إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ
بے شک انسان نقصان میں ہے ( سوره العصر آیات ٢ )
مجھے بچپن سے ہی سوره العصر کی اس آیت میں عجیب سی کشش ملتی تھی اور ذہن میں سوال آتے تھے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اسے بھلا خسارے میں کیوں کہا گیا ؟؟
جب سپارہ پڑھنے والے استاد جی سے پوچھتا تو شاید وہ صرف قرآن پاک پڑھانے کے پیسے لیتے تھے پر سمجھانے کے نہیں اس لئے کبھی کسی بات کا جواب نہیں دیا ، پر کل ایسا لگا جیسے مجھے سارے سوالوں کے جواب مل گئے ہوں ..
کل کچھ سامان لینے کے لئے بازار جانا ہوا ، ایک دکان پر سگریٹ کے ڈبے کا بڑا سا بورڈ دیکھ کر قدم اپنے آپ رک گئے اور کافی دیر اس پر لکھی عبارت کو پڑھتا رہا ، اس ڈبے پر واضح لکھا تھا
" تمباکو نوشی کا انجام - منہ کا کینسر"
یعنی کہ اس میں موجود مواد آپکی زندگی کے لئے خطرناک ہے ، ایک واضح درد ناک اور تکلیف دہ انجام کے بعد سسکتی ہوئی موت آپکی منتظر ہوگی اگر آپ نے اسے استعمال کیا .
جب کہ آپکو معلوم پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا آئٹم یہی " سگریٹ" ہے . کتنی عجیب بات کہ ایک پکار آتی ہے واضح اعلان کے ساتھ حی الفلاح " آؤ فلاح کی طرف " پر لوگ توجہ نہیں دیتے ، قران پاک واضح الفاظ میں کہتا ہے اے ابن آدم مجھ میں ہی تیری کامیابی پوشیدہ ہے پر کتنے لوگ کان دھرتے ہیں ؟
جب کہ ایک ایسی شے جس پر واضح لکھا ہے میں تمہاری موت ہوں پر اسے رقم دے کر اپنے لئے پسند کرتے ہیں ، اور یہاں بات صرف سگریٹ کی نہیں بلکہ اس سوچ کی ہے جو خود سے بھلائی کرنے والے کو اپنی ذات سے دور کرے اور ہر اس شے کو محض وقتی فائدے کے لئے قریب کرے جس میں اسکے کردار ، شخصیت ، اور سوچ کی دردناک موت پوشیدہ ہے ...
آج سمجھ آیا قرآن برحق میں بالکل ٹھیک نشاندہی کی گئی ہے
بے شک انسان خسارے میں ہیں کیوں کہ یہ اپنے نقصان کی شے کو خود اپنے لئے پسند کرتا ہے .
از : ملک جہانگیر اقبال
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں