیا۔ اور فرمایا صبر کے ساتھ حق کے راستے پر چلو۔ جیت حق کی ہی ہوگی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بد دعا کسی ذاتی عناد کی وجہ سے نہ تھی۔ بلکہ یہ حق تعالیٰ کے لیے تھی۔ کیوں کہ وہ مسلسل اللہ رب العز ت کی نافرمانی میں بڑھے جاتے تھے ۔ جیسے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام بددعا کرتے جاتے ویسے ویسے حضرت ہارون علیہ السلام آمین کہتے جاتے۔ پھر اللہ رب العزت نے آپ کو اس کی قبولیت کی خوشخبری سنادی۔

بنی اسرائیل نے فرعون سے عہد مصر سے باہر جاکر منانے کی درخواست کی ۔ پہلے تو اس نے انکار کیا پھر اس نے اُنہیں جانے کی اجازت دے دی۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کردی کہ بنی اسرائیل کو لے کر ہجرت کرجائیں۔ اور یقیناً فرعون اپنے لشکر سمیت آپ کا تعاقب کرے گا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ہم تمہارے ساتھ ہوں گے۔ فرعون کو جب بنی اسرائیل کے خاموشی سے چلے جانے کا علم ہوا تو وہ سخت برا فروختہ ہوا۔ ہر شہر میں ہر کارے بھیجے گئے تاکہ لوگ اکٹھے ہوں اور بنی اسرائیل کا تعاقب کیا جائے۔اور اُنہیں بتایا گیا کہ وہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے جسے فرعونی بآسانی قابو کرلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ان کے شاندار محلات سے باہر نکال دیا۔ اس طرح کہ وہ اپنے پیچھے سرسبز و شاداب باغات، بہتے چشموں اور خزانوں سے بھری تجوریوں کو چھوڑے جاتے تھے اور اس بات سے قطعی لاعلم تھے کہ وہ دوبارہ واپس آنے والے نہیں۔ اور پھر رب کریم نے بنی اسرائیل کو ہر چیز کا وارث بنادیا۔

فرعونیوں کے لشکر اشراق کے وقت بنی اسرائیل کے تعاقب کے لیے بڑے ٹھاٹ سے نکلے۔ وہ تیزی سے بنی اسرائیل کے قدموں کے نشانوں پر بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ بنی اسرائیل نے جب فرعونیوں کو دیکھا تو وہ لرز اٹھے اور خیال کرنے لگے کہ اب اِن کی گردنیں اڑائیں گی اور زمین خون آلودہ ہوکر رہے گی۔ کیوں کہ سامنے سمندر کی بپھری موجیں تھیں اور پیچھے دشمن کی فوج جو اس وقت ان کے خون کی پیاسی ہورہی تھی۔ صرف ایک صورت تھی کہ بنی اسرائیل خود کو سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے کردیں لیکن یہ حوصلہ کس میں تھا؟ خوف کے مارے ان کا خون خشک ہورہا تھا۔ کیوں کہ فرعون کا لشکر بے پناہ اسلحہ سے لیس تھا۔ بنی اسرائیل کو خدشہ تھا کہ اگر پکڑے گئے تو اُنہیں بے پناہ اذیتیں دی جائیں گی۔ وہ شکوہ شکایت کرنے لگے اور حضرت موسیٰ ؑ سے کہنے لگے کہ آپ نے ہمیں پھنسوا دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ فرماتے ہیں:
’’ہر گز نہیں، بلاشبہ میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ ضرور میری راہنمائی فرمائے گا۔‘‘ 
(سورۂ الشعراء، آیت نمبر ۶۲)

حضرت موسیٰ ؑ کا اپنے رب پر یقین رائیگاں نہ گیا۔ تبھی ان کے رب کی طرف سے ان پر وحی نازل ہوئی کہ آپ اپنے عصا سے سمندر میں ضرب لگائیں۔ اور جب آپ نے ضرب لگائی۔ تو پانی ٹھہر گیا اور ایسے ہوگیا جیسے کوئی پہاڑ اپنی جگہ پر ساکن۔ کہا جاتا ہے کہ چوں کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل تھے اسی لیے سمندر میں بارہ راستے بن گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت تھی۔ ہر آنکھ حیران تھی۔ موجوں میں ٹھہراؤ آگیا۔ پھر آپ کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو لے کر سمندر عبور کرجائیں۔ آپ کے اشارے سے وہ لوگ پانی میں اتر گئے۔ وہ اس طرح تیزی سے سمندر کے خشک راستوں پر چل رہے تھے جیسے یہ خشکی کا ہی کوئی راستہ ہو۔ فرعون کا لشکر بنی اسرائیل کے پاس پہنچ چکا تھا۔ انہوں نے جب یہ منظر اپنی آنکھ سے دیکھا تو وہ ششدر رہ گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ خدائے باری تعالیٰ پر فوراً ایمان لے آتے لیکن فرعون نے اُسے رب ذوالجلال کی قدر ت نہ جانا بلکہ اپنے لشکر سے کہنے لگا کہ دیکھو یہ سمندر میرے لیے پھٹ گیا ہے۔ اس کی فاجر طبیعت اور کافر نفس نے قبطیوں کو الو بنایا۔ وہ اُنہیں فریب دینے کے لیے جھوٹ بولنے لگا کہ کہیں یہ لوگ میری اطاعت کا جوأ نہ اُتار پھینکیں ۔
بنی اسرائیل نے رب کریم کی مدد سے بآسانی سمندر پارکرلیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ماننے والوں کو بچالیا۔ فرعونیوں نے بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے اپنا لشکر پانی میں اتار لیا۔ جب وہ سب پانی میں اتر گئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اپنا عصا ماریں اور سمندر کو رواں ہوجانے کا حکم صادر فرمائیں۔ آپ نے حکم کی تکمیل کی اور جیسے ہی سمندر پر عصا مارا گیا ۔ ٹھہرا ہوا پانی بپھر گیا۔ فرعون کا پورا لشکر غرق ہوگیا اور جب وہ ڈوبنے لگا تو بولا:
’’میں ایمان لایا کہ کوئی سچا خدا نہیں بجز اس کے جس پر ایمان لائے تھے بنی اسرائیل اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘ (سورۂ یونس، آیت نمبر ۹۰) 
یہ تھا نبی کی بددعا کا نتیجہ جو انہوں نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے لیے کی تھی کہ ان کے مال و اسباب برباد ہوں اور ان کے دل سخت ہوجائیں، ان کو ایمان نصیب نہ ہو جب کہ وہ عذاب کا مزہ نہ چکھ لیں۔ 
سورۂ المومن میں فرمان الٰہی ہے:
’’پھر جب انہوں نے دیکھ لیا ہمارا عذاب تو کہنے لگے ہم ایمان لائے ایک اللہ پر اور ہم ان معبودوں کا انکار کرتے ہیں جنہیں ہم اس کا شریک ٹھہرایا کرتے تھے۔ پس کوئی فائدہ نہ دیا انہیں ان کے ایمان نے جب دیکھ لیا انہوں نے ہمارا عذاب۔ یہی دستور ہے اللہ تعالیٰ کا جو اس کے بندوں میں جاری ہے اور سراسر خسارہ میں رہے اس وقت حق کا انکار کرنے والے۔ (آیت نمبر ۸۵۔۸۴)
حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب فرعون نے کہا:(میں ایمان لایا کہ کوئی سچا خدا نہیں بجز ا س کے جس پر ایمان لائے ہیں بنی اسرائیل)۔ مجھ سے جبرئیل نے کہا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے میں فرعون کے منہ میں کیچڑ ٹھونس رہا تھا کہ کہیں اسے رحمت خداوندی نہ آلے۔‘‘(ترمذی)

یہ ہے فرعون ملعون کا انجامِ بد جو کمایا اس نے اپنے ان اعمال کے بدلے جو کہ اس نے حق باری تعالیٰ کی مخالفت میں کیے۔ سورۂ الدخان میں فرمان خداوندی ہے:
’’پس نہ رویا ان (کی بربادی) پر آسمان اور نہ زمین اور نہ انہیں مزید مہلت دی گئی۔ اور بے شک نجات دی بنی اسرائیل کو رسوا کن عذاب سے۔ یعنی فرعون(کی غلامی) سے ۔ بلاشبہ وہ بڑا متکبر (اور) حد سے بڑھنے والوں میں سے تھا۔‘‘ (آیت نمبر ۳۱۔۳۰)

فرعون کی مہلت ختم ہوئی اور وہ اپنے اعمال کے سبب جہنم واصل ہوا۔ وہ اپنے آخری وقت اگر ایمان کا اقرار کررہا تھا تو صرف اس وجہ سے کہ موت اس کے سامنے تھی۔ لیکن اگر وہ پھر سے دنیا کی طرف لوٹایا جاتا تو اسی طرح کفر کی روش پر قائم رہتا جیسے پہلے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے جہان والوں کے لیے نشانِ عبرت بنا ڈالا تاکہ لوگ سبق حاصل کریں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں سورۂ یونس میں ارشاد ہوتا ہے:
’’سو آج ہم بچالیں گے تیرے جسم کو تاکہ تو ہوجائے اپنے پچھلوں کے لیے (عبرت کی) نشانی۔‘‘ (آیت نمبر ۹۲)

جس مقام پر فرعون کی لاش سمندر میں تیرتی ہوئی پائی گئی اس کو جبلِ فرعون کہتے ہیں۔ اس کے قریب ایک گرم پانی کا چشمہ ہے جسے مقامی آبادی ’’حمام فرعون‘‘ کہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آج تک اس کی لاش قاہرہ کے عجائب خانے میں موجود ہے۔
حضرت ابن عباسؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری ہوئی تو ان لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کا روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ یہودی کہنے لگے کہ یہ بڑی عظمت والا دن ہے اس روز اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بچایا اور آ لِ فرعون کو غر ق کیا۔ تو شکر گزاری کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس روز کا روزہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم یہودیوں کی نسبت موسیٰ  کے زیادہ قریب ہیں۔ چناں چہ آپ نے خود روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی رکھنے کا حکم دیا۔(بخاری)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام نے ایک طویل مدت مصر میں گزاری تاکہ اہلِ مصر کو ایمان کی روشنی سے منور کریں۔ لیکن وہ کفر میں مبتلا رہے۔ اور جب اہلِ ایمان اور اہل کفر کے لشکر آمنے سامنے آئے تو فتح بے شک حق کی ہوئی۔ اور کفارہ جس مال و دولت پر اتراتے تھے۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو ہر اُس چیز کا وارث بنادیا۔ یہ واقعات قرآن میں بیان فرما کر اللہ تعالیٰ نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کو بشارت دی کہ آپ مشرکین مکہ کی گستاخیوں سے دل برداشتہ نہ ہوں۔ فتح آپ کا مقدر ہے۔ بس صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔ اور ان تمام معجزات کا ذکر کرکے کفار مکہ پر واضح کردیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں بھی معجزات آئے لیکن کفار نے انکار کیا۔ اور اُن پر صحبت تمام کردی گئی۔ تبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کے حق میں بددعا فرمائی جو ٹھیک ٹھیک پوری ہوئی پھر اُنہیں ایمان نصیب نہ ہوا۔ اللہ رب العزت مسلمانوں کے دلوں کو ایمان کی شمع سے منور کردے۔ تاکہ مہلت کے خاتمہ سے پہلے وہ سنبھل جائیں اور آخرت کے ساتھ اپنی دنیا بھی سنوار لیں۔ (آمین)

*۔۔۔*۔۔۔*



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں