فیشن کہیں جسے۔۔۔

Image result for fashion

فیشن کہیں جسے۔۔
سیما آفتاب


فیشن کا نام سنتے ہی عام طور پر ہمارے ذہنوں میں جدید تراش خراش کے  ملبوسات کا تصور ابھرتا ہے، جبکہ فیشن اپنے معنوں میں صرف ملبوسات سے ہی متعلق نہیں۔ اردو لغت کا جائزہ لیا جائے تو وہاں ‘فیشن’ مختلف معنوں میں بیان ہوا ہے۔

  • وضع، طرز، طور طریقہ
  • بناوٹ، تراش خراش، نمونہ
  • سج دھج، آن بان، خوش وضعی
  • (لباس کا) مروجہ انداز، جدید وضع
  • دستور، رواج
  • انداز، اسلوب
  • وہ شے یا کام جو عام طور پر مقبول عام رواج
  • وہ کام جو مروجہ رسم کے طور پر کیا جائے


اوپر مذکور شدہ معنوں کو  اگر لباس کے ‘فیشن’ کی تعریف بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جائے اس کے مطابق ” ‘فیشن’  ملبوسات میں اس جدید نمونے اور بناوٹ کے انداز کا نام ہے جو اپنی خوش وضعی ظاہر کرنے کے لئےعام پر رواج پا جائے”۔

ویسے تو ‘فیشن’ کسی ایک صنف کے لیے مخصوص نہیں مگر اس کی مقبولیت خواتین میں مردوں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے۔  کیونکہ خواتین میں سجنے سنورنے کا ذوق  قدرتی طور پر  زیادہ پایا جاتا ہے اور یہ ان کے جذبہ خود نمائی کی تسکین کا بھی ایک ذریعہ ہوتا ہے۔

لباس کی بات کی جائے تو لباس اللہ کی طرف سے انسانوں کے لیے ایک ‘نعمت’ ہے، تمام مخلوقات میں صرف انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کو اللہ نے یہ شعور دیا کہ وہ اپنا جسم چھپانے کے لیے لباس کا اہتمام کرے۔ لباس اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جس کا ذکر اللہ نے قرآنِ پاک میں بھی فرمایا ہے۔

سورۃ الاعراف آیت نمبر 26  میں اللہ کا  فرمان ہے:

اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! ہم نے تمہارے لیے لبا س نازل کیاہے جو تمہارے جسم کے ان حصوں کو چھپا سکے جن کا کھولنا برا ہے، اور خوشنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔ اور تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے۔ یہ سب اللہ کی نشانیوں کا حصہ ہے، جن کا مقصد یہ ہے کہ لوگ سبق حاصل کرسکیں۔

یعنی  لباس وہ نعمت ہے جو بارگاہِ ربانی سے خصوصی طور پر اولادِ آدم کے لیے نازل ہوا،  لباس کا مقصد جسم کو خوب صورتی عطا کرنا ہے، انسان ننگے بدن ہو تو وہ بدصورت لگتا ہے۔ لباس جتنا خوب صورت ہوگا انسان اتنا ہی زیادہ خوب صورت نظر آئے گا۔  “تقویٰ کا لباس” کہہ کر یہاں یہ واضح کیا گیا ہے کہ لباس کے بارےمیں اللہ تعالیٰ نے جو ہدایات دی ہیں وہی لباس پہننا تقویٰ کا تقاضا ہے۔  اور ہدایات میں “قابل شرم حصوں کو چھپانا” اور “زینت و خوش نمائی کا باعث” ہونا شامل ہے۔

اس فرمان الٰہی کی روشنی میں اگر ہم آج خواتین میں فیشن کے نام پر مروجہ ملبوسات کا جائزہ لیں تو لباس کو مذکورہ دونوں مقاصد کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔  ہم جس دین کے پیروکار ہیں اس نے ہماری زندگی کے ہر ہر گوشے کے لیے  ہدایت کا سامان رکھا ہے، سجنے سنورنا ہر ایک کا حق ہے مگر ہر چیز ایک “حد” میں ہی خوشنما معلوم ہوتی ہے، جب حد سے گزرنے لگے تو وہی چیز بدنما لگنے لگتی ہے۔

فیشن کا خاصہ ہے کہ یہ انسانی رویوں کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ اس کے رنگ ڈھنگ بدلنے کی قریب ترین مثالیں انسانی پہناوے میں ملتی ہیں، یعنی 1970ء کے آس پاس ٹیڈی پینٹ کا فیشن چلا، وہ اس قدر ٹائٹ ہوتی تھیں کہ ٹانگوں کو اس میں ڈالنے کے لیے اچھی خاصی مشقت کرنا پڑتی تھی۔ اُن دنوں خواتین کی شلواریں بھی اس قدر تنگ ہوتی تھیں کہ ان کے پائنچوں پر زبیں لگائی جاتی تھیں۔ یہ فیشن کچھ عرصے بعد 180 ڈگری کا ٹرن لے گیا۔ ٹیڈی پینٹ اور تنگ شلواروں کی جگہ بیل باٹم پاجامے آگئے۔ آج دیکھا جائے تو   خواتین کی قمیصوں  کی آستینیں اور دوپٹے غائب ہوگئے ہیں۔ قمیص یا کرتے بھی لمبائی میں پہننے والوں کی قدم بوسی کرنے لگ جاتے ہیں، یا پھر کبھی سکڑ کر ٹانگوں اور کمر پر چڑھ جاتے ہیں۔  اور رہی سہی کسر “ٹائیٹس” نے پوری کردی ہے (جن کو بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیں) ۔۔۔ اور یہ عام خواتین کے فیشن کا بیان ہے، ماڈلز اور اداکاراوں کی بات اس لیے نہیں کی کہ  وہ تو “خواص” میں شمار ہوتی ہیں۔  ان کے ملبوسات دیکھ کر تو سوچنا پڑتا ہے کہ “یہ” کون پہنتا ہوگا (استغفر اللہ)

حالانکہ  رب ذوالجلال نے( وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ) اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں۔ سورۃ النور: 31

 کہہ کر انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے گریبانوں پر دوپٹے ڈالے رہیں. مگر ہم نے ‘فیشن’ کی دوڑ میں اور نمایاں نظر آنے کے چکر میں یہ ہدایات فراموش کردی ہیں۔  آج جو مائیں خود اس طرح کے فیشن کی دلدادہ ہوں گی تو ان کی بیٹیاں کس طرح ان کے نقش قدم پر نہ چلیں گی۔ حالانکہ “حیا” کی بنیاد بچپن سے ہی ڈالی جاتی ہے، جس بچی کو بچپن میں یہ نہ سکھایا جائے  اور وہ   ماں کو اپنے سامنے نمونہ نہ دیکھے اس سے آگے چل کر کس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ وہ “با حیا” فیشن کو اپنائے گی۔ “بچی ہی تو ہے” کہہ کر ہم اپنی بچیوں کو جس طرح کے لباس کا عادی بنائیں گے تو پھر وہ کس طرح ہوس پرستوں کی نظروں سے محفوظ رہ سکیں گی۔  الطاف حسین حالی کہہ گئے ہیں:

’’عجب نہیں کہ رہے نیک و بد میں کچھ نہ تمیز
کہ جو بدی ہے وہ سانچے میں ڈھلتی جاتی ہے‘‘

یاد رکھیں فیشن کرنا معیوب نہیں ہے مگر  فیشن وہی اپنانا چاہیے جو ہماری اقدار کا محافظ ہو، اس کو خوبصورتی بخشے، ہماری شخصیت کو نکھارنے کا باعث بنے نہ کہ بگاڑنے کا  اور ہماری بطور مسلمان پہچان کروائے ورنہ  ہمارا حال وہی ہوگا کہ “کوا چلا ہنس کی چا، اپنی چال بھی بھول گیا

اللہ ہم سب کو ہدایت دے آمین!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں