"خود احتسابی۔۔۔ مفہوم، اہمیت اور فوائد" ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)


خطبہ جمعہ مسجد نبوی
از پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
بشکریہ: اردو مجلس

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہنے 28 جمادی ثانیہ 1439ہجری کا خطبہ جمعہ "خود احتسابی ،،، مفہوم، اہمیت اور فوائد" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ انسانی فلاح و بہبود کا راز خود احتسابی میں پنہاں ہے، متعدد قرآنی آیات ،احادیث اور سلف صالحین کے اقوال زریں کے مطابق اگر کوئی شخص خود احتسابی کی عادت ڈال لے تو وہ کامیاب و کامران ہو جاتا ہے؛ کیونکہ احتساب کی وجہ سے مومن کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کے اعمال کتاب و سنت کی روشنی میں پایہ تکمیل کو پہنچیں، انہوں نے کہا کہ خود احتسابی کا بہترین مظہر یہ بھی ہے کہ انسان اپنی زبان کو لگام دے کر رکھے؛ کیونکہ یہ انسان کو ہلاکت میں ڈال سکتی ہے، اور زبان سے نکلنے والے الفاظ لکھنے کیلیے فرشتے بھی مقرر ہیں جو ہر لفظ کو لکھ رہے ہیں، اسی لیے صحابہ کرام اور سلف صالحین اپنی زبان پر بہت زیادہ کنٹرول کرتے تھے۔ خطیب محترم نے یہ بھی کہا کہ: دل میں آنے والے خیالات کا محاسبہ بھی ضروری ہے؛ کیونکہ کسی بھی گناہ کی اکائی یہی خیالات ہوتے ہیں اگر انہیں ابتدا میں ہی جھٹک دیا جائے تو انسان گناہ سے بچ جاتا ہے بصورت دیگر گناہ میں ملوث ہو جانے کے امکانات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں، قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شیطان بھی سب سے پہلے خیالات پر ہی حملہ آور ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص ایسے شیطانی حملے کے وقت اللہ کو یاد کر لے تو شیطان کے حملے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ زندہ دل شخص وہی ہے جس کو نیکی اچھی لگے اور برائی سے نفرت ہو، نیز دنیاوی فراوانی کو اپنے لیے تکریم نہیں سمجھنا چاہیے؛ کیونکہ فراوانی اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش بھی ہو سکتی ہے، اسی لیے انسان کو دن رات، ہفتہ وار، اور سالانہ بنیادوں پر اپنا احتساب جاری رکھنا چاہیے، جبکہ مومن کا دل ہمیشہ زندہ رہتا ہے کیونکہ اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، گناہ ہو جائے تو توبہ کر لیتا ہے، اور اگر کوئی مصیبت آن پڑے تو صبر سے کام لیتا ہے اور یہی زندہ دلی کی علامت ہے، پھر آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔

منتخب اقتباس:

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے، اور گناہوں کو مٹاتا ہے، اسکی رحمت و علم ہر چیز پر حاوی ہے، اپنے فضل سے نیکیاں زیادہ اور نیک لوگوں کے درجات بلند فرماتا ہے، اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، آسمان و زمین میں کوئی بھی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی نے ذاتی مدد اور معجزات کے ذریعے انکی تائید فرمائی، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، انکی اولاد اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

اللہ کے بندو!

ذہن نشین کر لو! انسان کی فلاح و بہبود اپنے نفس کو قابو رکھنے میں ہے، چنانچہ محاسبہ نفس، اور کسی بھی قول و فعل پر مشتمل چھوٹے بڑے کام میں اس کی مکمل نگرانی ضروری ہے، لہذا جس شخص نے محاسبہ نفس، اور اپنے قول و فعل پر رضائے الہی کے مطابق مکمل قابو رکھا ، تو وہ بڑی کامیابی پا گیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى[40] فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى} 
اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اور نفس کو خواہشات سے روکا [40] تو بیشک جنت ہی اسکا ٹھکانہ ہوگی[النازعات : 40-41]

اسی طرح فرمایا: 
{وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ} 
اور اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرنے والے کے لیے دو جنتیں ہیں۔[الرحمن : 46]

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ}
 اور میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی [القيامہ : 2]
 مفسرین کا کہنا ہے کہ : اللہ تعالی نے ایسے نفس کی قسم اٹھائی ہے جو واجبات میں کمی اور بعض حرام کاموں کے ارتکاب پر بھی اپنے آپ کو اتنا ملامت کرتا ہے کہ نفس سیدھا ہو جائے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص اللہ تعالی اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، یا پھر خاموش رہے) بخاری و مسلم، یہ چیز محاسبہ نفس کے بغیر نہیں ہو سکتی۔

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "احتساب شروع ہونے سے پہلے اپنا محاسبہ کر لو، اپنا وزن کر لو اس سے پہلے کہ تمہارا وزن کیا جائے، اور بڑی پیشی کے لیے تیاری کرو"

میمون بن مہران رحمہ اللہ کہتے ہیں: " متقی افراد اپنے نفس کا احتساب کنجوس شراکت دار سے بھی زیادہ سخت احتساب کرتے ہیں"

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "مومن اپنے گناہوں کو پہاڑ کی چوٹی پر سمجھتا ہے، اور اندیشہ رکھتا ہے کہ وہ اس پر آ گریں گے، جبکہ فاجر اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح سمجھتا ہے، جو اس کی ناک پر بیٹھے تو ایسے اڑا دے، یعنی: ہاتھ کے اشارے سے اڑا دیتا ہے" بخاری

مومن شخص خود احتسابی اور نگرانی جاری رکھتے ہوئے اچھی حالت پر نفس کو قائم رکھتا ہے، وہ اپنے افعال کا محاسبہ کرتے ہوئے عبادات اور اطاعت گزاری کامل ترین شکل میں بجا لاتا ہے، جو اخلاص سے بھر پور، بدعات، ریاکاری ، خود پسندی سے پاک ہوتی ہیں، اپنے نیک اعمال کے ذریعے رضائے الہی اور اخروی زندگی کی تلاش میں رہتا ہے۔

 اللہ تعالی نے فرمایا: 
{وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ} 
اور جو شخص کوشش کرتا ہے بیشک وہ اپنے لئے ہی کوشش کرتا ہے، بیشک اللہ تعالی تمام جہانوں سے غنی ہے۔ [العنكبوت : 6]

فضل بن زیاد کہتے ہیں: "میں نے عمل میں نیت کے بارے میں امام احمد سے پوچھا: "نیت کیسے ہوتی ہے؟" تو انہوں نے کہا: "عمل کرتے ہوئے اپنے نفس کا خیال کرو کہ عمل سے لوگوں کی خوشنودی مراد نہ ہو"

شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے ریاکاری کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے ریاکاری کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا، جس نے ریا کاری کے لیے صدقہ کیا اس نے شرک کیا) احمد، حاکم، اور طبرانی نے معجم الکبیر میں اسے روایت کیا ہے۔

مومن اپنی بول چال کا بھی احتساب کرتا ہے، چنانچہ اپنی زبان کو غلط اور حرام گفتگو کیلیے بے لگام نہیں کرتا، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ دو فرشتے اس کی ایک ایک بات کو لکھ رہے ہیں، لہذا اس کے کیے ہوئے ہر عمل پر اسے بدلہ دیا جائے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ (10) كِرَامًا كَاتِبِينَ (11) يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ } 
اور بیشک تم پر محافظ مقرر ہیں [10]وہ معزز لکھنے والے ہیں[11] اور جو بھی تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں [الانفطار : 10 - 12]

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بےشک آدمی رضائے الہی پر مشتمل ایک کلمہ بولتا ہے، اور اس کی پرواہ نہیں کرتا، اللہ تعالی اس کلمے کے بدلے میں اس کے درجات بلند فرما دیتا ہے، اور بے شک آدمی غضبِ الہی پر مشتمل ایک کلمہ بولتا ہے، اور اس کی پرواہ نہیں کرتا، اللہ تعالی اس کلمے کے بدلے میں اسے جہنم میں ڈال دیتا ہے) بخاری

اسی طرح مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ اپنے خیالات کا محاسبہ کرے، اور دل میں آنے والے شکوک و شبہات کا مقابلہ کرے؛ اس لئے کہ خیر ہو یا شر ان کی ابتدا دل میں آنے والے خیالات سے ہوتی ہے، چنانچہ اگر مسلمان دل میں آنے والے برے خیالات پر قابو پا لے، اور اچھے خیالات پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے عملی جامہ پہنائے تو وہ فوز و فلاح پاتا ہے، اور اگر شیطانی وسوسوں اور خیالات کو مسترد کرتے ہوئے شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ چاہے تو گناہوں سے سلامت رہ کر نجات پاتا ہے۔

اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (شیطان اپنی لگام کو ابن آدم کے دل پر رکھے ہوئے ہے، اگر وہ اللہ کو یاد کر لے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے، اور اگر اللہ کو بھول جائے تو اس کے دل کو لگام ڈال دیتا ہے، یہی مطلب ہے "وسواس الخناس" کا) مسند ابو یعلی موصلی

اور جس شخص نے خواہش نفس کی پیروی کی ، قرآن سے روگرداں رہا، اور دل نے جو چاہا گناہ کیا، شہوت پرستی میں ڈوبا رہا، اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا، شیطان کو اپنی قیادت سونپی ، تو شیطان اسے ہر بڑے گناہ میں ملوث کر دے گا، اور پھر وہ شیطان کیساتھ درد ناک عذاب میں مبتلا رہے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا}
 جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اس کے پیچھے مت چلو ، اور وہ خواہش پرست بن چکا ہے، اور اسکا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے[الكهف : 28]

اللہ کے بندو!

زندہ دل وہی ہے جسے نیکی اچھی اور گناہ برا لگے، جبکہ وہ دل مردہ ہے جو گناہ پر بالکل درد محسوس نہ کرے، اور کسی نیکی و اطاعت پر خوشی بھی نہ ہو، اسی طرح گناہوں پر ملنے والی سزاؤں کا احساس تک نہ ہو، چنانچہ ایسے دل کو صحت اور دنیاوی ریل پیل دھوکے میں ڈال دیتی ہے، بلکہ کبھی یہ بھی سمجھ بیٹھتا ہے کہ اسے دنیاوی نعمتیں بطور تکریم نوازی گئی ہیں، انہی کے بارے میں فرمایا: 
{أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ [55] نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ}
 کیا وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم ان کو مال، نرینہ اولاد دے کر انکی بھلائی کا سامان جلدی سے اکٹھا کر رہے ہیں! بلکہ حقیقت کا انہیں شعور ہی نہیں ہے۔[المومنون : 56]

اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: (دلوں کو فتنے ایسے مسلسل در پے ہوتے ہیں کہ جیسے چٹائی کے تنکے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے ہیں، چنانچہ جو دل ان فتنوں کو مسترد کر دے تو اس کے دل میں ایک سفید نکتہ لگا دیا جاتا ہے، اور جو دل فتنوں کو اپنے اندر جگہ دے دے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے، حتی کہ دلوں کی دو قسمیں بن جاتی ہیں، ایک بالکل صاف ستھرا دل جیسے سخت چٹان ہو، اسے زمین و آسمان کے قائم رہنے تک کوئی فتنہ نقصان نہیں دیتا، اور دوسرا دل سیاہ خاکی مائل الٹے مشکیزے کی طرح ہوتا ہے، جو نیکی کو نیکی اور برائی کو برائی نہیں سمجھتا، اسے من لگی بات ہی سمجھ میں آتی ہے)

احتیاط اور فائدے کا یہ پہلو ہے کہ انسان دن، رات، ہفتہ وار، ماہانہ، اور سالانہ محاسبہ کرے، تا کہ اسے نقصان دہ راستوں کا علم ہو، اور توبہ کر لے، اسی طرح کمی کوتاہی کو پورا کر لے، عین ممکن ہے کہ اس کی یہ کاوش اللہ کے ہاں قابل ستائش ٹھہرے، اور حسن خاتمہ کا موقع مل جائے۔

مومن ہمیشہ زندہ دل، صاحب بصیرت ہوتا ہے، اگر اسے کچھ مل جائے تو شکر، گناہ کرے تو استغفار، مصیبت آن پڑے تو صبر کرتا ہے۔

مومن کے دل میں ضمیر غفلت سے بیدار ، اور تباہی کی جگہوں سے چوکنا رکھنے کیلیے ہمہ وقت تیار ہوتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط مستقیم کھینچا، اور اس کی دونوں جانب خطوط کھینچے، خط کے سرے پر ایک پکارنے والا ہے، اور اس سے اوپر ہے واعظ ہے، "خط مستقیم" سے مراد اللہ کا راستہ ہے، اس کے سرے پر "پکارنے والے" سے مراد : کتاب اللہ ہے، اور اس سے اوپر نصیحت کرنے والا واعظ ، ہر مومن کے دل میں موجود نصیحت کرنے والا ضمیر ہے، جبکہ دائیں بائیں خطوط گمراہی ، اور حرام کاموں کے راستے ہیں)

یا اللہ! یا ذالجلال والا کرام! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہمارے تمام گناہ معاف فرما دے، یا اللہ! ہمارے اگلے پچھلے، خفیہ اعلانیہ، اور جنہیں تو ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے تمام گناہ معاف فرما، تو ہی تہہ و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔

یا اللہ! ہمارے سب معاملات کے نتائج بہتر فرما، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمارے دلوں کو نفاق سے پاک فرما، ہمارے اعمال کو ریاکاری سے محفوظ فرما، ہماری زبانوں کو جھوٹ سے تحفظ عطا فرما اور ہماری آنکھوں کو خیانت سے بچا، یا رب العالمین!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں