گناہوں کے فرد اور معاشرے پر مضر اثرات۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

از  ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان 

ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان حفظہ اللہ نے 21 جمادی ثانیہ 1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں " گناہوں کے فرد اور معاشرے پر مضر اثرات" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کر کے اسے عقل و خرد سے نوازا تا کہ ان کی کارکردگی کو پرکھا جا سکے، اللہ تعالی نے دنیا کو آزمائش کی جگہ قرار دیا اور یہ عارضی زندگی ہے جبکہ آخرت کو بدلے کا مقام بنا کر اسے سرمدی بنا دیا، وہاں پر یا تو جنت ملے گی یا جہنم۔ انسان کو دنیا میں ہر اعتبار سے آزمایا جاتا ہے، خود انسان کے اندر نفس امارہ اس کی آزمائش کا باعث ہے اور کل روزِ قیامت انسانی اعضا ہر بد عملی کی گواہی بھی دیں گے، انہوں نے کہا کہ: گناہوں میں ملوث ہو کر انسان اللہ تعالی کی ناراضی اور عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے، سابقہ بہت سی خوشحال اور ترقی یافتہ اقوام گناہوں کی وجہ سے نیست و نابود ہوئیں۔ پھر انہوں نے اعلانیہ گناہ کی شرعی اعتبار سے سخت مذمت فرمائی کہ انہیں معاف نہیں کیا جائے گا، اسی طرح معمولی گناہوں پر تسلسل انہیں بھی مہلک بنا دیتا ہے، نیز صغیرہ گناہوں کا رسیا شخص بھی کل قیامت کے دن پریشان ہو گا۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ اعلانیہ گناہ کرنے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فقدان کے باعث پورا معاشرہ اللہ کی پکڑ کا شکار ہو سکتا ہے؛ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ نیکی کا حکم بہترین سلیقے سے دیا جائے اور برائی سے روکتے ہوئے بھی عمدہ اسلوب اپنانا لازمی ہے، انہوں نے کہا کہ: ہر ذمہ دار شخص پر اپنے ماتحت افراد کی صحیح انداز میں تربیت از بس ضروری ہے، وگرنہ یہی لوگ اس کے خلاف ہوں گے، نیز اگر وہ راہ راست پر چلتے ہیں تو ذمہ دار شخص کو بھی برابر کا ثواب ملے گا، آخر میں انہوں نے جدید رابطے کے ذرائع سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے، جو چیز کل تک گناہ تھی وہ آج عرف بن چکی ہے، اور جو چیز نیکی ہے وہ آج رجعت پسندی کہلانے لگی ہے، اس لیے اپنے آپ کو سنت طریقے پر کار بند رکھیں۔ پھر سب سے آخر میں انہوں نے جامع دعا فرمائی۔

منتخب اقتباس:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ، اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نیز نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، اور اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی نے آپ کو تمام جہان والوں کیلیے رحمت بنا کر بھیجا، اللہ تعالی نے آپ کے ذریعے شرح صدر فرمائی، ذہنوں کو روشن فرمایا، نابینا آنکھوں کو بینائی ،بہرے کانوں کو سماعت اور پردوں میں پڑے دلوں کو آزاد کر دیا، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر روزِ قیامت تک ڈھیروں سلامتی اور رحمت نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اطاعت گزاری حکم کی تعمیل اور اتباع کا نام ہے، جبکہ نافرمانی حکم عدولی اور بدعات پر عمل کرنے کا نام ہے، بد ترین امور بدعات، خود ساختہ طریقے، نافرمانیاں اور گناہ ہیں، ان میں سے شدید ترین آزمائش شہوت اور شبہات کی وجہ سے آتی ہے۔

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا، اسے عقل اور زبان عطا کی ، اسے شرعی احکام کا مخاطب بنایا اور قوت گویائی سے نوازا، اللہ تعالی نے دلائل کے ساتھ رسولوں کو مبعوث کیا، انہیں کتاب اور میزان بھی عطا کیا، اللہ تعالی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ تمہیں آزمائے کہ کون کارکردگی کے اعتبار سے اچھا ہے۔

اللہ تعالی نے انسان کو رضائے الہی کی موجب بننے والی اطاعت کیلیے پیدا کیا ہے ، اور ناراضی کا باعث بننے والی نافرمانی سے روکا ہے، 
{فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (7) وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ}
 ذرہ برابر خیر کا عمل کرنے والا بھی اپنا عمل دیکھ لے گا [7]اور جو ذرہ برابر بد عملی کرے گا وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔[الزلزلہ: 7، 8]

اللہ تعالی نے متقین کے لیے جنتیں بنائیں اور اس کے نیچے نہریں جاری کیں، جنتی اس میں ہمیشہ رہیں گے، ان جنتوں میں وہ کچھ ہے جو کسی آنکھ نے ابھی تک نہیں دیکھا، ان کے بارے میں کسی کان نے سنا نہیں ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال تک پیدا ہوا ہے، اس کے مقابلے میں کافروں کے لیے جہنم پیدا کی، جہنم کسی چیز کو نہیں چھوڑے گی، چمڑی جھلسا کر رکھ دے گی، کافر اس میں نہ ختم ہونے والی صدیوں تک رہیں گے، انہیں وہاں ٹھنڈا یا پینے کی کوئی چیز چکھنے کو بھی نہیں ملے گی، صرف گرم کھولتا ہوا پانی اور جہنمیوں کا نچوڑ ملے گا ، یہ ان کی کارستانیوں کا پورا پورا بدلہ ہو گا۔

اللہ کے بندو!

شہوت اور شبہات کے ذریعے انسان پرکھا جا رہا ہے، انسان خود لذتوں اور آسائشوں میں ڈوبا ہوا ہے، گناہوں اور سیاہ کاریوں میں ملوث ہے، انسان پر اس کے دشمن اور مخالفین مسلط ہیں، [ان دشمنوں میں ]شیطان انسان کا رقیب اور ازلی دشمن ہے، پھر نفس امارہ انسان کے جسم میں پیوست ہے، اور انسانی اعضا خود انسان کے خلاف گواہی بھی دیں گے۔

مسلم اقوام!

گناہوں میں ملوث ہونا نقصان دہ اور ضرر کا باعث ہے، ان کی وجہ سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے ، اور یہ عذاب الہی کا موجب بنتے ہیں، نیز یہ اللہ کی پکڑ اور بلائیں نازل ہونے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں،
 {وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُكْرًا (8) فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْرًا (9) أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فَاتَّقُوا اللَّهَ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ}
 کتنی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان کا بڑا سخت محاسبہ کیا اور انہیں بری طرح سزا دی [8] چنانچہ انہوں نے اپنے کیے کا وبال چکھ لیا اور ان کے کام کا انجام خسارہ ہی تھا۔[9] ان کے لئے اللہ تعالی نے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے، پس اللہ سے ڈرو اے عقل والو۔ [طلاق: 8 - 10]

لہذا مسلمانوں کو جتنی بھی آزمائشوں ، تکلیفوں، مصیبتوں ، مہنگائی، دشمنوں کے تسلط، قحط سالی، بیماریوں، آلام اور بلاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ سب کچھ گناہوں، سیاہ کاریوں، بد کاریوں اور بد اعمالیوں کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔

اللہ تعالی نے عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے مثالیں بھی ذکر کی ہیں، اور نشانیاں بھی کھول کھول کر بتلائی ہیں تو کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا؟ اللہ تعالی نے واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ گناہ اور نافرمانیاں نعمتوں کے زوال اور آفتوں کے نزول کا سب سے بڑا سبب ہیں، چنانچہ فرمایا: 
{وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ}
 اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے۔ جو امن و چین سے رہتی تھی اور ہر طرف سے اس کا رزق اسے فراوانی کے ساتھ پہنچ رہا تھا۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کا مزا یہ چکھایا کہ ان پر بھوک اور خوف (کا عذاب) مسلط کر دیا۔ [النحل: 112]

غور کریں کہ مخلوق جس وقت اللہ تعالی کی نا فرمانی کرتی ہے تو اللہ کے ہاں کس قدر بے وقعت ہو جاتی ہے!

اللہ کے بندو!

گناہوں کے خطرات ، خدشات، سیاہ کاریوں کی سزا اور پکڑ اس وقت انتہائی شدت اختیار کر جاتی ہے جب گناہ معمول بن جائیں اور لوگ اعلانیہ طور پر گناہ کرنے لگیں، [اور نعوذ باللہ]سر عام اللہ تعالی کو دعوت مبارزت دیں، حالانکہ حدیث میں واضح ہے کہ : (ساری امت محمدیہ کو معاف کر دیا جائے گا ما سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے) متفق علیہ

اعلانیہ گناہ اللہ تعالی کے حقوق کی پامالی کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے گناہ کرنے کی جسارت بھی ہے، اس میں مومنوں کے خلاف عناد ہے، اس طرح سیاہ کاروں کی نفری میں اضافہ ہوتا ہے، اور گناہوں کے منفی اثرات دوسروں تک پہنچتے ہیں، اعلانیہ گناہ سے دوسروں کو بھی گناہ کی دعوت اور ترغیب ملتی ہے، اگر اعلانیہ گناہ پر کوئی نہ ٹوکے تو وہ بھی گناہ گار ٹھہرتا ہے، اگر کسی کو گناہوں کی لت پڑ گئی ہے تو وہ اپنے آپ پر پردہ رہنے دے اور جلد از جلد توبہ کر لے۔

مسلم اقوام!

گناہوں پر اصرار، سیاہ کاریوں میں آگے بڑھتے چلے جانا، برائیوں میں ڈوبتے جانا، گناہ کر کے مسرت کا اظہار کرنا اور اللہ کی پکڑ سے بے خوف ہو جانا، گناہوں کو معمولی سمجھنا یہ انسان کے غافل اور اللہ تعالی کے ناراض ہونے کی علامت ہے، یہ امور بدبختی اور تباہی کا باعث ہیں، چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے آپ کو معمولی گناہوں سے بچاؤ؛ کیونکہ معمولی گناہ انسان کے خلاف جمع ہوتے ہوتے اسے تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں) ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مثال ذکر کرتے ہوئے فرمایا:"(اس کی مثال ایک مسافر جماعت کی ہے وہ کسی چٹیل میدان میں پڑاؤ ڈالتے ہیں اور کھانا تیار کرنے کا وقت آ جاتا ہے، اس پر ہر شخص ایک ایک لکڑی تلاش کر کے لاتا ہے، اس طرح لکڑیوں کا ایک انبار جمع ہو جاتا ہے، وہ ان میں آگ لگاتے ہیں اور اس پر اپنا کھانا پکا لیتے ہیں ) احمد

مسلم اقوام!

اس وقت گناہوں کے نقصانات بہت سنگین اور درد ناک ہوں گے، گناہوں کی سزا اور تکلیف بہت بڑی اور خوف زدہ کر دینے والی ہو گی جب گناہوں کو نیکی سمجھ لیا جائے، لوگ بھی گناہوں کو بطور نیکی قبول کر لیں؛ کیونکہ ایسے میں کوئی بھی گناہ سے روکنے والا اور نیکی کا حکم دینے والا نہیں ہو تا:

ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب لوگ برائی کو دیکھ کر ختم نہ کریں تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی ان سب کو عذاب میں مبتلا کر دے)

اس لیے امت محمدیہ! نیکی کا حکم سلیقے سے دو، اور برائی سے اچھے طریقے کے ذریعے روکو: (جو تم میں سے برائی کو دیکھے تو وہ اپنے ہاتھ سے اسے روکے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو اپنی زبان سے، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو پھر اپنے دل میں اسے برا جانے، یہ کمزور ترین ایمان ہے۔)

تم سے تمہارے گھرانے اور ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے، اس لیے اپنی خواتین اور بیٹوں کے متعلق اللہ سے ڈور، انہیں اللہ کی شریعت کے احکامات سکھلاؤ، اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے روکو، ان کی اعلی اخلاقی اقدار پر تربیت کرو؛ کیونکہ کل تم سے اللہ کے سامنے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، وہ تمہارے خلاف گواہی بھی دیں گے، ان کی گواہی لکھی بھی جائے گی اور باز پرس بھی کیا جائے گا
 {يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ (11) وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ (12) وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ (13) وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنْجِيهِ}
 جس دن مجرم یہ تمنا کرے گا کہ اس دن کے عذاب کے عوض اپنے بیٹوں، بیوی ، بھائی، اور سہارا دینے والا کنبہ قبیلہ بلکہ زمین کی ہر چیز دے دے صرف اس لیے کہ اسے نجات مل جائے۔ [المعارج: 11 - 14]

جس کسی سرپرست کو اللہ تعالی ذمہ داری سونپے اور وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ دھوکا دہی کرے تو اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔

اور جو شخص اپنے اہل خانہ کی اصلاح کے لیے کوشش کرے، اپنے ماتحت افراد کی شریعت الہی کے مطابق تربیت کرے، ان کے دلوں میں ایمان پیدا کرے تو اس کے لیے بھی اتنا ہی اجر ہو گا جتنا تربیت پانے والوں کو عمل کا ملے گا، نیز ان کے ثواب میں سے کسی قسم کی کمی بھی نہیں کی جائے گی۔

مسلم اقوام!

مغرب پسندی اس وقت گھروں میں آ دھمکی ہے، باہمی رابطے کے آلات نے اقدار کو منہدم کر کے اخلاقیات کو خراب کر دیا ہے، چنانچہ کل تک جو چیز گناہ تھی وہ آج عرف بن چکی ہے، اور جو چیز کل تک نیکی تھی وہ آج پسماندگی ، رجعت پسندی اور شاذ بن چکی ہے۔

ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: "ابو عبد اللہ! ہمیں کوئی نصیحت کر دیں، تو حذیفہ نے کہا: تمہارے پاس ابھی تک یقینی خبر نہیں آئی؟ تو ابو مسعود نے کہا: میرے رب کی عزت کی قسم! کیوں نہیں، وہ تو آ چکی ہے۔ تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "یہ بات ذہن میں بٹھا لو کہ حقیقی گمراہی یہ ہے کہ تم آج کسی ایسی چیز کو نیکی سمجھنے لگو جسے تم پہلے گناہ سمجھتے تھے، یا آج کسی چیز کو تم گناہ سمجھو جس کو تم پہلے نیکی سمجھتے تھے، اپنے آپ کو مذہبی رنگ بازی سے بچانا؛ کیونکہ اللہ کا دین ایک ہی ہے""

اس لیے اللہ کے بندو! سنت طریقے پر کار بند رہو، اپنے آپ کو نت نئے امور سے بچاؤ؛ کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔

یا اللہ! ہمیں حق کی شناسائی عطا فرما اور ہمیں حق کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں باطل سے شناسا فرما اور اس سے بچنے کی توفی عطا فرما۔

یا اللہ! ایمان کو ہمارے لیے محبوب بنا دے اور اسے ہمارے دلوں میں مزین فرما، ہمارے اندر کفر، فسق اور نافرمانی کیلیے نفرت پیدا کر دے، اور ہمیں رشد و ہدایت والا بنا دے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں